بچپن کی منگنی وہ ظلم ہوتا ہے اولاد پر جو ان کے کھیلنے، کھانے کی عمر میں ہی جذبات سے آشنا کرکے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کمزور کرکے رکھ دیتا ہے ۔ان کی توجہ اپنی شخصیت کی تعمیر سے ہٹ کے خود کو منگیتر کی پسند ناپسند کے آئینے میں ڈھالنے کی طرف ہوجاتی ہے ۔دنیاداری ،زمانہ شناسی ، سیکھنے کی بچائےسوچوں کو گھن لگ جاتا ہے

کنیز باھو


”ماں باپ کا عمل بد مکافات کی وہ" چکی" ہے جس میں اولاد کا نصیب پستا ہے۔“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”محسن !میں کہتا ہوں اسے طلاق دو۔نہیں تو میں تمھاری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکال دوں گا اور تم سب کو جائداد سے عاق کردوں گا ۔یہ تمھاری ماں کا انتخاب ہے اس گھر میں نظر نہ آئے اب مجھے “ کانوں میں سیسہ پگھلا کر انڈیلا گیا جس کی تپش آج تک اسے محسوس ہوتی تھی تلخ یادیں بعض اوقات اسقدر حاوی ہوجاتیں اسکے وجود کو ہی معدوم کردیتیں۔ ٭٭٭

"اماں غبارہ"گڈو بار بار اسے آواز دے رہا تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں گم حاصل لاحاصل کی گتھیاں سلجھارہی تھی۔ گڈو نے کہا ”اماں پیسے دے غباروں والا نکڑ پر پہنچ گیا ہے “ مہر نے سلائی مشین کےڈبے سے سکے نکال کے گڈو کے ہاتھ پہ رکھے۔سلائی مشین اور گڈو ہی تھے جس کے گرد ذندگی گھوم رہی تھی۔ سارا دن سلائی مشین کے آگے بیٹھ کے آنکھیں تھک جاتیں ۔ کندھوں کے پٹھے کھنچ جاتے ،جب گڈو کی شرارتیں ، ہنستا چہرہ دیکھتی ساری تھکن اتر جاتی۔ یہ اچھے وقت کاہنر ہی بچا تھا جس سے اپنا اور بچے کا پیٹ پال رہی تھی۔گردش زمانہ ،مجبوری ،محتاجی ، بے بسی ، زندگی کے اس موڑ پر لاکر کھڑا کر دیتی ہے، جہاں خوابوں کے محل، خواہشوں کی تکمیل کے لیے آنے والے کل سے اچھی امیدیں ،سوچ کے گرداب میں پھنسی بے چین جان کو کچھ پل کا قرار دے دیتے ہیں ۔حالات کی ستم ظریفی مسکرا کے قبول کی جانے لگتی ہے ۔دووقت کی روٹی دس سالوں بعد مہیا ہونے والی آسائشوں کی خوش آئند امیدوں کے سہارے سکھ سے ہضم ہونے لگتی ہے ۔

٭٭٭ مہر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، اس کا باپ سبزی فروش ہے اور ماں رشتےکرانے والی خاتون ہے ۔مہر کی ماں محلے میں باجی پروین کے نام سے مشہور ہے کام کی نوعیت کی وجہ سے اچھی علیک سلیک ہے۔ تعلق ایک بار کی سلام دعا میں ہی اپنائیت میں ڈھل جاتا ہے ۔ اس میں اخلاص کا گڑ پیسے سے ڈلتا ہے جتنا زیادہ پیسا ہوگا یہ منافقانہ ہمدردی اور جدوجہد زیادہ گہری ہوتی جائے گی حتٰی کہ سچ ،جھوٹ کے پلندے سے بھی آزاد ہوجائے گی۔ مہر کی منگنی اس کے ابا نے بچپن میں ہی اس کے پھوپھی زاد سے طے کردی تھی ۔بچپن کی منگنی کی وجہ سے وہ جانچ پرکھ اور فکر سے آزاد ہوچکے تھے ۔

