یا اللہ مدد! یا اللہ مدد!
میں نے آخری بار پکارا اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔ اسی بے ہوشی کے دوران مجھے سہاگ کا جوڑا پہنا کر بیل گاڑی میں ڈال کے گردوارے لے گئے اور جب واپس آئی تو جگجیت سنگھ کی ووہٹی "سُندر کور" بن کر۔ ریشمی اور رجنی موسی ہر قدم پر میری ڈھارس بندھاتی رہیں۔ دن گزرتے رہے اور یوں ہی ایک سال پورا ہو گیا... اگلا رمضان آ گیا. مگر ہمارے گاؤں میں کوئی پاکستانی لڑکیوں کو لینے نہیں آیا۔ یا شاید آئے بھی ہوں تو ہمیں خبر نہ ہوئی۔ موسی رجنی کا بیٹا جو فوج میں تھا وہ بھی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ چھے مہینے اور گزر گئے

(پانچویں قسط)
ام محمد سلمان


میں اور ریشمی اپنی ہی باتوں میں مگن تھے جب جگجیت سنگھ نے دھاڑتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا... ریشمی بھائی کو دیکھتے ہی ایک دم کمرے سے باہر بھاگ گئی۔ جگجیت آنکھوں میں خباثت لیے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ہاتھوں میں ایک پوٹلی تھی جو میری طرف اچھال دی اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا: یہ لے سہاگ کا لال جوڑا! اسے پہن اور جلدی تیار ہو جا۔ آج ہمارا ویاہ ہے۔

"نہیں کرنی مجھے تجھ سے شادی!! تو جانور ہے جانور.. اور جانوروں سے شادی نہیں کی جاتی۔ میں تجھ سے کبھی شادی نہیں کروں گی، مر کے بھی نہیں۔" میں نے جوڑا اٹھا کر دیوار پہ دے مارا اور بری طرح چلانے لگی۔ ریشمی بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے بانہوں میں بھر لیا۔ جگجیت کوٹھڑی سے باہر چلا گیا یہ کہتے ہوئے کہ اسے جوڑا پہنا کے تیار کرو۔ میں بری طرح ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی.. حلق پھاڑ کے چیخ رہی تھی... کوئی ہے جو میری مدد کرے، کوئی ہے جو مجھے مجھے پاکستان لے جائے.. کوئی ہے جو مجھے اس بھیڑیے سے بچائے... میرے اللہ....! میری مدد کر، میں اکیلی ہوں بے سہارا ہوں ظالموں کے رحم و کرم پہ ہوں۔ اور پھر بے دم ہو کر زمین پہ گر پڑی... یوں لگ رہا تھا میرے پیروں تلے سے زمین کھسک چکی ہے۔ شدت غم سے میرا سر گھومنے لگا تھا۔

ریشمی نے مجھے پھر سے بانہوں میں بھر لیا. "نور! خدا کے لیے ہوش میں آؤ تم، ٹھنڈے دل سے سوچو... یہ شادی تمہارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ تم اپنے وطن پاکستان جاتے ہی اس بندھن سے آزاد ہو جاؤ گی۔ تم پہلے ہی کی طرح اپنے شوہر کی بیوی رہو گی۔ بس یہ تو ایک سوانگ ہے جو رچانا ہے۔ تمہاری صحت سلامتی اور زندگی کے لیے یہ ضروری ہے نور۔" وہ مجھے کافی دیر سمجھاتی رہی۔ رجنی موسی اور پڑوس کی کچھ خواتین بھی شادی میں شریک ہونے آ گئی تھیں اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے مجھے کسی ایسی مقتل گاہ کی طرف لے جایا رہا ہے جہاں نہ میرے لیے موت ہے نہ زندگی!!
یا اللہ مدد! یا اللہ مدد!
میں نے آخری بار پکارا اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔ اسی بے ہوشی کے دوران مجھے سہاگ کا جوڑا پہنا کر بیل گاڑی میں ڈال کے گردوارے لے گئے اور جب واپس آئی تو جگجیت سنگھ کی ووہٹی "سُندر کور" بن کر۔ ریشمی اور رجنی موسی ہر قدم پر میری ڈھارس بندھاتی رہیں۔ دن گزرتے رہے اور یوں ہی ایک سال پورا ہو گیا... اگلا رمضان آ گیا. مگر ہمارے گاؤں میں کوئی پاکستانی لڑکیوں کو لینے نہیں آیا۔ یا شاید آئے بھی ہوں تو ہمیں خبر نہ ہوئی۔ موسی رجنی کا بیٹا جو فوج میں تھا وہ بھی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ چھے مہینے اور گزر گئے۔ میری زندگی تو اب بھی ویسی ہی تھی جیسی پہلے. بس اب میں گھر کا ایک فرد گردانی جاتی۔ گھر کے کاموں میں حصہ لیتی۔ اور مجھ پر پہلے کی طرح ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑے جاتے۔ اور اب تو ویسے بھی مجھے اپنی فکر ہونے لگی تھی، وقت پہ کھانا کھا لیتی کہ جسم میں جان ہوگی تو اپنے وطن پہنچوں گی..! ٭٭٭٭

