ریشمی مجھے کوٹھڑی میں بند کر کے چلی گئی۔ آج نہ جانے کیوں میرا دل بڑے سکون میں تھا۔ میں کوٹھڑی کی دیوار سے ٹیک لگائے بہت دیر تک بآواز بلند قرآن کی تلاوت کرتی رہی مجھے ایسا لگ رہا تھا اس کوٹھڑی میں چاروں طرف نور کی بارش ہو رہی ہے۔ ریشمی کے حسن سلوک سے میرے دل کو ایک نئی امید بندھ گئی تھی۔ اب شاید میں یہاں سے نکل پاؤں... میں نے پر امید ہو کر سوچا۔
ام محمد سلمان
(چوتھی قسط)
اگلے دن بے بے نے کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور بولی "چل باہر نکل وے کڑیے۔ او مینوں اک گال دس! میری اکلوتی کڑی تے کی جادو کیتا ای توں؟ میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا چل آ میرے نال گردوارے چل.. وائے گرو نوں ماتھا ٹیک ۔" ریشمی بھی میرے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئی اور میرے کان میں سرگوشی کی.... "چلو نور تمہیں تمہارے سچے رب کا واسطہ!!"
اور میں کسی روبوٹ کی طرح چل پڑی۔
بڑی مدت بعد میں نے باہر کی فضا دیکھی تھی۔ لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے درخت، آسمان پر اڑتے پرندے اور تیز چمکیلی دھوپ۔ پھر ہم گردوارے پہنچ گئے۔ وہ ایک بہت بڑی اور پختہ عمارت تھی۔ وہاں سب عورتیں کچھ عبادت کرنے میں مصروف تھیں پھر سب سجدے میں چلی گئیں ۔ بے بے نے زبردستی مجھے بھی زمین سے ٹکا دیا.. مگر اسی وقت میری زبان سے نکلا "سبحان ربی الاعلی"
جس نے ساری زندگی یہی کلمہ پڑھا ہو اس کا سجدہ بھلا کسی اور کو کیسے ہو سکتا ہے۔ میں سجدے میں روتی رہی اپنے رب سے معافیاں مانگتی رہی اسے یقین دلاتی رہی کہ میرا سجدہ صرف رب العالمین کے لیے ہے۔ تھوڑی دیر بعد ریشمی مجھے وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھ گردوارے کی پچھلی سائیڈ پر لے گئی۔ وہاں وہ مجھ سے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ پھر اس نے مجھے رجنی موسی (رجنی خالہ) سے ملایا۔ وہ بڑی شفیق عورت تھی۔ مجھ سے بڑے پیار سے ملی اور کہنے لگی پتری! جس کوٹھڑی میں تو بند رہتی ہے اس کے پچھواڑے میرا گھر ہے۔ مجھے تیری چیخیں اکثر سنائی دیتی ہیں۔ میرا کلیجا پھٹتا ہے مگر میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ میرا پتر فوج میں ہے وہ بتا رہا تھا کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہو رہا ہے کہ دونوں طرف سے اغوا شدہ خواتین کا تبادلہ کیا جائے اور انھیں اپنے اپنے گھر اور خاندان والوں کے حوالے کر دیا جائے۔"
یہ خبر سنتے ہی مجھے لگا میرے تنِ مردہ میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ میں رجنی موسی کے گلے سے لگ گئی... کیا واقعی ایسا ہوگا موسی؟"
"ہاں پتری! ایسا ضرور ہو گا، میرا رنجیت کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔" وہ یقین سے بولیں
"لیکن ایک بات سمجھ نہیں آتی موسی! کیا میرے مسلمان بھائیوں نے بھی پاکستان رہ جانے والی ہندو اور سکھوں کی خواتین کو یرغمال بنا لیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟"
ہاں پتری ایسا ہی ہوا ہے۔ ہندوستان سے سکھوں اور ہندوؤں کے حملوں کا شکار لٹے پٹے قافلے اور ریل گاڑیاں پاکستان پہنچ رہی تھیں جن میں ریل گاڑیوں میں کٹی پھٹی لاشیں ہوتیں خون دروازوں سے بہ رہا ہوتا تو مسلم جوانوں کا بھی لہو جوش مارتا اور وہ ہندوستان کی طرف آنے والے قافلوں پر حملے کرنے لگے۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک بڑی تعداد میں شر پسند بھی ان میں شامل ہو جاتے۔ یہ سب باتیں مجھے میرے فوجی بیٹے نے بتائیں۔ اور بات یہ ہے پتر کہ اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ نہ سہی مگر تھوڑی بہت عورتیں پاکستان میں بھی رہ گئی ہیں۔ جنھیں واپس لانے کی تیاریاں ہیں۔ بہت جلد تو بھی اپنے وطن پاکستان چلی جائے گی ۔"
