بعض اوقات انسان لاعلمی میں ایسا کچھ کرجاتا ہے۔جس کا خمیازہ اسے ہر حال میں بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ مکافات عمل اٹل ہے ۔۔۔اور ایک تلخ حقیقت بھی۔۔کسی کے ساتھ کیا گیا ناروا سلوک آ پ کی زندگی میں سے سکون چھین سکتا ہے۔

ام عبد اللہ رمضان کراچی


اس کےسر پر سہرا سجنا تھا۔ کفن میں لپٹا ہوا ہے ۔ میرا لعل۔۔۔۔۔!!!
یہ کیا ہوگیا۔۔۔؟؟؟
میرا عارف کنوارا ہی دنیا سے چلا گیا۔ میرے اللہ تونے میرا فرما ں بردار بیٹا مجھ سے چھین لیا ۔.۔۔۔!!!
میرا ہنستا مسکراتا بیٹا لمحوں میں ہی خاک ہوگیا۔۔۔
اس ماں کی آ واز آ ج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔۔
٭٭٭٭

سارہ نیک سیرت،پڑھی لکھی، سگھڑ،صوم صلوٰۃ کی پابند۔۔!! جسے اس نے کچھ الزام لگاکر ریجیکٹ کردیا، جس سےاس معصوم لڑکی کی خاندان میں بدنامی بھی ہوئ تھی۔ آ ج سارہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ یہ سب بھولی نہیں تھی ۔یہ تو اس کی اعلیٰ ظرفی کہیں یا فراخ دلی جو اس کی موت کی خبر سنتے ہی اس کی ماں بہنوں کو تسلی دینے چلی آ ئی تھی۔ ٭٭٭

عارف کے ماں باپ نے خاندان میں شریف اور سگھڑ لڑکی دیکھ کر اس کا رشتہ طے کردیا۔عارف کو اس کا علم تھا ۔ اس وقت وہ خاموش رہا۔ لیکن بعد میں اس نے اس رشتے سے انکار کردیا ۔نہ صرف انکار کیا بلکہ سارہ پر کچھ بے بنیاد الزامات بھی لگا ڈالے۔گھر والوں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانا بلکہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ۔یہ بات پورے خاندان میں پھیل چکی تھی ۔سارہ کو اس کی ماں نے بے خبر رکھنا ہی بہتر جانا۔لیکن ایسی باتیں چھپتی کہاں ہیں ۔سارہ کو اس بات کی خبر ہوگئی اور یہ خبر اس کے دل میں تیر بن کر اتری۔سارہ کو رشتہ نہ ہونے کا غم نہیں تھا ۔بلکہ اسے خاندان میں بدنامی کے زخم نےگھائل کر دیا تھا ۔

بعض اوقات انسان لاعلمی میں ایسا کچھ کرجاتا ہے۔جس کا خمیازہ اسے ہر حال میں بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ مکافات عمل اٹل ہے ۔۔۔اور ایک تلخ حقیقت بھی۔۔

کسی کے ساتھ کیا گیا ناروا سلوک آ پ کی زندگی میں سے سکون چھین سکتا ہے۔ یہی کچھ عارف کے ساتھ بھی ہوا۔شادی کی عمر نکلتی جارہی تھی ۔اچھا کمانے کے باوجود وہ شادی نہ کرسکا ۔ کچھ عرصہ سے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔پہلے تو وہ موسمی اثرات سمجھ کر نظر انداز کر تا رہا۔ طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑتی ہی چلی گئی ۔اور ایک دن اسے اور اس کے گھر والوں کو یہ دل سوز خبر سننے کو ملی کہ اس کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہیں اور وہ کچھ دنوں کا مہمان ہے۔شہر کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج کروایا گیا ۔لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ہسپتال میں داخل ہوئےایک مہینہ ہونے کو تھاکہ ڈاکٹروں نے اس کے سب گھر والوں کو بلوالیا کہ اب اس کا آ خری وقت چل رہا ہے ۔اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔ہسپتال میں اس کے ماں باپ ،بہن بھائی کسی معجزے کا انتظار کر رہے تھے ۔لیکن موت کو کون ٹال سکتا ہے ۔اپنے وقت پر آ کے ہی رہتی ہے ۔۔ اس وقت دولت بھی کام نہیں آ تی اور نہ ہی کوئی دعا قبول ہوتی ہے ۔