میں تو ہوش میں ہوں مگر کہیں آپ کا معصوم اور شریف بیٹا جوش میں کہیں اپنے ہوش نہ کھو بیٹھے، جلدی جائیں آپ سب۔۔۔ یہ تو اچھا ہوا آپ نے خود مجھے اسے بلانے کے لیے بھیجا اور کمرے کے باہر آوازیں آتی سن کر مجھے صورت حال کا ادراک ہوا ورنہ تو میں کبھی حقیقت جان ہی نہ پاتی

تنزیلہ احمد
آخری قسط

دوپہر ہونے سے قبل سب کچھ ہی تقریبا تیار ہو چکا تھا۔ مہمان بس آیا ہی چاہتے تھے۔ شگفتہ بھی نہا دھو کر کپڑے بدلنے چل دی۔ ثمینہ خوب بنی ٹھنی پھر رہی تھی۔ "واہ! تم تو بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔" اس کے دمکتے روپ اور اسٹائلش جوڑے کو دیکھ کر اس نے بے ساختہ تعریف کی۔
"شکریہ!" اک ادا سے کہتے ہوئے ثمینہ نے پہلے سے اکڑی گردن مزید اکڑا لی۔ شگفتہ نے سادہ سا جوڑہ زیب تن کر رکھا تھا۔ چہرے پر دور دور تک کسی بھی میک اپ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ بالوں کو بھی سادے سے جوڑے کی شکل میں لپیٹ لیا۔
"شہر کی لڑکیاں تو اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی آپ ہو۔" راحیلہ نے از سر نو اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ کام ختم کر کے وہ ان کے پاس کمرے میں ہی آ گئی تھی۔
"اچھا! تو پھر کیسی ہوتی ہیں شہر کی لڑکیاں؟ ویسے تم نے شہر کی لڑکیاں کہاں دیکھی ہیں؟" شگفتہ نے سوال کیا۔ "لو سب کو پتا ہے شہر کی لڑکیاں بڑی ماڈرن ہوتی ہیں اور آزاد خیال بھی۔۔۔" تو یہ تھی راحیلہ کی شہر کی لڑکیوں کی تعریف۔ "آزاد خیال تو یہ بہت ہے اور ہمیں کیا پتا شہر میں کتنے ماڈرن حلیے میں گھومتی ہو۔ ہم نے کون سا وہاں جا کر دیکھا ہے۔" ثمینہ نے ڈوپٹا سنبھالتے ہوئے مزید گل افشانی کی۔ "اتنا طنطنہ کس بات کا ہے؟ اپنے آپے میں رہو اور ہاں اپنی زبان کی تیزی ذرا سنبھال کر رکھو، جا کر اپنے سسرالیوں پر آزمانا مجھ پر نہیں۔ آئی سمجھ؟" شگفتہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ سب کو چپ لگ گئی۔
٭٭٭٭٭ "مہمان آ گئے ہیں، فٹافٹ کرو تم سب۔۔۔" چاچی نے دروازہ کھول کر بہ عجلت اطلاع دی۔ وہ جلدی میں تھیں اس لیے کمرے کے ماحول میں تناؤ محسوس نہ کر سکی۔ ان کے پیچھے پیچھے ہی ریحانہ اور راحیلہ کمرے سے نکل گئیں۔ ثمینہ شیشے میں اپنی تیاری دیکھنے لگ گئی۔ تبھی شگفتہ کو چاچی کی آواز سنائی دی، اسے پکارا گیا تھا۔ سر پر اچھی طرح ڈوپٹہ جمائے وہ بیٹھک کی طرف چل دی۔ بیچ راستے میں ہی چاچی سے ٹکرا گئی۔
"ارے ارے! تو منہ اٹھائے کدھر جا رہی ہے؟" انھوں نے اس کا راستہ روکا۔
"خود ہی تو آواز دی تھی، ظاہر ہے مہمانوں سے ملنے کے لیے بلایا ہو گا۔" اس نے اندازے لگایا۔ "نہیں بھئی! مہمانوں سے بھی ملوا دوں گی، پہلے جلدی سے جاؤ دیکھو جاوید تیار ہوا یا نہیں۔ بلا کر لا اسے، کہنا مہمان آ گئے ہیں۔" چاچی ہدایت جاری کر کے بیٹھک کی جانب بڑھ گئی۔ "افف! پھر سے جاوید۔۔۔" اس نے بدمزہ ہو کر پیر پٹخے تھے۔ ٭٭٭٭
