نانی ماں کی عمر93 سال ہو گئی تھی ،مگر آج بھی قابل رشک صحت کی مالک تھیں ۔ اس عمر میں بھی نگاہوں کی روشنی برقرار تھی. ابھی تک سوئی میں دھاگا خود ہی ڈال لیتی تھیں۔ سر کے بال اگرچہ سفید ہو گئے تھے لیکن ابھی تک گھنے اور لمبے تھے۔ نانی ماں کا نام "نور الاسلام" تھا۔ جسے ہمیشہ بڑے فخر سے بتایا کرتیں۔ نور الاسلام ان لوگوں میں سے تھیں، جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،جب کبھی موڈ میں ہوتیں تو فردوس اور عائشہ کو اکثر اپنی جوانی کے قصے سنایا کرتی تھیں

ام محمد سلمان
(پہلی قسط)

جاتی سردیوں کے دن تھے۔ دھوپ میں تمازت تھی، مگر ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی وجہ سے ناگوار نہیں گزر رہی تھی۔ عائشہ صحن میں واشنگ مشین لگائے کپڑے دھونے میں مصروف تھی۔ ماں جی وہیں دیوار کے ساتھ بچھے تخت پر سبزی بنا رہی تھیں۔ آج عائشہ کی فرمائش پر سبزی پلاؤ بنانے کا ارادہ تھا۔
نل کے نیچے کپڑے کھنگالتے ہوئے عائشہ کی نظریں یوں ہی اوپر کی طرف اٹھ گئیں... صحن کے ایک کونے میں لگے سکھ چین کے درخت پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ درخت کے نیچے دو قطاروں میں کافی سارے گملے رکھے تھے، جن میں گل داؤدی، سورج مکھی اور دیگر کئی طرح کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ عائشہ اس منظر میں کھو سی گئی... ماں جی کی نظر پڑی تو آواز لگائی "عائشہ بیٹی! کپڑوں کی طرف بھی دھیان دو۔"
اس نے ایک بھرپور نظر آسمان کی طرف ڈالی اور ماں جی سے بولی... ہائے اللہ ماں جی! کتنا پیارا موسم ہے۔ دیکھیں تو سہی! نیلا آسمان اس پر ٹکڑیوں کی صورت میں کہیں کہیں تیرتے سفید براق بادل، دہکتا سورج، چمکتی دھوپ، ٹھنڈی ہوائیں اور یہ مہکتے پھول... سب کچھ کتنا خوب صورت اور مسحور کن ہے ماں جی! بے ساختہ اللہ تعالیٰ کی کاریگری پہ پیار آنے لگتا ہے ۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم.. عائشہ نے بڑے جذب سے پڑھا ۔
ماں جی مسکرا کر اپنی پیاری بیٹی کو دیکھنے لگیں۔ سادہ سی عائشہ قدرت کے حسین نظاروں میں ایسے ہی گم ہو جاتی تھی۔
"یہ دنیا کتنی خوب صورت ہے ماں جی! یہ سب کچھ کتنا اچھا لگتا ہے۔"
"ہاں بیٹی رب نے اپنی قدرت کے جلوے دکھائے ہیں چار سو... ہر طرف اسی کی صناعی نظر آتی ہے ۔" "ماں جی!! نانی ماں آج کتنا لمبا سو گئی ہیں ۔ دس بجے چاشت کی نماز پڑھ کے جو سوئیں تو اب تک نہیں اٹھیں۔ اب تو ظہر کی اذان ہونے والی ہے۔ عائشہ نے کپڑے الگنی پر سکھاتے ہوئے کہا... اتنے میں قریب کی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوئی : اللہ اکبر... اللہ اکبر...
