آپ ابھی بھی میرے ساتھ رہنا قبول کریں گے وجاہت؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں تین سال تک سکھوں کے ساتھ رہی ہوں اور... اور.... میری زبان لڑکھڑانے لگی.. میں اب آپ کے لائق نہیں رہی وجاہت! میرا سارا وجود ناپاک ہو گیا ہے۔ گزرے وقت نے میرے سینے میں وہ زخم چھوڑے ہیں کہ اب انھیں کوئی مندمل نہیں کر سکتا۔ مجھے ان رِستے زخموں کے ساتھ اکیلے ہی جینا ہے۔ میں اب آپ کے لائق نہیں..... آپ میرا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے

ام محمد سلمان


سکھ بلوائیوں نے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہمارے قافلے کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ میرے بابا جان، میرے بھائی، میری ماں... سب میری آنکھوں کے سامنے مار دیے گئے۔ اور پتا ہے میرے ساتھ کیا ہوا؟ جانتے ہیں آپ میرے ساتھ کیا ہوا؟

مجھے سکھ بھیڑیے اٹھا کر لے گئے. میں تین سال تک ان کی قید میں رہی ہوں.. اس بد بخت جگجیت سنگھ نے مجھ سے زبردستی شادی رچائی۔ میں پل پل مرتی رہی۔ کہاں تھے آپ اس وقت؟

آپ نے مجھے کیوں نہیں ڈھونڈا، کیوں نہیں تلاش کیا؟ کیا میں آپ کی ذمے داری نہیں تھی؟ آپ تو چھوٹے بچوں کے لیے پانی لینے گئے تھے، پھر کہاں رہ گئے تھے؟" انھوں نے نرمی سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے بیٹھ جاؤ نور میں تمہیں سب بتاتا ہوں۔ ٭٭٭

"ہم لوگ کافی دیر پانی کی تلاش میں بھٹکتے رہے اور جب پانی لے کر واپس لوٹے تو قافلے کے اجڑے نشان باقی تھے بس۔ میرے بابا جان، والدہ اور بڑے بھائی... سب کی لاشیں ہی ملیں مجھے! انہی لاشوں میں ایک طرف کسی کے کراہنے کی آواز آئی، قریب جا کے دیکھا تو ہمارے پڑوسی کرمو چاچا تھے۔ ہم نے ساتھ لایا ہوا پانی ان کے حلق میں ٹپکایا. ٹوٹی پھوٹی سانسوں کے درمیان انھوں نے ہمیں بتایا کہ قافلے کی جوان لڑکیوں کو بلوائی اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ اور پھر کلمہ پڑھتے ہوئے جان دے دی۔

ہم چاروں نوجوان دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگے مگر ہمیں ان دشمنوں کی گرد بھی نہ ملی۔ آخر کار تھک ہار کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ اشرف اپنی اکلوتی جوان بہن کی موت کی دعائیں کرتا رہا.. کاش وہ کسی بے حرمتی کا شکار ہونے سے پہلے ہی مر جائے۔ اور سچ کہوں نور تو اندر ہی اندر میں بھی یہی چاہ رہا تھا کہ اللہ کرے میری پاکیزہ نور کسی کے ہاتھ لگنے سے پہلے ہی مر جائے۔ صبح کے قریب وہاں سے ایک چھوٹا قافلہ گزرا اور ہم اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اور راستے میں کئی مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے آخر کار پاکستان پہنچے۔

