بے چاری فاختہ، نرم ملائم پروں والی معصوم سی، اس ظالم کی قیدی بن گئی، وہ مکروہ جلاد اس کے پر نوچتا کھسوٹتا ، ٹھونگیں مارتا، اسے طرح طرح کی اذیت دے کر اپنی فتح کا جشن مناتا، کومل، گداز بدن فاختہ مرجھاکے رہ گئی، کیوں کہ اس کا ساتھی نر ایک گدھ تھا، جوبد شکل تھا، ظالم اورسفاک تھا ۔فاختہ نے بہت کوشش کی کہ اس بد فطرت اور بد خصلت ساتھی سے چھٹکارا پا سکے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
ارم رحمان لاہور
ایک کائیاں گدھ ٹیلے پہ تن تنہا جھینپ رہا تھا اور اپنے دوستوں سے بھی نالاں تھاکہ کوئی اس کے کام نہ آسکا اور وہ نرم گداز فاختہ کے حسین وجود کو پانے میں ناکام رہا ،ان کا حریف موٹا کالا گدھ لے اڑا اور اس سے ٹکر کون لے کیونکہ معاہدے کے مطابق جب کوئی مادہ ،گدھ کے حرم میں پہنچے گی تو باقی کی اس تک رسائی ختم ،اس سے دست درازی کرنا جرم تھا، جب تک وہ گدھ خود وہ تر نوالہ ان کے حوالے نہ کردے ،گدھوں کا یہ قانون گلے کا طوق بن چکا تھا، جب کبھی کوئی گدھ کسی بھی مادہ کو لے اڑتا، اس پہ یہ قانون لاگو ہو جاتا، باقی سب منہ تکا کرتے۔اب بھی یہ ہی ہوا کہ کئی دن سے جو فاختہ ایک گدھ کے دل و دماغ پہ چھائی ہوئی تھی ،اسے دوسرا لمبی تھوتھنی اور کریہ شکل والا گدھ لے اڑا تھا۔ بے چاری فاختہ، نرم ملائم پروں والی معصوم سی، اس ظالم کی محبوبہ نہیں بلکہ قیدی بن گئی، جس سے وہ اپنی مرضی کے مطابق سلوک کرتا، وہ مکروہ جلاد اس کے پر نوچتا کھسوٹتا ، ٹھونگیں مارتا،وہ صرف بدن ہی نہیں اس کی روح بھی زخمی کر چکا تھا ۔ اسے طرح طرح کی اذیت دے کر اپنی فتح کا جشن مناتا، کومل، گداز بدن فاختہ مرجھاکے رہ گئی، اس کا مالک گدھ بدشکل تو تھا ہی، مگر اپنی بدبودار سوچ سے اس کے نرم و نازک دل پہ بھی کچوکے لگاتا اسے باہر نکلنے کی کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، کیوں کہ اس کا ساتھی نر ایک گدھ تھا، ظالم سفاک، فاختہ نے بہت کوشش کی کہ اس بد فطرت اور بد خصلت ساتھی سے چھٹکارا پا سکے، مگر اس جابر نے پر ہی کتر ڈالے، فاختہ اپنی ہم جولیوں اور خاندان والوں سے ملنے سے قاصر تھی ہر لمحہ بے بس اور یاسیت کا شکار ، اس گدھ کی قید سے ہر دم نکلنےکو تیار، گرم لو کے جھونکے سرد طوفان اور برسات کی رم جھم سب سہنا آسان تھا، مگر اس جیسے سفاک اور ظالم ساتھی کا ساتھ برداشت کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا ، محبت تھی نہ ہم آہنگی، عجیب بے ڈھنگا ،بے جوڑ تعلق، کوئی تو خوبی ہوتی ،کوئی محبت ،دل جوئی، مگر ہم سفر میں نرم و لطیف جذبات ہی ناپیدتھے، وقت کا دھارا بہتا رہا دھیرے دھیرے گدھ کی توجہ فاختہ کی طرف کم ہوتی گئی، اب اسے کسی اور نرم گرم وجود کی تلاش تھی، جو اس کی ہوس کی بھوک مٹا سکے ،ادھر فاختہ کے پر نکل آئے اس کے زخم بھر گئے، وہ پھر سے پھڑپھڑانے کے قابل ہوگئ، جب ایک دن وہ گدھ کسی اور شکار کی تلاش میں چلاگیا تو فاختہ اسے صحیح موقع جان کر اس کے حرم سے جا اڑی ۔۔