نانی ماں ایک دم اٹھ بیٹھیں.. ہاں ہاں بے شک... بے شک!! اللہ سب سے بڑا ہے ۔ پھر وہ تینوں اذان کا جواب دیتی رہیں. دعا کے بعد نانی ماں اپنی بیٹی فردوس کی طرف مڑیں اور بڑے شگفتہ لہجے میں بولیں... "پتا ہے فردوس میں نے ابھی خواب میں کیا دیکھا ؟"
"کیا دیکھا ماں جی؟"
میں نے تمہارے بابا جان کو دیکھا جنت کے باغوں میں ٹہل رہے تھے، ہوش رُبا حسن کی مالک حوریں ان کے آس پاس چل رہی تھیں اور وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگے: "جلدی آجا نور...! تیرے بن جی نہیں لگتا۔" سچ میں تو شرما ہی گئی۔ وہ کہتے کہتے جھینپ سی گئیں ۔ ارے واہ نانی ماں! چپکے چپکے نانا جی سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں... اور ہم سے کیسے چھپایا جا رہا ہے۔ اور کیا کہہ رہے تھے نانا جی...! بتائیے نا..! عائشہ لاڈ سے نانی ماں کے کندھے پہ جھول گئی ۔ ارے ہٹو بالکل ہی بے شرم ہو گئی ہو تم تو۔
فردوس! اس لڑکی کو سنبھالو بھئی! اور عائشہ ہنستی ہوئی نماز پڑھنے چلی گئی ۔ ٭٭٭٭٭
نانی ماں کی عمر93 سال ہو گئی تھی ،مگر آج بھی قابل رشک صحت کی مالک تھیں ۔ جو انھیں پہلی بار دیکھتا وہ تو یقین ہی نہیں کرتا تھا کہ ان کی اتنی عمر ہو چکی ہے۔ اور واقعی اللہ کا خاص کرم تھا ان پر ۔ اس عمر میں بھی نگاہوں کی روشنی برقرار تھی. ابھی تک سوئی میں دھاگا خود ہی ڈال لیتی تھیں۔ سر کے بال اگرچہ سفید ہو گئے تھے لیکن ابھی تک گھنے اور لمبے تھے۔
نانی ماں کا نام "نور الاسلام" تھا۔ جسے ہمیشہ بڑے فخر سے بتایا کرتیں۔ نور الاسلام ان لوگوں میں سے تھیں، جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس وطن عزیز کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں۔ جب کبھی موڈ میں ہوتیں تو فردوس اور عائشہ کو اکثر اپنی جوانی کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ لدھیانہ میں ان کا بہت بڑا گھر تھا۔ وہ ایک بہت امیر کبیر اور علمی و ادبی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ غالب ، میر تقی میر اور میر درد کی شاعری کا بڑا حصہ انھیں زبانی یاد تھا، اقبال کی شاعری کی تو سب کتابیں گویا ازبر تھیں انھیں۔ اکثر اپنے بابا جان یعنی فردوس کے نانا کی باتیں بتایا کرتیں :
"جانتی ہو فردوس! بابا جان نے ہماری بہترین تربیت کی۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت سلجھا ہوا تھا۔ بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت اور ملازمین کے ساتھ نہایت نرم اور فراخ دلانہ رویہ رکھا جاتا۔ اور اس میں ہندو مسلم کی کوئی قید نہیں تھی۔ بابا جان اور تایا جان وغیرہ ضرورت مند ہندو اور سکھوں کی بھی ایسے ہی مدد کرتے، جیسے غریب مسلمانوں کی۔ کبھی کوئی امتیاز نہیں رکھا۔
بابا جان ایک بہت بڑے عالم دین تھے۔ زیادہ تر وقت مدرسہ اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کرتے۔ ہمیں قرآن کی تفسیر ایسے دل نشیں انداز میں پڑھاتے تھے کہ ایک ایک حرف سماعتوں میں محفوظ ہو جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے سب سے اچھی عورت وہ ہے جو کبھی کسی نا محرم کی طرف نظر نہ ڈالے... تو جانتی ہو فردوس ہمیں عادت ہی نہ تھی نظر اٹھانے کی ۔ صرف نا محرم کی ہی بات نہیں ہم ہر اس چیز سے نظر چرا لیتے تھے جو ہمیں اللہ کی یاد سے غافل کر دے۔ شاید اسی وجہ سے میری نظر اب تک اتنی اچھی ہے کہ کبھی چشمے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اور ہنس پڑیں ۔ پھر کہنے لگیں : بابا جان کہتے تھے معاشرے کے امیر لوگوں پر بڑی بھاری ذمے داری ہوتی ہے کیوں کہ غریب لوگ ان جیسا بننے کے چکر میں ان کی تقلید کرتے ہیں۔ اس لیے امیروں کو ایک بہترین نمونہ بننا چاہیے اور کوئی ایسی روش اختیار نہیں کرنی چاہیے جس سے معاشرے میں بد امنی پھیلے یا لوگ بے راہ روی کا شکار ہوں۔"
