تم کیا ہر جگہ کالی بلی کی طرح میرا راستہ کاٹتے رہتے ہو؟ نخوت سے کہتے ہوئے اس نے قدم بڑھانے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی۔
"تم کیا کھانے میں صرف کریلے کھاتی ہو؟ ہر وقت کڑوی کسیلی باتیں۔۔۔ اور ہاں میں تمھارا راستہ کاٹنے نہیں پہنچا بل کہ تم میرے راستے میں آ کھڑی ہوئی ہو۔ مگر تمھاری طرح میں بدذوق نہیں ورنہ منہ بھر کر تمھیں کالی بلی کہہ دیتا
تنزیلہ احمد
قسط 9
وہ ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر تھی، جب موڑ پر اس نے ایک گاڑی رکتے دیکھی۔ گاڑی میں سے ایک لڑکی کو اترتا دیکھ کر شگفتہ حیران رہ گئی۔ وہ لڑکی خراماں خراماں چلتی اس کے آگے آگے ہاسٹل میں داخل ہوئی۔ شگفتہ اسے اچھے سے پہچانتی تھی۔
"پتا ہےآج کیا ہوا؟" کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے صائمہ کو مخاطب کیا۔
"کیا ہوا؟" اس کی آواز میں دبا دبا سا جوش محسوس کرتے ہوئے صائمہ نے پوچھا۔
"ہونا کیا ہے بل کہ میں نے کچھ دیکھا ہے۔۔۔" چادر اتار کر اپنے بستر پر بیٹھتے ہوئے اس نے خود کلامی کی۔ صائمہ اسے ناسمجھی سے دیکھے گئی "کچھ بتاؤ تو؟"
"اپنے ہاسٹل کی وہ نیک پروین ہے نا جسے آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، کتنی معصوم اور چھوئی موئی سی لگتی ہے۔۔۔" شگفتہ نے اشارے دیے۔
"کون؟ وہ سمعیہ جسے آئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔۔۔" صائمہ نے اندازہ لگایا۔
"بالکل، وہی کمرہ نمبر 21 والی محترمہ۔۔۔"
"کیا ہوا ہے اسے؟" صائمہ نے کریدا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ شگفتہ کیا بتانا چاہ رہی ہے۔
"ہاسٹل والی سڑک کا جو موڑ ہے نا وہاں میں نے اسے بڑی سی گاڑی سے اترتے دیکھا۔ درمیانی عمر کا ایک آدمی گاڑی چلا رہا تھا۔ حلیے سے تو افسر لگ رہا تھا۔" شگفتہ نے اپنی طرف سے دھماکا خیز انکشاف کیا۔
"ہیں واقعی، یعنی اسے گاڑی پر کوئی ڈراپ کر کے گیا۔ ہو سکتا ہے کوئی جاننے والا ہو۔" صائمہ نے سادگی کا مظاہرہ کیا۔
"کیا تمھیں واقعی ایسا لگتا ہے؟" شگفتہ نے ابرو اچکائے۔
"کوئی ملنے جلنے والا، جان پہچان والا ہو تو چوروں کی طرف موڑ پر گاڑی رکوا کر اترنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ہاسٹل ہے، یہاں روزانہ کئی لڑکیاں گاڑیوں میں سوار ہو کر اچھی نوکریوں پر جاتی ہیں اور واپسی پر عین گیٹ کے سامنے گاڑی سے اترتی ہیں۔ اگر وہ بھی گیٹ پر گاڑی سے اترتی تو اس پر کون سا کوئی دفعہ لگ جانی تھی۔۔۔ دل میں چور ہو تو بندہ اتنی احتیاط برتتا ہے۔"
"یعنی تم یہ کہناچاہ رہی ہو کہ مینڈکی کو بھی زکام ہو گیا ہے؟" صائمہ نے مزاحیہ انداز میں کہا۔
"ہو گیا ہے یا پھر ہو رہا ہے۔۔۔" شگفتہ نے کہا تو وہ دونوں قہقہہ لگا اٹھیں۔
"اچھا میں چائے بنانے لگی ہوں تم پیو گی؟" صائمہ نے پوچھا۔
"نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔" شگفتہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
٭٭٭٭
آسیہ آپا آج گھر آئی ہوئی تھی۔ شفیق بھائی دفتر جاتے ہوئے انھیں گھر چھوڑ گئے۔ ان کے آنے سے گھر بھرا بھرا لگنے لگا تھا۔
"آپا بہت خوب صورت لگ رہی ہو اور یہ سوٹ کتنا پیارا ہے۔ دیکھو تو سہی چہرے اور سوٹ کا رنگ ایک جیسا لگ رہا ہے۔" حسینہ نے گلابی رنگ کے کڑھائی والے سوٹ پر ہاتے پھیرتے ہوئے کہا۔
"ساتھ ماشاءاللہ کہہ نظر نہ لگا دینا میری بچی کو۔" اماں نے حسینہ کو ٹوکا تو اس کا منہ اتر گیا۔
"دیکھ لو آپا، اماں تو ایسے بات کر رہی ہیں جیسے تم ہی سگی ہو، میں تو کچھ بھی نہیں لگتی۔"
"کیا ہو گیا ہے حسینہ، اماں کا یہ مطلب تھوڑی تھا۔" آپا نے اسے پیار سے چمکارا۔
"ہونہہ تو اسے چھوڑ۔ آج کل یہ ہر بات میں اپنی مرضی کے مطلب نکالتی ہے۔" اماں نے لاپروا انداز میں کہا۔