یہاں امدادی کیمپوں کی حالت بہت بری تھی اس وقت۔ زخمیوں کی بھرمار تھی، بستر، دواؤں اور کھانے پینے کے سامان کی قلت تھی۔ میں انہی رضا کاروں میں شامل ہو گیا، جو دن رات خدمت خلق میں مصروف تھے۔ مگر تمہاری تلاش سے غافل نہیں ہوا تھا۔ انڈیا سے آنے والی ہر ریل گاڑی، ہر قافلے میں جا کر تمہیں ڈھونڈتا، تمہارا پتا پوچھتا تھا۔ میں نے تمہیں بہت تلاش کیا نور! بہت مارا مارا پھرا... بہت دعائیں مانگیں رب سے.. دیکھو جبھی تو آج تم مجھے مل گئی ہو! آؤ ہم اپنے گھر چلتے ہیں۔ ہم اپنی نئی دنیا بسائیں گے۔ آج سے سارے دکھ ہماری زندگی سے ختم ہو جائیں گے۔ " وجاہت نے بڑی محبت سے کہا۔ ٭٭٭

"آپ ابھی بھی میرے ساتھ رہنا قبول کریں گے وجاہت؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں تین سال تک سکھوں کے ساتھ رہی ہوں اور... اور.... میری زبان لڑکھڑانے لگی.. میں اب آپ کے لائق نہیں رہی وجاہت! میرا سارا وجود ناپاک ہو گیا ہے۔ گزرے وقت نے میرے سینے میں وہ زخم چھوڑے ہیں کہ اب انھیں کوئی مندمل نہیں کر سکتا۔ مجھے ان رِستے زخموں کے ساتھ اکیلے ہی جینا ہے۔ میں اب آپ کے لائق نہیں.. میں اب آپ کے لائق نہیں... آپ میرا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے اور کوئی اچھی لڑکی دیکھ کر دوسری شادی کر لیجیے۔"

"یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے نور! کیسی باتیں کررہی ہو! تم میری نظروں میں بہت عظیم ہو نور، بہت اونچی ہو، بہت اعلیٰ مقام پر ہو۔

دیکھا جائے تو میں ہی تمہارے لائق نہیں۔ تمہاری قربانیوں کے سامنے میری کاوشیں تو عشر عشیر بھی نہیں۔ میں اس ملک کا ہی نہیں تمہارا بھی قرض دار ہوں نور!! میں دل سے تمہاری قدر کرتا ہوں۔ تمہاری پاکیزگی آج بھی پہلے دن کی طرح قائم و دائم ہے، میری نظروں میں!! میں ساری زندگی تمہیں سر آنکھوں پہ بٹھا کے رکھوں گا نور! اللہ کے لیے مجھے اپنے ساتھ سے محروم مت کرو... ایک تمہارے ملنے کی آس پر تو میں زندہ ہوں کب سے...! کتنے دکھ اٹھائے ہیں تم نے، کتنے عذاب جھیلے ہیں۔ میں تمہارے ایک ایک دکھ ایک ایک زخم کا مداوا کروں گا ان شاء اللہ! میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا بس تم میرے ساتھ چلو۔"

اور میں انھیں بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔ جانتی تو تھی کہ وجاہت مجھے بہت چاہتے ہیں مگر یہ آج ہی جانا تھا کہ وہ اپنی چاہت میں کتنے سچے اور کھرے ہیں۔

"لیکن وجاہت! کیمپ میں جو لوگ ان خواتین کو لینے آ رہے ہیں، ان میں سب اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے ان بے چاریوں کو..." میں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو وجاہت کہنے لگے:

"وہ گھٹیا سوچ کے مالک نیچ لوگ ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔ امت کی یہ بیٹیاں اسلام کی سر بلندی کے لیے عظیم قربانیاں دے کر آئی ہیں۔ یہ ہمارے پیار محبت اور عزت کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب ان کی قربانیوں کے مقروض ہیں۔"

ان کی یہ باتیں سن کر میرے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔ پھر میں وجاہت کے ساتھ کراچی آ گئی۔ انھوں نے جو کہا تھا وہ کر کے دکھایا۔ مجھے کبھی میرے ماضی کا احساس نہیں دلایا... بلکہ مجھے منع کر دیا کہ میں کبھی بھی کسی کے بھی سامنے اس راز سے پردہ نہیں اٹھاؤں گی۔ یہاں تک کہ میں خود بھی بھولنے لگی کہ میں ایک ایسا تاریک دور بھی گزار چکی ہوں۔

