اُجالا کو اس کے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ اس بات کو اب کئی مہینے ہوچکے تھے اور وہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھی۔ جبکہ اس کی نند و بھاوج یعنی اس کے بھائی شعیب کی بیوی اپنے میکے جا چکی تھی۔ وجوہ جو بھی تھیں یقیناً شعیب اور شہنیلا کے درمیان مسائل ہی تھے لیکن اُجالا اور ندیم کی زندگی اور رشتے کو بھی نتائج بھگتنے پڑ رہے تھے۔

مہوش کرن اسلام آباد


”دعا کرو کہ جلد تمھاری بھتیجی کا گھر بھی بس جائے، پھر ہم اور تمھارے بھائی بھی اپنی اکلوتی بچی کی خوشیاں دیکھ لیں۔ زندگی کا کیا بھروسا بس جلد یہ فریضہ ادا ہو جائے.“

”ہاں بھابھی آپ فکر نہ کریں، اللّٰہ تعالٰی جلد کچھ معاملہ کریں گے، ارے کوئی کمی تھوڑی ہے ہماری بچی میں۔“

”یہی تو بات ہے کہ کمی نہیں ہے لیکن کوئی رشتہ دیکھنے کے بعد پلٹ کر نہیں آتا، جانے کیا بات ہے.؟“

”بس وقت نہیں ہے نا، تبھی تو، جب اللّٰہ کی طرف سے مناسب وقت ہوگا تو دیکھیے گا لوگ دوڑے آئیں گے۔“

”پتا نہیں اللّٰہ کو کیا منظور ہے، خاندان میں اُجالا سے چھوٹی بچیاں اپنے گھروں کی ہوگئیں، ماشاء اللّٰہ سے ماریہ کی تو بچی بھی مہینوں کی ہوگئی۔“

”ایسے مت بولیں، کہیں نظر نہ لگ جائے، اللّٰہ اسے بھی ہنستا بستا رکھے. چھوٹی ممانی تو ویسے ہی دعائیں دیتی نہیں تھکتیں، ماریہ اور اُجالا بلکہ کسی میں فرق نہیں کرتیں۔ وہ تو کہتی ہیں کہ اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو اُجالا کو اپنے گھر ہی لاتی۔

مگر بھابھی یہ تو ان کا بڑا پن ہے لیکن ان کے تو بیٹا ہے ہی نہیں پر آپ کے تو ہیں۔ وہ بھی ایک نہیں ماشاء اللّٰہ سے تین پھر آپ نے کیوں نہیں سوچا خاندان کی کسی لڑکی کو بہو بنانے کے بارے میں؟"

”بس کیا بتاؤں، مجھے لگتا ہے خاندان میں شادیاں کیں تو رشتے داریاں خراب ہو جائیں گی۔“

”اور بڑی ممانی نے اس لیے پورے خاندان میں کہیں اپنے بیٹوں کا رشتہ نہیں دیا کیونکہ جب ان کی بیٹیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی تھیں تو خاندان میں سے کسی نے ان کو نہیں پوچھا تھا۔ واہ بھابھی اس طرح آپ سب نے مل کر نسل در نسل بدلہ لیا اور اپنی ہی بچیوں کے لیے برا سوچا، اور آپ کی اپنی بھابی کے تین بھائی ہیں، یہاں تک کے سب بہنیں آپس میں رشتے کر سکتی ہیں لیکن کوئی نہیں سوچتا، ارے خاندان کی ہر بچی اپنی ہی ہوتی ہے جب اسے پرایا سمجھیں گی تو یہی ہوگا۔“

”ہر کسی کے پاس اپنی وجہ ہوتی ہے خاندان میں رشتہ نہ کرنے کی۔ کہیں ماحول کا فرق، کہیں تعلیم کی کمی، کہیں دولت کی مگر اب کیا کرسکتے ہیں جو ہونا تھا ہوچکا، جس کا گھر جہاں بسنا تھا بس گیا، جو رہ گیا ہے اللّٰہ ان کے لیے بھی معاملہ آسان کریں۔“

”جی اور یہی نہیں بلکہ جس کا گھر بسے وہ سدا بنا ہی رہے، آمین۔“

”چلیں امی دیر ہوجائے گی، ٹیوشن پڑھانے جانا ہے“۔ یہ بول کر صائم بائک کے اسٹارٹر پر کِک لگانے لگا۔