کچھ تو تھا جس کی وجہ سے وہ حسینہ سے ناخوش تھیں۔
"کیوں اماں ایسی کیا بات کہہ دی حسینہ نے؟" آپا نے حیرانی سے دونوں کو دیکھا۔
"آگے پڑھنا چاہتی ہوں، بس یہ ہی کہا اماں کو کہ کالج میں داخلہ کروا دیں۔ اسی بات کو اماں نے دل پر لے لیا، ہر وقت جلی کٹی سناتی رہتی ہیں۔" آسیہ خاموشی سے سب سنتی رہی۔
"دیکھ رہی ہے نا تو اس کی زبان کیسے فر فر چل رہی ہے۔ بس یہ کہا کہ ہاتھ تنگ ہے ابھی پھر دیکھیں گے یا پرائیویٹ پڑھ لینا مگر نہیں۔۔۔ اس کی موٹی عقل میں یہ حل کیسے سمائے؟ ویسے بھی بات صرف کالج کی نہیں۔ فیس الگ ہو گی اور کالج جائے گی تو چار پیسے بھی لے جایا کرے گی۔ پھر سواری کا خرچہ، اس کے علاوہ کالج کی کتابیں کاپیاں، سو خرچے نکلیں گے۔" اماں نے تفصیل سے بڑی بیٹی کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
"یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے اماں۔" آپا نے ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تائید کی۔
"آپا تم بھی۔۔۔ اس گھر میں کسی کو میرا خیال ہی نہیں۔" بگڑے تیوروں سے حسینہ نے بڑی بہن اور ماں کو دیکھا۔
"میں دیکھ رہی ہوں تیرے تیور۔ یہ سب نا تیری اس فارغ دوست حنا کی وجہ سے ہے، جس سے تو فون پر چپکی رہتی ہے۔" اماں نے اسے گھورتے ہوئے تیکھے انداز میں کہا۔ حسینہ کے چہرے کی متغیر رنگت آپا کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ پائی تھی۔
"کیا مطلب اماں؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"اسی نے کالج میں داخلے کی پٹی پڑھائی ہو گی۔ کہا ہو گا کہ میں لے رہی ہوں داخلہ تو بھی ساتھ لے۔ جان کو ہی آ گئی ہو گی۔۔۔"
تو اماں کی خفگی کی وجہ یہ تھی۔ آپا نے حسینہ کے چہرے کی پل پل متغیر ہوتی رنگت بخوبی دیکھی۔ اس کی شادی کو دو ہفتے ہی گزرے تھے اور پیچھے گھر میں اتنا کچھ بدل گیا۔ کم از کم اپنی چھوٹی بہن اسے ضرور بدلی بدلی لگی تھی۔
"اچھا اب کمرے میں نہ گھس جانا، جا کر باورچی خانے میں کام کاج دیکھ۔ بیاہی بہن پہلی بار میکے آئی ہے کچھ تو آؤ بھگت کر لے۔ شام میں تیرے دلہا بھائی آ جائیں گے تو کھانا ادھر ہی کھائیں گے۔" اماں کے کہنے پر حسینہ چپ چاپ باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔
"اماں موبائل کدھر ہے؟" اس کے منظر سے غائب ہوتے ہی آپا نے رازداری سے پوچھا۔
"پتا نہیں یہ حسینہ ہی سارا دن لیے پھرتی ہے۔ کمرے میں دیکھ لو۔" اماں نے سادگی سے جواب دیا۔
حسینہ ہانڈی روٹی میں لگ گئی، اماں سلائی مشین پر جھک گئی۔ فضیلہ اسکول گئی ہوئی تھی۔ دونوں کمرے خالی پڑے تھے۔ وہ آہستگی سے اٹھ کر اندر چلی آئی۔ حسینہ کے بستر کے تکیے پر اسے موبائل پڑا نظر آیا۔ وہ موبائل اٹھا کر وہیں بیٹھ گئی۔ پہلے موصول شدہ کال دیکھیں۔ حنا کے نام سے کوئی کال نہیں تھی پھر اس نے میسیجز دیکھے وہاں بھی حنا کا کوئی پیغام نہ دیکھ کر اسے شدید حیرانی ہوئی۔
"اگر یہ اپنی دوست سے مستقل رابطے میں ہے، فون پر باتیں کرتی ہے تو کوئی ریکارڈ کیوں نہیں؟" اس کے ذہن میں شک سرسرایا۔
"کہیں ایسا تو نہیں کہ حنا نام کی کوئی دوست ہو ہی نا اور اگر ہے تو اس کے ساتھ رابطے اور پیغامات کیوں مٹا دیے گئے، کچھ تو گڑبڑ ہے۔" آپا نے سوچا۔ وہ حقیقتا پریشان ہو گئی تھی۔
٭٭٭٭
آپا کی شادی کے ہنگامے ختم ہونے کے بعد عظیم کو پھر انجانی کشمکش نے گھیر لیا۔ کچھ تھا جو اسے نشتر بن کر چبھتا رہتا۔ کیا وہ شگفتہ کے الفاظ تھے جو اسے آئینہ دکھانے کا باعث بنے اور وہ بھی بیچ راستے میں۔۔۔؟ وہ اس لڑکی اور اس کے الفاظ ذہن سے نہیں نکال پایا تھا۔
"مجھے اس سے بات کرنی ہے۔ مگر کیسے رابطہ کروں؟" وہ جھنجھلا اٹھا۔