اُس وقت پاکستان بہت نازک حالات سے گزر رہا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور انھیں روزگار مہیا کرنے کا تھا۔ وجاہت کئی رفاہی اداروں سے وابستہ تھے جو خدمت خلق کا کام کرتے۔ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔ ہم نے کئی ایسی بے گھر لٹی پٹی خواتین کو ان کے خاندانوں سے ملایا۔ وجاہت کی محبت اور عزت نے میری شخصیت کا اعتماد لوٹا دیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ہمارے گھر میں بھی ننھی کل کاریاں گونجنے لگیں. اللہ تعالیٰ نے مجھے دو جڑواں بیٹوں سے نوازا مگر وہ دو سال ہی زندہ رہے اور پھر یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہم ایک بار پھر صبر شکر کر کے رہ گئے۔ اس غم میں اپنے رات دن برباد نہیں کیے کہ ہمارے دونوں بچے ایک ساتھ چلے گئے بلکہ ہم پھر سے انہی رفاہی کاموں میں مشغول ہو گئے۔ کسی کا گھر جوڑ کے، کسی کا دل جوڑ کے، کبھی کسی غریب کو ٹھکانا اور کسی کو روزگار مہیا کر کے، بچوں کو تعلیم اور صحت مہیا کر کے ہم بہت خوش ہوتے تھے. زندگی ایک مقصد کے گرد گھوم رہی تھی۔ شام کے اوقات میں محلے کے بچوں کو قرآن پڑھاتی اور دینی تعلیم دیتی۔ اس سے مجھے روحانی سکون ملتا۔" یہاں تک کہہ کر نانی ماں خاموش ہو گئیں۔ اب باقی باتیں کل سہی فردوس بیٹی! اب میں بہت تھک گئی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آرام کرنے لیٹ گئیں۔ فردوس اور عائشہ کمرے سے باہر آ گئیں۔

اگلے دن گھر کے کام نمٹاتے ہی عائشہ پھر انھیں گھیر کر بیٹھ گئی۔ "اب بتائیے نانی اماں! پھر کیا ہوا تھا؟" "بس پھر کیا ہونا تھا بیٹی... میں بتا رہی تھی کہ میں نے محلے کے بچوں کو دینی تعلیم دینا شروع کر دی تھی۔ ارے یہ فردوس کہاں ہے؟" وہ بات کرتے کرتے اچانک فردوس کا پوچھنے لگیں۔ "میں یہ رہی اماں جان! ذرا مرچوں کو دھوپ میں سکھانے گئی تھی تاکہ اچھی طرح خشک ہو جائیں تو پیسنے میں آسانی رہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ بھی برابر میں آ کر بیٹھ گئیں۔

"فردوس! یہ رقیہ اور کلثوم (عائشہ کی بڑی شادی شدہ بہنیں) بہت دن سے نہیں آئیں... کہاں مصروف رہتی ہیں آج کل؟" "بس اماں جی! ان کے بچوں کے امتحانات چل رہے ہیں اسی لیے کافی دن سے چکر نہیں لگایا۔ کل میں نے فون کیا تھا دونوں کو، اگلے اتوار آنے کا کہہ رہی تھیں ان شاء اللہ۔"