اس دن میں بہت خوش تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی بے بے نے زور زور سے آوازیں لگانی شروع کر دیں... " ریشمی کور وے ریشمی کور!! چھیتی آ ۔" پھر وہ ہمیں ساتھ لے کر حویلی واپس آ گئیں۔ ریشمی کی بے بے آج مجھ پر کچھ مہربان سی تھی. شاید ریشمی نے کچھ کہا تھا ان سے۔
مجھے اب کوٹھڑی سے نکال کر نسبتاً ایک بہتر کمرہ دے دیا تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور بستر بھی تھا۔ ایک کونے میں پانی کا مٹکا اور پیالہ بھی رکھا ہوا تھا۔ چھت پر لکڑی کی کڑیاں لگی ہوئی تھیں جو سیاہ پڑ چکی تھیں. دیواریں زرد تھیں جیسے مدتوں سے رنگ و روغن سے محروم ہوں۔ ایک جانب دیوار کے اندر ایک ٹوٹا پھوٹا شیشہ لگا ہوا تھا ساتھ ہی ایک کھونٹی میں لکڑی کی کنگھی لٹکی ہوئی تھی۔ میں اب اسی کمرے میں رہنے لگی ۔
دوچار دن بعد رجنی موسی گھر آئی تو میرے پاس بھی آ گئی۔ ان کے ساتھ ایک اور جوان خاتون تھی۔ وہ اس کا تعارف کروانے لگیں.. "نور پتر! یہ امرت کور ہے۔ یہ بھی تیرے جیسی نصیبوں کی ماری ہے۔ لے تو اس سے مل لے۔"
" رجنی موسی! آپ اسے یہاں لے آئیں. آپ کو کسی نے دیکھا نہیں؟" میں نے فکر مندی سے کہا۔
" او نئیں پتر ! ریشمی کی بے بے اور اس کی بھابھی رشتے داروں کے گھر گئی ہیں شام تک ہی لوٹیں گی ۔ تو امرت کور سے بات چیت کر لے تیرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ بے چاری تو امرتسر سے جانے کتنے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی آئی ہے۔ اس کی داستان بھی بڑی ہی دردناک ہے" رجنی موسی یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
ہم دونوں کافی دیر تک اپنے دکھڑے روتی رہیں۔ امرت کور کا اصل نام زینت جہاں تھا۔ کہنے لگی..." امرتسر میں ہمارا بہت بڑا خاندان تھا۔ دادا میاں کے سات بیٹے تھے۔ سب اپنے بال بچوں سمیت ایک ہی حویلی میں رہتے تھے۔ ہماری حویلی بہت بڑی اور شاندار تھی۔ حویلی کے صحن میں سات پیپل کے درخت تھے۔ اسی وجہ سے ہماری حویلی پیپلاں والی حویلی کے نام سے مشہور تھی۔ اپنے محلے میں بڑا رعب تھا ہمارا۔ بڑی عزت تھی۔ لوگ جھک جھک کے سلام کرتے تھے۔ حویلی کی عورتیں کبھی بے پردہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں۔ محلے میں کبھی کسی کے گھر جانا ہوتا تو کہار ڈولی کو اندر صحن میں رکھ کر باہر چلے جاتے۔ عورتیں آ کر بیٹھ جاتیں، ڈولی کے پردے برابر کر دیے جاتے۔ تب کہار اندر آتے اور ڈولیاں اٹھا کر لے جاتے۔ جس گھر کی عورتوں کا سایا بھی باہر کے مردوں نے نہ دیکھا تھا.. جانتی ہو ان پردہ نشینوں کے ساتھ کیا ہوا؟ زینت جہاں نے نظریں میری طرف اٹھائیں تو ان میں بلا کی کاٹ اور غم و غصہ بھرا تھا.... قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی دوسری رات سکھ بلوائیوں نے بہت بڑی تعداد میں ہماری حویلی پر حملہ کیا تھا۔ گھر کے مردوں نے بڑی جی داری سے ان کا مقابلہ کیا مگر اتنے بڑے جتھے کے سامنے کب تک ٹکتے... گاجر مولی کی طرح کٹتے گئے۔ تائی اماں نے اپنی نو عمر فاطمہ کا ہاتھ کھینچا اور بجلی کی سی سرعت سے کنویں کی طرف بھاگیں اور ایک دم چھلانگ لگا دی۔ پھر دو تین سکھ کنویں پر جا کر کھڑے ہو گئے کہ اب کوئی اور عورت وہاں چھلانگ نہ لگا سکے اور جانتی ہو نور! ہمیں ہمارے محرم مردوں کے سامنے....... اور زینت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایسے ایسے معزز اور اونچے خاندان کی عورتیں رسوا کی گئیں۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مجھے میری بڑی بہن اور چھوٹی چچی کو وہ لوگ اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ باقی عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا۔ میرے بوڑھے باپ اورچچا کے زخمی وجود تڑپتے ہوئے ہمیں ان کے ساتھ جاتا دیکھتے رہے۔ جانے کب تک تڑپے ہوں گے کس کرب کے عالم میں انھیں موت آئی ہو گی۔
یہ سکھ بلوائی ہمیں اپنے ساتھ لے آئے اور ایک عمارت میں بند کر دیا...وہاں اور بھی اغوا شدہ مسلمان لڑکیاں تھیں۔ ہر روز ہمارا تماشا لگتا۔ کبھی کوئی آتا کبھی کوئی... ہماری زندگیاں موت سے بدتر ہو گئیں ۔ پھر ایک ایک کر کے ہم سب کو بانٹا جانے لگا ۔ میری بہن اور چچی بھی کسی سکھ کے حصے میں چلی گئیں۔ خدا جانے اب کبھی ان سے ملاقات ہو گی یا نہیں.... اور ایک دن میں بھی اس گاؤں میں لائی گئی اور زبردستی امرت کور بنا کر دھن راج سنگھ کی ووہٹی بنا دی گئی۔ اور میں کیا کرتی نور! موت بھی تو نہیں آتی تھی۔ بھوک اور ذلت کا عذاب سہا نہیں جا رہا تھا۔ کبھی کسی ایک کے ہاتھ کبھی دوسرے کے ہاتھ.. اس سے بہتر تھا شادی کے نام پہ کسی ایک کے گھر ہی پڑ جاؤں۔ بس دل پہ پتھر رکھ کر ماننا پڑا ورنہ سکھ اور مسلمان کی بھلا کیا شادی..!! یہ لوگ سمجھتے ہیں گردوارے کا کڑا پہنا کر نام بدل کر جیسے ہمیں سچ مچ سکھنی بنا دیں گے۔ نہیں نور نہیں!! ہم اندر سے مسلمان ہی ہیں۔ مسلمان ہی جیئیں گے اور مسلمان ہی مریں گے ان شاء اللہ! بس یہ تو وقت کا دھارا ہے اسے بہنے دو... ہمارا رب ہمارے لیے کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکالے گا۔" پھر تھوڑی دیر بعد زینت جہاں چلی گئی۔ ریشمی میرے لیے روٹی لے آئی۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھلاتی رہی۔ "تجھے مجھ سے اتنی لگن کیوں ہے ریشمی؟" میں نے اس سے پوچھا۔ " بتاتی ہوں نور!
تقسیم سے پہلے ہمارے گھر سے دو گھر آگے مسلمانوں کا خاندان آباد تھا وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ میں بچپن سے ان کے گھر آتی جاتی تھی. مجھے ان کا چال چلن بود و باش یہاں تک کہ مذہب بھی... سب کچھ بہت اچھا لگتا۔ میرا جی کرتا تھا میں بھی مسلمان ہو جاؤں اور چاچی حمیدہ کے گھر ہی رہنے لگوں۔ لیکن ایسا کہاں ممکن تھا بھلا! میں ان کے گھر آتے جاتے ہی بڑی ہو گئی اور تقسیم کا یہ دلدوز واقعہ پیش آ گیا۔ جب تقسیمِ ہند کی خبریں گرم ہونا شروع ہوئیں تو وہ دس رمضان کو ہی پنڈی اپنے رشتے داروں کے گھر عید منانے کے بہانے چلے گئے ۔ وہ سیانے لوگ تھے سب کچھ چھوڑ کر جلدی نکل گئے ۔ بعد میں تو یہاں وہی کھیل کھیلا گیا جو پورے ہندوستان میں مسلم آبادیوں کے ساتھ ہوا۔ چاچی حمیدہ کی بہوویں اور بیٹیاں بڑے اچھے اخلاق والی تھیں. وہ مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا کر پڑھا لکھا دیتی تھیں۔ میں ان کے ساتھ رہتے کافی کچھ سیکھ گئی۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ساجدہ میری پکی سہیلی تھی۔ مجھے اس سے بہت پیار تھا۔ ہم دونوں ساتھ کھیلا کرتیں۔ ان کے گھر میں لگے جامن کے پیڑ میں بڑی اونچی پینگ پڑی تھی۔ ہم اس میں خوب لمبے لمبے جھولے لیتے مستیاں کرتے۔ کبھی کبھی ساون کے گیت گاتے۔ املی کے درخت سے کچی املیاں توڑ کر کھاتے۔ کبھی ساتھ بیٹھ کر کشیدہ کاری کرتے۔ حمیدہ چاچی کے ہاتھ کی بنی پنجیری کھاتے، گھڑونچی کا ٹھنڈا پانی پیتے اور خوب موج میلا کرتے... اور پھر وہ چلی گئی تو میں اکیلی رہ گئی۔ اس کے سوا میری کوئی سہیلی نہیں تھی۔ تمہارے روپ میں مجھے ساجدہ نظر آتی ہے نور!! میری سہیلی ساجدہ... جو شاید اب کبھی مجھے نہ مل سکے۔" اتنا کہتے ہی ریشمی کی آواز بھرا گئی۔ میں نے اسے گلے لگایا تو وہ میرے کندھے سے لگ کر رونے لگی۔ میں اسے تسلیاں دیتی رہی۔