بچپن کی منگنی وہ ظلم ہوتا ہے اولاد پر جو ان کے کھیلنے، کھانے کی عمر میں ہی جذبات سے آشنا کرکے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کمزور کرکے رکھ دیتا ہے ۔ان کی توجہ اپنی شخصیت کی تعمیر سے ہٹ کے خود کو منگیتر کی پسند ناپسند کے آئینے میں ڈھالنے کی طرف ہوجاتی ہے ۔دنیاداری ،زمانہ شناسی ، سیکھنے کی بچائےسوچوں کو گھن لگ جاتا ہے نوعمری کےجذبات دوسری ساری دل چسپیوں سے لاپرواہوکر وفا سے پروان چڑھتے ہیں ۔ مہر ایک زندہ دل ،لاپرواسی ، اپنے موڈ میں رہنے والی لڑکی تھی ۔سانولا سارنگ ، گھنے لمبے بال ، خوبصورت سی آنکھیں اس کھلتی کلی کی مسکراہٹ ہی نرالی تھی ۔

ٹھوکریں کھانے ،رسوائیاں سہنے ،مان بکھرنے،رشتے ٹوٹنے کے بعد مردہ وجود کی زندہ لاش لیے یہ کھلتی کلی جب مرجھا جھاتی ہے تو بہاروں بے پروائیوں کی عمر کی خوشیوں ،،،حقیقتوں سے انجان ،،آگہی کے عذاب سے ناآشنا، معصومیت کے دنوں کی خوشیاں یاد آجاتی ہیں پھر سوچتے کہ وہ دن کتنے اچھے تھے کاش کہ وقت رک جاتا ۔ محسن لمبے قد ،بھوری آنکھوں، صاف رنگ کاایک خوبرو نوجوان تھا۔وہ مہر کی پھوپھو کا بیٹا تھا ۔بچپن میں ہی مہر اس سے منسوب ہوگئی تھی۔ایک سال کا قلیل عرصہ اس کے ازدواجی رشتے کی عمر تھی جو پوری زندگی کھا گیا ۔ پھوپھو کی شادی شیخوپورہ کے نزدیک گاٶں

میں ہوئی تھی ۔پھوپھا مزاج کے ذرا سخت تھے ۔دوسرا بندہ ان کی معیت میں زیادہ دیر پر سکون محسوس نہیں کرسکتا یہی رویہ ان کا گھر میں تھا ۔پھوپھا کی گھر آمد سے ہی بچوں اور بیوی کی سانسیں تھم جاتیں،گھر موت کا سا سکوت چھا جاتا۔بچے کھیل کود چھوڑ کر اپنے اپنے مخصوص کونے میں دبک جاتے ،،،،اماں ،ابا کے کمرے سے کچھ دیرتک گالیوں اور مغلضات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ۔ بچے اور پھوپھو عادی ہوچکے تھے ۔اورکچھ حد تک نفسیاتی مریض بھی بن چکے تھے ۔ ٭٭٭

پروین نے آج شہر سے باہر رشتہ دیکھنے جانا تھا ۔ شام پڑنے والی تھی رشتہ دیکھنے کے بعد اسے دوسرےمیرج بیورو کارکنان سے مشاورت بھی کرناہوتی۔سب کے پاس مخصوص کوائف کے معقول رشتے ہوتے تھے، نہ بھی ہوتو مشورے مشاورت سے نا معقول کو معقول بنانا ان کاہنر تھا چاپلوسی، جھوٹ ، ہمدردی سے دوسرے کا اعتماد جیتنا ان کے پیشے کے لحاظ سے ایک ضرورت بھی تھی، جھوٹ تو بہت معمولی سی بات تھی ۔دماغ پر پیسےکی حرص، سوار