"اچھا اچھا... چلو ٹھیک ہے۔ کافی دن سے ملاقات نہیں ہوئی تو یاد آرہی تھی دونوں کی۔" "نانی ماں آگے بتائیں نا پھر کیا ہوا؟" عائشہ کو بہت جلدی تھی سب کچھ جان لینے کی۔ ارے بتا رہی ہوں نا بیٹی!
اور انھوں نے بات شروع کی ۔
"جانتی ہو فردوس! لدھیانہ میں جب میری تعلیم مکمل ہوئی تو بابا جان نے میرے اعزاز میں تمام رشتے داروں کو بلا کر ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اور مجھے ایک نصیحت کی... کہنے لگے: "نور الاسلام! اس انتظار میں مت رہنا کہ تم بہت عالم فاضل ہو گئی ہو اور اب لوگ تمہیں خود مدارس اور تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی دعوت دیں گے بلکہ تم ایسی بن کر رہنا کہ جہاں تم ہو وہیں مدرسہ قائم ہو جائے۔ ہر جگہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ بنائے رکھنا۔ میری بیٹی! علم کی اس روشنی کو صرف خود تک محدود نہ رکھنا بلکہ اس عالم کے چپے چپے میں پھیلا دینا۔"

اور میں نے ہمیشہ ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جگجیت سنگھ کی حویلی میں بھی جو میری زندگی کے سیاہ ترین سال تھے اس وقت بھی میں نے بابا کی نصیحت کو یاد رکھا۔ اور کوئی تو تھا نہیں بس میں ریشمی کو ہی دینی تعلیم دیتی رہی۔ اور اللہ تعالیٰ نے میری اس محنت کی کیسی قدر دانی کی کہ ریشمی، سمیہ بن کر شہادت کے اعلیٰ درجات کو پا گئی... میری ہمدم میری غم گسار...!

ریشمی کو یاد کر کے نور الاسلام کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
پھر جب پاکستان آئی تو بچوں کے ساتھ ساتھ آس پاس کی خواتین کو بھی پڑھانے لگی اور ہفتے میں ایک بار قرآن و حدیث کے درس کا بھی اہتمام کرنے لگی۔ زندگی بڑی پر رونق اور با مقصد ہو گئی تھی۔ یوں ہی کئی سال گزر گئے۔ میں اور وجاہت اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن تھے کہ ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت مجھ پر مہربان ہوئی اور پاکستان بننے کے اٹھارہ سال بعد تم اس دنیا میں آئیں! نانی ما‌ں نے بہت چاہت سے فردوس کی طرف دیکھا... اتنی لمبی مدت کے بعد اولاد کا تحفہ پا کے ہم دونوں بہت خوش تھے۔ تمہارے بابا وجاہت علی کی تو جان تھی تم میں! گھر آتے ہی تمہیں گود میں لے کر بیٹھ جاتے۔ تمہارے مستقبل کے سنہرے سپنے بنتے اور انہی شفقتوں کی چھاؤں میں تم بڑی ہوتی گئیں۔ کہا کرتے تھے میں اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کروں گا کہ وہ دنیا و آخرت میں ہمارے لیے فخر کا سبب بنے۔ اور پھر انھوں نے تمہاری دینی و دنیاوی تعلیم میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ تمہاری شادی کرتے ہی چند سال بعد وہ بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ بلاشبہ وہ ایک بہترین شوہر اور انتہائی شفیق باپ تھے۔

انھیں کلیم میں کچھ زمین ملی تھی جس پر رہائشی عمارت تعمیر کروا کے کرائے پر دے دی تھی۔ وہی ہمارے گزر بسر کا ذریعہ تھی۔ ان کے جانے کے بعد ان کے جگری دوست نسیم احمد نے ہمارا بہت خیال رکھا اور جائیداد کی حفاظت بھی کرتے رہے.. یہاں تک کہ پھر تمہاری شادی کے بعد افسر بیٹے نے سب کچھ سنبھال لیا۔ افسر علی نے سگے بیٹے کی طرح اس گھر کی ذمے داریاں اٹھا لیں۔ بلا شبہ افسر علی تمہارے والد کا بہترین انتخاب تھے۔"

عائشہ نانی اماں کے قریب آئی اور بولی.. "نانی ماں! جب نانا جان اس دنیا سے چلے گئے تو بہت دکھ ہوا ہوگا نا آپ کو! مجھے تو آپ کے درد کا احساس کر کے ہی اتنا رونا آرہا ہے۔"