" جی ماں جی! نانا جی کی باتیں تو سنہرے قلم سے لکھے جانے لائق ہیں۔" فردوس نے عقیدت سے کہا۔
اچھا ماں جی! آج رات کو ہمارے ساتھ چلیے گا. وہ ہماری رشتے کی پھپھو زینب کے پوتے کی شادی ہوئی ہے نا! تو ان کا ولیمہ ہے آج۔ اچھے سادہ لوگ ہیں آپ تو جانتی ہی ہیں انھیں۔ میرے خیال سے وہاں تقریب میں کوئی ایسی غیر شرعی بات نہیں ہو گی، جس سے ہمیں الجھن ہو۔ اس لیے ہمیں ضرور جانا چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟"
چلو ٹھیک ہے فردوس! تم کہتی ہو تو چلے چلیں گے۔ اس بہانے خاندان کے دیگر لوگوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ پھر جانے کب اس ذاتِ باری کا بلاوا آ جائے ۔" ٭٭٭٭٭
رات ہوئی تو عائشہ کے ابو جی اور بڑے بھائی کے ساتھ وہ سب ولیمے کی تقریب میں چلے گئے۔ ہال میں داخل ہوتے ہی انھیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ انھوں نے مرد و خواتین کے بیٹھنے کا انتظام ایک ساتھ ہی کر رکھا تھا۔ خیر اب آئے تھے تو ایک کونے میں بیٹھ گئے ،وہ تینوں خواتین تو ویسے بھی مکمل حجاب اور نقاب میں تھیں ۔ نانی ماں اس عمر میں بھی چہرے کا پردہ کرتی تھیں اور راستہ چلتے ہوئے نگاہیں تو گویا زمین میں گڑائے رکھتیں۔ مگر یہاں بیٹھتے ہی اپنوں کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو ہکا بکا رہ گئیں ۔
ارے فردوس! یہ تم مجھے کہاں لے آئیں..! یہ ان عورتوں اور لڑکیوں نے کیسے کپڑے پہن رکھے ہیں؟ ننگے سر، ننگے بازو، اتنے بڑے بڑے گلے، کھلی کمر، پاجامہ آدھی پنڈلیوں تک چڑھا ہوا۔ کیا ہے یہ سب..؟ یہ اونچے اونچے جُوڑے، خوشبو کی لپٹیں، چنگھاڑتے میک اپ، یہ سب کیا ہے فردوس!! خدایا یہ کیسی بے راہ روی ہے۔ مجھے یہاں سے لے چلو بس...!
چلو افسر میاں یہاں سے چلو! میرا دل گھبرا رہا ہے۔ وہ داماد کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں۔ افسر علی نے انھیں تسلی دی۔ بس ابھی چلتے ہیں ماں جی! کچھ دیر بیٹھیے۔ ذرا میزبان سے مل لیں بس پھر چلتے ہیں۔ وہ بادل نخواستہ بیٹھ گئیں۔ مگر اب وہ ارادتاً ہال کا جائزہ لے رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ہی دلہا دلہن کے اسٹیج پر تین چار مزید نئے شادی شدہ جوڑے آئے... ہال میں اچانک اندھیرا چھا گیا. اب صرف اسٹیج پر ست رنگی روشنی نظر آ رہی تھی۔ پھر میوزک سسٹم بج اٹھا اور وہ سارے جوڑے اسٹیج پر انگ سے انگ ملا کر رقص کرنے لگے۔باقی لوگ اسٹیج کے ارد گرد کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے۔ لوگ ہنس رہے تھے قہقہے لگا رہے تھے ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے۔ ماں جی تو گویا سکتے میں آ گئی تھیں... ایسا منظر تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ "میرا دل پھٹ جائے گا فردوس! مجھے یہاں سے لے چلو خدا کے واسطے مجھے یہاں سے لے چلو...! یہ کیا بد تہذیبی ہے۔ یہ کس بے شرمی سے ناچ رہے ہیں۔
انھیں بتاؤ افسر علی..! یہ پاکستان ہم نے ناچنے گانے کے لیے حاصل نہیں کیا تھا۔ یہ.. یہ لوگ اس طرح کیوں ناچ رہے ہیں.. افسر علی! انھیں روکو.. انھیں روکو.. ورنہ پاکستان ٹوٹ جائے گا بکھر جائے گا۔ انھیں بتاؤ کہ پاکستان کتنی قربانیوں سے بنا تھا، یہ اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں ناچنے گانے کی محفلیں سجائی جائیں۔ یہ اسلام کے نام پر بنا تھا اس کی بنیادوں میں لا الہ الا اللہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تکمیل کے لیے بنا تھا۔
یہ.. یہ مسلمانوں کی شادی ہے؟ان ناچنے والیوں کے باپ بھائی کہاں ہیں؟ ان کی غیرت مر گئی ہے کیا ؟ کس طرح مجمعے میں اپنی بہنوں بیٹیوں کو نچا رہے ہیں ۔ بھلا شادی ایسے بے حیائی سے کی جاتی ہے؟ کیا ہم نے پاکستان ایسی رنگ رلیاں منانے کے لیے حاصل کیا تھا؟ افسر علی! جاؤ انھیں روکو...