"کیا بات ہے بھئی، بڑے خوش لگ رہے ہو۔ تمھاری کزن جو گھر آئی ہوئی ہے؟" راحیلہ نے طنزیہ انداز میں اسے چھیڑا۔ "یہ کیا بات کر دی تم نے۔۔۔ بھئی خوش تو میں اس لیے ہوں کہ تم آئی ہوئی ہو، میری جان۔" جاوید نے اس کی جانب جھکتے ہوئے فلمی انداز میں کہا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے کافی نزدیک کھڑے تھے۔ راحیلہ کھلکھلا اٹھی۔ "ویسے میں نے تمھارے اور اس کے بارے جو باتیں سنی ہیں، وہ ذرا بھی سچ ہوئیں تو تمھاری خیر نہیں، سمجھے؟" راحیلہ نے مصنوعی خفگی دکھائی۔ جاوید نے فورا اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"کہاں تم کہاں وہ۔۔۔ اماں ابا چاہے کچھ بھی کہتے رہیں میری جان تو تم ہو اور تم ہی رہو گی۔" مخمور لہجہ اور انداز۔ سب کو مصروف جان کر وہ دونوں دوسروں کی نظروں سے چھپ کر رومانس کرنے میں اس قدر مگن تھے کہ بے خبر رہے کہ کوئی نہ صرف ان کی باتیں سن رہا ہے، بل کہ دیکھ بھی چکا ہے۔ چاچی کے کہنے ہر بے دلی سے جاوید کو بلانے آئی شگفتہ اس کے کمرے سے آتی ہلکی آوازیں سن کر ٹھٹھک گئی تھی۔ دروازہ بالکل بند نہ تھا۔
درز میں سے اندر جھانکتے ہی تمام منظر شگفتہ پر واضح ہو گیا۔ وہ دھک سے رہ گئی۔۔۔ اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہاں مزید کھڑے رہنا اس کے لیے دشوار تھا۔ دبے پا‎ؤں وہ وہاں سے چلی آئی۔ اس کے دماغ میں دھماکے ہونے لگے تھے۔
"السلام علیکم!" دروازے کے بیچوں و بیچ کھڑے ہو کر اس نے کہا اور تمام نظریں بیک وقت اس کی جانب اٹھیں۔ فرزانہ، اس کے خالہ خالو، اس کے والدین، چاچا چاچی، ثمینہ اور ریحانہ... اسے دیکھ کر کسی کو بھی خوشی نہ ہوئی ماسوائے چاچا کے۔۔۔
"آؤآؤ پتر! ان سب سے ملو۔ یہ شگفتہ ہے میری بھتیجی۔" انھوں نے تعارف کروایا۔ "اچھا تو یہ ہے شگفتہ۔" سر سے لے کر پیر تک اس کا جائزہ لیتے ہوئے فرزانہ کی خالہ نے نخوت سے کہا۔ "جی یہ ہی ہے، تو گئی تھی نا جاوید کے کمرے میں۔۔۔ ہو گیا تیار وہ؟ ساتھ لے کر آتی اسے۔" چاچی نے نرمی سے کہا مگر انداز بہت عجیب سا تھا۔ ثمینہ کے سسرال والوں نے ذومعنی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ وہ ان کے تاثرات سمجھ نہیں پائی تھی۔
"میں نے بتایا تھا نا آپ کو شگفتہ اور جاوید کے بارے میں۔۔۔ بس آج ہی ہم نے ان دونوں کی بات بھی طے کر دینی ہے، گھر کی بات گھر میں رہ جائے گی۔ ثمینہ تو اب آپ کی امانت ہے، ہم نے سوچا اس مبارک موقع پر یہ نیک کام بھی کر لیا جائے۔" چاچی کا لہجہ شیرینی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ان کا یہ روپ دیکھ کر شگفتہ دنگ رہ گئی۔ "بہت بڑا ظرف ہے آپ کا۔" فرزانہ کی ماں نے کہا۔
"میرا خیال ہے آپ کو اپنے بیٹے جاوید کی بات راحیلہ سے طے کرنی جائے جسے آپ کے لاڈلے نے محبت کے جال میں پھانس رکھا ہے۔ وہ اس وقت آپ کے بیٹے کے کمرے میں ہی موجود ہے۔" شگفتہ کی سرد آواز ابھری اور حاضرین پر بجلی بن کر گری۔
"کک کیا، بک رہی تو تم ہوش میں تو ہو۔" چاچی سٹپٹا گئی۔ باقی سب ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھ رہے تھے۔ "میں تو ہوش میں ہوں مگر کہیں آپ کا معصوم اور شریف بیٹا جوش میں کہیں اپنے ہوش نہ کھو بیٹھے، جلدی جائیں آپ سب۔۔۔ یہ تو اچھا ہوا آپ نے خود مجھے اسے بلانے کے لیے بھیجا اور کمرے کے باہر آوازیں آتی سن کر مجھے صورت حال کا ادراک ہوا ورنہ تو میں کبھی حقیقت جان ہی نہ پاتی اور آپ لوگ بھی..." مہمانوں کی پروا کیے بغیر اس نے بے خوفی سے کہا۔ "بہن آپ نے تو ہمیں بتایا تھا کہ شگفتہ جاوید کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے، پر یہ راحیلہ کہاں سے آ گئی؟" فرزانہ کی خالہ نے سپاٹ آواز میں پوچھا۔