جگجیت کی بے بے مجھے بار بار اولاد کے لیے طعنے دیتی مگر میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتی کہ مجھے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یہ رب کا بہت بڑا احسان تھا مجھ پر۔ وہ بار بار اپنے بیٹے سے کہتی کہ اسے ٹھڈے مار کے گھر سے باہر نکال دے۔ میں تیرا دوجا ویاہ کروں گی مگر وہ سنتا ہی نہیں تھا۔ ایک سال اور بیت گیا۔ پاکستان کے قیام کو تین سال ہو چکے تھے اور میں اب تک اپنے دیس کی مٹی سے محروم تھی۔ ریشمی ہر دم میرے ساتھ رہتی تھی. اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے اسلام کو چھپا رکھا تھا۔ جب گھر میں کوئی نہ ہوتا تو وہ نماز پڑھ لیا کرتی تھی۔ مگر میں اب بھی ہٹ دھرمی سے اپنی اسلام پر قائم تھی۔ نماز کے وقت پر دھڑلے سے نماز پڑھنے کھڑی ہو جاتی۔ وہ سب مجھے زدو کوب کر کر کے اور پابندیاں لگا لگا کے تھک چکے تھے۔ اب مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ ویسے بھی اب حالات کافی بدل چکے تھے. وہ پہلے جیسا خوف و ہراس اور سراسیمگی کا ماحول نہیں تھا۔

پھر ایک دن موسی رجنی کا بیٹا لوٹ آیا۔ انھوں نے مجھے خوش خبری سنائی کہ دو تین روز میں پولیس آئے گی اور تجھے یہاں سے لے جائے گی۔
مجھے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اور پھر سب کچھ کسی خواب کی طرح ہوتا گیا۔ اس دن کوئی معجزہ ہی ہوا کہ پولیس نے اچانک چھاپہ مار دیا۔ میں ریشمی کو پہلے ہی تیار کر چکی تھی کہ وہ میرے ساتھ پاکستان چلے اور ایک با عزت زندگی گزارے۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا میں نے سوچا تھا۔ پولیس مجھے تو وہاں سے نکال لائی مگر ریشمی تو ان سکھوں کی اولاد ان کا خون تھی، وہ اسے کیسے چھوڑ دیتے۔ ریشمی کا مسلمان ہونا بھی ان پر کھل چکا تھا۔ اس معاملے میں پولیس کا کوئی اختیار نہیں تھا... میرے اور ریشمی کے لاکھ کہنے پر بھی وہ اسے میرے ساتھ نہیں بھیج سکتے تھے۔ گھر والے میرے جانے پر ہی آگ بگولہ تھے۔ جگجیت سنگھ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے ابھی بھسم کر ڈالے۔ ریشمی کی بے بے اسے دبوچے کھڑی تھی اور وہ کسی ماہی بے آب کی طرح ان کی گرفت سے نکلنے کے لیے مچل رہی تھی۔ "مجھے نور کے ساتھ جانے دے بے بے... میں اب تمہارے کسی کام کی نہیں رہی۔ بے بے تو جانتی ہے کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔ مجھے پاکستان جانے دے تجھے وائے گرو کا واسطہ!!"

