آج مہینے کی پندرہ تاریخ تھی۔ اس دن وہ ڈونیشنز کیا کرتی تھی۔ مختلف اداروں میں سامان تقسیم کرتی اور ان لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرواتی۔ پھر وہی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتیں اور ڈھیروں لائکس سمیٹتی تھیں۔ وہ ان لمحات کا بےصبری سے انتظار کرتی تھی۔اس کی پوری زندگی ہی ان لمحات کے گرد طواف کرتی تھی۔ آج بھی حسبِ معمول صبح سویرے اس کی ٹیم کاموں میں جتی ہوئی تھی۔
حمنہ کامران، اسلام آباد
"میرے بیڈروم سے بھی سامان اٹھا لینا اور کاشف سے کہنا ویڈیوز صحیح بنائے۔ سامان بھی اور لوگ بھی واضح نظر آئیں۔ اینگلز بھی دیکھ لینا۔"
وہ کھڑکی کے سامنے رکھے صوفے پر براجمان تھی۔ دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑا بفر بڑی مہارت سے بائیں ہاتھ کے ناخن تراش رہا تھا۔ وہ اس وقت ڈھیلی سی شرٹ اور ٹراوزرز میں ملبوس تھی۔ شانوں تک کٹے ڈائی شدہ بال کیچر میں مقید تھے۔ رفعت بی بی کپڑوں اور جوتوں سے بھرے تھیلے اس کے سامنے لا کے رکھ رہی تھیں۔ فاریہ صفحوں پر کچھ حساب کتاب لکھنے میں مصروف تھی۔ وہ ان دونوں پر نگاہ دوڑا لیتی اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتی۔ آج مہینے کی پندرہ تاریخ تھی۔ اس دن وہ ڈونیشنز کیا کرتی تھی۔ مختلف اداروں میں سامان تقسیم کرتی اور ان لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرواتی۔ پھر وہی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتیں اور ڈھیروں لائکس سمیٹتی تھیں۔ وہ ان لمحات کا بےصبری سے انتظار کرتی تھی۔اس کی پوری زندگی ہی ان لمحات کے گرد طواف کرتی تھی۔ آج بھی حسبِ معمول صبح سویرے اس کی ٹیم کاموں میں جتی ہوئی تھی۔ کوئی اسے اینگلز کے بارے میں گائیڈ کر رہا تھا تو کوئی اسے پچھلی کاروائی کے بارے میں آگاہی پہنچا رہا تھا۔ آج رات پھر سے وہ پورے سوشل میڈیا پر چھانے والی تھی۔ ہر زبان رانیہ شیرازی کا نام دہرائے گی۔ اس کی رحم دلی کے قصے ہر گھر میں سنائے جائیں گے۔ ایک جاندار مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنے ناخنوں پر آخری نگاہ ڈالی اور صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے تیاری کرنی تھی۔ کیمرے کے سامنے آنے کے لیے۔ ****
وہ قد آور آئینے کے سامنے کھڑی میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھی۔ سفید ٹراوزر پر ہم رنگ کُرتی زیب تن کر رکھی تھی۔ گلے میں ست رنگی دوپٹا نفاست سے اوڑھ رکھا تھا، جس کا ایک پلو سامنے اور دوسرا پلو بائیں کندھے سے نیچے لٹکا ہوا تھا۔ بالوں کی اونچی سے پونی بنا رکھی تھی۔ چند آوارہ لٹوں کو آزاد چھوڑا تھا جو گالوں تک آتی تھیں۔ ڈریسنگ پر ہر موجودہ برینڈ کی لپ اسٹک موجود تھی۔ لپ اسٹک شیڈ کا انتخاب اس کے لیے کٹھن مرحلہ ہوتا تھا۔ آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد اس نے نیوڈ شیڈ منتخب کیا جو سفید سوٹ کے ساتھ خوب جچا تھا۔ آئینے میں اس کا عکس دھندلا تھا۔ رفعت بی بی نے آج ڈسٹنگ صحیح نہیں کی تھی۔ ان کو وہ واپس آکے دیکھ لے گی۔ خود کو دیکھ کر وہ مطمئن تھی۔ اس کا رخ اب لاوئنج کی جانب تھا۔ لاوئنج سے مختلف آوازیں کانوں میں پڑتی تھیں۔ کچھ اس کے حق میں گواہ تھیں اور کچھ مخالف۔ وہ مخالفت کی عادی تھی۔ اختلاف سننا اسے خوب آتا تھا۔
