تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے

سبین اپنے لیے سست، کاہل ،فضول خرچ، بے عقل، غیر ذمے دار، جذباتی، جیسے کئی القابات ایک ساتھ اپنی ذات کے لیے برداشت نہ کر سکی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد پھٹ پڑا اور دانش کے ساتھ جھگڑتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جب سے تمہاری ماں اس گھر میں آئی ہے، اس گھر کا سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ دانش اپنی ماں کے لیے سبین کی زبان سے ایسے الفاظ برداشت نہ کر سکا اور غصےمیں اٹھ کر دو تین تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیے

نبیلہ شہزاد

مزید پڑھیے۔۔

ایک کہانی، ذرا پرانی

زندگی بہت اچھی تھی۔ ایک صحت مند اور خدمت گزار بیوی کی زندگی واقعی اچھی تھی۔ شوہر نامدار کو ایسی عادت تھی کہ جب تک بیوی آ کر پاؤں نہ دبانا شروع کرے، ان کی آنکھ نہیں کھلتی تھی۔ میں صبح وضو کر کے مصلے پر کھڑی ہوتی اور وہ آوازیں لگانا شروع کر دیتے... ”جلدی نماز پڑھو.. آ کر میرے پاؤں دباؤ۔“ اور میں اکثر نماز کے بعد والے اذکار بھی چھوڑ دیتی اور آکر پاؤں دبانے بیٹھ جاتی

زہرہ جبیں کراچی

مزید پڑھیے۔۔

مری ذات ذرہ بے نشاں

سات (7) دن کی معصوم جنت اپنی ماں کی چھاتی سے لگی قطرہ قطرہ دودھ اپنے حلق سے اتار رہی تھی ۔ اپنے ناکردہ و غیر اختیاری جرم ”بیٹی ہونے “ سے بے خبر وہ نازُک کلی مزے سے ماں کی آغوش کی گرمائش میں مگن تھی کہ ایک دم اُس کا باپ درندہ بن گیا ، اس کو چھیننے کے انداز میں اُٹھایا اور بے دردی سے فرش پہ دے مارا ۔ اور پھر آنًا فانًا پانچ گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں
ساجدہ بتول
(آخری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

غنوی کیوں بے چین تھی ؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مجھے کام سے زیادہ ایک جیسی روٹین تھکارہی ہے۔مجھ پر ایک عجیب سا جمود طاری ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک دائرے میں گھوم رہی ہوں دن سے رات رات سے دن۔۔۔۔سر چکرانے لگا ہے میرا اب تو ایسا لگتا ہے کوئی خوشی کوئی رنگین نہیں رہی اب زندگی میں۔۔۔
بنت مسعود احمد کراچی

مزید پڑھیے۔۔

دھندلا عکس

آج مہینے کی پندرہ تاریخ تھی۔ اس دن وہ ڈونیشنز کیا کرتی تھی۔ مختلف اداروں میں سامان تقسیم کرتی اور ان لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرواتی۔ پھر وہی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتیں اور ڈھیروں لائکس سمیٹتی تھیں۔ وہ ان لمحات کا بےصبری سے انتظار کرتی تھی۔اس کی پوری زندگی ہی ان لمحات کے گرد طواف کرتی تھی۔ آج بھی حسبِ معمول صبح سویرے اس کی ٹیم کاموں میں جتی ہوئی تھی۔

حمنہ کامران، اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

حرم

بے چاری فاختہ، نرم ملائم پروں والی معصوم سی، اس ظالم کی قیدی بن گئی، وہ مکروہ جلاد اس کے پر نوچتا کھسوٹتا ، ٹھونگیں مارتا، اسے طرح طرح کی اذیت دے کر اپنی فتح کا جشن مناتا، کومل، گداز بدن فاختہ مرجھاکے رہ گئی، کیوں کہ اس کا ساتھی نر ایک گدھ تھا، جوبد شکل تھا، ظالم اورسفاک تھا ۔فاختہ نے بہت کوشش کی کہ اس بد فطرت اور بد خصلت ساتھی سے چھٹکارا پا سکے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