جگجیت سنگھ کئی دنوں سے گھر میں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ شاید کسی دوسرے گاؤں یا شہر گیا ہوا تھا۔ وہ پندرہ دن میں نے بڑے سکون سے گزارے ۔ ریشمی کور سے میری بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ ایک دن میں نے اسے کہا... "ریشمی تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتیں؟" وہ ہک دھک میرا چہرہ دیکھنے لگی۔ میں کیسے مسلمان ہو سکتی ہوں! مجھے یہ لوگ زندہ زمین میں گاڑ دیں گے نہیں تو مجھے اس جلتے تنور میں پھینک دیں گے ۔ مجھ میں یہ سب سہنے کی ہمت نہیں ہے نور۔ " وہ خوف زدہ ہو کر بولی۔ "تو کسی کو مت بتا ریشمی! بس چپ چاپ اسلام قبول کر لے۔ دنیا جیسی بھی ہو، تم آخرت کے دردناک عذاب سے تو بچ جاؤ گی۔ اور کیا پتا اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ چل میری بہن دیر نہ کر، کلمہ پڑھ لے، زندگی موت کا کیا بھروسا...!
ریشمی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ تو گویا تیار ہی بیٹھی تھی، جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی... میں نے اسے غسل کروایا اور کلمہ شہادت پڑھوایا ۔ اور اس کا نام سمیہ رکھا۔ یہ تیرا اسلامی نام ہے سمجھی! ہاں سمجھ گئی! اس کا چہرہ شدت جوش سے تمتما رہا تھا۔ آناً فاناً یہ سب کچھ ہو گیا تھا. کہنے لگی : "اب وہ اوپر آسمانوں والا... وہ جو مسلمانوں کا رب ہے، اب وہ میرا بھی رب ہے نا ؟؟؟
" ہاں سمیہ وہ تو پہلے بھی تمہارا رب تھا اور آج تو تم اس سے اور بھی قریب ہو گئی ہو۔"
" میں اسے سجدہ کر لوں؟" اس نے نہایت اشتیاق سے پوچھا
" ہاں ضرور کرو پگلی ۔" میں نے بھی خوشی سے لبریز لہجے میں جواب دیا اور ریشمی ایک دم سجدے میں جا گری۔ سجدے کی جگہ کو دیوانہ وار چومتی تھی اور روتی جاتی تھی۔ ہائے او میرے ربا... میرے سونڑے ربا !! ہونڑ نا مینوں چھڈیں... مینوں کدی کلاں نہ چھڈیں ۔ مینوں دشمن دے حوالے نہ کرنا ربا...! وہ سجدے میں گری رب سے مناجات کررہی تھی۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا آسمانوں پر چراغاں ہو رہا ہے فرشتے ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ میں نے بھی اسی وقت شکرانے کے نفل ادا کیے۔ لیکن میں نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اپنے اسلام کا اظہار نہ کرے کسی سے۔ بس دل میں چھپا کے رکھے. وہی پہلے والی ریشمی کور بن کے رہے۔
بے بے اور بھابھی تو دروازے پر بڑا سا تالا لگا کر ہر روز ہی کہیں نہ کہیں چلی جاتی تھیں۔ اور میں سمیہ یعنی ریشمی کو قرآن کی تعلیم دیتی دین کی باتیں اور ضروری فقہی مسائل سکھاتی۔ ایسے ہی ایک دن ہم دونوں تعلیم کا حلقہ لگائے بیٹھی تھیں کہ دھاڑ سے دروازہ کھلا اور جگجیت سنگھ کی چنگھاڑتی ہوئی آواز سنائی دی.....
جاری ہے ============
*اہم اعلان*
ہم ملی نغمے کے مقابلے میں حصہ لینے والے بچوں کی کاوش پر قارئین و ناظرین کی داد و تحسین کا احترام کرتے ہیں ۔تاہم اول دوم سوم کے حتمی نتائج کے لیے تین رکنی پینل کے فیصلے کا انتظار ہے ۔ ان شاء اللہ 17اگست رات آٹھ بجے نتائج کا اعلان متعلقہ وٹس ایپ گروپ اور فیس بک پیج پر بیک وقت کیا جائے گا ۔ من جانب انتظامیہ ہم نشیں فاؤنڈیشن