کافی دیر کھلی فضا میں خوب کھل کے گہرے گہرے سانس لیے، پھولوں کو چوما، خوشبو کو سانسوں میں بھرا ، نیل گگن میں اڑتی رہی یہاں تک کہ اس کی روح نہال ہوگئ ، تیز ہوا کے جھونکے نے اس کے زخموں کو پیار سے سہلایا اور وہ خود کو تندرست وتوانا محسوس کرنے لگی ، اس میں جینے کی نئی امنگ پیدا ہوگئی، وہ یکے بعد دیگرے اپنی ہم جولیوں کے پاس گئی ،خاندان والوں سے ملی اور جب سب کو یہ پتا لگا کہ یہ حرم چھوڑ آئی ہے تو کسی نے بھی خوشی کا اظہار نہیں کیا سب نے کہا واپس چلی جاؤ کیسے رہو گی؟
فاختہ کو حیرت تھی کہ کوئی خوش کیوں نہیں ؟فاختہ تو بہت اونچی اڑان بھرنے کو، بے چین تھی ، اپنی زندگی آزادی اور خوشی سے جینے کو بے قرار تھی، وہ ڈال ڈال بیٹھی اپنے آشیانے کے لیے جگہ پسند کی، اپنی مرضی سے رہنے کا فیصلہ کیا اسے خود پہ مان تھا کہ اسے کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں، اور ہوئی تو اپنی مرضی کا ساتھی چن لے گی ورنہ یہ کھلا نیلا آسمان ، چاند تارے ،پھول نظارے ،ان سب میں زندگی تھی، رعنائی تھی، ان کے سہارےوہ تنہا بھی رہ سکتی ہے اس کے ہم نفس اس سے خفا ہوگئے، کوئی اس کے اس طرح بالکل تنہا رہنے پہ آمادہ نہیں تھا، وہ دھن کی پکی تھی ، لگی رہی اپنی من مانی کرنے میں، وہ چاہتی تھی کہ کسی مضبوط درخت پہ گھونسلا بنایا جائے، اسے ہر آسائش سے آراستہ پیراستہ کیا جائے لیکن کسی نے بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ، ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے ،اس موج مستی میں کہ اس کے ارد گرد بہت سے گدھ منڈلانے لگے، وہ کبھی کہیں چھپتی کبھی کہیں، ایک گرم دوپہر جب شدید ہو کا عالم تھا اچانک اسے ایک گدھ نے دبوچنا چاہا وہ بھاگی گدھ کی ٹھونگ اس کو لگی ضرور تھی وہاں زخم بھی ہوگیا مگر وہ پھر بھی اڑی اور دوسرے گدھ کے پنجوں میں آتے آتے بچی ،وہ اڑتی رہی ،وہ ہانپتی کانپتی رہی ،بچتی بچاتی رہی مگر وہ کہاں جاتی ہرجگہ گدھ ہی گدھ ان کی ٹپکتی گندی رالیں ، ان کے تیز شکنجے جیسے پنجے، کس سے مدد مانگتی کس کا در کھٹکھٹاتی منصف بھی گدھ، وکیل بھی گدھ ،وہ جتنا اڑ سکتی تھی، اڑی ،کئی گدھوں کی نوکیلی چونچیں اس کے نازک بدن کو داغدار کر چکی تھیں، ان سے خون رس رہا تھا، اس کی ملائم پر کئی جگہ سے چھل گئے تھے، اس میں مزید اڑنے کی سکت نہیں تھی، وہ بے ہوش ہو کر گرپڑی ۔
نہ جانے کب تک بے ہوش رہی اور جب اسے ہوش آیا، اس نے آنکھیں کھولیں ، گدھوں کی ایک بڑی سی ٹولی ,کچھ فاصلے پہ بیٹھی اسے بے بسی سے گھور رہی تھی لیکن اس کے قریب نہیں آسکتے تھے کیوں کہ اب کی بار پہلے سے بھی بڑے خونخوار گدھ نے اس پہ اپنے پر کا سایہ کیا ہوا تھا