فردوس! تم زینب کو بلاؤ کہاں ہے وہ؟ میں اس سے بات کرتی ہوں ۔ یہ کیا کوٹھا سجا دیا ہے اس نے ولیمے کی تقریب میں!! "
اماں جی! خدا را آہستہ بولیے ۔ کوئی سنے گا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔" اور پھر وہ لوگ وہاں مزید نہیں رکے۔ نانی ماں کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ بے ہوش ہو چکی تھیں۔ کئی برسوں سے گھر سے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ گھر میں ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی کوئی خرافات نہ تھی کہ زمانے کے بدلتے رنگوں سے آشنا ہوتیں ۔ ولیمے کی تقریب کا یہ حال دیکھ کر انھیں انتہائی صدمہ پہنچا تھا ۔ ٭٭٭
دوسرے دن صبح کے وقت بھی گم صم بیٹھی تھیں۔ ناشتا بھی برائے نام کیا۔ آنکھوں میں گہرے دکھ کے سائے تھے ۔ "فردوس!" انھوں نے بڑی یاسیت سے اپنی بیٹی کو پکارا
"جی اماں جی! کہیے" انھوں نے سعادت مندی سے جواب دیا
"میری زندگی گزر گئی تمہیں ہجرت کے دردناک واقعات سناتے سناتے... وہ سب بھی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بھی جو مجھے تمہارے بابا جان وجاہت علی نے سنائے ۔ میں کبھی ان واقعات و حادثات کو بھول ہی نہیں سکی۔ یہ ہمیشہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں ۔ مجھے کبھی اپنے مقصد سے غافل نہیں ہونے دیتے۔ عائشہ عائشہ... یوسف...! کہاں ہو تم دونوں؟ ادھر آؤ میرے پاس۔ انھوں نے بے قراری سے اپنی نواسی اور نواسے کو پکارا ۔ دونوں ہی ان کے قریب ہو گئے
"جی نانی ماں!" وہ یک زبان ہو کر بولے ۔
میرے بچو! تم اس بے حیائی میں اپنا حصہ کبھی مت ڈالنا۔ تمہیں بتایا تھا نا.. پاکستان تو شرم و حیا کے لیے بنایا گیا۔ بھلا حیا کے بغیر ایمان کہاں مکمل ہوتا ہے!
عائشہ! میری بچی!! یہ حیا کی چادر کبھی سر سے نہ سرکنے دینا۔ یوسف بیٹے ! تم بھی سن لو... اپنے بڑوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں مت جانے دینا۔ اپنی اسلامی اقدار کا ہمیشہ پاس رکھنا۔ اس ملک و ملت کی حفاظت اور نگہداشت اب تمہارے جیسے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر تم لوگ ہی اپنے مقصد سے غافل ہو کر ناچ گانے میں لگ گئے تو دشمن ہمیں زیر کر دے گا ذلیل و رسوا کر دے گا۔ آج کی نسل نے غلامی کے وہ دن نہیں دیکھے جو ہم لوگ کاٹ کر آئے ہیں۔ غیر قوموں کی بدلتی ہوئی آنکھیں نہیں دیکھیں... اسی لیے اتنے بے خوف ہیں۔ کاش کوئی انھیں سمجھائے، یہ وقت رنگ رلیاں منانے کا نہیں بلکہ اپنے فرائض کی بہتر انجام دہی کا ہے۔ وقت فرصت ہے کہاں! کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے انھوں نے بڑے جذب سے شعر پڑھا۔ تمہیں پتا ہے جس وقت قیام پاکستان کا اعلان ہوا تھا تو کیسے فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ (جاری ہے)