اس نے کمرے سے باہر جھانکا تو سامنے ساس کے کمرے میں کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا اور سب لوگ آہستہ آہستہ باتیں کرتے بھی محسوس ہوئے۔ اک دم ایسا لگا کہ جیسے ندیم زمین پر سیدھے لیٹے ہوئے ہیں۔ اجالا شش و پنج میں مبتلا ہو کر اس کمرے میں گئی تو دیکھا ساس، دیور اور شہنیلا سب موجود ہیں۔ ایک کونے میں مہرین بھی چپ چاپ کھڑی ہے اور ندیم زمین پر بے ہوش پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر اجالا کے منہ سے چیخ نکل گئی
چوتھی قسط
مہوش کرن
”بھابھی ناشتا تیار ہے؟“ کاشف نے صبح کچن میں آکر اجالا سے پوچھا۔ ”ہاں بھائی، وہ ہاٹ پاٹ میں پراٹھا رکھا ہے اور یہ لو گرما گرم چائے۔“
ناشتے سے فارغ ہوکر کاشف، جو کہ اجالا کا غیر شادی شدہ دیور تھا، آفس کے لیے چلا گیا۔ وہ ہی سب سے پہلے دفتر جاتا تھا۔ اور شروع سے اجالا ہی اسے ناشتا دیتی تھی۔ پھر شہنیلا اور ندیم کے نخروں بھرے ناشتے کا دور چلتا تھا البتہ دانش اور مہرین ایک ساتھ ناشتا کرتے اور مہرین ہی بناتی تھی۔
اجالا کاشف کے رہن سہن کو دیکھ کر اکثر سوچتی کہ یہ بھی تو ہے اپنے کام سے کام رکھتا ہے، گھر کی خوشی میں خوش اور پریشانی میں اداس ہوتا ہے۔ بلاوجہ کسی کی زندگی میں مداخلت کرنے کی اس کی عادت ہی نہ تھی۔ نہ کوئی طنز کرتا اور نہ ہی کوئی تکلیف دہ بات۔ وہ سوچا کرتی کہ یہ یقیناً اپنی بیوی کو خوش رکھے گا اور اس معاملے میں کسی کی نہیں سنے گا. آخر دانش نے بھی تو اپنی پسند کی شادی کی اور اب ان کے دو بچے ہونے کی وجہ سے مہرین کی جگہ بہت مستحکم ہو گئی ہے. اس نے خاندان کو وارث دیا ہے اس لیے اس کے ساتھ اُس طرح زیادتی نہیں کی جاتی ہے جیسے میرے ساتھ ہوتی ہے اور نہ ہی مہرین ہر بات برداشت کرتی ہے بلکہ کبھی کبھار پلٹ کر جواب بھی دے دیتی ہے اور گھر میں اُس کی ایک الگ جگہ نظر آتی ہے۔ چلو کم از کم اتنا ہے کہ دونوں میرے ساتھ اچھا برتاؤ رکھتے ہیں، بچوں سے بھی عزت اور محبت کرواتے ہیں۔
جبکہ میرے ہر کام میں باقی سب کیڑے نکالنا، بے عزتی کرنا اور طنز کے تیر مار مار کر لہو لہان کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
خیر آگے دیکھتے ہیں، کس کی کیا قسمت۔ ”اجالا تمھارا دھیان کہاں ہے؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔“ اس کی ساس تیز آواز سے بولتی ہوئی کچن میں داخل ہوئیں۔ ”جی میں تو بس کام کر رہی ہوں۔“ اجالا کی سوچوں کا تسلسل اک دم ٹوٹا۔
”ہاں پتا ہے کتنا کام کرتی ہو۔ کوئی ایک کام تو ڈھنگ سے کرتی نہیں ہو۔ آج شام میں روشن آئے گی شوہر اور بچوں کے ساتھ تو مناسب سا کھانا تیار کرنا ہے۔ میں مہرین کو بھی بھیجتی ہوں ساتھ مل کر پانچ چھ چیزیں بنا لینا۔ روٹی چاول دونوں کے حساب سے اور میٹھے بھی کم از کم دو تو ہونے ہی چاہئیں۔“ اجالا چپ چاپ ان کے احکام سنتی رہی، کچھ بولنے کی غلطی بھلا کیسے کر سکتی تھی۔ شروع میں ایک دفعہ بول دیا تھا کہ،