"رانیہ بی بی نے اپنے نام کو اونچا رکھنے کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ تجھے کیا لگتا ہے یہ سب دوسروں کے بھلے کے لیے دیتی ہیں وہ۔ سستے سے سستا کپڑا منگواتی ہیں خیرات کرنے کے لیے۔ کچھ تو پہننے کے لائق نہیں ہوتے۔ بس ایسے پیک کرواتی ہیں کہ اگلے کو نقص نظر نہ آئے۔ یہ امیر لوگ سب کچھ اپنے نام کے لیے کرتے ہیں۔" وہ بالوں میں شیڈز اٹکائے، ایک ہاتھ میں قیمتی ہینڈ بیگ پکڑے فون پر کچھ ٹائپ کرتی اپنی دھن میں چلتی جا رہی تھی جب اس آواز نے اس کے قدم روک لیے۔ موضوع اس کی ذات تھی۔ غصے کی شدید لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔ اس کے ملازم اب اس کی ذات ڈسکس کرنے لگے تھے جو اسے گوارا نہ تھا۔ وہ تیزی سے لاوئنج کی جانب مڑ گئی۔ دروازے کے ساتھ رکھے صوفے پر اس کی نظر پڑی جہاں برانڈڈ کپڑوں کا ڈھیر رکھا تھا جو اس نے پچھلے ہفتے ہی آن لائن منگوائے تھے۔ اسے سمیٹنے کا وقت نہیں ملا تھا۔ وہ بے اختیار صوفے تک گئی اور ایک جوڑا اٹھا لیا۔ فرنٹ پر نفیس کڑھائی تھی۔ وہاں موجود ایک ایک سوٹ کی قیمت تیس ہزار سے اوپر تھی۔ اور جو اس نے پیک کروائے تھے وہ سب بہت سستے تھے۔ وہ اپنے لیے مہنگے سے مہنگا برینڈ منتخب کرتی تھی۔ اس نے سر جھٹکا۔ وقت کم تھا۔
"یہ بھی پیک کر دیں۔" اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہ بچپن سے سنتی آئی تھی کہ قربانی اپنی پسندیدہ شے کی دینی پڑتی ہے۔ تب جا کے وہ قبولیت کے مقام تک پہنچتی ہے۔ وہ آج یہ کرنے جا رہی تھی۔ اسے انوکھا جذبہ محسوس کرنا تھا۔ فون کی رنگ ٹون اسے سوچوں سے نکال لائی۔ وہ فون کان سے لگائے وہاں بیٹھے ملازموں کو ہدایات دیتے باہر کی جانب چل دی۔ کیمرہ مین ٹھک ٹھک تصویریں اتارتے رہے۔ اسے فلیش سے چڑ ہونے لگی۔ پورے راستے وہ گاڑی کی بیک سیٹ پر آنکھیں موندے بیٹھی رہی۔ اگر شیڈز نہ لگے ہوتے تو کوئی بھی آنکھوں کو دیکھ کے اس کے دل کا حال بوجھ لیتا۔ وہ ہر دفعہ نروس ہوتی تھی لیکن آج وہ نروس نہیں تھی۔ یہ کیفیت مختلف تھی۔ جس سے وہ آج متعارف ہوئی تھی۔ اضطراب۔ بے چینی۔ بےیقینی۔ کچھ ملتا جلتا تھا۔ پیسنجر سیٹ پر کیمرہ درج تھا جو اس کی ویڈیو بناتا رہا۔ اس نے ڈرائیور سے اسے بند کرنے کو کہا۔ وہ واقعی ٹھیک نہیں تھی۔ شک یقین میں بدل گیا۔ وہ ایک دن بغیر سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کیے لوگوں کی امداد کرے گی۔ وہ لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرتی تھی۔ پھر اب کیا ہوا۔ لیکن اس نے سوچ لیا تھا۔ وہ رانیہ شیرازی تھی۔ اپنا فیصلہ نہیں بدلا کرتی تھی۔
مختلف اداروں میں وہ سامان تقسیم کرتی رہی۔ جوش ہمیشہ کی طرح تازہ تھا لیکن فرق یہ تھا آج وہ تصاویر بنانے سے منع کرتی رہی۔ اس کی ٹیم میں موجود لوگ حیران تھے۔ کیا وہ وہی رانیہ تھی جو اپنی زندگی کا ہر گزرا ہوا پل پبلک کرنے کی عادی تھی۔ وہ دعائیں سمیٹتی رہی۔ مغرب کے وقت وہ واپسی کے لیے گاڑی میں بیٹھی۔ دل عجیب سے انداز میں دھڑک رہا تھا۔ وہ کچھ محسوس کر رہی تھی۔ کیا؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس کا وجود سکون میں تھا۔ اس کی کوئی پوسٹ وائرل نہیں ہوگی۔ وہ صبح اٹھے گی اور کچھ بدلا ہوا نہیں ہوگا۔ اس کا گھر پھولوں کے گلدستوں سے مہک نہیں رہا ہوگا۔ وہ جانتی تھی لیکن پھر بھی پرسکون رہی۔ اسے داد نہیں ملنے والی تھی۔ وہ کیسے آرام سے بیٹھی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ رکی نہیں اور تیزی سے اپنے کمرے کی جانب چل دی۔ اس کی ٹیم کی سرگوشیاں بلند ہو رہی تھیں۔ اس نے پرس اور فون میز پر رکھا، بالوں کو آزاد کیا اور ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اپنے عکس پر نگاہ ڈالی تو وہ جم گئی۔ اب منظر صاف تھا۔ کوئی دھول وہاں نہیں تھی۔ وہ خود کو واضح دیکھ رہی تھی۔ رفعت بی بی نے اس کی غیر موجودگی میں صفائی کر دی تھی۔ ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا۔ میز پر رکھا فون مسلسل تھرتھراتا رہا جسے اس نے آف کر دیا۔ کمرے کی تمام لائٹس آف کرتی وہ بیڈ پر ڈھے گئی۔ چند لمحوں میں ہی نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ باہر آوازیں اب مدھم ہو چکی تھیں۔