”چلو بھئی، پھر آؤں گی۔“

”ہاں میں آؤں گی بھائی جان سے ملنے، کیا پریشان ہو کر طبیعت خراب کر لی ہے۔“
”چلیں اللّٰہ حافظ۔“
•••••••••••••• یہ اجالا کی امی اور پھوپھی کی باتیں تھیں، جو اپنی بیٹی کی شادی نہ ہونے اور رشتے آکر چلے جانے کے باعث پریشان رہتی تھیں۔ یہ اکثر ایسی خاندانی باتیں کبھی اپنی نند، کبھی بھاوج، کبھی بہن اور کبھی اماں سے کرتیں اور یہی سوچتی رہتیں کہ ایسا کیوں نہیں اور ویسا کیوں ہے۔ لیکن یہ گفتگو بے نتیجہ رہ جاتی کیونکہ اپنے حصے کا کام اور ذمے داری کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

بعض اوقات ہم اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کا رونا تو خوب روتے ہیں لیکن دوسرے گھروں کی بیٹیاں لانے پر تیار نہیں ہوتے۔ اگر ہم کسی کی بیٹی کا خیال کریں گے تو یقیناً کوئی اور بھی ہماری بیٹی پر دستِ شفقت رکھنے آئے گا۔

ہمارے معاشرے میں شادیاں نہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ کئی وجوہ کی بنا پر خاندان میں رشتے نہ کرنا بھی ہے۔ اگر بات دینداری یا اخلاقیات نہ ہونے کی ہو تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن اس کے علاوہ مختلف معیار بنا کر لڑکا یا لڑکی کو اس پر پرکھ کر رشتے کے قابل نہ سمجھنا یا خاندانی مسائل اور رنجشوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے رشتہ داروں کو خاطر میں نہ لانا بھی شادیوں میں رکاوٹ بنتا ہے۔

٭٭٭ ”کیا امی آپ لوگوں کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور بات نہیں ہوتی، رشتے، آپا کی شادی، خاندانی مسائل۔“ رات کو ٹیوشن سے گھر پہنچتے ہی صائم کہہ رہا تھا۔

”ہاں اور کیا، فون پر بھی یہی باتیں کر کر کے ہلکان ہوتی رہتی ہیں۔ کل بھی ننا امی سے یہی سب کہہ کر رو رہی تھیں، وہ بھی تو پریشان ہو جاتی ہوں گی۔“

”اچھا اچھا بس! مجھے زیادہ نہ سکھاؤ، اپنی ماں یا نند سے ذرا دل ہلکا کر لیا تو ایسا کیا غضب ہوگیا۔“

”ارے امی، میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے، میں تو یہ سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ اطمینان سے بھروسا اس ذات پر کیجیے جو تمام معاملات پر بااختیار ہے.“
خرم بہت نرمی سے سمجھانے لگا۔
”ہاں بالکل، اس میں کیا شک ہے، ان ساری باتوں سے آپا بھی تو پریشان ہوجاتی ہوں گی، وہ تو کچھ کہتی نہیں پہلے تو ماریہ اور عشنہ باجی سے فون پر باتیں کر لیتی تھیں مگر شادی کے بعد سے وہ بھی مصروف ہوگئی ہیں۔“ صائم کو تینوں بچپن کی سہیلیوں کا خیال آیا جو کزنیں بھی تھیں۔

”ہاں ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو تم دونوں، یہ شعیب ابھی تک یونیورسٹی سے واپس نہیں آیا، چلو سب نماز کے لیے تیاری کرو، بس اذان ہونے ہی والی ہے۔“ وہ کہہ رہی تھیں۔
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر!
لا الہ الا اللّٰہ !
اذان کی آواز پر زینت بیگم چونک گئیں۔ اففف میری سوچیں مجھے کتنے پیچھے لے گئی تھیں، وہ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں۔

یہی گھر، یہی دالان، یہی لوگ ۔۔۔ مگر حالات یکسر بدل چکے تھے۔ ہر کوئی چپ چاپ بس اپنے کام میں مصروف تھا۔

وہ ہنستی مسکراتی، ہر پل باتیں کرتی اُن کی اکلوتی بیٹی اُجالا آج خاموش مورت کی طرح بیٹھی دکھائی دیتی، کبھی اِدھر سے اُدھر گھر کے کام کرتی نظر آجاتی۔ کبھی بہت ڈھونڈنے سے کسی کونے سے ملتی، کبھی ہزار سوال پوچھنے پر بھی کوئی جواب نہ دیتی،کبھی بنا پوچھے ہی اپنے بارے میں بولتی چلی جاتی۔

اُجالا کو اس کے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ اس بات کو اب کئی مہینے ہوچکے تھے اور وہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھی۔ جبکہ اس کی نند و بھاوج یعنی اس کے بھائی شعیب کی بیوی اپنے میکے جا چکی تھی۔ وجوہ جو بھی تھیں یقیناً شعیب اور شہنیلا کے درمیان مسائل ہی تھے لیکن اُجالا اور ندیم کی زندگی اور رشتے کو بھی نتائج بھگتنے پڑ رہے تھے۔

پہلے اُجالا کی شادی جو اتنی مشکلوں سے ہوئی حالانکہ وقت ہی وہی لکھا تھا لیکن معاشرے کے پیمانے ہی عجیب ہوتے ہیں۔
مگر رشتہ طے ہوا تو سارے درد دور ہوگئے کیونکہ بظاہر ایک بہت بڑے بینک افسر سے شادی ہونے والی تھی۔ جو کہ ہر لحاظ سے اس کے ابو کو بھی بہت پسند آئے تھے۔

رشتہ طے ہونے کے بعد آئے دن کسی بات پر سسرال والوں کے منہ بنے رہتے، معمولی رسمیں بھی پوری طرح کرنے کے باوجود ان کے تیوری کے بَل نہ جاتے۔ یہ ایسا کیوں، وہ ویسا کیوں نہیں ہے، عیدی میں سامان میں یہ کیوں آیا، وہ کیوں نہیں، کسی کو جہیز بھی ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ یہی سب کرتے کرتے شادی کا دن بھی آ پہنچا تھا۔

شادی والے دن رسموں کے نام پر اجالا کے گھر کے بڑوں سے بدتمیزی اور چھوٹوں کی بے عزتی کی گئی تھی۔ تمام انتظامات مثلاً کھانے، سجاوٹ یہاں تک کہ میز کرسیوں کے ڈیزائن پر بھی ناگواری کا اظہار کیا گیا۔ اس سب کے بعد جب رخصتی ہو گئی تو اگلی صبح ناز نخرے اٹھانے اور گرما گرم ناشتہ کروانے کی بجائے اس کی دونوں نندوں نے اس کا ایک ایک ہاتھ پکڑ کر دیکھنا شروع کر دیا کہ،
”لائیں ہم بھابھی کی قسمت کا حال بتاتے ہیں۔“ وہ بے چاری لاچار بیٹھی رہی۔

تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد دونوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ان کے ہاتھوں میں تو اولاد کی لکیر ہے ہی نہیں۔ یہ سن کر اجالا کو بہت برا لگا تھا اس نے جھٹ اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا تھا، ”اولاد اللہ کی دین ہے، یوں ہاتھوں میں نہیں لکھا ہوتا۔ یہ سب فضول چیزیں ہیں میں انہیں نہیں مانتی۔“

”آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم نے سچ ہی بتایا ہے۔ کاش رشتے کے وقت ہاتھ دیکھ لیا ہوتا تو اتنی بڑی غلطی نہ ہوتی۔“
اجالا کے منہ پر اتنی بڑی بات بول کر دونوں کھڑی طنزیہ مسکرا رہی تھیں۔

اس کا دل تو چاہا بول دے کہ پھر آپ کو اتنے رشتے دیکھتے وقت لڑکیوں کی بجائے ان کے ہاتھ دیکھنے چاہیے تھے، لیکن چپ چاپ بیٹھی رہی. شادی کے بعد پہلی صبح اور ایسی بے کارباتیں، یا اللہ کیسے لوگ ہیں؟ نئی نویلی دلہن سے ایسے باتیں کون کرتا ہے؟ وہ خاموشی سے ندیم کی شکل تکنے لگی کہ شاید وہ کچھ بولیں مگر وہ بھی ناراض سے دکھائی دیے اور جب دونوں بہنیں اور بھائی کمرے سے باہر جانے لگے تو وہ بھی ان کے پیچھے باہر چلے گئے اور بالکل سناٹا ہوگیا۔

اجالا اکیلے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ، ”میں نے کون سا جرم کیا ہے جو مجھے قیدیوں کی طرح یہاں اکیلے بٹھا کر سزا دی جا رہی ہے۔ بے اولادی کا لیبل لگا کر سب مجھ سے خفا ہوکر چل دیے یہاں تک کہ شوہر بھی۔ حالانکہ ابھی تو ہم ایک دوسرے کو مکمل جانتے بھی نہیں۔ کیا بیوقوفانہ بات ہے۔ کیا تماشا ہے۔“