ہوتو بندہ حرام ،حلال کی فکر سے بے نیاز ہوکر دن رات بس مال جمع کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے ۔اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ آیا کسی کی ہنستی بستی زندگی اجڑرہی ہے کسی کا گھر برباد ہورہا ہے ۔کسی کی پوری زندگی کی جمع پونجی لٹ جائے۔ہمارے معاشرے کے مجبور ،بے بس لوگوں کی مجبوری کافائدہ بےحس لوگ اٹھاتے ہیں جن میں جعلی عامل، نیم حکیم ، میرج بیوروپارٹیاں ، قسمت کا حال بتانے والے نجومی سرفہرست ہیں ۔جہاں مادیت پرستوں نے اپنے پیشے کی نوعیت سے مفادات کی آڑ میں شر پھیلایا ہوا ہے وہیں اللہ کے خیر بانٹنے والے ،درددل ،خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے بے لوث آسانیاں بانٹ رہے ہیں۔محدودسی زندگی میں پھیلائے خیراور شر صدقہ جاریہ اور گناہ جاریہ کی شکل میں نسلوں تک چلتے ہیں۔ ٭٭٭

مریم کے والدین ٹرین حادثے میں وفات پاچکے تھے اکلوتی اولاد تھی، ماموں نے کفالت میں لے لیاتھا۔ یتیمی کا زمانہ بڑا بے درد ہوتا ہے زندگی کی حقیقتیں محرومیاں دکھادیتا ہے ،دوسروں کے رحم وکرم پر پلنے والے بچے کم عمری میں ہی بوڑھے ہوجاتے ہیں ۔

مامی سے ماموں کا مریم کو خصوصی توجہ دینادیکھا نہیں جاتا ،پختہ عمر میں بچی سےحسد کا شکار تھی۔ ماموں کے سامنے پیار اوران کی غیر موجودگی میں غیروں جیسا سلوک کرتی۔ماموں نے مامی سے مریم کی شادی کی بات کی انھیں فکر تھی ان کے جیتے ہی یتیم بچی اپنے گھر کی ہوجائے۔انہیں کسی میرج بیورو سے بات کرنے کا کہا۔ پروین نفیسہ کے جاننے والی تھی نفیسہ نے پروین سے کہا جیسا بھی رشتہ ہوں لےآئے آگے وہ خود سنبھال لے گی اس کی کون سا سگی بچی تھی جو دیکھ بھال کہ کرتی اور پروین کو چند ہزار کا لالچ بھی دیا ۔

پروین کو انہی دنوں جمال کے ماں باپ نے رشتے کا کہا ہوا تھا ۔جمال ایک آوارہ ، نشے کا عادی ،غیرذمے دار انسان تھا ۔پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔

جمال کے ماں باپ کا خیال تھا کہ ایک شریف گھرانے کی تربیت یافتہ لڑکی بیٹے کو سنوار دے گی ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے جرائم پیشہ ،آوارہ مزاج بیٹے کو سدھارنے کا واحد حل شادی سمجھا جاتا ہے ۔ پروین کو رقم اڈوانس میں دے رکھی تھی تاکہ کسی شریف گھرانے کی باکردار لڑکی سے بات چلاۓ ۔

نفیسہ نے پروین کو گھر بلوایا تھا رشتے کے سلسلے میں پروین مریم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اس کے ماموں سے جمال کے بارے میں بات کی ۔پروین نے مریم کے ماموں کو بتایا کہ جمال شریف گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اس کے جمال کی فیملی سے پرآنے تعلقات ہیں۔ اپنا کاروبار ہے خوب صورت اور نیک سیرت انسان ہے ، چھوٹی سی فیملی ہے وہ اسی شہر میں رہائش پذیر ہیں۔مامی نے بھی پروین کی ہاں میں ہاں ملائی اور ماموں کو بہت آسانی سے اعتماد میں لے لیا گیا ۔جھٹ منگنی ،پٹ بیاہ کی طرز پہ شادی ہوگئی ۔مریم بہت خوش تھی۔ خوابوں کے محل سجائے اپنی سلطنت کی ملکہ بن گئی ۔جھاڑ ،جھنکار کرنے والا اب کوئی نہ ہوگا۔

