میری کسی کو فکر ہی نہیں ہے میرے سر میں درد ہے مجھے ہاسپٹل نہیں لے کر جا رہے آج اگر میں ماڈل ہوتی تو آگے پیچھے ڈھیروں لوگ ہوتے جو میرا خیال رکھتے۔۔ میرے نوکر چاکر میرے آگے پیچھے گھومتے اور لیے اچھے اچھے کھانے بنا کر لاتے، مجھے کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا بس ان کو ماہانہ تنخواہ دینا میرا کام ہوتا

مریم رحمن کراچی


ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔! خوب زور سے کوئی دروازہ بجا رہا تھا، اندر بیٹھا فیصل چونک کر پریشان ہوتا ہوا دروازے کی طرف بھاگا، دروازہ کھولا تو سامنے اس کی بیوی کھڑی تھی، دروازہ کھلتے ہی جھٹ سے اندر آگئی ، بیگ میز پر پھینک کر صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی ، فیصل جو یوں ہی حیران کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ، دروازہ بند کرکے پانی لے کر اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اسے پانی کا گلاس پکڑا کر پیار سے وجہ پوچھنے لگا۔

فیصل اب مزید میں اسے تڑپتا نہیں دیکھ سکتی ، وہ ماڈل بننا چاہتی ہے یار ، آسمان کی بلندیوں کو چھونا چاہتی ہے، میں اسے آزاد کروا کر رہوں گی، اس کے گھر والوں نے اب تک پرانے زمانے کے اصول اپنے گھر میں لگا رکھے ہیں، ایسا تھوڑی ہوتا ہے، مجھ سے نہیں دیکھا جاتا، آج ہی تم چلو میرے ساتھ اور کوئی اچھی جگہ تلاش کرتے ہیں تاکہ اسےگھر سے نکلنے کے بعد رہائش کا مسئلہ نہ ہو۔

اچھا ٹھیک ہے زویا تم پانی تو پیو ابھی ابھی تو یونیورسٹی سے آئی ہو کچھ کھا پی کر آرام کرو اور ہم شام میں چلتے ہیں آج۔۔۔ فیصل نے آخر کار ہار مان ہی لی۔ سچ فیصل؟ زویا نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ جی بالکل بیگم ، فیصل نے اسے تسلی دی۔ ارے واہ پھر تو میں ابھی ہی راحیلہ کو بتا کر آتی ہوں۔ زویا خوشی خوشی اپنا موبائل بیگ سے نکال کر اندر والے کمرے میں چلی گئی اور راحیلہ کو فون کرنے لگی، باہر بیٹھا فیصل سر پکڑ کر رہ گیا۔ ٭٭٭

فیصل اور زویا دونوں اچھی شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے، ان کی اولاد نہ تھی لیکن وہ پھر بھی اللہ رب العزت کی رضا میں راضی تھے، زویا کی خواہش دیکھتے ہوئے فیصل نے اسے آگے پڑھنے کی اجازت بھی دے دی تھی، اس لیے وہ یونیورسٹی جانے لگی، وہاں اس نے ایک دوست بھی بنالی۔

راحیلہ اچھے گھرانے سے تھی لیکن اس کے گھر میں کچھ پابندیاں تھیں ، ان کا گھر لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف بالکل نہ تھا اسی وجہ سے وہ یونیورسٹی آتی تھی، اسے پڑھنے کا شوق تو زیادہ نہیں تھا ، بس گھر سے دور رہنے کا ایک بہانہ تھا، راحیلہ جب بھی اپنے گھر والوں کے آگے اپنی خواہش ظاہر کرتی اس کے گھر والے اسے منع کر دیتے ،اس وجہ سے وہ گھر والوں سے ناراض رہتی تھی، زویا بھی اس کی سفارش لے کر اس کے گھر اس کی امی کے پاس گئی لیکن انہوں نے صاف منع کردیا کہ یہ پیشہ ہمارے گھر کے شایانِ شان نہیں ہے، ہم اپنے گھر سے طوائف نکلتی نہیں دیکھ سکتے، جس کا کام صرف لوگوں کو اپنے جسم اور کپڑوں سے خوش کرنا ہو۔

دوسری طرف راحیلہ اپنی پسندیدہ ماڈل اور اس کی زندگی سے شدید متاثر تھی اور اس جیسی زندگی کی خواہش کرنے لگی تھی ، گھر والوں سے چھپ کر اس نے اپنی پرو فائل بھی بنا لی تھی، جس میں الگ الگ لباس کے ساتھ الگ الگ طرح سے بہت سی تصویریں تھیں لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ہر خواہش کا پورا ہونا بھی اچھا نہیں ہوتا۔