"وہ ہاسٹل میں رہتی ہے۔ کیا اس سے ملنے ہاسٹل جا سکتا ہوں؟" اک نئ سوچ اس کے دماغ میں ابھری۔ مگر یہ سب کیسے ممکن ہو سکتا ہے اس بارے اسے مزید سوچنے کی ضرورت تھی۔ دھیان بٹانے کے لیے اس نے موبائل سے ایک نمبر ملایا۔ کافی دن ہو گئے اس کی اپنی خاص دوست سے بات نہیں ہوئی تھی۔
نمبر ملاتے ہی اس کے کانوں میں آواز پڑی "آپ کا ملایا نمبر اس وقت دوسری لائن پر مصروف ہے۔"
عظیم نے حیران ہوتے ہوئے موبائل کان سے ہٹایا۔ رات کے اس پہر وہ نمبر کہاں مصروف ہو گا شاید وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ سر جھٹکتے ہوئے اس نے موبائل ایک طرف رکھا۔ ایسا اس کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ جس طرح کے چکر اس کے چلتے تھے اس میں یوں بدل جانا معمولی بات تھی۔
"یہ نہیں تو اور بہت۔۔۔" اس نے سر جھٹکا تھا۔
٭٭٭٭
ہاسٹل واپس آنے کے بعد ابھی وہ آرام کی غرض سے بستر پر دراز ہوئی کہ اس کا موبائل بجنے لگا۔ نمبر دیکھتے ہی شگفتہ نے گہری سانس بھری۔
"ہیلو! السلام علیکم چاچا۔"
"وعلیکم السلام پتر، کیسی ہے تو؟" چاچا کی پرجوش آواز اس کے کانوں تک پہنچی۔
"ٹھیک ہوں چاچا، گھر میں سب کیسے ہیں؟" اس نے رسمی انداز اپنایا۔
"ہاں سب خیر خیریت ہے۔ تو اپنی سنا سب ٹھیک، تیری نوکری کیسی چل رہی ہے؟"
"میری طرف بھی سب خیریت ہے چاچا۔" اگلے کچھ لمحوں کے لیے دونوں طرف معنی خیز خاموشی چھا گئی۔ "اور پتر۔۔۔" چاچا نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ خاموش رہی۔
"پھر پتر کیا سوچا ہے تو نے؟" چاچا نے گول مول انداز میں بالآخر پوچھ ہی لیا۔
"کس بارے میں؟" وہ جانتے بوجھتے انجان بن گئی۔
"کیا تجھے یاد نہیں؟ تیرے اور جاوید کے رشتے کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ کیا صلاح ہے تیری۔۔۔" واضح الفاظ میں وہ پوچھ رہے تھے۔
"اس بارے میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا۔"
"تو لے لے پتر۔ خوامخواہ بات لٹکانے کی کیا تک ہے؟"
"چاچا اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ سوچ لیں گے اس بارے بھی۔۔۔"
"جلدی ہے پتر جلدی کیوں نہیں ہے؟ اپنی ثمینہ کا رشتہ طے کر دیا ہے ہم نے، تو بڑی ہے اب تیرا بھی ہو جانا چاہیے۔" چاچا نے زور دے کر کہا تو وہ جیسے خواب سے جاگی۔
"ثمینہ کا رشتہ کب اور کہاں؟" وہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی تھی۔
"ادھر ہی، بڑا اچھا گھر بار ہے۔ لڑکا دوبئی میں نوکری کرتا ہے۔ فرزانہ کا بھائی، تو جانتی ہو گی تم لوگوں کی سہیلی ہے نا۔۔۔"
"اچھا وہ لوگ، وہاں کیا ہے رشتہ۔"
"ہاں پتر۔ ہم تو پہلے تمھارا رشتہ کرنا چاہتے تھے مگر وہ لوگ تو پیچھے ہی پڑ گئے۔ ہاں کرتے ہی بنی۔۔۔" چاچا نے وہی الفاظ دہرائے جو ان کی بیوی نے ان کے کانوں میں ڈالے تھے۔ وہ بے چارے خود بھی اصل بات سے لاعلم تھے۔
"مبارک ہو چاچا، اچھے لوگ ہیں۔" اس نے سادگی سے کہا۔
"بس اب ہمیں تیری فکر ہے۔ تم اور جاوید بڑے ہو ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔" انھوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"سوچتی ہوں چاچا، پھر بتاؤں گی۔" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
"مجھے انتظار رہے گا، زیادہ دن نہ لگانا۔ اپنا خیال رکھنا خدا حافظ۔"
فون بند ہوتے ہی سوچ کا در کھل گیا۔ چاچا کو اس نے کہہ تو دیا مگر وہ اس بارے سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
"سب کچھ جانتے بوجھتے میں کیسے خود کو قربانی کے لیے پیش کر دوں؟"
"کیا بات ہے شگفتہ؟ میں جب سے کمرے میں آئی ہوں تم ایسے ہی بت بنی بیٹھی ہو۔" صائمہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کا کندھا ہلایا۔
"ہاں نہیں تو۔۔۔" وہ پھر حال میں لوٹ آئی۔
"گھر سے فون آیا تھا، چاچا کا؟" صائمہ نے سوال کیا یا پتا نہیں اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ سوالیہ نظریں اسی پر مرکوز رہیں۔