” تم بہت خوبصورت ہو، کسی زعم میں نہ رہنا تم سے زیادہ حسین لڑکیاں میری ایک نظر کی منتظر ہیں ۔ روایتی بیویوں کی طرح میرے ذاتی معاملات میں انوالو ہونے کی ضرورت نھیں ۔ تم یہاں بھوکی نہیں مرو گی نہ کسی کے در پہ ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔
زیادہ سر پہ سوار ہونے کی کوشش کی توپرنی
اُترن کی طرح بدل دوں گا۔ “
جمال کی زبان سے نکلے زہر میں بجھے تیروں نے نازک کلی کو کچل کہ رکھ دیا خوابوں کا محل گرکہ چور ہوگیا،کرچیاں سنبھالتے گھر بسانے کی سعی میں ہر قدم پھونک کے رکھنے لگی۔
”آپ نشہ کیوں کرتے ہیں،نشے کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے آپ نے عادت بنالی ہے چھوڑدیں “ ڈرے، سہمے لہجے میں بہت مان سے التجاکی :
جمال کا مزاج پہلے ہی بلندی کو چھورہا تھا یہ سن کر پھٹ پڑا اور ہمیشہ کی طرح برسنے شروع ہوگیا۔ ” تمھارا باپ دے جاتا ہے مجھے پیسہ کیا نشے کے لیے؟ “
تم ہوتی کون! مجھے حلال ،حرام بتانے والی سمجھایاتھانہ کہ اوقات میں رہنا۔“ مریم یہ اچانک کی جھاڑ برداشت نہ کرسکی آنکھوں سے جوار بھاٹا برسنے لگا۔ ”ٹسوے بہانے کے علاوہ کوئی کام نھیں۔مظلوم بن کہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہو ۔کل میں تمھیں ماموں کے گھر چھوڑ آٶں گا دماغ درست ہوگیا تو واپسی کا سوچنا۔ “
اگلے دن کی تاریک صبح ہی مریم بوریا بستر سمیٹ کر میکے آگئی ماموں نے اس طرح اچانک آجانے کی وجہ پوچھی تو اسنے ساری رواداد کہہ دی کب تک ضبط کرتی اب بچا ہی کیا تھا اس کے پاس۔ ” پروین نے تو کہا تھا کہ جمال بہت شریف ہے “ماموں نے ایک دن مامی سے پوچھا۔ ” آج کل سچ کون بتاتا ہے بس یہ اس کا نصیب تھا اب نصیب سے کون لڑسکتا ہے۔ “ مامی نے اپنے اور پروین کے ضمیر سے بوجھ اتار کر نصیب پہ ڈال دیا۔
تنکا تنکا جوڑ کے بنایا گیا یہ آشیانہ طوفان کی نذر ہوگیا ۔ نازک چڑیا کسی اور منڈیر پہ بیٹھ کہ اپنی تپیسا تیاگے ہرشام آس لیے جمال کی راہ دیکھنے لگی ۔نصیب دشمناں تھا,یا شاید زندگی حریف تھی۔ مفادات اور جھوٹ کی آڑمیں ایک زندگی برباد ہوگئی، مکافات کا پہیہ گھومنے لگا۔مریم اور اس جیسی نہ جانے کتنی معصوم بچیوں کی آہیں پروین کےگھر کے تعاقب میں تھیں اب پروین کے سامنےاس کا جگر گوشہ مہرسسکتی، تصویر غم بن کے ٹھہر گئی۔
اب پروین نے رشتہ کرانے چھوڑدیے تھے بیٹی کا گھر دوبارہ بس جانے کے لیے واقف کاروں کو کہتی اور چھان بین کراتی ہے۔