آخر ایک دن زین کہنے لگا " ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں - تم کل رات کو اسی جگہ آ جانا - ہم شادی کر لیں گے-" شیطان نے جو جال بنا تھا میشہ اس میں بری طرح پھنس چکی تھی- ساری رات میشہ سوچتی رہی آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی -
دوسری رات میشہ چپکے سے گھر سے نکلی اور مقررہ جگہ پر پہنچ گئی - زین انتظار میں کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا- دونوں اس دوست کے گھر گئےاور نکاح کرلیا۔۔۔۔۔
ام منیب کراچی
زارا باجی پلیز! ذرا میرا ناشتا تو بنا دیں ،مجھے کالج سے دیر ہو رہی ہے، وین بس آتی ہی ہو گی، میں ذرا جلدی سے تیار ہو
جاؤ ں " میشہ نے لجاجت سے کہا- نہیں بھئی مجھے بھی یونیورسٹی جانا ہے تم خود بنا لو ناشتا " زارا نے جواب دیا-" پلیز باجی مجھے دیر ہو رہی ہے " میشہ نے کہا-
میشہ اور زارا دونوں آصف صاحب کی بیٹیاں تھیں- آصف صاحب ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے تھے لیکن وہ اپنی بیٹیوں کا بہت خیال رکھتے تھے- آصف صاحب ایک دفتر میں مینیجر کے عہدے پر فائز تھے اور ان کی بیوی سلمہ بیگم زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی ،وہ ایک سیدھی سادی عورت تھی- دنیا کے رنگ ڈھنگ سے اتنی واقف نہیں تھی- اس لیےآصف صاحب چاہتے تھے کہ ان کی بیٹیاں پڑھ لکھ جائیں- اس لیے وہ ان کو ہر سہولت فراہم کرتے تھے- میشہ فرسٹ ائیر میں تھی اور زارا بی- اے کے آخری سال میں تھی-
ارے---- میشہ یہ کیا؟ تم لپ اسٹک لگا کر کالج جارہی ہو" زارا نے ناشتا میز پر رکھتے ہوئے کہا- " باجی! تو کیا ہوا میری سہلیاں بھی تیار ہو کر آتی ہیں، ویسے بھی گرلز کالج ہے اس میں کیا قباحت ہے " " نہیں میشہ! یہ اچھی بات نہیں ہے-" زارا نے کہا- " کوئی بات نہیں اس میں کیا برائی ہے" میشہ نے لاپروائی سے کہا اور اپنا بیگ لے کر چلتی بنی- ( میشہ اپنی مرضی کی مالک تھی )
رات دونوں بہنیں بستر پر لیٹی تھیں اور میشہ مسلسل اپنے موبائل میں مصروف تھی " میشہ اب بند کرو موبائل اور سو جاو بہت دیر ہو رہی ہے " زارا بولی- " بس تھوڑی دیر " میشہ نے کہا-
آج جب میشہ کالج سے آئ تو بہت تھکی ہوئی تھی کھانا کھاتے ہی سو گئی- عصر کی نماز کے وقت سلمہ بیگم نے میشہ کو جھنجوڑ کر اٹھایا " میشہ اٹھ جاو عصر کا وقت ہوگیاہے " میشہ بادل نخواستہ اٹھی اور عصر کی نماز پڑھی- نماز پڑھ کر وہ کچن میں چلی گئی "- آہا---! آج تو بڑی اچھی خوشبو آ رہی ہے- شام کی چائے کے ساتھ میری پیاری بہن نے کیا بنایا ہے " سلمہ بیگم نے فورا ٹوکا " میشہ تم تو کچن کا کام سنبھالتی نہیں ہو اور سارا بوجھ زارا پہ ڈال رکھا ہے- تم بھی ان چیزوں میں کچھ دلچسپی لو-"
" امی باجی اتنی اچھی چیزیں بناتی ہیں کہ مزہ ہی آجاتا ہے- مجھ سے تو سب کچھ خراب ہو جاتاہے " میشہ نے جواب دیا- " ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا " زارا بولی" - کرنا ورنا کچھ نہیں صرف باتیں بنانا آتی ہیں " دونوں بہنوں کی نوک جھونک جاری تھی کہ آصف صاحب آگئے - آصف صاحب بولے " بھئی کیا ہو رہا ہے ؟ " - " ابو دیکھیں باجی نے کتنے مزے دار پکوڑے اور سموسے بنائے ہیں " میشہ لاڈ سےبولی - " ہاں بھئی میری زارا بیٹی بڑی سلیقہ مند ہے " آصف صاحب بولے" لیکن بیٹی تم بھی اس میں کچھ دل چسپی لو" میشہ نے کہا " ابو مجھ سے یہ کام نہیں ہوتے " ابو اس کی باتوں پر ہنسنے لگے-