"ہاں ان کا ہی تھا۔" اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
"تو پھر کوئی پریشانی والی بات کہہ دی ہے تمھیں کیا؟"
"نہیں کوئی پریشانی والی بات نہیں۔ ثمینہ کا رشتہ طے کر دیا ہے۔" نظریں جھکائے رکھی وہ بولی۔ صائمہ کی سوالیہ نظریں اسے ابھی تک خود پر جمی محسوس ہوئیں۔
"وہ چاہتے ہیں کہ میرا اور جاوید کا رشتہ ہو جائے۔" نظریں اٹھا کر اس نے جواب دیا۔ صائمہ کی نگاہوں میں اپنے لیے اپنائیت اور احساس دیکھ کر وہ دھیرے دھیرے اسے سب کچھ بتاتی چلی گئی۔
زندگی میں سب کچھ اکیلے اور چپ چاپ سہتے رہنا کئی بار اذیت کا باعث بنتا ہے۔ کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے کہ باہمت انسان کو بھی کسی ہمدرد کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے جس کے سامنے وہ اپنا دل کھول کر رکھ دے۔ شگفتہ کو ایسا ہمدرد صائمہ کی صورت میسر آیا بل کہ میسر تو کب سے تھا مگر اس نے اب بھروسا کیا اور شاید ٹھیک کیا۔ زندگی اب تک شگفتہ کے لیے ایک کے بعد ایک آزمائش لے کر آتی رہی اور وہ تمام آزمائشوں کا ہمت سے مقابلہ کرتی رہی۔ آگے بھی اسے ہمت سے ہی سامنا کرنا تھا مگر اب معاملہ اس کی آنے والی پوری زندگی کا تھا-
٭٭٭
شگفتہ اسٹور پر ہی تھی جب اسے ارم کی کال موصول ہوئی۔ وہ بہت پریشان تھی۔ اپنی ماں کی طبیعت کی وجہ سے جو سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
"پریشان نہ ہو، ان شاء اللہ خالہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ تم نے بھائی کو فون کر کے امی کی بیماری بارے بتایا؟" شگفتہ نے دھیمی آواز میں پوچھا اور محتاط نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہ تھا۔
"کال کی تھی۔ کہنے لگے میں بہت مصروف ہوں ایک دو روز تک چکر لگاؤں گا۔ مگر نہ ان کی مصروفیت ختم ہوئی اور کئ دن گزرنے کے بعد ان کے ایک دو دن بھی نہیں ہوئے۔" ارم کی روہانسی آواز اس کے کانوں میں سنسنائی۔
"اکیلی پریشان ہو گئی ہوں۔ کوئی دلاسا دینے والا بھی نہیں۔۔۔" شگفتہ کے دل کو کچھ ہوا۔ سگے بھائی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کتنی لاچار اور بے بس تھی۔
"اچھا تم ہمت کرو، یہ پریشانی کا حل نہیں۔ کام ختم ہونے کے بعد چکر لگاتی ہوں تمھاری طرف پھر دیکھتے ہیں۔ اوکے اللہ حافظ۔" بات ختم کر کے اس نے موبائل فورا کان سے ہٹایا اور نئے آنے والے گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔ کام مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے ہاسٹل فون کر کے دیر سے آنے کی اطلاع دے دی۔ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی کہ پہلے روز کی ذلت ابھی تک اس کی ذہن میں تازہ تھی۔
شگفتہ کے ہاسٹل اور ارم کے گھر کا روٹ الگ الگ تھے۔ ارم کے گھر سے نزدیکی اسٹاپ پر اتر کر شگفتہ کے قدم دوست کے گھر کی طرف اٹھنے لگے مگر پھر اچانک تھم گئے۔ اسے یاد آیا کہ وہ تو عیادت کے لیے جا رہی ہے اس لیے پھل وغیرہ لے کر جانا مناسب رہے گا۔ یہ سوچ کر اس کے قدم دکانوں کی طرف اٹھنے لگے۔ ایک درجن کیلے اور ایک کلو سیب خرید کر اس نے قیمت ادا کی اور شاپر اٹھائے واپس اپنے راستے پر چل دی۔ ارم کے گھر سے وہ چند گلیاں دور تھی جب اسے سامنے سے وہ آتا دکھائی دیا۔ شگفتہ ٹھٹھک گئی۔
یقین تو اسے بھی اپنی آنکھوں پر نہیں آ رہا تھا۔ اپنی مخصوص چادر اوڑھے، ہاتھوں میں پھل کے لفافے اٹھائے سامنے سے وہی چلتی آ رہی تھی۔ ہاں یقینا وہی تھی، وہی بدتمیز مہ جبین۔۔۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اس کے سامنے جا پہنچا۔