اسی دن شام میں جب قریب کے لوگ جیسے بھائی، خالو، خالا، ماموں، مامی اور چند کزن وغیرہ ملنے گئے تو بہت دیر بعد اسے اطلاع دی گئی اور اتنی دیر سب لوگوں کو باہر برآمدے میں کھڑا رکھا گیا۔ خاطر مدارات کرنا تو دور کی بات الٹا سب کے جانے کے بعد ساس نے اجالا کو خوب سنائی کہ اتنے لوگ کیوں آئے تھے، بغیر اجازت تم انہیں کمرے میں کیوں لے گئی تھی۔ آئندہ تمھارے رشتے دار یہاں فالتو میں نظر نہ آئیں۔ اجالا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کس مزاج کے لوگ ہیں۔

اگلے دن ولیمے کی دعوت میں ان سب نے خوب خوب بدلہ بھی لے لیا تھا۔ اجالا کے میکے والوں کو ہال میں پھولوں اور مسکراہٹوں سے ریسیو نہیں کیا گیا، اسٹیج پر اس سے ملنے تو دیا لیکن اس کے ساتھ دو گھڑی بیٹھنے اور باتیں کرنے نہیں دیا، یہاں تک کہ بے انتہا دیر ہونے کے باوجود کھانا بھی نہیں لگایا گیا اور سب ہی میکے والے جھینپتے ہوئے کوئی افسردہ، کوئی روہانسا، کوئی دل میں پریشان وہاں سے چپ چاپ واپس چلے گئے تھے۔ وہ تو شکر تھا کہ سسرال والوں کے نہایت سختی سے منع کرنے کی وجہ سے اجالا کے میکے سے بہت کم لوگوں کو دعوت دی گئی تھی. بہرحال قریب کے تو سارے ہی رشتے دار تھے اور شکر سب ہی اتنے سمجھ دار تھے کہ ان لوگوں کے تیور دیکھ کر یہ سمجھ گئے تھے کہ ہماری بچی کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ اس کے سسرال سے زیادہ میل ملاپ نہ رکھا جائے۔

یہاں یہ حال تھا کہ جوں ہی سب میکے والے مہمان گئے تو ان لوگوں نے کھانا لگوایا اور ندیم بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف کھانے سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔ اس بار اجالا اسٹیج پر اکیلی بیٹھی سوچ رہی تھی، ”مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔“ گو کہ یہ سوچنے کے لیے شاید وہ بہت شروعات تھی لیکن درحقیقت شروعات ہی کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔
٭٭٭٭ شادی شدہ زندگی کی گاڑی چل پڑی تھی سو اجالا اسے گھسیٹنے لگی اور جب گاڑی کہیں پھنس جاتی تو وہ ایڑی چوٹی کا خوب زور لگاتی رہتی۔

آہستہ آہستہ ندیم اس کے حصار میں بندھنے لگے، کم از کم اس وقت تو اجالا کو یہی محسوس ہوتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اچھا وقت گزارتے، خوب باتیں بھی کرتے۔ مگر ہر بات گھوم پھر کر یہیں جاتی کہ ”میری امی اور بہنیں میرے لیے بہت اہم ہیں۔“

اجالا کو بھی برا نہیں لگتا تھا وہ کھلے دل سے کہتی کہ، ”ظاہر سی بات ہے آپ کے سگے رشتے ہیں اہم تو ہوں گے ہی، اور جب آپ کے لیے ہیں تو میرے لیے اور بھی زیادہ ہیں۔“

بس اسے نہایت عجیب اور برا لگتا جب رات کے ان خاص لمحوں میں بھی وہ شخص یہی بات دہراتا رہتا کہ جیسے اس کی نفسیات پر یہ بات سوار ہو۔ ان لمحات میں یہ بات سننا اسے سچ میں ناگوار گزرتا کہ اس وقت بھی کیا اس شخص کے ذہن میں یا آنکھوں کے سامنے ماں اور بہنوں کی شکلیں ہیں۔ کبھی اسے گھن آتی مگر وہ چپ رہتی۔

جب ساس کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو وہ بات چیت بند کر دیتیں اور رات کو سب کی موجودگی میں کھانے کی میز پر اسے طعنے دیا کرتیں۔ جب نند کو کوئی اعتراض ہوتا تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر منہ زوری کرتی۔

بڑی نند کا مرتبہ بھی کچھ عجیب تھا. جب وہ گھر آتی تو اجالا کو مستقل ایک ٹانگ پر کھڑے رہنے کا حکم صادر کر دیا جاتا۔ جب تک وہ لوگ واپس نہیں جاتے یہ اپنا کوئی کام نہیں کر سکتی اور آدھی رات تک لاؤنج میں الرٹ بیٹھنا پڑتا۔ جب کبھی وہ رہنے آتی تب تو شامت ہی آ جاتی۔ الماری سے نئے برتن نکالے جاتے، وہ بستر پر لیٹی رہتی اور اجالا ان کا کھانا پانی لیے کھڑی رہتی، دس دس طرح کے کھانے بناتی مگر پھر بھی ساری خدمتیں کسی کو اپنے شایانِ شان نہ لگتیں اور سب کے منہ بنے کے بنے ہی رہتے۔