شام ہوئی تو میشہ اپنے کمرے میں پڑھنے چلی گئی- ابھی وہ پڑھ ہی رہی تھی کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی( نہ جانے کس کی کال ہے! ان جانا نمبر ہے ! چلو --- دیکھتی ہوں کون ہے) میشہ نے دل میں سوچا- دوسری طرف کسی مرد کی آواز تھی " ہیلو کون ہے؟ " میشہ بولی- جواب آیا " میں زین العابدین بول رہا ہوں " لیکن میں تو آپ کو نہیں جانتی " میشہ بولی- ابھی میشہ فون رکھنے ہی والی تھی کہ دوسری طرف سے آواز آئی " پلیز! فون مت رکھیےگا میں بور ہو رہا تھا میں نے سوچا تھوڑی بات چیت کر لیتے ہیں " جواب آیا- نہیں مجھے کوئی ضرورت نہیں " اور میشہ نے فون بند کر دیا- بات آئی گئی ہو گئ کہ دوسرے دن پھر اسی نمبر سے فون آیا لیکن میشہ نے فون بند کر دیا- تیسرے دن پھر فون آیا میشہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی فون اٹھا لیا " دیکھیے فون بند نہ کیجیے گا بس تھوڑی سی بات کر لیں- میں کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں- میں یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں، جب میں پڑھنے سے تھک جاتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں کسی سے باتیں کرو " میشہ نے کہا " میں کیا بات کروں" زین نے کہا کوئی بھی مثلا--- آپ کیا کرتی ہیں ؟ کیاپڑھتی ہیں؟ بڑی شائستہ انداز میں میں بات کی گئی - میشہ نےسوچا چلو بات کر لیتی ہوں اس میں کیا حرج ہے میں کوئی مل تو نہیں رہی ( اسی طرح شیطان اپنا جال پھنکتا ہے ----) اور میشہ زین کو اپنی تعلیم کے بارے میں بتانے لگی-
زین ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا- تعلیم کے سلسلے میں لاہور سے کراچی آیا ہوا تھا اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور دوبہنیں تھیں- دیکھنے میں خوش شکل تھا لیکن لڑکیوں سے فلرٹ کرتا تھا- ادھر اب میشہ اور زین کا باتوں کا سلسلہ روز چل پڑا تھا- زین اب کھل کر بات کرنے لگا تھا اور میشہ کی جھجک بھی دور ہوگئی تھی
ایک دن زین کہنے لگا " میشہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں " میشہ نے کہا " یہ ناممکن ہے امی اس کی کبھی اجازت نہیں دیں گی " لیکن زین کا اصرار روز بروز بڑھتا گیا----- آخرایک دن میشہ نے کالج سے واپسی پر زین سے ملنے کا پروگرام بنایا-دوسرے دن میشہ کالج سے جلدی نکل آئی - کالج کے باہر زین میشہ کے انتظار میں کھڑا تھا- جب دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو میشہ زین سے بہت مرعوب ہوئی اس کی شخصیت ہی ایسی تھی- تھوڑی دیر بات چیت کے بعد دونوں نے اپنی اپنی راہ لی -