”امی اتنا کھانا؟ بہت سارا بچ جائے گا اور فریج فریزر میں رکھا رہے گا۔ پھر سب اتنے دن تک باسی کھانا کھاتے رہیں گے۔“ ”کیوں بھئی تمھیں خرچ کرنا پڑتا ہے جو زیادہ چیزیں پکانے میں تکلیف ہورہی ہے؟ ایک ذرا ہاتھ ہی تو ہلانا ہے، کون سا کولہو کے بیل جوتنے پڑ رہے ہیں۔“
”نہیں امی میرا مطلب تھا کہ آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں اتنا باسی کھانا۔“ ”میں تو ویسے بھی تازہ پکا ہوا ہی کھاتی ہوں تم ہی ختم کرنا جو کھانا بچ جائے۔“ اس کے بعد سے اس نے کچھ بولنا چھوڑ دیا تھا اور آج بھی نہیں بولنا تھا پتا تھا کہ مزید شامت آئے گی۔ ویسے ہی اب آدھی رات تک ایک ٹانگ پر کھڑے رہنا تھا۔
٭٭٭ رات کے کھانے کے بعد جب چائے بنائی تو ہمیشہ کی طرح وہی شہنیلا کی شادی کا موضوع نکل آیا۔ ”ارے امی ہو جائے گا۔ سب ہو جائے گا۔“ یہ روشن کا پسندیدہ جملہ تھا۔
”ہماری بہن کیا ہم پر بوجھ ہے۔ جلدی کس بات کی ہے؟“ یہ شہ ندیم دیتے۔
اجالا کو سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ لوگ شہنیلا کے لیے سنجیدگی سے کیوں نہیں سوچتے۔ روشن ایک سرکاری نوکری کی اونچی پوسٹ پر کام کرتی ہیں ان کے تو بے تحاشا جاننے والے اور ذرائع ہوں گے۔ ندیم بھی بنک کی اعلی جاب کرتے ہیں بلکہ شہنیلا خود بھی سالوں سے بنک میں کام کرتی آ رہی تھی۔ ساس نے کچھ رشتے والیوں کو کہہ رکھا تھا مگر جو دیکھنے آتا دوبارہ رابطہ نہ کرتا۔ اس میں بہت سارے عوامل شامل تھے۔ کچھ ان لوگوں کا بات چیت کرنے کا انداز ایسا ہوتا کہ سامنے والے کی قطعاً عزت نہ کرتے، اپنا رعب جھاڑتے رہتے، ساتھ ہی شہنیلا کے بھی تیور چڑھے رہتے۔ شکل و صورت عام سی تھی. اس پر چڑھی ہوئی باریک بھنویں بنواتی، بےہنگم فیشن کرتی، ٹائٹس اور چھوٹی کُرتیاں پہنتی، دوپٹا نہ اوڑھتی، تیز سا میک اپ کرتی اور جانے کس بات کا غرور سوار رہتا تو واقعی چہرے پر کوئی کشش محسوس نہ ہوتی۔ نہ جانے سب کو کس بات کا فخر تھا، نہ کوئی ایسا لمبا چوڑا اعلی خاندان، نہ کوئی عالیشان حسب نسب، بس پیسا ہی تھا جو اچانک برس پڑا تھا۔ مگر مزاج اتنے اکھڑ تھے کہ پیسوں کے لالچ میں بھی کوئی رشتہ طے نہیں ہو پاتا۔ حالانکہ عام شکل اور اچھے اخلاق کے ساتھ انسان چاہے تو کسی کا بھی دل جیت سکتا ہے۔ کیونکہ خوش اخلاقی اور حیا بذاتِ خود بہت بڑی دولت اور خوبصورتی کی ضامن ہیں۔ ٭٭٭
جب سب کے جانے کے بعد وہ سونے کے لیے کمرے میں آئی تو اجالا نے ندیم سے کہہ ہی دیا ”آخر آپ لوگ سنجیدگی سے شہنیلا کے رشتے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ باجی یا آپ کے آفس میں تو کتنے لوگ کام کرتے ہیں۔“
