سبین اپنے لیے سست، کاہل ،فضول خرچ، بے عقل، غیر ذمے دار، جذباتی، جیسے کئی القابات ایک ساتھ اپنی ذات کے لیے برداشت نہ کر سکی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد پھٹ پڑا اور دانش کے ساتھ جھگڑتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جب سے تمہاری ماں اس گھر میں آئی ہے، اس گھر کا سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ دانش اپنی ماں کے لیے سبین کی زبان سے ایسے الفاظ برداشت نہ کر سکا اور غصےمیں اٹھ کر دو تین تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیے

نبیلہ شہزاد


سبین لاہور شہر کے ایک مہنگے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھاتی ہے۔ اسکول کی ڈیمانڈ کے مطابق اسے اسکول کو بھرپور وقت دینا پڑتا ہے۔ اس کی شادی کو اڑھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ اس اسکول میں اپنی شادی سے پہلے بھی پڑھاتی تھی۔ اس کے شوہر دانش کی جاب بھی اسی شہر میں تھی، اس لیے اسے اسکول کو جاری رکھنا مشکل بھی نہ تھا۔ اور اچھی تنخواہ بھی مائل کرتی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر دانش کی طرف سے اجازت بھی تھی ۔ سسرال دوسرے شہر ملتان میں ہے، جہاں وہ شادی کے شروع کے صرف دو ماہ ہی رہی۔ بعد میں ان دونوں میاں بیوی کو اپنے اپنے روزگار کے سلسلے میں لاہور میں رہائش اختیار کرنی پڑی۔ لاہور سبین کا میکہ شہر بھی ہے ۔یہاں انہوں نے رہنے کے لیے پانچ مرلے گھر کا ایک پورشن کرایہ پر لے لیا۔ ماہ دو ماہ بعد ان دونوں میاں بیوی کا چکر ملتان بھی لگ جاتا۔ وہ دو دن وہاں ہنسی
خوشی چھٹی مناتے اور پھر تازہ دم ہو کر لاہور میں دوبارہ اپنی مصروفیت والی زندگی میں کھو جاتے۔ دو سال کے بعد اللہ تعالی نے انہیں پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ دانش نے سبین کو اور گھر سنبھالنے کے لیے نہ اپنے میکے سے کسی کو بلوایا اور نہ بیوی کے میکہ سے۔ البتہ سبین کے امی شروع کے دس دن سبین کے پاس رکیں۔ ڈلیوری نارمل تھی،اس لیے دس دن تک سبین اپنا گھر سنبھالنے کے قابل ہو چکی تھی۔ اسے بھی انتظام سنبھالنے کے لیے کسی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ دانش صرف محبت کرنے والا ہی نہیں بلکہ خیال رکھنے والا، احساس کرنے والا اور گھر کے کاموں میں مددگار شوہر تھا۔ شب و روز پرسکون گزر رہے تھے۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔

پھر اس چین کی وادی کا طلسم اس طرح ٹوٹا کہ دانش کی والدہ اور سبین کی ساس مریم اپنی پوتی کو دیکھنے کے لیے آئی اور دو ماہ کے لیے ادھر ہی رک گئی۔ وہ یہاں بیٹے کے گھر میں پہلی بار رہنے کے لیے رکی تھی۔ اب تک تو سبین کی بھی اکیلے رہنے کی عادت پختہ ہو چکی تھی۔ دوسرا مریم نے ان کے رہن سہن میں بلاوجہ کچھ ضرورت سے زیادہ دخل اندازی شروع کر دی۔ اسے سبین کے ہر کام، ہر عادت اور ہر بات میں اعتراض تھا۔ سبین کا سکھ دیکھ کر اسے اپنی بیٹیوں کے دکھ یاد آنے لگتے اور وہ دانش کے سامنے اس کا برملا اظہار بھی کرتی۔ "دیکھ! ہمارے گھر آنے والی کیا شاندار راج کر رہی ہے اور تمہاری بہنوں کو دکھوں کے علاوہ کبھی کچھ ملا ہی نہیں" مریم کی بار بار اس طرح کی باتوں نے دانش کے دماغ میں بٹھا ہی دیا کہ آنے والی کے ساتھ سخت رویہ رکھنا سسرال یا شوہر کا بنیادی حق ہے۔ دانش کو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا یا بچے کو پکڑے رکھنے سے منع کر دیا کہ یہ کام گھر کی عورتوں کے ہیں مردوں کو زیب نہیں دیتے۔ ایسا کرنے والے مرد بدھو اور زن مرید کہلاتے ہیں۔ گویا مریم نے اپنے جنم دیے گئے مرد کی جھوٹی مردانگی جگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سبین بھی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ شوہر کے بدلتے رویے کو محسوس بھی کر رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ ساس کا یہاں اس کے ہاں قیام عارضی ہے، اس لیے جیسے تیسے کر کے وقت گزار رہی تھی اور اس کی موجودگی برداشت کر رہی تھی لیکن چلتے پھرتے ساس کے جلد چلے جانے کی دعائیں اس کی زبان پر جاری رہتیں مگر کبھی کبھار ساس کی باتوں کے سخت جواب اس کی زبان سے بھی نکل جاتے جو مریم کچھ اپنے خیالات کے اضافے کے ساتھ پوری ذمے داری سے دانش کے کانوں میں پہنچاتی ۔

سبین اپنے لیے سست، کاہل ،فضول خرچ، بے عقل، غیر ذمے دار، جذباتی، جیسے کئی القابات ایک ساتھ اپنی ذات کے لیے برداشت نہ کر سکی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد پھٹ پڑا اور دانش کے ساتھ جھگڑتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جب سے تمہاری ماں اس گھر میں آئی ہے، اس گھر کا سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ دانش اپنی ماں کے لیے سبین کی زبان سے ایسے الفاظ برداشت نہ کر سکا اور غصےمیں اٹھ کر دو تین تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیے۔ سبین تو پہلے ہی اس جہنم کدے سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی۔ فوراً اپنی بیٹی اٹھائی اور والدین کے گھر کی طرف چل پڑی۔ اب مریم اپنے گھر واپس جا چکی ہے، سبین اپنے میکہ گھر میں اور دانش اکیلا اپنے گھر میں بے سکون زندگی گزار رہا ہے ۔یوں چند دنوں میں ایک ہنستا بستا گھر بکھر گیا۔ اب اگر اس کیس پر عمیق نگاہ ڈالی جائے تو تینوں ہی اس صورتحال کے کسی نہ کسی صورت میں ذمہ دار ہیں۔ بس کسی کی غلطی زیادہ اور کسی کی کم۔

سب سے پہلے تو ہم گھر کی بڑی کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں جسے بڑی بن کر اپنا بڑا پن دکھانا چاہیے تھا۔ ایسی ماؤں کے لیے تو میں بس ایک بات کہنا چاہوں گی کہ ایک ماں کی ذمے داری نبھاتے ہوئے جہاں آپ نے اپنے بیٹے کو جنم دینے سے لے کر اسے پروان چڑھانے تک ہر طرح کی تکلیف، بے آرامی ،برداشت، صبر و تحمل جیسی ہر طرح کی مشقت برداشت کی ہے۔ اپنی ذات کو پس پشت رکھ کر ہمیشہ اس کی بھلائی سوچی وہاں اب اس کا گھر بسانے اور اسے پرسکون رکھنے کے لیے اپنا دل بڑا کر کے قوت برداشت کا مظاہرہ کریں۔ بہو کی جو عادات تمہیں ناپسند ہوں یا اس کے کاموں میں کمی کوتاہیاں دیکھیں تو مکمل نظر انداز کریں۔ عمر بڑھنے اور وقت کے ساتھ وہ خود ہی سیکھ جائے گی۔ بہو کو اگر اللہ تعالی سکھ کی زندگی دے رہا ہے تو اس پر خوش ہوں کہ تمہارے گھر کو اللہ تعالی نے اس بچی کے لیے نعمت کدہ بنایا ہے اور تمہارا بیٹا اپنی ازواجی زندگی کے امتحان میں کامیاب جا رہا ہے نہ کہ اس کا موازنہ اپنے ماضی یا اپنی بیٹیوں کی تلخ زندگیوں سے کریں۔ ہر فرد کا اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے۔ اس طرح کر کے آپ اپنی بہو کے دل سے اپنی قدر ختم کر دیں گی اور بیٹے کے کان بہو کے خلاف بھر کر آہستہ آہستہ بیٹے کے دل سے بھی اپنی قدر گنوا دیں گی۔