"ارے یہ ہماری طرف آج چاند کیسے نکل آیا؟ مجھے تمھیں یہاں دیکھ کر یقین نہیں آ رہا۔ یوں بھی ملاقات ہو جائے گی سوچا نہ تھا۔" عظیم نے لہکتے ہوئے شاعرانہ انداز میں کہا۔
اسے دیکھتے ہی شگفتہ کی تیوری چڑھ گئی اوپر سے اس کا گھٹیا انداز اور باتیں اسے تپانے کے لیے کافی تھیں۔
"تم کیا ہر جگہ کالی بلی کی طرح میرا راستہ کاٹتے رہتے ہو؟ نخوت سے کہتے ہوئے اس نے قدم بڑھانے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی۔
"تم کیا کھانے میں صرف کریلے کھاتی ہو؟ ہر وقت کڑوی کسیلی باتیں۔۔۔ اور ہاں میں تمھارا راستہ کاٹنے نہیں پہنچا بل کہ تم میرے راستے میں آ کھڑی ہوئی ہو۔ مگر تمھاری طرح میں بدذوق نہیں ورنہ منہ بھر کر تمھیں کالی بلی کہہ دیتا۔" عظیم نے دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کے من کی مراد یوں اچانک پوری ہو جائے گی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
"کیا مطلب ہے تمھارا؟" شگفتہ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا۔ وہ تو جیسے سڑک سے چپک ہی گیا تھا۔
"مطلب یہ کہ مس شگفتہ اس راستے سے میرا روز کا آنا جانا ہے، کیونکہ یہ میرا محلہ ہے۔ یہاں سے کچھ گلیاں دور میرا گھر ہے۔" ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے جیسے وہ اسے اپنا گھر دکھا رہا تھا۔
"ویسے کیا تم مجھے ڈھونڈتی ہوئی یہاں تک تو نہیں آ پہنچی؟ چلو خیر مٹھائی کی جگہ یہ پھل ہی سہی۔۔۔" شگفتہ کو اس کی شوخی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ کم بخت تھا بھی تو انتہا کا ڈھیٹ۔
"بکواس بند کرو اور ہٹو میرے سامنے سے، ضرورت سے زیادہ تمھاری زبان چلتی ہے۔" غصے سے کہتے ہوئے وہ تیز تیز قدموں سے اپنے راستے پر چل دی مگر اس کی نظروں کی تپش گلی کا موڑ مڑنے تک وہ اپنی پشت پر محسوس کرتی رہی۔
"ایک تو اس منحوس نے ضرور ٹکرانا تھا۔ ہے بھی کتنا بے باک اور گھٹیا۔" بڑبڑاتی ہوئی وہ ارم کے گھر تک پہنچ گئی۔ ارم کے مرجھائے ہوئے چہرے پر شگفتہ کو دیکھ کر رونق آ گئی تھی۔ بستر پر لیٹی اس کی ماں نیم غنودگی کی حالت میں تھی۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل برا ہوا۔
"ڈاکٹر کیا کہتا ہے خالہ کی حالت کب تک سدھرے گی؟" شگفتہ نے ہمدردانہ انداز میں پوچھا۔
"امی بھائی کو بہت یاد کرتی ہیں۔ دل پر غم لے لیا ہے۔ ہمارا اور کوئی سہارا نہیں اور بھائی ہمیں پوچھتے تک نہیں۔" ارم کی آنکھوں سے نمکین پانی کے کچھ قطرے باڑ توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسے سگے رشتوں کا کوئی کیا کرے جو خوشی کی بجائے باعث دکھ و تکلیف بنتے ہیں۔
"تمھیں اپنھ بھائی کو دوبارہ کال کرنی چاہیے تھی، جب وہ دو تین روز گزرنے کے بعد نہیں آئے۔" شگفتہ نے جیسے صلاح دی۔ ارم کی والدہ نے آنکھیں ہلکی سی وا کیں۔ انھیں گھر میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔
"کیسی ہیں خالہ؟ میں شگفتہ، ارم کے ساتھ کام کرتی ہوں۔" ان کے پاس بیٹھ کر نرمی سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ان کی ویران آنکھوں میں شناسائی کی ہلکی سی رمق بھی نہیں کوندی تھی۔ شگفتہ نے ارم کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔ وہ ہچکچا رہی تھی۔ بالآخر اس نے موبائل اٹھا کر ایک نمبر ملایا۔ بیل جا رہی تھی مگر ابھی تک کال اٹھائی نہیں گئی تھی۔ شگفتہ کے کہنے پر ارم نے سپیکر کھول دیا۔
"ہاں بولو ارم کیا بات ہے خیریت سے فون کیا؟" بے زار سی آواز ابھری۔ بیٹے کی آواز سن کر ماں کی آنکھوں کی پتلیاں حرکت میں آئیں۔ وہ بات سن اور سمجھ رہی تھیں۔ شگفتہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ارم کی ہمت بندھائی۔ "خیریت نہیں ہے بھائی، آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ اماں بہت بیمار ہیں۔ آپ نے آنے کا کہا مگر آئے ہی نہیں۔"