”واہ کیا بات ہے، آفس میں تو ہر طرح کے لوگ کام کرتے ہیں تو کیا کسی بھی آدمی سے اس کی شادی کر دیں۔“ ”بھئی یہ کب کہہ رہی ہوں، آپ کسی خاص سے کر دیں مگر کریں تو سہی، کم از کم کوشش تو کریں۔“ ”کیوں؟ کیا وہ تم پر بھاری پڑ رہی ہے؟ ذرا سے اس کے کام نہیں کر سکتی ہو۔ میں کماتا ہوں، تمھیں اور اسے دونوں کو میں ہی کھلاتا ہوں، سمجھی نا۔ بلکہ وہ تو خود اتنا اچھا کماتی ہے اور اپنے باقی سارے خرچے خود ہی پورے کرتی ہے اور اس کا ایک بہترین لائف اسٹائل ہے۔“
”جی میں جانتی ہوں کہ آپ کا ہی دیا کھاتی ہوں۔ میرا مطلب کچھ اور نہیں تھا سوائے اس کے کہ لڑکیاں اپنے گھر میں اچھی لگتی ہیں۔ اب وہ کوئی بچی نہیں رہی ہے۔ عمر خاصی بڑھ گئی ہے ابھی بھی تیز کوششیں نہیں کریں گے تو اور کب کریں گے؟ بلکہ باجی سے بھی کہیں کہ وہ بھی پتا کریں۔“
”دیکھو اجالا! یہ میری بہن کا معاملہ ہے یعنی ہمارے گھر کا، اس لیے تم زیادہ مت بولو۔ جو ہم مناسب سمجھیں گے کر لیں گے۔ تمھیں بہت فکر ہے تو اپنے بھائیوں کی شادی کرواؤ. آخر شعیب کی بھی تو عمر نکل رہی ہے۔ اس کے رشتے ڈھونڈو، وہاں دیر ہوتی نظر نہیں آتی؟
لڑکیاں اپنے گھر میں اچھی لگتی ہیں تو تم بھی اپنے گھر میں اچھی لگتی رہو، ورنہ واپس جانے کی تیاری کر سکتی ہو۔ ویسے بھی ہم بہن بھائی ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں۔ ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔“ اب خراشیں تو دل میں آئیں گی
تم نے ہر بات کھردری کر دی
ندیم کی اس بات پر تو واقعی یقین تھا۔ کتنے ایسے واقعات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا واقعہ جو وہ بھولتی نہ تھی آج بھی آنکھوں کے سامنے تھا۔ چند سال پہلے نئے بنگلے میں ساس کے باتھ روم میں کوئی خاص قسم کا گیزر لگوایا تھا۔ جس کی فٹنگ کے بعد کارکردگی چیک کرنے کے لیے ندیم وہاں نہانے چلے گئے تھے جبکہ اجالا تمام کاموں سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں آ چکی تھی۔ کافی دیر ہوگئی. ندیم نہا کر واپس نہیں آئے تو اسے عجیب لگا کہ اب تو سونے کا وقت ہو رہا ہے کل آفس بھی ہے، اتنی دیر تک باتیں کرنے کے عادی تو نہیں ہیں۔ اس نے کمرے سے باہر جھانکا تو سامنے ساس کے کمرے میں کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا اور سب لوگ آہستہ آہستہ باتیں کرتے بھی محسوس ہوئے۔ اک دم ایسا لگا کہ جیسے ندیم زمین پر سیدھے لیٹے ہوئے ہیں۔ اجالا شش و پنج میں مبتلا ہو کر اس کمرے میں گئی تو دیکھا ساس، دیور اور شہنیلا سب موجود ہیں۔ ایک کونے میں مہرین بھی چپ چاپ کھڑی ہے اور ندیم زمین پر بے ہوش پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر اجالا کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے حیرت ملی پریشانی سے پوچھا، ”کیا ہوا؟ یہ تو نہانے گئے تھے۔“