"کیا؟" اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے۔ "جاوید کے پیچھے پڑتی ہے میری جوتی، بل کہ چاچی میرے پیچھے پڑی ہوئی ہیں زبردستی جاوید سے میرا رشتہ طے کروانے کے لیے۔۔۔" شگفتہ نے ایک اور دھماکا کیا۔ سب ششدر رہ گئے۔ صورت حال اب کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔
"اسے تو عادت ہے فضول بکواس کرنے کی، ایسے ہی بدتمیزی کرتی رہتی ہے۔" چاچی حقیقتا بوکھلا گئی۔ ان کی تو سبھی تدبیریں الٹ پڑ رہی تھیں۔
"مجھے چھوڑیں اور اپنے لاڈلے کی بدتمیزیوں کی خبر لیں جو راحیلہ کو اپنے کمرے میں لیے بیٹھا ہے۔ اور چاچا مجھے جاوید سے رشتہ کسی صورت منظور نہیں۔ مجھے اجازے دیں یہاں مزید رکنا مناسب نہیں۔" صاف آواز میں کہہ کر وہ کمرے میں آگئی۔ اسے اپنا بیگ تیار کر کے شہر کے لیے ابھی نکلنا تھا۔ ادھر سب گھر والوں کے پیچھے پیچھے مہمان بھی جاوید کے کمرے کی طرف بڑھے۔ کچھ دیر بعد آتی آوازیں سن کر وہ سمجھ گئی کہ وہ دونوں رنگے ہاتھوں نہ صرف پکڑے گئے بل کہ مہمانوں پر بھی حقیقت آشکار ہو چکی ہے۔ اللہ نے اسے اس بار بھی بچا لیا تھا۔ اور بے شک وہ سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ ٭٭٭٭
ہاسٹل کی سجاوٹ قابل دید تھی۔ روشنیاں، پھولوں کی بہار اور رنگ برنگی چمک دار لڑیاں۔۔۔ میڈم وارڈن کی شادی کی تیاریوں میں سب لڑکیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ شگفتہ کا ایک پیر کبھی ادھر تھا تو کبھی ادھر، وہ ایونٹ آرگنائزر جو تھی۔ سارے انتظامات اس نے خود دیکھے۔ کمال کی بات یہ کہ میڈم نے خود اسے ذمہ داری سونپی تھی۔ ادارے کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بھی مہندی کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ وہ شرکت کے لیے ہاسٹل پہنچ چکے تھے۔ مہندی کی تقریب کا انتظام لان میں کیا گیا تھا۔ لکڑی کے اس منقش جھولے کو لڑکیوں نے اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا گیندے اور گلاب کے تازہ پھولوں سے۔۔۔ سرخ زرتار ڈوپٹے کے سائے تلے میڈم کو اسٹیج پر لایا گیا۔ پیلے رنگ کے گوٹا کناری والے شلوار قمیص میں پھولوں کا زیور پہنے میڈم واقعی پیاری لگ رہی تھی۔
لڑکی چاہے نوعمر ہو یا ایک عورت، اس کے ارمان شادی کو لے کر شاید ہمیشہ ایک سے ہوتے ہیں۔ آنے والی زندگی اور اپنے جیون ساتھی کے حوالے سے میڈم نے بھی کئی خواب بنے تھے اور ان خوابوں کا عکس ان کی آنکھوں میں جھلملا رہا تھا۔ موسیقی کی تیز آواز پورے ہاسٹل میں گونج رہی تھی۔ یہ وہ ہاسٹل تو نہیں لگ رہا تھا جسے کئی مدتوں سے یہاں کے لوگ دیکھتے آ رہے تھے۔ وقت بدل گیا تھا، ہاسٹل اور میڈم وارڈن کی قسمت بھی... رنگ برنگے خوب صورت پیراہن میں لہراتی لڑکیوں نے میڈم کی خوشی کو ہر ممکن حد تک یادگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ رات گئے تک ڈھولک اور گانوں کی آوازیں ہاسٹل کے درو دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر گیٹ کے اس پار تک جاتی رہیں۔