اڑان

ہاں ،بہت خوشی ہوتی تھی کہ میں ایک فوجی کی بہن ہوں ،محلے میں میری سہیلیاں رشک کرتی تھیں ،میرے بھائی کی تو چال ہی شان والی تھی ،وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی پا کر کیپٹن بنے ،پھر تو ان کی اڑان دیکھنے والی تھی ،ہر مشکل محاذ پر انھیں بھیجا جاتا تھا اور وہ سرحد کی حفاظت، اپنی دھرتی کی حفاظت اپنی ماں کی طرح کیا کرتے تھے
عصمت اسامہ لاہور

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

یا اللہ مدد! یا اللہ مدد!
میں نے آخری بار پکارا اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔ اسی بے ہوشی کے دوران مجھے سہاگ کا جوڑا پہنا کر بیل گاڑی میں ڈال کے گردوارے لے گئے اور جب واپس آئی تو جگجیت سنگھ کی ووہٹی "سُندر کور" بن کر۔ ریشمی اور رجنی موسی ہر قدم پر میری ڈھارس بندھاتی رہیں۔ دن گزرتے رہے اور یوں ہی ایک سال پورا ہو گیا... اگلا رمضان آ گیا. مگر ہمارے گاؤں میں کوئی پاکستانی لڑکیوں کو لینے نہیں آیا۔ یا شاید آئے بھی ہوں تو ہمیں خبر نہ ہوئی۔ موسی رجنی کا بیٹا جو فوج میں تھا وہ بھی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ چھے مہینے اور گزر گئے

(پانچویں قسط)
ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

کم بیک جوزف

’’اس انگریز ملک میں پاپی پیٹ کو پالنے کے لیے نام کے ساتھ ساتھ حلیے بھی بدلنے پڑ جاتے ہیں لیکن اب مجھے یاد آیا ہے کہ میں مریم ہوں اور اب مجھے سمجھ آیا کہ ہم اپنی قدریں بھول کر اپنے حالات تو بدل سکتے ہیں، لیکن اپنا اصل چھوڑ کر کبھی اپنا وجود اور اپنی شناخت نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔
ڈاکٹر ماریہ اشفاق قریشی
(آخری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

ریشمی مجھے کوٹھڑی میں بند کر کے چلی گئی۔ آج نہ جانے کیوں میرا دل بڑے سکون میں تھا۔ میں کوٹھڑی کی دیوار سے ٹیک لگائے بہت دیر تک بآواز بلند قرآن کی تلاوت کرتی رہی مجھے ایسا لگ رہا تھا اس کوٹھڑی میں چاروں طرف نور کی بارش ہو رہی ہے۔ ریشمی کے حسن سلوک سے میرے دل کو ایک نئی امید بندھ گئی تھی۔ اب شاید میں یہاں سے نکل پاؤں... میں نے پر امید ہو کر سوچا۔

ام محمد سلمان

(چوتھی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

میری ذات ذرہ بے نشاں

میں بھی پاگل ہوں ۔ عورتوں سے بڑی غلطیاں کروانے کی کوشِش کر رہا ہوں ۔ یہ تو خُود مجبُور ہوتی ہیں ۔ اور رہے مرد ، وہ ان کی وجہ سے ہی کچھ زیادہ برا نہیں کر سکتے ۔ اب تو بس کوئی ایسا لڑکا پھانسنا ہے جو اُتاؤلا ہو ۔ کِسی عورت سے مشورہ کیے بغیر ہی میری بات فورا مان لے ۔ “ اُس نے سوچا اور اپنے مخصوص بیت الخلاء میں آ گیا ۔ وہ کافی تھک گیا تھا لہٰذہ لیٹتے ہی خراٹے مارنے لگا تھا۔۔۔
ساجدہ بتول

مزید پڑھیے۔۔

کم بیک جوزف

’’میں مریم کا شوہر یوسف ہوں۔ آپ سے ملنے کی خاطر حاضر ہوا ہوں۔ سنا ہے آپ نے ہماری شریک حیات کا بہت خیال رکھا ہے اور اب آپ پر یہ نوبت آئی ہے کہ آپ کا خیال رکھا جائے تو ہم کیوں یہ موقع گنوائیں۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مادام؟ ‘‘ یوسف کا لہجہ شیرینی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کا حلیہ بادشاہوں کے جیسا تھا اور وہ مجھے پہلی ہی نظر میں پسند آیا تھا۔
تیسری قسط
ڈاکٹرماریہ اشفاق قریشی