”ہاں شاید نہاتے نہاتے بے ہوش ہوگئے۔“ شہنیلا نے جواب دیا تھا۔
”کیا مطلب؟ تو پتا کیسے چلا؟“ اجالا نے پوچھا تھا۔
”امی کو باتھ روم جانا تھا، کافی دیر آوازیں دیں، بھائی جان نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ تو دانش کو بلا کر دروازہ چابی سے کھلوایا۔ دیکھا تو بھائی جان اندر زمین پر گرے ہوئے نظر آئے۔ دانش نے کھینچ کر باہر نکالا۔“ شہنیلا نے بتایا۔ ”تو مجھے اب تک کیوں نہیں بتایا؟ میں گھر میں نہ ہوتی تو بھی مجھے سب سے پہلے بتانا چاہیے تھا جبکہ میں تو سامنے کمرے میں تھی۔“
یہ کہتے ہوئے اس نے مہرین کی طرف دیکھا جو چوروں کی طرح چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اجالا ندیم کے برابر میں بیٹھ کر انہیں ہلانے لگی اور اٹھانے لگی۔
”ہم نے سب کر کے دیکھ لیا ہے، تم سے کچھ نہیں ہوگا۔“ ساس نے تن کر بولا تھا۔ ”تو اس کا مطلب ہے کہ ان کو لے کر یوں ہی بیٹھے رہیں؟ چلو دانش، کاشف گاڑی نکالو، اٹھاؤ انہیں، ہسپتال جانا پڑے گا۔“ ”ہاں ہاں، ٹھیک ہے. ہم نے فوراً روشن کو فون کر دیا تھا۔ وہ آتی ہی ہوگی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔“ ساس نے چڑ کر کہا۔
”میں مزید انتظار نہیں کروں گی۔ چلو تم دونوں گاڑی نکالو۔“
جانے اس روز اس میں اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی، تیزی سے اپنا پرس اور چادر اٹھا لائی اور ندیم کو لے کر ہسپتال روانہ ہوگئی۔
یوں اپنی بے وقعتی دیکھ کر عزتِ نفس کا ہر احساس مر گیا تھا. صرف محبت باقی رہ گئی تھی کیونکہ محبت کے سامنے کوئی انا نہیں ٹھہرتی، کسی بدلے کی توقع نہیں رہتی۔
ہسپتال میں ٹیسٹ وغیرہ ہوئے جس سے پتا چلا کہ بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے بے ہوش ہوئے۔ اس وقت تک ہوش آگیا تھا لیکن چوبیس گھنٹوں کے لیے آبزرویشن میں رکھا گیا تھا۔ اندر دونوں دیور موجود تھے. دیوروں کی موجودگی اسے بے زار کر رہی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے جا کر انہیں دیکھ آتی اور ڈیوٹی ڈاکٹر یا نرس سے خیریت پوچھ کر تسلی کر لیتی۔
رات بھر وہ سردی میں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھی رہی۔ جبکہ گھر سے جلدی میں نکلنے کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح گرم کپڑے بھی نہیں پہن سکی تھی۔ پوری رات اجالا صرف یہ سوچتی رہی کہ گھر میں وہ سامنے کمرے میں موجود تھی، اس شخص کی بیوی تھی لیکن اسے بتانا گوارا نہیں کیا گیا اور بہن کو فون کر کے بلا لیا گیا۔ یہاں تک کہ روشن کے انتظار میں انہیں یوں ہی بے ہوش پڑا چھوڑ دیا گیا۔ یعنی اگر وہ کمرے سے باہر نہیں جھانکتی تو اسے پتا بھی نہیں چلتا اور روشن آکر انہیں لے بھی جاتی تو بھی وہ انجان رہ جاتی۔ کیونکہ اکثر وہ بہن بھائی ایک ساتھ کہیں چلے جایا کرتے تھے اور اجالا کو خبر بھی نہ ہوا کرتی تھی۔ اجالا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ندیم کو کیسے سمجھائے کہ آپ کے بہن بھائی اگر آپ سے سچی محبت کرتے تو یوں آپ کو بے ہوش پڑے، تماشا نہ دیکھتے رہتے۔
اسے اُن بے حس لوگوں کی باتوں پر یقین آرہا تھا۔ انہیں واقعی اجالا کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہوش میں آنے کے بعد بھی ندیم نے اجالا سے بات کی اور نہ اس کی فکر کی تھی. وہ تو بس اپنے بہن بھائیوں سے بات کر رہے تھے۔ ہسپتال کی ٹھنڈی زمین پر بیٹھے بیٹھے اس کے جذبات میں بھی ٹھنڈ پڑتی جارہی تھی مگر ایک محبت کی لَو تھی جو اسے مایوس نہیں ہونے دے رہی تھی. مگر افسوس کہ اپنی تمام بے لوث خدمتوں اور قربانیوں کے باوجود وہ ندیم کو اپنی پر خلوص محبت کا یقین نہیں دلا پا رہی تھی یا شاید وہ خود ہی یقین نہیں کرنا چاہتے تھے. بلکہ درحقیقت وہ لوگ اس قابل ہی نہ تھے کہ ان پر اپنی چاہتیں نچھاور کی جائیں مگر اُس وقت یہ حقیقت اجالا سمجھ کر بھی جھٹلانے اور جان کر بھی نہ ماننے پر مجبور تھی۔ کیونکہ شریف و عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں گھر بسانے کی کوشش میں بڑی سے بڑی بات بھی چپ چاپ سہ جاتی ہیں۔ شور کرنا تو دور کی بات وہ تو خاموشی سے آہ بھی نہیں بھرتیں۔ برداشت کرتے کرتے ان کی سوچیں کچھ اِس انداز میں ڈھل جاتی ہیں کہ جیسے کسی نے کچھ کہا ہی نہیں یا کچھ ہوا ہی نہیں۔ جیسے وہ جذبات و احساس رکھنے والی جیتی جاگتی انسان نہ ہوں بلکہ کوئی زندگی سے عاری ربڑ کی گڑیا ہوں۔
وہ ہر نئے دن سورج نکلتے ہی نئی امید کے سہارے نئے سرے سے ہمت کر کے کھڑی ہو جاتی تھی۔ اور ان حالات و رویوں کے باوجود وہ سب سسرال والوں کو اپنے گھر والوں کی حیثیت سے عزت دیتی اور خدمت بھی کرتی۔ اجالا اپنی سوچوں سے چونکی تو دیکھا کہ ندیم اپنی تلخ گفتگو ختم کر کے سو چکے تھے۔ لیکن اجالا جاگتی رہ گئی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں، کبھی چاہتیں نچھاور کرتے ہیں، کبھی نفرت سے پیش آتے ہیں، کیا سوچتے ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔ اپنی باتوں اور رویوں سے اتنی زیادتیاں کرتے ہیں اور کتنے آرام سے بھول جاتے ہیں۔
اور وہ شاید یہ بھی بھول گئے تھے کہ اللّٰہ سبحانہ و تعالٰی بالکل نہیں بھولتے، نہ کسی کی اچھائی کو اور نہ ہی کسی کی زیادتی کو کیونکہ جب مظلوم صبر کے گھونٹ پی رہا ہو تو ظالم مکافاتِ عمل کے لیے تیار کیا جا رہا ہوتا ہے ! (جاری ہے ۔۔۔)