اگلا دن بھی بے حد مصروفیت بھرا تھا۔ بارات کے نام پرصرف دو گاڑیاں آئیں۔
"یار جلدی آؤ!" صائمہ اسے کھینچتی ہوئی گیٹ تک لے آئی۔ پھولوں کی پتیوں کو پلیٹوں میں سجائے لڑکیاں بارات کے استقبال کے لیے تیار کھڑی تھیں۔
"دلہا انکل تو اچھے لگ رہے ہیں۔" شگفتہ نے صائمہ کے کان میں سرگوشی کی۔ "انکل؟" صائمہ نے ابرو اچکائے۔ "اچھی بھلی پرسنالٹی ہے انھیں انکل تو نہ کہو۔" پھولوں کی پتیاں برسانے کے ساتھ ساتھ تبصرہ بھی جاری رہا۔ بارات کے آتے ہی نکاح ہو گیا تھا اور پھر کھانے کا انتظام تھا۔ میڈم نے اپنے سارے ارمان پورے کیے۔ چاہے دیر سے سہی ،تھی تو ان کی یہ پہلی شادی۔۔۔ سرخ شرارے میں وہ چھوئی موئی سی بنی بیٹھی تھیں۔ "جوڑی واقعی اچھی ہے۔" ہاسٹل کی ہر لڑکی کی زبان پر یہ ہی الفاظ تھے۔ میڈم وارڈن جو جلادن مشہور تھی، لڑکیوں کو ذہنی طور پر ٹارچر اور ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی، آج انھی لڑکیوں کے ہاتھوں رخصت ہو کر ہاسٹل کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گئیں۔
ان کی رخصتی کے بعد ہاسٹل یک دم خالی خالی سا ہو گیا۔ کوئی بڑا وہاں سے جا چکا تھا۔ ٭٭٭
شگفتہ کی زندگی اک نئے موڑ پر آ کر ٹھہر گئی تھی۔ سب کچھ ایک دم سے بدل گیا تھا۔ اس پر ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ ہاسٹل میں شگفتہ سے زیادہ بہادر، منہ پھٹ اور دبنگ اور کوئی نہ تھی، اس لیے وقتی طور پر وارڈن کی ذمے داری اس کے مضبوط کندھوں پر ڈال دی گئی۔ سارا دن نوکری اور شام میں واپس آ کر ہاسٹل کے معاملات دیکھنا،اس سب میں وہ گھن چکر بن کر رہ گئی۔ پیچھے کیا گزر گیا وہ پلٹ کر دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ غفور بھائی کو کھانے کے متعلق وہ ہدایات دینے میں مصروف تھی، جب گارڈ نے آکر اسے پیغام دیا:
"میڈم جی آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔" وہ چونک گئی۔ وقت بھی کیسے پلٹا کھاتا ہے نا۔ یہ وہی گارڈ تھا جس نے پہلی رات ہی اس کے لیے گیٹ نہیں کھولا تھا اور آج وہی اس سے کتنے مؤدب انداز میں مخاطب تھا۔ "اچھا وزیٹنگ روم میں بٹھاؤ انھیں میں آتی ہوں۔"
ملاقات کے لیے آنے والے کو دیکھ کر اسے خوش گوار حیرت ہوئی۔ "چاچا آپ یہاں؟" اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ جس طرح کی صورت حال دس پندرہ روز قبل وہ گھر میں چھوڑ کر آئی ایسے میں ان کا انھیں ملنے آنا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ اس کے سر پر پیار دے کر انھوں نے اسے کندھے سے لگا لیا۔ وہ بہت مرجھائے مرجھائے لگ رہے تھے۔
"چاچا سب ٹھیک ہے، گھر میں سب خیریت؟" اس نے بے چینی سے استفسار کیا۔ "سب ٹھیک کیسے ہو سکتا ہے پتر، میں تجھ سے بہت شرمندہ ہوں۔" چاچا کی چپ ٹوٹی۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل دکھا۔