"او ہو! تم تو خوامخواہ بات بڑھا رہی ہو۔ تھوڑی بہت طبیعت اوپر نیچے ہو جاتی ہے، ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔ دوائی دیتی رہو مجھے جب وقت ملا آ جاؤں گا۔" اس کے بھائی نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔ وہ کسی اور کی ہی زبان بول رہا تھا۔ ارم کی آنکھیں بھر آئیں۔ شاکی نگاہوں سے اس نے شگفتہ کو دیکھا۔ وہ بھائی کا جواب پہلے سے ہی جانتی تھی۔ شگفتہ نے اس کے ہاتھ سے موبائل کھینچ لیا، اس کے تیور خطرناک تھے۔
"پہلی بات تو یہ کہ آپ کی ماں کی طبیعت تھوڑی بہت اوپر نیچے نہیں ہوئی بل کہ وہ کئی روز سے بستر پر پڑی ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے سے بھی قاصر۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ ارم اپنی ماں کو ڈاکٹر کو دکھا چکی ہے، اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے مگر کیا آپ کو لاغر اور بیمار ماں اور جوان بہن کی طرف کسی ذمہ داری کا احساس ہے؟" بنا سوچے سمجھے وہ کہتی چلی گئی۔
"کون کون بات کر رہی ہو؟" حیرانی سے پوچھا گیا۔
"میرا نام شگفتہ ہے، ارم کی دوست اور کولیگ ہوں۔ آپ کو تو شاید یہ بھی نہیں پتا ہو گا کہ آپ کی بہن گزشتہ تین دنوں سے چھٹی پر ہے ماں کی تیمارداری کی خاطر۔ صرف دوستی نبھانے کے لیے شام میں کام ختم ہونے کے بعد اگر میں دوست کی ماں کی عیادت کے لیے آ سکتی ہوں تو اپنی ماں سے ملنے، اپنے گھر آنے کے لیے آپ وقت کیوں نہیں نکال سکے؟" اس نے تیکھے لہجے میں کہا۔ دوسری جانب کچھ دور کے لیے خاموشی چھا گئی اور اس طرف بھی۔۔۔ ارم اور اس کی امی ہکا بکا رہ گئیں۔
تھوڑی دیر بعد ارم کے بھائی کی جھنجھلائی آواز سنائی دی "یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ تم کون ہوتی ہو اتنی باتیں کرنے والی؟ میرے سسرال میں کچھ پریشانی تھی اس لیے نہیں آ سکا۔"
"واؤ! اب یاد آیا آپ کو یہ آپ کے گھر کا معاملہ ہے؟ اور یاد تو آپ کو یہ بھی ہو گا کہ آپ کی جنت آپ کی ماں کے قدموں تلے ہے آپ کی بیوی اور اس کی ماں کے قدموں تلے نہیں۔ آپ کی بوڑھی ماں آپ کے پیار، ہمدردی، توجہ اور وقت کی زیادہ مستحق ہے، خیر آگے آپ کی مرضی۔۔۔" ہمدردانہ انداز میں کہہ کر اس نے جواب سنے بنا ہی کال کاٹ دی۔ اسے جو کہنا تھا وہ کہہ چکی تھی۔
"یہ تم نے کیا کر دیا، بھائی ناراض ہو گئے تو؟" ارم نے پریشانی سے انگلیاں مروڑیں۔
"پہلے تو جیسے وہ تم لوگوں سے بڑا راضی ہے۔ جو بھی باتیں ہوئیں میں نے کہیں، تم سے ناراض ہونے کی تو تک ہی نہیں بنتی۔ دیکھو ارم یہ سب تمھاری بھلائی کے لیے کیا۔ کسی نہ کسی کو تو انھیں احساس دلانا چاہیے تھا نا۔" اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شگفتہ نے نرمی سے سمجھایا۔ کچھ دیر پہلے والی شگفتہ اور اب والی کے لہجے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
"خالہ آپ بالکل بے فکر رہیں۔ اپنی بیٹی کہ طرف دیکھیں، یہ آپ کا سہارا ہے اور آپ اس کا۔ پلیز اس کی خاطر خود کو سنبھالیں۔ ذرا ہمت سے کام لیں۔" یہ سن کر بیک وقت ان کی آنکھ سے آنسو ٹپکا اور ہونٹوں ہر ہلکی سی مسکراہٹ ظاہر ہوئی۔ شگفتہ کو اپنی بات کا اثر محسوس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے واپسی کی اجازت لی تھی۔ باہر نکلتے ہی اس کے قدم اسی رستے کی جانب اٹھنے لگے جس سے وہ آئی تھی۔ چند قدم چلتے ہی وہ رک گئی۔
"کہیں پھر اس لوفر سے سامنا نہ ہو جائے، بہتر ہے کہ دوسری گلی سے جاؤں۔" وہ مختلف راستے پر چل دی۔
رات کو موصول ہونے والی کال نے سارے دن کی تھکن مٹا دی۔ ارم نے بتایا کہ بھائی ماں سے نہ صرف ملنے آیا بل کہ شرمندہ بھی تھا۔ وہ ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا اور گھر کے لیے ضروری چیزیں بھی لایا تھا۔