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

دیکھو میری بات مانو اگر تم یہاں سے چھٹکارا چاہتی ہو تو جگجیت کی بات مان لو۔ تم ویسے بھی تو اس کے قبضے میں ہو۔ اگر وہ شادی بھی کر لے گا تم سے تو کیا فرق پڑتا ہے. جو اب کرتا ہے وہی بعد میں بھی کرے گا مگر تم کم از کم اس ظلم و جبر کی چکی میں پسنے سے بچ جاؤ گی. کچھ تو تمہاری تکلیفیں کم ہوں گی اور جب تم بھائی سے ویاہ کر لو گی۔۔۔۔۔
ام محمد سلمان
تیسری قسط

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

ہم تقریباً پچیس تیس جوان لڑکیاں تھیں۔ وہ ہمیں آپس میں بانٹنے لگے۔ ایک ہٹا کٹا سکھ میرے پاس آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگا۔ میں نے اس کے چہرے پر تھوک دیا.. لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا وہ مکروہ قہقہے لگاتا ہوا مجھے اپنی حویلی میں لے گیا... اور... اور.... میرا دامن عصمت تار تار کر دیا۔ میری کوئی پیش نہ چلی۔

ام محمد سلمان کراچی 

دوسری قسط

مزید پڑھیے۔۔

آزادی کی کہانی

قائد اعظم وہ آئرن مین تھے جنہوں نے پہلے سب مسلمانوں کو منظم کیا ۔ان کو ایک جگہ جمع کیا ۔پھر قائد نے حکومتی اداروں اور بہت سے ہندو رہنماؤں سے بات کی مگر ان سب نے آپ کی مخالفت کی ۔وہ آپ کو اپنے مقصد سے ہٹانا چاہتے ہیں وہ آپ کے دشمن بن گئے آپ کو دھمکیاں دینے لگے ۔مگر قائد اپنے مقصد پہ ڈٹے رہے ۔

نازیہ نوازش، اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

مرد

اور اچانک شوہر نے کہا پتا نہیں مجھے کیا ہوجاتا ہے، میں نے طلاق خود نہیں دی ،یہ تو جادو ٹونے کے اثرات ہیں پھر سب کی ملی بھگت سے گھر بس گیا۔ اور مزید چار بچے ہوگئے اور یہ سب جادو کی وجہ سے ممکن ہوایا جن بھوت کی وجہ سے کہ صرف پانچ بچے ہو سکے ۔کیوں کہ عاشق بھوتنی نے بچے بند کروا دیے

ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

کم بیک جوزف

اکیلے پن کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کا خوف بھی رہ رہ کر میرے اندر ڈر کو بڑھا رہا تھا جس کی وجہ سے میں کسی بھی خطرے کو سوچ کے اندر تک کانپ جاتی تھی۔ پھر کیڑے مکوڑے اور دوسرے حشرات الارض کا خوف تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن سمندر سے آتی ٹھنڈی ہوا پورے جسم میں ایسے سکون انڈیل دیتی تھی جیسے کوئی ٹرانکولائیزر ایک دم سکون دے دیتا ہے

ڈاکٹرماریہ اشفاق قریشی

(دوسری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

میں تو ہوش میں ہوں مگر کہیں آپ کا معصوم اور شریف بیٹا جوش میں کہیں اپنے ہوش نہ کھو بیٹھے، جلدی جائیں آپ سب۔۔۔ یہ تو اچھا ہوا آپ نے خود مجھے اسے بلانے کے لیے بھیجا اور کمرے کے باہر آوازیں آتی سن کر مجھے صورت حال کا ادراک ہوا ورنہ تو میں کبھی حقیقت جان ہی نہ پاتی

تنزیلہ احمد
آخری قسط

مزید پڑھیے۔۔

دیر آید درست آید

ارے کیا ہوا؟ آج ہماری بیگم کا چہرہ سرخ، ناک پکوڑا اور آنکھیں سوجی ہوئی کیوں ہیں؟" زین آفس سے آج تھوڑا جلدی آ گیا تھا۔ وہ صائمہ کی روئی روئی صورت دیکھ کر ہلکے پھلکے انداز میں گویا ہوا۔ زین کی آواز سنتے ہی صائمہ کی آنکھیں رم جھم رم جھم برسنا شروع ہوگئیں۔

شمائلہ شکیل حیدر آباد
(آخری حصہ)