"ایسے تو نہ کہیں چاچا، مم میں بھی شرمندہ ہوں۔ مجھے اتنا کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا۔" چاچا کے ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے درزیدہ لہجے میں کہا۔
"نہیں پتر! تیرا قصور نہیں۔ سچ کہنے کا تجھے حق تھا کہ بات تیرے کردار کی تھی۔ مجھے اگر پہلے پتا ہوتا جاوید کی کرتوتوں کا تو میں کبھی تجھے اس کے رشتے بارے سوچنے کا نہ کہتا۔
"چھوڑیں چاچا، جو ہوا سو ہوا۔ آپ دل برا نہ کریں۔ بتائیں کیسے آنا ہوا۔۔۔ ثمینہ کی شادی کب ہے؟" اس کا اتنا پوچھنا ہی قیامت ڈھا گیا۔ چاچا بلک بلک کر بچوں کی طرح رونے لگے تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ سٹپٹا گئی۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی انھیں اتنی خستہ حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ "کچھ تو بتائیں چاچا، کیا ہو گیا ہے۔"
"ماں باپ کا کیا اولاد کے سامنے ہی آتا ہے۔ میری دھی ثمینہ تو رل گئی، ان لوگوں نے رشتہ توڑ دیا۔۔۔ تیرے جانے کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے تھے۔ آئے تو وہ شادی کی تاریخ لینے تھے مگر جاتے جاتے بات ہی ختم کر گئے۔" یہ حقیقت اس پر بجلی جن کر گری۔ وہ دھک سے رہ گئی تھی۔
"کیا؟ مگر کیوں ثمینہ کا اس سارے معاملے میں کیا قصور تھا۔۔۔" اس نے پوچھا۔ "یہ سچ بھی مجھے اس روز پتا چلا کہ انھوں نے تیرا رشتہ مانگا تھا۔ مگر تیری چاچی نے انھیں تیرے متعلق جھوٹی باتیں سنا کر متنفر کر دیا اور زبردستی ان کا دھیان ثمینہ کی جانب موڑ دیا۔ انھیں کہا کہ تو جاوید کے ساتھ..." چاچا نے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔ ایک کے بعد ایک حیرتوں کے پہاڑ اس پر ٹوٹ رہے تھے۔ "تیری چاچی نے یہ بات مجھ سے بھی چھپائی۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے جھوٹے اور مکار لوگوں کے ساتھ رشتہ نہیں جوڑنا۔" چاچا پتا نہیں کیا کیا بتا رہے تھے مگر اس کے دماغ میں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ چاچی کے الفاظ کی بازگشت اسے سنائی دے رہی تھی۔ "ارے اس لڑکی کے تو لچھن ہی ٹھیک نہیں، آزاد خیال ہے، ہاتھ سے نکلی ہوئی۔۔۔ اونچ نیچ ہو گئی تو کون جواب دے گا؟" اس پر بہتان لگاتے ہوئے وہ بھول گئی تھیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔
اس نے چاچا کا دل ہلکا ہونے دیا۔ انھیں بمشکل اپنے پاس روکا کہ وہ کھانا کھا کر جائیں۔ جو بھی ہوا اس میں چاچا بھی اتنے ہی معصوم تھے جتنی وہ کہ دونوں کو ہی اصل حقیقت سے لاعلم رکھا گیا تھا۔ ٭٭٭٭
نوکری سے وہ تھکی ہاری لوٹی۔ آج پھر شگفتہ نے سمعیہ کو نکڑ پر ہی گاڑی سے اترتے دیکھا تھا۔ "ہونہہ! کچھ کرنا پڑے گا اس کا، یہ معاملہ ٹھیک نہیں۔ اب تو حق ہے مجھے کہنے کا کہ جذ وقتی وارڈن ہوں۔" مگر اسے میڈم کے نقش قدم پر نہیں چلنا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اک بار کسی معصوم اور شریف لڑکی کا تماشا بنا دیا جائے تو ساری عمر وہ ذلت نہیں بھولتی۔ وہ آج کے زمانے کی سلجھی ہوئی اور سمجھدار لڑکی تھی۔ میڈم لڑکیوں کی تذلیل کرتیں جب کہ وہ ان کی ہمدرد اور ساتھی بن کر انھیں سمجھاتی اور برے سے روکتی تھی۔ وہ شام کی چائے پی رہی تھیں جب گارڈ نے اسے کسی وزیٹر کے آنے کی اطلاع دی۔ "کیا ہے یار، آج کون آ گیا۔۔۔" اس نے اکتائے انداز میں دھیرے سے کہا۔ "میڈم وارڈن سے ملنے کوئی بھی آ سکتا تھا، دیکھو کوئی کام سے نہ آیا ہو۔" صائمہ نے اسے سمجھایا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے 440 والٹ کا جھٹکا لگا۔ "تم؟" جو سامنے تھا انتہائی غیر یقینی تھا۔ اسے تو وہ کب کا بھول چکی تھی۔ کرسی پر سر جھکائے بیٹھا وہ عظیم تھا۔ آج بہت ہمت کر کے وہ اس سے ملنے چلا آیا تھا۔
"تمھاری اتنی جرآت، نکلو یہاں سے۔۔۔" وہ غصے سے چلائی۔ عظیم ٹس سے مس نہ ہوا۔ "میں بس ذرا سی بات کرنے آیا ہوں۔ آپ کو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بات کر کے میں خود ہی یہاں سےچلا جاؤں گا۔"
"تم سے بات کرنا ہی کون چاہتا ہے، پتا نہیں کون سی چکنی مٹی کے بنے ہو تم۔۔۔" عظیم کی بات شگفتہ نے پوری نہ ہونے دی۔ وہ بن بادل برسات کی طرح اس پر برسے جا رہی تھی۔
"میں بہت شرمندہ ہوں۔" وہ دھیرے سے بولا۔ نظریں ہنوز نیچی تھیں۔ شگفتہ کو جھٹکا لگا۔ "کیا؟" وہ اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی۔ شگفتہ جو اس سے کسی بے ہودہ بات کی توقع کر رہی تھی یہ جملہ سن کر ششدر رہ گئی۔ عظیم نے پہلی بار سر اٹھا کر سیدھے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ "میں غلط تھا، میں شرمندہ ہوں اس سب کے لیے جو میں نے کیا، جو میں نے کہا۔" شگفتہ کچھ کہہ نہیں پائی تھی۔ "کیا چیز ہے یہ لڑکا، سمجھ سے باہر۔" گو کہ اس کی آنکھیں اور لہجہ سچ کی غمازی کر رہا تھا مگر وہ اس کی بات پر یقین کیوں کرتی۔
"جانتی ہوں میں تم جیسوں کو۔۔۔ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمھیں لگا اس طرح میرا دل تمھاری طرف سے صاف ہو جائے گا؟" لہجہ دھیما مگر الفاظ ابھی تک تیکھے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ وہ آج اس کی کسی بات پر سیخ پا نہیں ہو رہا تھا۔ اس کی چپ اور بدلا ہوا انداز شگفتہ کو کھٹک رہا تھا۔
"آئی ایم سوری! میری طرف سے دل صاف کر لو۔" اس کی آواز میں کچھ تھا کہ شگفتہ چاہ کر بھی اسے کڑوا نہ بول سکی۔ "لیکن یہ سب مجھے کیوں کہنے آئے ہو، کیا سب لڑکیوں سے معافی مانگتے پھر رہے ہو؟ ہونہہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔۔۔" شگفتہ نے اس کا مذاق اڑایا۔ اس نے اس طنز اور ہتک آمیز رویے کا بھی برا نہ منایا نہ ہی اسے غصہ آیا نہ چہرے کے تاثرات کھنچے۔
"تم بہت اچھی لڑکی ہو، بہت مضبوط کردار کی۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہا بس اسی لیے تم سے معافی مانگنے آ گیا۔ ہاں تم مجھے اچھی لگی تھی مگر سچ تو یہ ہے کہ ٹھوکر کھانے کے بعد میرے دل میں تمھاری عزت و قدر بہت بڑھ گئی ہے، شاید اسی وجہ سے مجبور ہو گیا۔ اسی طرح میری بے سکونی کم ہو سکے۔" اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔ شگفتہ پر تو مانو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ پہلی بار کسی نے اس کی بولتی بند کی تھی اور یوں کھلم کھلا اظہار بھی۔ "تو تم نے مجھے معاف کر دیا نا؟" اسے خاموش دیکھ کر عظیم نے سوال کیا۔ وہ گڑبڑائی۔