ریشمی کا بڑا بھائی اپنے آپے میں نہیں تھا، اس نے بالوں سے گھسیٹ کے ریشمی کو زمین پر گرا دیا ۔ میں بھاگ کے اس کے قریب گئی اور لپک کر سینے سے لگا لیا. وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی میں بھی اس کے ساتھ رو رہی تھی، اسے تسلیاں دے رہی تھی۔ "غم نہ کرو سمیہ! قیامت کے دن ملیں گے عرش عظیم کے سائے تلے، اللہ کی رحمتوں میں گھرے ہوں گے۔ اللہ کے فضل سے ضرور ملیں گے ان شاء اللہ!" آخری بار اسے گلے سے لگایا اور پھر میں واپسی کے لیے مڑی ہی تھی کہ بڑے بھائی کی گولی اس کا سینہ چھلنی کر گئی۔ دوسری گولی چلی اور اس کا بھیجا اڑا گئی. وہ منٹوں میں خاک میں مل گئی اور پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ میں نے اِنَّا للہ پڑھا اور ایک گہری سانس سینے سے خارج کی۔ میری بہترین دوست، بہترین ساتھی سمیہ.. میری آنکھوں کے سامنے جامِ شہادت نوش کر گئی۔ مجھے جہاں اس کی موت کا دکھ تھا وہیں اس کی شہادت کی خوشی بھی تھی۔ بے بے، ریشمی کی لاش پہ گرے بری طرح رو رہی تھی اور مجھے بد دعائیں دے رہی تھی۔ رجنی موسی کا بیٹا پولیس کے ساتھ ہی رہا۔ حویلی کے باہر پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔ میں جب اندر جا کر بیٹھی تو خوش گوار حیرت کا جھٹکا لگا۔ وہاں زینت جہاں پہلے سے موجود تھی۔ وہ لوگ اسے بھی قید سے چھڑا لائے تھے۔ اس کے علاوہ بھی دو تین لڑکیاں اور تھیں جنھیں میں نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر ایک ادارے کے پاس چھوڑ گئے جنھوں نے ہمیں چار پانچ دن کے اندر اندر پاکستان بھجوا دیا۔ ہم لاہور اسٹیشن پر اترے تو پاک فوج کے چند جوانوں نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ایک دار الامان میں پہنچا دیا جو خاص طور پر ہجرت کے وقت بچھڑ جانے والی عورتوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ جتنی بھی لٹی پٹی عورتیں انڈیا سے آتی تھیں وہ سب وہیں جمع ہو جاتی تھیں۔ وہاں کی نگران خواتین بڑی درد مند تھیں. ہمارا بہت خیال رکھتیں۔ انھوں نے ہمارے بارے میں پوچھا کہ پاکستان میں ہمارا کوئی عزیز رشتے دار ہے تو بتائیں تاکہ انھیں ڈھونڈنے میں ہماری مدد کریں۔ زینت جہاں کے ایک ماموں تقسیم سے پہلے سے ہی لاہور میں رہتے تھے. اس نے ان کا پتا لکھوا دیا۔ وہ آ کر اسے لے گئے۔ دارالامان میں ایک تیس بتیس سالہ بڑی خوب صورت سی عورت تھی نفیسہ نام تھا۔ جب اس کے گھر والوں کو ڈھونڈا گیا اور وہ اس سے ملنے آئے تو انھوں نے اسے بہت لعن طعن کیا کہ وہ کیوں واپس آ گئی وہیں کسی کنویں میں چھلانگ مار کے کیوں نہ مر گئی۔ اپنی عزت اور غیرت لٹا کر اب ہمارے پاس کیا لینے آئی ہے۔ اس کے شوہر نے اسے ساتھ لے جانے سے صاف انکار کر دیا۔ "یہ سکھوں کی جھوٹن اب میرے لائق نہیں. میں اسے طلاق دے رہا ہوں" اور اس معصوم بے خطا کو ناکردہ جرموں کی سزا دے کر وہ لوگ چلے گئے۔ نفیسہ اپنی تقدیر پر آنسو بہاتی رہ گئی۔ مگر وہ پھر بھی خوش تھی کہ چلو ہماری قربانیوں سے پاکستان تو بن گیا۔ ہمارے جیسی اور کتنی بیٹیوں کی عزت محفوظ ہو گئی۔ اس واقعے نے مجھے بے حد دکھی کر دیا تھا۔ میں وجاہت کو پکارتے ہوئے ڈرنے لگی.. جانے ان کے کیا خیالات ہوں میرے بارے میں۔ اور مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وجاہت زندہ بھی ہیں یا نہیں لیکن پھر بھی میں نے اپنا انڈیا کا نام پتا، گھر، خاندان، محلہ، شہر، سب کچھ لکھوا دیا. جس قافلے میں ہم چلے تھے وہ بھی دن تاریخ سمیت بتا دیا۔ میں رات دن دعائیں کرتی کہ مجھے وجاہت مل جائیں۔ میرے پاس پاکستان میں وجاہت کا کوئی پتا نہ تھا۔ بس ساری ہجرت کے وقت کی نشانیاں تھیں۔ پھر رجسٹر میں وہ نام چیک کیے گئے جو اپنی گم شدہ خواتین کو ڈھونڈنے کے لیے دارالامان آیا کرتے تھے۔ انہی میں ایک نام وجاہت علی ولد محسن علی بھی تھا۔ میں چونک پڑی.. میرے سسر کا نام محسن علی ہی تھا۔ پھر انھوں نے اس نام کا اتا پتا معلوم کیا اور اطلاع بھیج دی۔ کچھ دن بعد ایک مژدہ جاں فزا سنائی دیا کہ وجاہت نامی کوئی شخص نور الاسلام کو لینے آیا ہے۔ میں جب ملاقات والے کمرے میں گئی تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا.. میرے سامنے میرے شوہر میری آنکھوں کا نور، دل کا سرور وجاہت ہی تو تھے۔ مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ میں بہت دیر تک ان سے لگ کر روتی رہی، وہ میرے آنسو پونچھتے رہے۔ مجھے چپ کرواتے رہے۔ لیکن میں انھیں دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی. وہ سارے شکوے میری زبان پر آنے لگے جو کبھی کسی سے نہیں کیے تھے۔ "کیوں چھوڑ کر گئے تھے آپ مجھے اکیلا...؟ میں نے کہا تھا نا وجاہت مت جائیں مجھے ڈر لگ رہا ہے. آپ کو پتا ہے آپ کے جانے کے بعد کیا ہوا؟ (جاری ہے)