جی مجھ جیسی لڑکی نے ایسے ماحول میں ایک مہینہ گزارا، اس سے زیادہ کی توقع آپ مجھ سے نہیں رکھیے گا ۔ ہم صرف آپ کو یہاں یہ بتانے آئے ہیں کہ کل ہم یہاں سے جارہے ہیں ۔ اپنی بات پوری کرکے وہ کمرے سے چلی گئی اور صفوان بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ صائمہ بیگم بھیگی آنکھوں سے اپنا خالی دامن دیکھتی رہ گئی۔

ام حمید میر پور خاص


مریم! ----- مریم! ------ یہ کہاں سننے والی ہے،مجھے خود ہی جانا پڑے گا اس کے پاس ۔ ارے بہو کہاں ہو ! ساجدہ بیگم منہ میں پان کی پیک بھرے ہوئے بولے جارہی تھیں ۔۔ ایک کمرے میں گئیں جہاں مریم کو نہ پاکر دوسرے کمرے کا رخ کیا ۔مگر جب وہاں بھی اُس کو نہ پایا تو پریشانی سے تیز قدم اٹھاتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔

بھری دوپہر میں سورج یوں محسوس ہوتا تھا جیسے صحن میں اترنے کو تیار ہے ۔ ہوا کا نام و نشان تک نہ تھا ،ایسے میں ساجدہ بیگم کچن تک پہنچی تو کچن کا دروازہ بند دیکھ کر اپنی بہو کو آواز لگاتے ہوئے کچن کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔

مریم ! ------- ساجدہ بیگم کے دروازہ بجانے کی دیر تھی کہ دروازہ خود بخود کھلتا چلا گیا ۔ مریم اپنے خیالوں میں مگن کھانا کھاتے ہوئے ایسا چونکی کہ پانی کا بھرا گلاس بھی ہاتھ سے گر گیا ۔ منہ سے صرف میہ میہ میہ -----

آگے مزید کچھ کہنے کو زبان تک نے ساتھ نہ دیا۔جیسے اس کی کوئی چوری ہاتھ آگئی ہو ۔ ساجدہ بیگم نے کچن میں دیکھا تو وہاں پیالی میں گوشت آلو کا سالن موجود تھا ۔ انھوں نے اپنی بہو سے پوچھا : یہ سالن کہاں سے آیا ؟؟؟؟ تو اس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا : سامنے والی صائمہ باجی کے گھر سے منگایا ہے ۔ ساجدہ بیگم نے سنتے ہی اپنے کانوں کے ہاتھ لگائے ۔

توبہ-------- توبہ ---------- تمہیں کتنی دفعہ منع کیا ہے ان کے گھر سے کچھ بھی منگا کر نہیں کھایا کرو ۔ تمہیں پتا نہیں ہے وہ لوگ بنک سے لون اٹھاتے ہیں اور سود پر پیسے لیتے اور دیتے ہیں ۔ان کے گھر کا کچھ بھی کھانا پانی پینا ہمارے لیے جائز نہیں ۔ ایک تم ہو جب تک ان کے گھر کا کچھ نہ کھاؤ تمہیں سکون ہی نہیں آتا ۔ ساجدہ بیگم اپنے کام کا کہے بغیر لمبی وعظ و نصیحت کرکے ( لا حول ولا قوہ ) پڑھتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئیں۔ ٭٭٭٭

صائمہ بیگم کے پانچ بچے تھے ۔ تین بیٹیاں اور دو بیٹے ۔ بڑی دو بیٹیاں حیا، حمنہ ، پھر ایک بیٹا صفوان اس سے چھوٹی ایک بیٹی حمیرا اور سب سے چھوٹا بیٹا سوہان تھا ۔ کسی کا موت کا منظر ہو یا شادی کی تقریبات صائمہ باجی ہر جگہ نظر آتیں ۔ کسی کو وعظ و نصیحت کرنی ہوتی تو یہ سب سے آگے ہوتی ، چہ میگوئیاں کرنے میں تو انھیں جیسے اعزاز حاصل تھا ۔ " دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت" والا معاملہ تھا ۔