مزید پڑھیے۔۔

میری ذات ذرہ بے نشاں

یہ لڑکی آج سے بِیس دن قبل میری بہُو بن کر اس گھر میں آئی ۔ میرے بیٹے نے اِس کو ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا ہوا تھا ۔ مُجھ سے برداشت نہ ہوتا ۔ آخِر آج جب یہ کچن میں کام کر رہی تھی ، میں نے اِس کے کمرے میں جا کر چُپکے سے اپنے سونے کے زیورات اس کے پرس میں ڈال دیے ۔ اور پھر کچھ دیر ”زیور نہیں مل رہے“ کی گردان کرتی رہی ۔ جیسے ہی میرا بیٹا گھر میں داخل ہوا ، میں نے اُسے بھی یہی بات بتائی اور پھر فورًا اس کے کمرے میں جا کر اس کے سامنے ہی اِس لڑکی کا پرس کھولا۔۔۔

ساجدہ بتول
(دوسری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

دکھ بھری داستان

میں اتنی دیر میں بازار سے ضروری چیزیں لے آؤں. واپسی پر مولوی صاحب کے گھر سے ہوتی ہوئی آؤں گی. ان کی بیٹی کی شادی ہے اگلے مہینے، مبارکباد دے آؤں. میرے پیچھے تو تو جانے سے رہا مبارک دینے، اور سن !! سالن رات کا بچا ہے روٹیاں ڈال لینا، دن میں وہی چل جائے گا. رات میں مولی کے پراٹھے بنا لینا بس۔

عظمی ظفر

(حصہ دوم)

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

نانی ماں کی عمر93 سال ہو گئی تھی ،مگر آج بھی قابل رشک صحت کی مالک تھیں ۔ اس عمر میں بھی نگاہوں کی روشنی برقرار تھی. ابھی تک سوئی میں دھاگا خود ہی ڈال لیتی تھیں۔ سر کے بال اگرچہ سفید ہو گئے تھے لیکن ابھی تک گھنے اور لمبے تھے۔ نانی ماں کا نام "نور الاسلام" تھا۔ جسے ہمیشہ بڑے فخر سے بتایا کرتیں۔ نور الاسلام ان لوگوں میں سے تھیں، جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،جب کبھی موڈ میں ہوتیں تو فردوس اور عائشہ کو اکثر اپنی جوانی کے قصے سنایا کرتی تھیں

ام محمد سلمان
(پہلی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

کم بیک جوزف

جب بچی کے باپ نے مجھے ان جنگلیوں سے چھڑوایا اور اسی ناؤ کی جانب لے گیا جس میں اس کی اپنی بیٹی سوار تھی اور اس نے اب مجھے بھی اس کشتی میں سوار کرکے ناؤ کو سمندر کے حوالے کردیا۔ میری آنکھیں اس ناؤ کے اندر رکھی اشیاء کو دیکھ کر حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ناؤ صرف پھولوں سے ہی نہیں پھلوں اور کھانے کی دیگر اشیاء سے بھی لدی ہوئی تھی اور وہ بچی ماں سے جدا ہونے پہ بجائے رونے کے قلقاریاں ماررہی تھی۔ ناؤ اب سمندر میں ہچکولے کھا رہی تھی

ڈاکٹرماریہ اشفاق قریشی

(پہلی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

دیر آید درست آید

کافی سوچ بچار کے بعد اور گھریلو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، فہمیدہ بیگم نے نام نہاد عزت کو ایک جانب رکھ کر، لوگوں کے گھروں میں جا کر کھانا پکانے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دو چار جاننے والیوں کو کہہ دیا کہ اگر آپ کو یا آپ کے جاننے والوں میں سے کسی کو کھانا پکانے والی عورت کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا ۔۔۔۔۔۔۔
شمائلہ شکیل
(پہلی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

دکھ بھری داستاں

خود تو گھومنے چلیں جاتی ہیں سارا گھر مجھ پر چھوڑ کے، جوان جہان لڑکے کو اکیلا چھوڑ کر جاتے ہوئے دل نہیں دکھتا آپ کا ، تب دکھ نہیں ہوتا آپ کو امی،،،،، کریلے کا غم لگ گیا اب۔ میں بڑبڑاتے ہوئے کمرے کی جانب جیسے ہی بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظمی ظفر