یہاں دوسرے نمبر پر دانش کی غلطی نظر آتی ہے۔ اسے حالات کی حقیقت کو اپنی نظر سے دیکھنا چاہیے تھا، نہ کہ ماں کی عینک سے۔ اگر اس پر اس کی ماں کے حقوق تھے تو بیوی کے بھی کم حقوق نہیں تھے۔ اسے حکمت سے کام لے کر اپنے دونوں رشتوں کو نبھانا چاہیے تھا۔ ماں کی باتوں میں آ کر بیوی سے اکھڑ مزاجی اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ماں نے جب بیوی کے ساتھ گھر کا کام کرنے سے منع کیا تو اسے خود اپنے ماں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دے کر سمجھانا چاہیے تھا کیوں کہ سبین کا ابھی زچگی کا نازک دور ہی چل رہا تھا۔ جب سبین نے اس کے رویے سے تنگ آ کر اپنے گھر کی بے سکونی کی ذمے دار اس کی ماں کو ٹھہرایا تو اس نے حساسیت کو سمجھنے کی بجائے الٹا سبین کو تھپڑ مار کر مزید غلطی کر دی۔ اپنے گھر کا سکون خراب کر کے اس نے خود ہی سبین کو اپنی ماں کے برخلاف بھی کیا۔ س اب آتے ہیں سبین کی طرف۔ زندگی کے یہی اتار چڑھاؤ ہی تو زندگی کا امتحان ہوتے ہیں۔ تیز آندھی طوفان میں وہی درخت اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے جو ہوا کے رخ کے موافق جھک جاتا ہے۔ اکڑ کر کھڑا رہنے والا درخت جڑ سے ہی اکھڑ جاتا ہے۔ وہ ان دو مہینوں کو اپنی آزمائش سمجھ کر گزار لیتی۔ ساس سے خشک مزاجی اختیار کر کے اسے مزید شکایت کا موقع نہ دیتی۔کبھی اس کے سر میں تیل لگا کر، کبھی کچھ اضافی خدمت کر کے، اس کی باتوں سے درگزر کر کے، کبھی اس کے ساتھ محبت کے دو چار بول بول کر اپنا آپ بیٹی ہونے کی اس کے دل میں جوت ضرور لگاتی۔ محبت اور توجہ ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی اپنا بنا سکتی ہے۔ اسے دانش کے سامنے اس کی ماں کے خلاف ایسے سخت الفاظ نہیں بولنے چاہیے تھے۔ ماں چاہے جیسی بھی ہو بیٹے کے لیے سرعام اس کے خلاف سننا مشکل ہوتا ہے۔

یہ زندگی تو عارضی ہے ایک مسلمان کے لیے رشتے نبھانا ہی اس دنیا کا ایک بڑا امتحان ہے۔ اگر اس امتحان میں کامیاب ہو کر اللہ کے حضور سرخروئی اختیار کرنی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک کے مطابق چلتے ہوئے اللہ تعالی کی محبت میں سب رشتوں کو خلوص کے ساتھ نبھانا ہے ورنہ آخرت کے خسارے سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ ہی وہاں ہمارے حصے کی سزا کوئی اور بھگتے گا ۔