بیٹی کی شادی کرنی ہے بنک سے لون لے لو ، بیٹے کو کاروبار کروانا ہے بنک سے لون ، شوہر بیمار ہے بنک سے لون ، خود تو لیتی ہی لیتیں مگر دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتیں ۔تمام محلے دار ان کی اس عادت سے بے انتہا پریشان تھے ۔اگر کوئی سمجھاتا تو کہتیں : قسط کا آخری مہینہ ہے اب نہیں لوں گی۔میں تو خود بہت پریشان ہوں۔ ہر مہینے دروازے پرقسط والے آجاتے ہیں پیسے لینے ، رقم نہیں ہوتی تو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔ مگر ہوتا کچھ یوں کہ جب یہاں سے اٹھ کر گھر جاتی اپنی کہی بات یہیں چھوڑ جاتی ۔ کچھ ہی دن گزرتے پھر کسی نئے بنک سے لون لے لیتیں ۔ ایک عرصے تک یہی سب کچھ چلتا رہا ۔ ٭٭٭٭

گھر سجانے میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے ، آخر کو میرے برخوردار کی شادی ہے ۔ حیا ، حمنہ کی شادی تو حالات سے مجبور مجھے سادگی سے کرنی پڑی ، مگر اب کوئی کسر نہیں رہنی چاہیے ۔ صائمہ بیگم اپنی ہی لے میں بولتی چلی گئیں ۔ کبھی گھر سجانے والے پر حکم صادر کرتیں ، کبھی کام والی کی شامت آتی ۔ ہر طرف گہما گہمی کا ماحول تھا ۔ کہیں لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں گانے گاتی نظر آتیں ، کوئی کپڑے استری کرتے ہوئے ، کوئی اپنے چہروں کو نکھارنے کی کوشش کرتا ہوا ، آخر کو آج صفوان کی بارات کا دن تھا۔ صائمہ بیگم کبھی اپنے بیٹے پر صدقے کے پیسے وارتیں ، کبھی ہاتھوں سے بلائیں ٹالتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر طریقے سے اپنے بیٹے کے چاہ پورے کرکے آخر کو وہ اپنی بہو کو گھر لے ہی آئیں ۔ ٭٭٭٭

دیکھا امی جی آپ نے صائمہ باجی نے صفوان کی شادی میں پورے پچاس پچاس کے نوٹوں کی گڈیاں وار کے لٹائی ہیں ۔ شادی کو ایک مہینہ گزر گیا لیکن پورے محلے والوں کی زبان سے صفوان کی شادی کا تذکرہ نہیں گیا ۔ شادی بھی تو ایسی کی تھی صائمہ باجی نے ۔
مریم اپنی ہی دھن میں مگن اپنی ساس سے بولے جارہی تھی ۔ بس کر جا مریم ! ۔۔۔۔۔
پورا محلہ تو کم میں تو پورے دن تیرے ہی منہ سے صائمہ باجی ، صائمہ باجی کے نعرے سنتی رہتی ہوں ۔ تو کیوں اس کی اتنی دیوانی رہتی ہے ؟
پچاس پچاس کے نوٹوں کی گڈیاں لٹادیں تو کیا ہوگیا کون سا محنت کی کمائی سے پیسہ ہاتھ آیا ہے جو لٹانے سے پہلے سوچیں ۔پرائز بونڈ کھلا تھا۔
مریم یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا ؛
حرام کا پیسہ جیسے ہاتھ میں آتا ہے ایسے ہی چلا بھی جاتا ہے اور انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے ۔ ساجدہ بیگم نے بولنا شروع کیا ہی تھا کہ مریم سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔ ٭٭٭

شادی کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ عاتکہ نے صفوان سے الگ گھر کا مطالبہ شروع کردیا ۔ امی مجھے شہر میں جو فلیٹ ملا ہے میں اس میں شفٹ ہونا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ صفوان نے اپنی ماں سے بہت نڈر انداز میں یہ بات کہی ۔۔۔۔۔۔ اس کی ماں نے حیرت سے پوچھا:
کیوں اس گھر میں کیا مسئلہ ہے ؟
امی عاتکہ یہاں نہیں رہنا چاہتی ۔
عاتکہ ؛ حیرت کا دوسرا جھٹکا ۔۔
جی میں: مجھ جیسی لڑکی نے ایسے ماحول میں ایک مہینہ گزارا اس سے زیادہ کی توقع آپ مجھ سے نہیں رکھیے گا ۔ ہم صرف آپ کو یہاں یہ بتانے آئے ہیں کہ کل ہم یہاں سے جارہے ہیں ۔ اپنی بات پوری کرکے وہ کمرے سے چلی گئی اور صفوان بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ صائمہ بیگم بھیگی آنکھوں سے اپنا خالی دامن دیکھتی رہ گئی ۔ ٭٭٭