بیٹیوں کو عزت و تکریم دینا تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ لیکن اپنی بیٹی کو عزت اور کسی اور کی بیٹی یعنی بہو کو ذلیل کرتے جانا یہ اس معاشرے کا ناسور ہے۔ یہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے دوغلے معیارات ہیں۔

ایسی صورتحال میں ندیم اور اس کا رشتہ اثر انداز ہوتا۔ ندیم کو بند کمرے میں بلا کر نجانے کیا پٹیاں پڑھائی جاتیں اور ان کا مزاج شدید برہم ہو جاتا اور پھر بلا جرم اجالا سے ناراض ہوکر اور اس کی بےعزتی کر کے سب اپنا اپنا حساب برابر کرتے۔ مگر وہ چپ رہتی اور اکثر یہی سوچتی رہ جاتی کہ آخر مجھے کس جرم کی سزا دی جاتی ہے۔

وہ کبھی کبھار اپنی مامی یا کزن دوستوں ماریہ، عشنہ سے بات کرکے اپنا دل ہلکا کر لیا کرتی، خاص کر مامی تو خاندان کی بڑی کی حیثیت سے اچھے مشورے دیا کرتیں۔ لیکن پھر ماریہ سے تو بالکل ہی کچھ کہنا چھوڑ دیا۔ بس کبھی کوئی خاص بات ہوتی تو ابو کو بتایا کرتی اور وہ ہمیشہ یہی کہا کرتے کہ، ”صبر سے کام لو بیٹی، اچھے دن بھی آئیں گے۔“

اور اس طرح اچھے دنوں کے انتظار میں برادشت اور سمجھوتے کرتے کرتے بہت سارا وقت گزر گیا اور یقیناً اچھا وقت بھی آیا، جس میں وہ خوش اور مطمئن بھی رہتی۔

باقی ہر طرح کی آسائش و آرام تھا۔ بہترین کھانا پینا، اعلیٰ ترین پہننا اوڑھنا، ملک در ملک گھومنا پھرنا، بینک بیلنس، زیور، عالیشان گاڑیاں، ڈرائیور ،،، بس کبھی کبھار ساس نند کی چِک چِک یا کبھی شوہر کی خفگی ،،، مگر جب باقی چیزیں اتنی وافر مقدار میں مل رہی ہوں تو یہ سب چیزیں برداشت ہو ہی جاتی ہیں۔

اُجالا طبیعتاً ایک سلجھی ہوئی، محبت کرنے والی اور مخلص لڑکی تھی۔ اس نے گھر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے بڑی قربانیاں دیں، بے جا روک ٹوک اور بےعزتی کا سامنا کرتی رہی لیکن ہمیشہ ہی مسکرا کر آگے بڑھ جاتی اور غلطی نہ ہونے کے باوجود معافی بھی مانگ لیتی۔

اپنے شوہر سے شدید ترین محبت کرتی تھی اس لیے بس یہی چاہتی کہ شوہر مجھ سے خوش رہیں اور یقیناً یہیں پر غلطی ہوئی کیونکہ اصل پروا تو اللّٰہ کی خوشنودی کی کرنی چاہیے تھی۔

اور وہ مجازی خدا اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا عبایا اتروا چکے تھے اور اسکارف اور پوری آستینوں پر بھی اعتراض کرتے تھے۔ لیکن اس حد تک گر جانے میں اسے خود ہی شرم آتی۔ کبھی بہت روتی دعائیں کرتی اور کبھی ڈھیٹ بن کر یونہی سہ جاتی۔ اب یہ بھی نہیں کہ وہ دونوں دین سے بالکل ہی بے بہرہ تھے. دونوں حج کر چکے تھے، نماز روزے کے پابند تھے اور کئی معاملات میں فرائض، سنتوں اور نوافل کا بھی خیال رکھتے تھے۔

مگر وہی بات کہ اسلام اپنی مرضی کے احکام چننے کا معاملہ تو ہے نہیں بلکہ یہ تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے. اور جہاں اس طرح کی روش اپنائی جائے تو پھر مصیبت بھی ٹوٹتی ہے. بس دیکھنے کے لیے نظر اور سمجھنے کے لیے حس ہونی چاہیے۔
جاری ہے ۔۔