"تم جاؤ یہاں سے اور آئندہ مجھے نظر نہ آنا، میرےآس پاس تو بالکل بھی نہیں۔" اس کا انداز مدافعانہ تھا۔ "ٹھیک ہے، آئندہ میری وجہ سے تمھیں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی ہاں نظر میں تمھیں ضرور آتا رہوں گا۔" عظیم نے ٹھوس لہجے اور انداز میں یہ کہہ کر اسے ششدر کر دیا۔
"کیا مطلب ہے تمھارا؟" وہ کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان بن گئی۔ عظیم نے بے ساختہ اسے دیکھا اور کچھ پل کے لیے نظریں نہیں ہٹا پایا تھا۔ وقت گزاری کے لیے تو وہ لڑکیوں کے ساتھ ڈائیلاگ بازی میں ماہر تھا مگر اک سچی، شریف اورباکردار لڑکی کے سامنے کچھ بھی بولنا اسے محال ہو رہا تھا۔ ہاں وہ اس سے مرعوب تھا۔ شگفتہ کی سوالیہ نظریں اس پر جمی تھیں۔ پتا نہیں اس کے چہرے کے تاثرات سے وہ کیا اخذ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ عظیم نے گہری اور ٹھنڈی سانس بھری۔
"زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے، کھرا کون ہے اور کھوٹا کون۔۔۔ صحیح غلط کی پہچان، بہت کچھ بدل گیا ہے، میری سوچ بدل گئی اور میں خود بھی۔۔۔ آنے والے وقت میں چاہے جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ میری راہیں صرف تمھاری طرف آئیں گی۔ مجھے خود کو اس قابل بنانا ہے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔" اس کے چہرے کو اپنی نظروں گی گرفت میں رکھ کر عظیم نے ٹھہر ٹھہر کر بات مکمل کی۔ شگفتہ کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔ اتنے سالوں میں زمانے کے تھپیڑے کھاتے اسے مردوں کی پہچان تو بخوبی ہو چکی تھی۔ وہ سچ کہہ رہا تھا اور اس کی گواہی اس کا رواں رواں دے رہا تھا۔ شگفتہ نے بے اختیار نظریں جھکا لیں۔ بازی ایسے پلٹی گی اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے شگفتہ سے کوئی جواب نہیں مانگا تھا شاید عظیم کے لیے اس کا اسے سمجھ لینا اور معاف کر دینا ہی ابھی کے لیے کافی تھا۔ اک خاموش گہری نظر اس پر ڈال کر وہ واپس چل دیا یہ ان کی آخری ملاقات نہ تھی بل کہ اک نئی شروعات کی بنیاد تھی وہ شروعات جو زندگی میں اک محرم رشتے کو شامل کرنے کی راہیں ہموار کرتی ہے۔
عظیم جاتے جاتے شگفتہ کے ہاتھ میں آس اور امید کا اک ننھا سا جگنو تھما گیا تھا۔ خود کو نارمل کرتی وہ ملاقاتیوں کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ اس وقت وہ دونوں جدا جدا راہوں پر چل رہے تھے مگر کون جانتا تھا کہ ہو سکتا ہے ان کی منزل ایک ہو۔ شگفتہ نے یک دم پلٹ کر دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں۔۔۔ عظیم کے چہرے پر جان دار مسکراہٹ آ ٹھہری وہ بھی زیر لب مسکرا دی۔ آخری پھانس بھی عظیم کے دل سے نکل گئی۔ وہ خوش تھا اور مطمئن بھی۔۔۔ اپنی کشتیاں تو شگفتہ پہلے ہی جلا چکی تھی اب تو اسے بس آگے بڑھتے رہنا تھا۔ زندگی بانہیں پھیلائے مسکراتی ہوئی اس کی منتظر کھڑی تھی۔