٭٭٭٭
"یار تم سے ملنے کو دل مچل رہا ہے، آنکھیں ترس گئیں تمھارا سہانا روپ دیکھنے کو۔۔۔" موبائل پر موصول ہونے والا پیغام پڑھتے ہی حسینہ کے ہونٹوں پر جان دار مسکراہٹ پھیل گئی۔
"کیا ہم کہیں مل سکتے ہیں؟" اگلا پیغام موصول ہوا۔ اس کا دل یک بارگی زور سے دھڑکا۔
"یہ بہت مشکل ہے۔" اس نے جوابی پیغام بھیجا۔
"یار پیار میں کیا مشکل کیا آسان، پلیز کچھ سوچو۔۔۔"
"مگر کیسے... میرے لیے گھر سے اکیلے باہر آنا جانا ممکن ہی نہیں۔"
"پلیز جان ایسے نہ کہو۔ میری خاطر اتنا بھی نہیں کر سکتی؟" وہ جزبز ہوئی۔
آپا کی شادی کے بعد سے حسینہ پر کافی ذمہ داری بڑھ گئی تھی۔ اوپر سے اماں نے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت بھی نہ دی ورنہ سب کتنا آسان ہو جاتا۔ کالج کے بہانے باہر جانا ہوتا اور ملاقات بھی ہوتی رہتی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ ملنے کو تو اس کا دل بھی مچل رہا تھا لیکن کیسے؟ اماں کے بلانے پر وہ فورا موبائل تکیے کے نیچے چھپا کر باہر دوڑی۔ اماں پہلے ہی اس سے خفا تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مزید خفا ہوں۔ اگر اسے موبائل پکڑے دیکھ لیتیں تو ان کا پارہ چڑھ جاتا۔
"میں نے سبزی بنا دی ہے، بو اب جلدی سے سالن پکا لے۔ تیرے ابا کو کھانا بھجوانا ہے۔" اماں نے ہدایت کی۔
"اچھا اماں!" سبزی کا تھال تھامے باورچی خانے میں چلی آئی۔ تھوڑی دیر ہی گزری کہ موبائل بجنے کی آواز اس کے کانوں تک پہنچی۔ اس سے قبل کہ وہ بھاگتی اماں پاؤں میں سلیپر ٹکائے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
اس کی چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ "کہیں اس نے فون تو نہیں کر لیا؟"
"ہاں کیسی ہے۔ شکر ہے تو نے فون تو کیا۔ یاد آ گئی تجھے ماں کی؟ بہت جی چاہ رہا تھا تجھ سے بات کرنے کو۔" اسے اماں کی خوشی سے لبریز آوازسنائی دی۔
"اور بتا تیری پھوپھی اور میاں ٹھیک ہے۔" یہ سنتے ہی حسینہ نے سکون کی سانس لی۔ یہ آپا کی کال تھی۔ اماں آپا سے فون پر بات کر رہی تھی اور یہ کال دیر تک چلنے والی تھی۔ بے فکر ہو کر وہ کھانا پکانے میں مگن ہو گئی۔
"آپا۔۔۔" فضیلہ کی آواز پر وہ چونکی۔ وہ موبائل تھامے باورچی خانے کے دروازے پر کھڑی تھی۔
"ہاں کیا بات ہے؟" حسینہ نے روکھے انداز میں پوچھا۔
"یہ تمھاری دوست کیسےعجیب میسج کرتی ہے۔۔۔ یار، جان اور پتا نہیں کیا کیا۔۔۔" فضیلہ کے الفاظ اس پر بم بن کر گرے۔ جلدی میں وہ پیغامات مٹانا بھول گئی تھی۔ ویسے بھی اس کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ چھوٹی اتنی چالاک نکلے گی۔ حسینہ نے موبائل اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔
"زیادہ بک بک نہ کیا کر، چل جا کر اپنا کام کر۔۔۔" موبائل سے پیغامات مٹاتے ہوئے وہ اس پر برس پڑی۔
"کیا بات ہے کیوں بہن پر چلا رہی ہو؟" اماں کی آواز سن کر اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ کڑی نظروں سے اس نے بہن کو گھورا اور چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
"کچھ نہیں اماں۔ میں تو اسے پڑھائی کے متعلق کہہ رہی تھی۔" حسینہ نے سادگی سے جواب دیا۔
"نہیں اماں! آپا چھوٹ بول رہی ہے۔ اس کی دوست حنا کے عجیب سے میسیج تھے میں نے پوچھا تو ڈاٹنے لگی۔" جیسے جیسے فضیلہ انھیں بات بتانے لگی حسینہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے لگے۔
"ادھر آ دکھا مجھے میسیجز۔" اماں نے کرختگی سے اسے پکارا۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے موبائل اماں کے حوالے کیا۔
"اس میں تو کچھ بھی نہیں؟" اماں نے موبائل کا جائزہ لینے کے بعد سوالیہ انداز میں دونوں بیٹیوں کو دیکھا۔