میشہ جب گھر لوٹی تو بہت گھبرائی ہوئی تھی- زارا نے کہا " میشہ کیا بات ہے تمہاری رنگت کیوں اڑی ہوئی ہے خیر تو ہے " نہیں باجی بس میں تھک گئی ہوں " میشہ نے بات بنائی اور اپنے کمرے میں چلی گئی- اب تو ملاقات کا سلسلہ تقریبا روز ہی چل پرا تھا- اب تو دونوں ریسٹورنٹ میں ملنے لگ گئے تھے اور گھنٹوں باتیں کرتے میشہ کے رویے میں اب بہت تبدیلی آگئی تھی- اس بات کو زارا نے بھی محسوس کیا اور میشہ سے پوچھا بھی کہ" آج کل کالج سے اتنی دیر سے کیوں آتی ہو" میشہ نے جواب دیا " باجی وہ------- امتحانات شروع ہونے والے ہیں ہم سب سہلیاں مل کر پڑھتی ہیں " لیکن زارا مطمئن نہیں ہوئی اور میشہ کو کھوجتی نظروں سے دیکھتی رہیں اور لگی میشہ کو اونچ نیچ سمجھانے-
آج جب معمول کے مطابق میشہ اور زین ملے تو زین نے کہا " میشہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں" میشہ" نے کہا " نہیں میرے ماں باپ اس کی اجازت نہیں دیں گے " لیکن زین کا اصرار روز بروز بڑھتا گیا- ایک دن موقع دیکھ کر میشہ نے زارا سے ذکر کیا - زارا پہلے تو ہکا بکا رہ گئی پھر وہ میشہ کوسمجھانےلگی" دیکھو تم اس کو جانتی بھی نہیں ہو نہ جانے کون ہے؟ کیسا ہے؟ دیکھو تم ابھی چھوٹی ہو تمہیں ابھی زمانے کی خبر نہیں ہے یہ خیال دل سے نکال دو"- لیکن میشہ کے سر پر زین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا- وہ قائل نہیں ہوئی- آخر ایک دن زین کہنے لگا " ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں - تم کل رات کو اسی جگہ آ جانا - ہم شادی کر لیں گے-" شیطان نے جو جال بنا تھا میشہ اس میں بری طرح پھنس چکی تھی- ساری رات میشہ سوچتی رہی آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی -
دوسری رات میشہ چپکے سے گھر سے نکلی اور مقررہ جگہ پر پہنچ گئی - زین انتظار میں کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا- دونوں اس دوست کے گھر گئےاور نکاح کرلیا- زین نے میشہ کو اسی دوست کے گھر ٹھہرایااور کہا کہ " کچھ دنوں کے بعد میں تمہیں لاہور لے جاوں گا"
دن پہ دن گزرتے گئے لیکن زین میشہ کو اپنے گھر لے کر نہیں گیا- وہ روز ٹال مٹول کرتا - اب تو اس کا دوست بھی گھر خالی کرنے کا کہ رہا تھا- آخر کار یک دن جب زین میشہ سے ملنے آیا تو میشہ نے اس سے یہاں سے لے جانے پر بہت اصرار کیا تو زین بھڑک اٹھا اور کہنے لگا " تم جیسی لڑکیاں جب اپنے ماں باپ کو دھوکا دے سکتی ہیں تو کیا مجھے نہیں دھوکہ دو گی ؟ ------ میں تم سے تنگ آ گیا یوں اور میشہ کو طلاق دے دی----- میشہ گم سم ہو گئی - مارے غم کے اس کے منہ سے ایک بات بھی نہ نکلی- زین تن فن کرتا گھر سے نکل گیا - جاتے جاتے کہ گیا" تم آزاد ہو جہاں مرضی چلی جاو- "
میشہ پریشان حال سوچنے لگی کہ اب میں کہاں جاؤں!؟ والدین کا گھر تو میں نے ناسمجھی میں چھوڑ دیا - اب میں کس منہ سے اس گھر جاسکتی ہوں- اس کاگھر سے بھاگ جانا اس کے ماں باپ کے لئے کتنا رسوائی کا باعث بنا ہو گا- وہ سوچتی رہی اور سوچتی رہی وہ بیچ منجدھار میں کھڑی تھی-------
سچ ہےغیر محرم سے بات کرنا اور ملنا شیطان کے جالوں میں سے ایک جال ہے حدیث مبارکہ کا مفہوم ہےکہ " جب ایک مرد اور ایک عورت اکیلے میں ملتے ہیں تو تیسرا ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے