بالآخر حدیقہ کی امی نے دعا کروائی ، جو کہ نہایت ہی خلوص اور عاجزی کے ساتھ مانگ رہی تھیں, سننے والیوں کی آنکھیں نم ہو گئیں، ایک عجیب اطمینان والی کیفیت سب پہ طاری تھی، جس کو دیکھ کہ کسی کا بھی ایمان تازہ ہو سکتا ہے
عائشہ شیخ
(پہلی قسط)


ہبا : یار حدیقہ ! تنگ نہیں کرو آخر کیا ہے تمہیں، ہمیشہ ہی مجھے تنگ کرتی رہتی ہو۔ حدیقہ : کیا کیا ہے میں نے؟ ایک handsfree ہی تو اتارا ہے تمہارا۔ ہبا : ہاں تو میں ایک song سن رہی تھی، پتاہے تمہیں، وہ نیا آیا ہے،اتنا hit گیا ہے کہ بس! ایک دن میں سوچ سکتی ہو ایک دن میں اس song کے یوٹیوب پہ 1 million ویوز آ چکے ہیں!!!!! حدیقہ : تو تمہاری صحت پہ اس کا کیا مثبت اثر ہوا؟

ہبا : ایک تو تم بھی نا!! بس رہنے دو کچھ سمجھو گی ہی نہیں۔ ویسے ایک بات بتاوں؟ جب سے تم نے یہ میوزک کا مجھے چھوڑنے کا کہا ہے نا تب سے نا پتا ہے کیا ہوتا ہے، میں سنتی بھی ہوں اور گناہ کا احساس بھی لیکن ساتھ رہتا ہے، ویسے تو میں سنتی تھی سکون سے، تم نے میرا سکون ہی برباد کر دیاہے۔

حدیقہ : اچھا کیا ہے میں نے اور بھی اس طرح کا سکون (so called) برباد کروں گی تمہارا ہباا : تمہیں بس دنیا میں میں ہی ملی ہوں سمجھانے کے لیے؟

حدیقہ : کیوں نہ سمجھاؤں تمہیں ؟ آخر میری پیاری سی دوست ہو تم جب میں جنت کے لیے محنت کرتی ہوں تو میں چاہتی ہوں کہ تم بھی کرو تا کہ جنت میں بھی ہم ساتھ ہوں۔
ہبا : مطلب تم تو میرے پیچھے ہاتھ دھو کے ہی لگی ہو۔ ہے نا ؟
حدیقہ : ہاں! کیوں کہ covid میں ہاتھ دھو کا ہی پیچھےلگنا چاہیے ہبا: صحیح بات ہے ،ویسے تم آئی کیسے ہو؟ میں تو پوچھنا ہی بھول گئی🤦۔ حدیقہ : شکر ہے تمہیں یاد تو آیا ، ہاں میں اس لیے آئی تھی کہ جو سامنے والا گھر ہے نا وہاں مستورات کی جماعت آئی ہوئی ہے،چار بجے بیان ہے چلو چلتے ہیں۔ ہبا: کیا چار بجے؟ صرف 15 منٹ باقی رہتے ہیں, تم پہلے بتاتی نا، اب تو میں ready بھی نہیں ہوں۔ حدیقہ : ready کیا ہونا ہے؟ بس اسکارف اور عبایا لو اور کیا ؟ ہبا: ہاں لیکن عبایا پریس نہیں کیا ہوا نا! اور ابھی بس دس منٹ رہتے ہیں۔ حدیقہ : عبایا دو، میں پریس کردیتی ہوں، تب تک تم وضو کرلو۔ ہبا: سچی؟ میرا عبایا کروگی پریس؟ حدیقہ : ہاں ہاں کردوں گی۔ بے ہوش کیوں ہو رہی ہو اب جلدی کرو، دیر ہو رہی ہے۔ ٭٭٭٭

بیان سن لینے کے بعد ٭٭٭٭

ہبا : یار بیان تو بہت ہی اچھا تھا اچھا سنو وہ جو سامنے عالمہ باجی بیٹھی ہیں، ان سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟ حدیقہ : ہاں پوچھ لو۔
ہبا: ڈانٹیں گی تو نہیں؟ حدیقہ : نہیں ، ڈانٹیں گی کیوں بھلا! ہبا: اچھا صحیح ہے۔
(اس کے بعد حدیقہ کو رات میں ہبا کا میسج ملا ٭٭٭

ہبا: سنو حدیقہ !! یہ بیان کل بھی ہوگا؟ حدیقہ : ہاں جی ہوگا ان شاء اللہ
ہبا: ٹھیک ہے مجھے ساتھ لے کے جانا! آج مزہ آیا وہاں مجھے۔ حدیقہ : ان شاء اللہ ضرور!! ویسے مزہ کیسے آیا تمہیں ؟
ہبا: ہاں بس ویسے ہی۔ بیان بھی اچھا تھا اور عالمہ باجی کے سمجھانے کا انداز بھی۔ اس لیے کل کچھ اور بھی پوچھنا ہے ان سے۔

حدیقہ : ٹھیک ہے کل ملتے ہیں ان شاء اللہ ٭٭٭٭ (دوسرے دن حدیقہ اور ہبا کے ساتھ اس کی امی بھی گئیں ساتھ ہی کچھ کھانے پینے کا سامان بھی لے گئیں) ہباکی امی : یہ خواتین سارا کام اپنا خود کرتی ہیں؟ حدیقہ : جی آنٹی۔ یہ اپنا سارا کام خود ہی کرتی ہیں تا کہ میزبان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو اور وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دین سیکھنے میں لگائے۔
ہبا : آج کے دور میں یہ مکمل پردہ کیسے کر لیتی ہیں؟ حدیقہ : جیسے تم دیکھ رہی ہو
(تیسرے دن ان تینوں کے ساتھ حدیقہ کی امی بھی گئیں) وہاں ان مستورات میں موجود ایک عالمہ نے تعلیم کی اور اس کے بعد حدیقہ کی امی سے کہا گیا کہ آپ دعا کروائیں، وہ ان کو کہتی رہیں یہ ان کو کہتی رہیں بالآخر حدیقہ کی امی نے دعا کروائی ، جو کہ نہایت ہی خلوص اور عاجزی کے ساتھ مانگ رہی تھیں, سننے والیوں کی آنکھیں نم ہو گئیں، ایک عجیب اطمینان والی کیفیت سب پہ طاری تھی، جس کو دیکھ کہ کسی کا بھی ایمان تازہ ہو سکتا ہے ٭٭٭٭

مستورات کی جماعت اب اس گھر سے رخصت ہونے والی تھی، الوداعی کلمات ہر طرف سے جاری تھے: ہبا : مجھے تو رونا آرہا ہے۔
حدیقہ : تم تو ہو ہی جذباتی ،جو سکھایا ہے انہوں نے اس پہ عمل کرنا۔ ہبا: پہلے تم تو کرو۔
حدیقہ : کوشش جاری ہے،دعا کرنا۔ ہبا: میں ان سے facebook id لوں؟ حدیقہ : کیوں ؟ تا کہ تم انہیں tag کر کر کے تنگ کرو
ہبا: چپ رہو تم،سمجھیں!
حدیقہ کی امی : تم دونوں یہاں بھی شروع ہوگئیں! ہباکی امی : عادت سے مجبور ہیں ، پھرحدیقہ کی امی سے مخاطب ہو کر : یہ مستورات کی جماعت اپنے گھر کیسے بُلا سکتے ہیں ؟

حدیقہ کی امی : ہاں, جب کسی شہر میں مستورات کی جماعت آنے والی ہوتی ہے نا تومسجد میں بتایا جاتا ہے پھر جو لوگ اپنے گھر کا نام لکھواتے ہیں تو پھر اس حساب سے آگے۔۔
ہبا کی امی : اچھا, پھر یہ جو خرچہ پانی ہوتا ہے وہ، وہ کون کرتا ہے؟ حدیقہ کی امی : خود ہی کرتے ہیں سارا کچھ، میزبان کو بالکل بھی کسی قسم کے تکلف میں نہیں ڈالتے۔ اگر کوئی کچھ ہدیہ کے حساب سے لے کہ آتا بھی ہے تو وہ بھی اس وقت وہاں موجود خواتین میں مل جل کے شیئر کر کے کھاتے ہیں۔ ہبا : جی آنٹی, sharing is caring
حدیقہ کی امی : جی بیٹا بالکل۔
ہبا کی امی : ان سے مل کے بہت اچھا لگا۔ بہت ہی با اخلاق اور نرم طبیعت کے لوگ ہیں، امن پسند لوگ ہیں اب مجھے سب سمجھ میں آ گیا ۔
حدیقہ کی امی : ہاں جو ان سے ایک دفعہ جڑ جاتا ہے وہ پھر الگ نہیں ہوسکتا ہبا : شکر ہے امی کو سمجھ تو آیا۔
حدیقہ : ایسے بولتے ہیں بے وقوف! تمہیں تو جیسے سب کچھ پہلے ہی پتا تھا ہبا : اچھا بس نا! ٭٭٭

(بیانات کا سلسلہ ختم ہوجانے کے بعد،ایک دن حدیقہ کوہبا کی کال) ٭٭٭٭

ہبا : السلام علیکم
حدیقہ : وعلیکم السلام وعلیکم السلام وعلیکم السلام۔۔۔ کیسی ہو ہبا ؟
ہبا : میں نے تو تمہیں ایک دفعہ سلام کیا ہے،تم نے تین دفعہ کیوں جواب دیا ؟ نیند میں ہو کیا! حدیقہ : ارے نہیں! میں نے خوشی میں ایسا کہا ہے الحمداللہ۔ ویسے تم ہمیشہ Hi یا Hello ہی کرتی ہو۔ آج تم نے سلام کیا تو بہت اچھا لگا۔ ویسے یہ تبدیلی کیسے آئی؟

ہبا : ہاں وہ ایسے کہ، اس دن میں جو عالمہ باجی کے ساتھ بیٹھی تھی تو ان کے پاس جو بھی کال آ رہی تھی تو وہ السلام علیکم ہی کہہ رہی تھیں اور مجھے ان کا وہ انداز بہت اچھا لگا، اس لیے۔۔۔
حدیقہ : اچھا صحیح۔ صحیح خیر اور بتاؤ کیسے کال کی تم نے؟
ہبا : ہاں وہ مجھے کچھ بات کرنی تھی، تم مصروف تو نہیں؟
حدیقہ : میں کچن میں ہوں، لیکن خیر ہے تم کہو۔ ہبا : اب دھیان سے سننا، دونوں کانوں سے! حدیقہ : دونوں کانوں سے کیسے! فون تو ایک ہی کان سے لگایا جاتا ہے ہبا: اچھا اوہ ہاں! میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئی تھی حدیقہ : خیر اب بتاؤ کیا کہنا ہے ؟

ہبا : اچھا،میں یہ کہہ رہی تھی کہ ابھی رمضان آنے والا ہے نا تو تم مجھے ایک help دو۔ حدیقہ: ہاں کہو، کیا کر سکتی ہوں میں تمہارے لیے؟

ہبا : تم مجھے سحری میں اٹھا دیا کرو، کال کر کے، تمہیں تو پتا ہے نا کہ میں رات دیرسے سوتی ہوں تو میری فجر کی نماز نکل جاتی ہے اور رمضان میں تو یار مس نہ ہو نا!
حدیقہ : تم اپنے گھر میں کسی سے کہو نا کہ تمہیں اٹھا دیا کریں! ویسے تم سحری نہیں کرتیں؟ ہبا : نہیں نا تم اٹھا دیا کرو بس، سحری بس رات کو دیر سے کچھ کھاتی ہوں تو وہی۔ حدیقہ : اچھا، میں اٹھا دیا کروں گی لیکن یہ اچھا نہیں کہ تم سحری skip کرو، اس طرح تو پھر فجر بھی قضا ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔

ہبا: شروع ہو گیا تمہارا لیکچر؟ حدیقہ : ایک تو تم بھی نا کچھ بتاؤ تو مسئلہ نا بتاؤ تو مسئلہ۔ انسان جاۓ تو جاۓ کہاں آخر ہبا : ہاہاہاہا

حدیقہ : اب اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے ؟ ہبا : ویسے ہی تمہیں تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے۔
حدیقہ : اچھا یہ بتاؤ! تم نماز کی پابندی کر رہی ہو؟ ہبا : ہاں !لیکن دو دن سے گھر میں مہمان تھے تو اتنی نہیں ہو رہی تھی۔ حدیقہ : مہمان تمہیں منع کر رہے تھے نماز پڑھنے سے ؟
ہبا : نہیں پاگل !مطلب ٹائم ہی نہیں مل رہا تھا ! حدیقہ : ہبا کتنی عجیب بات ہے نا جس نے ہمیں بنایا اور وقت کو بنایا اسی کے لیے ہی آج ہمارے پاس وقت نہیں! یہ کیسا وقت ہے! اللہ اکبر۔ (جاری ہے) ✒️عائشہ شیخ