شام ہوتے ہی وہ فیصل کے ساتھ راحیلہ کے لیے گھر دیکھنے نکل گئی ، اس دن تو کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن کچھ دن تک مسلسل کوشش کے بعد بالآخر ان کو گھر مل ہی گیا جس کا کرایہ بھی مناسب تھا اور راحیلہ کے اپنے گھر سے بھی کافی دور تھا ، فیصل اس طرح اس کے گھر چھوڑ دینے کے حق میں نہ تھا، زویا کو بھی سمجھانے کی بہت کوشش کی، زویا اس کی بات سمجھ تو جاتی لیکن اگلے دن اپنی دوست کے آنسو دیکھ کر پھر وہی ضد کرنے لگتی کہ مجھے اپنی دوست کی مدد کرنی ہے اس نے صرف گھر کا انتظام کرنے کا ہی تو بولا ہے باقی سب کام وہ خود کر لے گی، اس نے اپنی پرو فائل بھی جمع کروا دی ہے ، جس پر اسے کام کی آفر آگئی ہے ۔۔

یہ وہ الفاظ تھے جنہیں فیصل کچھ دن سے روز سن رہا تھا، ساتھ ہی راحیلہ کو بھی سمجھاتا تھا، کہ اپنے محافظوں کو چھوڑ کر وہ کونسا ایسا گھر چاہتی ہے جہاں وہ محفوظ رہے؟ گھر میں موجود بھائی اور والد سے بڑھ کر بھی کوئی محافظ ہو سکتا ہے کیا ؟

زویا جب راحیلہ سے یہ کہتی تو وہ اس کی بات کو نظر انداز کردیتی اور جواب دیتی کی اک بار ماڈل بننے تو دو ، تین بھائی ہیں مہرے جو محافظ تو نہیں لگتے بس پابندیاں لگا کر رکھتے ہیں، تین کے بجائے چھ محافظ (باڈی گارڈ) رکھوں گی، یوں ہی روز وہ فیصل کی محنت پر پانی پھیر دیتی جو اس نے زویا پر کی ہوتی۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا ، زویا نے اپنا گریجویشن مکمل کر لیا اور ادھر راحیلہ ایک نامور ماڈل بن گئی، حقیقیت یہی ہے کہ میڈیا والے نئے چہرے کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب مل جائے تو پرانے کو چھوڑ دیتے ہیں۔

راحیلہ بھی اب روحی خان کے نام کی نئی پہچان پاکر ہر چیز سے نظریں پھیرے ہوئے تھی، کرایہ کا گھر چھوڑ کر اپنا بڑا بنگلہ لے لیا تھا، گھر میں ملازموں کی کثرت اور باڈی گارڈز کی وجہ سے وہ بھی کچھ لوگوں کی آئیڈیل بن گئی تھی، سچ بھی یہی ہے کہ انسان دنیاوی رونقوں سے جلدی متاثر ہوجاتا ہے، جیسے وہ ہوگئی تھی۔

راحیلہ اور زویا میں دوستی برقرار تھی ، اتنی نامور ماڈل بننے کے بعد بھی اس سے رابطہ رکھنا ، زویا کو یہ احساس ہی خوش رکھتا تھا، البتہ بات چیت زیادہ نہیں ہو پاتی تھی کیونکہ روحی (راحیلہ) اکثر کام پر ہوتی اور جب واپس آتی تو زویا سو چکی ہوتی تھی، کیونکہ راحیلہ کو رات گئے کسی نہ کسی پارٹی میں جانا ہوتا یا کسی قسم کی شوٹنگ کرنی ہوتی۔ آج زویا بہت خوش تھی اور کیوں نہ ہوتی آج اس کی دوست نے اپنے گھر کا پتا دے کر اسے گریجویشن مکمل ہونے پر دعوت پر بلایا تھا ، راحیلہ اپنی دوست کو نہیں بھولی تھی کیونکہ اس نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا تھا۔

اندر پہنچ کر زویا کو دیکھا تو کافی دنگ رہ گئی کہ یہ چہرہ جو اسکرین پر اتنا خوشنما نظر آتا ہے بہت مرجھایا ہوا ہے۔ آج کا سارا دن روحی نے زویا کے نام کر رکھا تھا اور چھٹی لے رکھی تھی، زویا آتے ہوئے اس کی پسندیدہ آئسکریم لے کر آئی تھی اور کھانے کے بعد سب کے لیے آئسکریم نکال رہی تھی۔ ٭٭٭