مزید پڑھیے۔۔

میری ذات ذرہ بے نشاں

کل شہر کے سب سے بڑے گندے نالے میں چیف نے سب شیاطین کی دعوت کی تھی۔ دعوت میں چوہے اور مینڈک کھانے کو پیش کیے گئے تھے ۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی ۔مینڈک زیر زمین تھے ۔ چیف کے چیلوں نے بہت سے مینڈک مارے اور گندے نالے کے وسط میں جمع کر دیے ۔شیاطین کی دوسری ٹیم چوہے پکڑ کر لے آئی

ساجدہ بتول
(پہلی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

غرورِ عشق کا بانکپن

سن رہا ہوں اور جو کچھ تم نے پہلے کہا وہ بھی سن لیا اور سمجھ بھی چکا ہوں۔ حیرت تو مجھے اس بات پر ہے کہ تمھارے غیرت مند بھائی نے لگتا ہے ابھی تک تمھارا دماغ ٹھکانے نہیں لگایا نہ تمھاری لگامیں کھینچی ہیں، جو تم جو مری جا رہی تھی مجھ سے بات کرنے کے لیے۔۔۔" اس کے کانوں میں پڑنے والی آواز تو شناسا تھی مگر ۔۔۔۔۔۔۔
تنزیلہ احمد

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

اسی بات کا ڈر تھا کہ تم جیسے گندے انڈے کے ساتھ رہ کر میرا بیٹا بھی کہیں بگڑ نہ جائے۔ یہ تمھارے کرموں کا پھل ہے جو تمھارے سامنے آیا۔ پہلے اپنے گھر کی خبر گیری کرو۔ اپنے اعمال درست کرو۔ اپنے بیٹے کی خبر اور سرزنش کرنے کے لیے میں ابھی موجود ہوں۔ نکلو یہاں سے

 تنزیلہ احمد

قسط 10

شگفتہ کے حق میں اپنے شوہر کی بات سن کر وہ بھڑک گئیں۔

"تم تو بس اس کے گن گاتے رہنا اور یاں یہ تو بتاؤ مہارانی سے رشتے کے بارے میں  بات کی یا نہیں؟" ماں کی بات سن کر جاوید کے کان کھڑے ہوئے۔

مزید پڑھیے۔۔

میرا محرم

(پہلا باب زخرف)

جی عکاش، عکرمہ اور حذیفہ کی مما۔ اب سو جائیں کیونکہ آپ کو بیشک صبح کہیں نہیں جانا پر مجھے اپنی سیکنڈ وائف کے پاس جانا ہے۔ اس لئے چلیں اب بستر کی طرف۔" اس نے  اس کی گود سے کتاب لے کر میز پر رکھی۔ 

 مسفرہ سحر کراچی

ساتویں قسط

 آج کی رات بھی ہر رات کی طرح اس کمرے کا وہی منظر ہے۔ جائے نماز بچھی ہوئی ہے اور اس پر آہوں اور سسکیوں کے ساتھ دعا و فریاد کرتا لرزتا ہوا وجود۔ ہر رات وہ اپنے ان گناہوں کی معافی مانگتا ہے جو ماضی قریب میں اس کی ذات کا حصہ بنے رہے ۔ معافی اور دعاؤں کا یہ سلسلہ بچھلے دو سال سے چل رہا ہے مگر اسے نہ قلبی سکون ہے نہ ذہنی۔

مزید پڑھیے۔۔

خواب آور سفوف

مگر اگلے ہی لمحے زنانہ پسٹل اس نازک حسینہ کے ہاتھوں میں تھا۔ ٹریگر پر مخروطی انگلی ایک اشارے کی منتظر تھی۔ سرد شام کے اس پہر ڈاکٹر کے کشادہ ماتھے پر پسینے کے چند قطرے نمودار ہوئے۔ زبیدہ حسانی جیسی الہڑ ضدی دوشیزہ سے کچھ بھی بعید نہیں تھا۔

 بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

دن بھر کی حکمرانی کے بعد آفتاب کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی ، مارے برہمی کے اس کے رخسار ایسے دہک رہے تھے گویا کسی گوری دوشیزہ سے اس کی من پسند چیز چھین لی ہو، ماہتاب اپنے رخ انور سے نوبیاہتا عروس کی طرح شرماتے ہوئے گھونگھٹ اٹھا رہا تھا ، فضا میں رات کی رانی کی مسحور کن تیز بو گُلِ یاسمین سے بغل گیر ہو کر عجیب پرکیف خوشبو پیدا کر رہی تھی۔ دور کہیں موسمِ سرما کے پرندے مسرت کے گیت الاپ رہے تھے۔