ساجدہ بیگم کے گھر میں خوشیوں کی انتہا نہ رہی ۔ اللہ نے آٹھ سال بعد مریم کو خوبصورت گلاب جیسے بیٹے سے نوازا تھا ۔لیکن یہ خوشیاں چند ہی دن کی مہمان تھی ۔ننھا سا گلاب پانچ دن کا ہوا تو پیدائشی نمونیہ کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ایسے سوگوار لمحے پر ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ مریم کا روروکر حال برا ہورہا تھا ۔آج اسے اپنی ساس کی کہی ساری باتیں یاد آرہی تھی ۔ دل کا یہ حال تھا کہ رب کے حضور میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی پھر مایوسی سے نیچے گرا دیتی اور رونے لگ جاتی بس یہی سوچتی رہتی جب منہ میں نوالہ حلال نہیں تو کس امید سے اپنے رب سے مدد مانگوں ۔۔۔۔ ٭٭٭٭

رات مغرب کی نماز کے بعد کا وقت تھا ۔ سب اپنے اپنے کام میں مگن تھے ۔ صائمہ بیگم ٹی وی پر اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھ رہی تھی ۔ حمیرا اپنا موبائل چلانے میں مصروف ، جبکہ سوہان اپنے دوستوں کے ساتھ باہر تھا ۔ اچانک ان کے بڑے نندوئی کے گھر سے فون آیا (جو ان کی بیٹیوں کے سسر بھی تھے ) کہنے لگے کہ ہم نے ان دونوں کو فارغ کردیا ہے ۔ ان کو آکر یہاں سے لے جاؤ۔

صائمہ بیگم نے جو سنا اس کو اپنے کانوں کی غلطی سمجھ کر پھر پوچھا : کیا کہا ؟؟؟

اب کی دفعہ ان کے داماد نے کھل کر بتایا: ان دونوں کو ان کی بے انتہا بدتمیزی کی وجہ سے انہیں طلاق دے دی ہے ۔ یہ سنتے ہی صائمہ بیگم زمین پر گر پڑی۔ ٭٭٭

دیکھا ساجدہ بیگم کتنے لاڈ سے صائمہ بہو بیاہ کر لائ تھی ، بہو تو گئ ہی مگر بیٹے کو بھی لے گئ۔ چھ ماہ ہونے کو آئے اس نے شکل تک نہ دکھائی ۔ اوپر سے ان کے گھر میں اتنی بڑی قیامت ٹوٹ پڑی ۔ اللہ ہی رحم کرے ان کے حال پر ۔۔۔۔۔

نور النساء بیگم اپنی ہی دھن میں بولتی چلی جارہی تھیں۔ یہ سب اپنے کیے کا نتیجہ ہے ۔ کہیں کسی کی کوئ بات پتا چل جاتی تو صائمہ طنز و طعنے کے تیر چلانے پہنچ جاتیں ، ہر کسی کی تکلیف کا مذاق اڑاتی ۔ ساجدہ بیگم اور نور نساء بیگم پاندان سنبھالے اپنے ہی انداز میں باتیں کیے جارہی تھیں ۔ ٭٭٭

آٹھ سال بعد ---------- وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے اس کا تو کام ہی گزرنا ہے وہ کسی کے پیچھے نہ تو رکا نہ رکے گا ۔ صائمہ بیگم کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہو گئیں ۔ اب تو ان کی یہ حالت تھی کہ ہر وقت موت کا انتظار کرتی رہتیں۔ کبھی اللہ سے اپنی پچھلی زندگی پر توبہ اور استغفار کرتیں ، کبھی خود ہی اسے اپنے ہاتھوں کی کمائی سمجھ کر ناامیدی سے اپنے ہاتھ جھٹک دیتیں ۔ بس اب خود کو انھوں نے اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔ "برے کاموں کا ہمیشہ برا ہی نتیجہ ہوتا ہے"