روحی !امی ٹھیک کہتی ہیں تمہیں ہم نے بہت نازوں سے پالا ہے تم کیوں اپنے لیے گندی زندگی چاہ رہی ہو، یہ لوگ صرف آرام کا دکھاوا کرتے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے، امی سے ڈانٹ سننے کے بعد وہ بے دلی سے یونیورسٹی آئی تھی اسی لئے اس کا بھائی اسے یونیوسٹی سے واپس لاتے وقت آئسکریم کھلانے لے آیا تھا ، اور اسے سمجھا رہا تھا۔ جی بھائی !! لیکن مجھے بھی تو آزاد ہونا ہے، اپنی پسند کا لباس پہننے کی اجازت مجھے بھی تو ہونی چاہئے مجھے بھی ملازم رکھنے ہیں، اس کا شکوہ برقرار تھا،

ہاں مگر جس کی آستین نہیں وہ تو لباس ہی کہلانے لائق نہیں، وہ پہن کر کیا کرو گی۔۔ کوئی اور کام ہے تو کہو ہم ہیں ناں آپ کے خادم ،آپ کے ملازم ،آخر میں وہ شرارت سے بولا بھائی۔۔! وہ چڑ ہی تو گئی تھی۔ ٭٭٭٭

ارے روحی آئسکریم پگھل چکی ہے، کیا کر رہی ہو، اسے واپس رکھ دو، بعد میں کھا لینا۔ زویا کی آواز پر وہ خیالوں سے باہر آئی، تم ٹھیک تو ہو؟ زویا نے فکر مندی سے اس سے پوچھتے ہوئے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، ارے تمہیں تو تیز بخار ہے چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں؟ اس کے الفاظ میں فکر صاف جھلک رہی تھی ، وہ اس کی ایک ہی تو خاص دوست تھی جو اسے کالج سے جانتی تھی۔

نہیں آج نہیں آج سب ملازموں کو چھٹی دی ہوئی ہے اور بغیر باڈی گارڈز کے باہر نہیں جا سکتی۔ کیوں نہیں جا سکتیں بھئی ، میں ہوں ناں ساتھ، زویا نے اسے حوصلہ دیا۔

نہیں زویا میں جا ہی نہیں سکتی ، پتا ہے لوگ مجھ پر آوازیں کستے ہیں اور گندی نظریں مجھے خود پر محسوس ہوتی ہیں، مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا، میں نے شاہد (باڈی گارڈ) سے کہا کہ روکو انہیں تو کہتا ہے کہ میم ہمیں لوگوں کی زبانیں اور آنکھیں روکنےکی تنخواہ نہیں ملتی، آپ بھی ان کی باتوں اور نظروں کی فکر مت کریں، کچھ نہیں ہوتا، جبکہ بھائی ساتھ ہوتا تھا تو کسی کی جرات نہیں تھی کہ نظر بھی اٹھائے، میری عزتِ نفس شدید مجروح ہوتی ہے اس سب سے۔ امی میری بیماری میں میرے کام خود کر دیتی تھیں لیکن اب مر بھی رہے ہو تو زبردستی کام پر جانا پڑتا ہے، کبھی کانٹریک کی حد بندیاں، کبھی پروڈیوسر کی سختیاں، اگر نہیں جاؤ تو سمجھو دوبارہ کام نہیں ملے گا، گھر کا خرچ کیا ہوتا ہے پتا چل رہا ہے، چھوٹے سے آزاد گھر سے نکل کر میں بڑے گھر میں قید ہوں

زویا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی اسے احساس ہورہا تھا، وہ بہت شرمندہ ہو رہی تھی کہ ساتھ دے کر اس نے اپنی دوست سے دشمنی کر لی۔۔ کاش وہ اسے سمجھاتی۔۔ لیکن وقت کب کسی کے لئے لوٹ کر آیا ہے ۔۔۔ ٭٭٭

میری کسی کو فکر ہی نہیں ہے میرے سر میں درد ہے مجھے ہاسپٹل نہیں لے کر جا رہے آج اگر میں ماڈل ہوتی تو آگے پیچھے ڈھیروں لوگ ہوتے جو میرا خیال رکھتے۔۔ میرے نوکر چاکر میرے آگے پیچھے گھومتے اور لیے اچھے اچھے کھانے بنا کر لاتے، مجھے کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا بس ان کو ماہانہ تنخواہ دینا میرا کام ہوتا۔

یہ کلاس میں بیٹھی راحیلہ کے الفاظ تھے جسے زویا اس وقت یاد کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا یہ اس کا مکافاتِ عمل ہے یا اس کی ابتدا خدا جانے آگے اس نے کیا کیا دیکھنا ہے۔۔ اپنے گھر کو اور اصلی بلا معاوضہ محافظوں کو ٹھکرا کر، تکلیف دے کرکوئی خوش بھی کیسے رہ سکتا ہے؟ کیا اس نے اس کی مدد کرکے ایک بڑی غلطی کی ہے؟ یا مکافاتِ عمل اس کا بھی انتظار کر رہا ہے؟ کیونکہ وہ راحیلہ کو بتانا بھول گئی تھی کہ وہ ماں بنے والی ہے۔۔