"ڈیلیٹ کر دیے ہیں اس نے نے سارے میسج، میں نے خودپڑھے تھے۔"
"کیوں ری حسینہ، چھوٹی سچ کہہ رہی ہے؟"
"نہیں اماں! یہ تو بس یونہی بات بنا رہی ہے۔ پتا تو ہے میری دوست کا۔ وہ ایویں مذاق کر رہی تھی تو کیا ہو گیا پھر؟" حسینہ نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔ اماں کے تیور مزید بگڑ گئے۔
"شرم تو جیسے تو نے گھول کر پی رکھی ہے۔ کیسے تن کر کھڑی ہے تو میرے سامنے۔۔۔ سہیلیاں اس طرح کے الفاظ استعمال کرتی ہیں کیا؟ مجھے تو تیری یہ سہیلی شروع سے ہی ٹھیک نہیں لگتی۔ اتنا کیوں مری جا رہی ہے ملنے کے لیے، بلا اسے گھر۔۔۔ میں بھی تو دیکھو کیسی ہے اور اس خاندان کی ہے؟" اماں کے الفاظ اس کی زبان بندی کر چکے تھے۔
"چل دفع ہو۔ جا کر کام ختم کر اور خبردار جو اب چھوٹی کو آنکھیں دکھائیں یا اسے کچھ برا بھلا کہا۔ کوئی الٹی سیدھی بکواس کی تو تیری خیر نہیں۔۔۔" وہ جو بعد میں فضیلہ کی طبیعت صاف کرنے کا سوچ رہی تھی اماں کی تنبیہ سن کر دبک گئی۔ مرے مرے قدموں سے وہ باورچی خانے میں چلی آئی۔ اگر فضیلہ سیدھی اماں کے پاس موبائل لے کر چلی جاتی تو...؟ آگے کا سوچ کر اسے جھرجھری آ گئی تھی۔
٭٭٭٭
پھرکی کی مانند وہ پورے صحن میں چکرا رہی تھیں۔
"ہائے ہائے، میرے تو ہاتھ پاؤں سن ہو رہے ہیں، کیسے کریں گے تیاری؟ رشتہ تو ہم نے فٹ سے کر لیا مگر شادی کی تیاری کیسے ہو گی؟" اماں نے فکرمندی کا اظہار کیا جب کہ ثمینہ کے دل میں تو لڈو پھوٹ رہے تھے۔ اس کی قسمت کھل گئی جب سے اس کی ہونے والی ساس نے شادی کی تاریخ طے کرنے کی بات کی۔ اس کے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔
"کہہ تو ٹھیک رہی ہو۔ میں تو خود بہت پریشان ہوں۔ ایک دم سے اتنے پیسوں کا انتظام کیسے کریں گے؟" انھوں نے بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ جاوید اس سب سے بے نیاز اپنے موبائل میں مگن رہا۔
"جہاں سے بھی کر، پیسوں کا انتظام تو تجھے کرنا پڑے گا۔ آخر کو میری ثمینہ کی شادی کا معاملہ ہے۔" انھوں نے چمک کر کہا۔
"ایسا نہ کریں کہ ان لوگوں سے کچھ وقت لے لیں۔ شادی کچھ ماہ آگے کر لیتے ہیں، دو تین ماہ کی بجائے لڑکا دوبئی سے تب آئے جب ہم شادی کے لیے تیار ہوں۔ چھ آٹھ ماہ تک ہم تیاری کر لیں گے۔" ابا نے اپنی طرف سے سمجھ داری کی بات کی جو کسی کو نہیں بھائی تھی۔
"کچھ خوف خدا کر، کیسی الٹی سیدھی باتیں کر رہا ہے۔ پہلے ہی حاسدین کی نظریں میری بیٹی پر جمی ہیں۔ شادی آگے کرنے کا مطلب پتا ہے تجھے؟ اگر کوئی اونچ نیچ ہو گئی رشتے میں تو پھر؟ لوگ تو پہلے ہی اچھے رشتے ہتھیانے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔" بیوی کی بات میں دم تھا اس لیے وہ چپ رہے اور سوچنے پر مجبور ہو گئے۔
"ابا شگفتہ سے پوچھ لو، اتنے سالوں سے شہر میں نوکری کر رہی ہے اس نے پیسے جوڑے ہی ہوں گے۔" جاوید دور کی کوڑی لایا۔ ماں تو اش اش کر اٹھی۔
"دیکھا کتنا سمجھ دار ہے میرا پتر۔ اور نہیں تو کیا پوچھ اس سے، اتنا بڑا احسان کر رہے ہیں اس کا رشتہ اپنے جاوید سے کر کے وہ نہیں کرے گی ہمارا احساس تو اور کون کرے گا؟" اماں نے جتلاتے ہوئے کہا۔ ابا کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔
"یہ ٹھیک بات نہیں۔ ہماری دھی ہماری ذمہ داری ہے شگفتہ کی نہیں اور..."
"کیا اور؟ اور یہ ذمہ داری والی کیا بات ہے۔۔۔" انھوں نے شوہر کی بات اچک لی۔
"کیا ہم اتنے سالوں سے اس کی ذمہ داری نہیں اٹھا رہے؟ بڑے ہیں ہم اس کے اور وہ کون سا ہمارے خرچے اٹھاتی ہے۔"
"تو ہم کون سا اس کا خرچہ اٹھاتے ہیں؟ اتنے سالوں سے اپنے خرچے وہ خود ہی اٹھا رہی ہے، اپنے بل بوتے پر گزارا کر رہی ہے۔" شوہر کا دوبدو جواب دینا انھیں ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔
جاری ہے