مزید پڑھیے۔۔

امتحان

بالآخر اس کی شادی ہو گئی ۔ اسے شادی کے چند دن بعد ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور نہ ہی اس نے یہ بات چھپانے کا تکلف کیا۔ چچا نے اسے اپنے پاس بلایا اور بولے

 منیبہ ادریس

"ارے ماشاءاللہ! میری بیٹی اس بار بھی امتحان میں اول آئی ہے۔میری دعا ہے کہ تم زندگی کے ہر امتحان میں اول آؤ۔ آمین۔" ابو جان ملیحہ کے ٹاپ کرنے پر نہایت خوش تھے ۔ اس نے ایم ایس سی کے امتحان میں اپنی یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا۔ گھر میں سب ہی اس کی کامیابی پر خوش تھے اور اسے تحائف دے رہے تھے ۔

مزید پڑھیے۔۔

سب کہانیاں ہی سہی

’’ارے وہ بھی تو عورتیں ہوا کرتی تھیں جو گھر والوں کی خدمتیں کرتیں اور اتنے اتنے قرآن رمضان میں مکمل کرتیں!‘‘ طنز کرتے وہ بھول جاتا تھا کہ اس دور میں کچن کچے اور غذائیں سادہ اور طبع قوی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ یہ بھول جاتا تھا کہ اس دور کے مرد یہ نہیں کہتے تھے کہ ’’مرد کے دل کا راستہ تو معدہ سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔۔ان کو تو آج کے پکوانوں کی الف ب کی بھی خبر نہ تھی

عائشہ محبوب

 دوسری  اور آخری قسط

جمیلہ خاتون نے معاذ کو فون کیا۔۔۔۔ تو ’’ہاں پتہ چل گیا ۔۔۔ آپ کی بیٹی کو کچھ شرم نہ آئی، آج مہمانوں نے آنا تھا! ارے آنٹی ۔۔۔

مزید پڑھیے۔۔

میرا محرم

(پہلا باب زخرف)

موت تو سب کو آنی ہے لیکن جو مر کر بھی پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں خیر البریہ بن کر زندہ رہے میں ایسی موت چاہتی ہوں۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے اس دنیا سے چند لمحوں کے لئے روپوش ہوجاؤں پھر دیکھوں کیا کوئی ہے ایسا جو مجھے یاد کرے، میرا ذکر خیر کرے، مجھے سوچے، مجھے میرے پیچھے بھی محسوس کرے۔ لیکن پھر خود ہی مجھے لگتا ہے نہیں ایسا نہیں ہے

مسفرہ سحر کراچی

چھٹی قسط

"نہیں پڑھی یعنی آپ کتابیں نہیں پڑھتے؟ پڑھا کریں کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں ایک اچھی کتاب ہمیشہ زندگی میں کم از کم ایک مثبت پہلو ضرور لاتی ہے یا کم از کم ایک منفی عادت ضرور ختم کرتی ہے۔ دا میجک نام سے لگتا ہے کوئی جادوئی اسباق یا جادوئی کہانیوں کی کتاب ہے۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

تم کیا ہر جگہ کالی بلی کی طرح میرا راستہ کاٹتے رہتے ہو؟ نخوت سے کہتے ہوئے اس نے قدم بڑھانے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی۔

"تم کیا کھانے میں صرف کریلے کھاتی ہو؟ ہر وقت کڑوی کسیلی باتیں۔۔۔ اور ہاں میں تمھارا راستہ کاٹنے نہیں پہنچا بل کہ تم میرے راستے میں آ کھڑی ہوئی ہو۔ مگر تمھاری طرح میں بدذوق نہیں ورنہ منہ بھر کر تمھیں کالی بلی کہہ دیتا

 تنزیلہ احمد

قسط 9

 وہ ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر تھی، جب موڑ پر اس نے ایک گاڑی رکتے دیکھی۔ گاڑی میں سے ایک لڑکی کو اترتا دیکھ کر شگفتہ حیران رہ گئی۔ وہ لڑکی خراماں خراماں چلتی اس کے آگے آگے ہاسٹل میں داخل ہوئی۔ شگفتہ اسے اچھے سے پہچانتی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