یہ نخریلی بلیاں

تحریر: ڈاکٹر جویریہ سعید
انتخاب : مہرا النساء ڈی آئی خان
آج کل کی بلیاں اس قدر مٹیریلسٹک ہوگئی ہیں کہ کیا بتاؤں؟ کھانے کے سوا انہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ ایک ہمارا زمانہ تھا۔ پاکستان کی جوگی بلیاں، فاقہ زدہ، ہڈیوں پر فر والی کھال منڈھی ہوئی۔ گلیوں میں پھرا کرتی تھیں۔ فاقہ کشی کے سبب ، نرم فر جھڑ کر استعمال شدہ ٹوتھ برش کے ریشوں جیسا ہوچکا ہوتا تھا ۔ چہرے پر ایسی ملاحت، شوق اور حسرت ہوتی تھی۔ منہ اٹھا اٹھا کر تاکا کرتی تھیں کہ کوئی کھانا دے دے ۔

مزید پڑھیے۔۔

بڑی مشکل سے ہوتی ہے کسی گھر میں زبیدہ

پاکستانی زبیدہ آپا ہماری ہندوستانی زبیدہ آپا سے اس دار فانی میں کافی دیر بعد تشریف لائیں اور نانی اماں سے پہلے ہی جہان فانی سے کوچ فرما گئیں ،گویا ہماری نانی اماں شہرت میں کم مگر عمر میں زیادہ تھیں۔
ارم رحمٰن لاہور

مزید پڑھیے۔۔

ابا میاں کے نوٹ

آئیے آئیے محترمہ ،" ہم نے پھر یاداشت پہ زور ڈالا کہ ہم نے خواب غفلت میں کوئی محبت نامہ تو قاصد کبوتر کی چونچ میں نہیں پکڑا دیا تھا جو چونچ میں فٹ نہیں بیٹھا اور ہمارے ہی آنگن میں گر گیا یا ابھی اس ناقص قاصد نے اڑان بھرنے کی سعی ناکام کی ہوگی
ارم رحمٰن لاہور

مزید پڑھیے۔۔

مرسلین میاں کی حسینہ

دروازہ کھولا ۔۔۔قصائی سلیم موٹا ہاتھ میں بڑی سی طشتری لیے کھڑا تھا لو بھائی مرسلین آج تمھاری بھابھی نے بہت عرصے بعد بہت مزیدار چکن قورمہ بنایا ہے ۔۔سوچا مل کے کھاتے ہیں ۔۔

ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

ہائے کلیجی

ارے بھئی خوش خبری....!! تیسرے نمبر والے فہیم میاں جو ابھی کنوارے ہی تھے اور چھت پر کن سوئیاں لے رہے تھے، تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے آئے اور بولے :” برابر والی گلی میں غفار چاچا کا بیل ذبح ہو گیا ہے۔ بس تھوڑی دیر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

ٹوٹکے اور نسوانی گروپ

تحریر: آصفہ عنبر قاضی

انتخاب : حنا سہیل

 ٹوٹکے  پوچھنا خواتین کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ فیس بک کی بدولت ایسے گروپ بن گئے ہیں ،جہاں خواتین  مسائل کا حل تلاش کر لیتی ہیں۔  لیکن بعض بھولی خواتین ایسے سوال کرتی ہیں جن پر صدقے واری ہونے کو دل کرتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

خواتین کی بےشمار خوبیوں کا تذکرہ ہو اور ایک خوبی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ شوہر کو ڈرانے والی یہ مخلوق خود کاکروچ اور چوہے چھپکلی دیکھ کر ڈرے نہیں یہ ایک ناقابل یقین بات ہے

 روبینہ عبد القدیر کراچی

کہتے ہیں زندہ رہنے کے لیے صرف کھانا، پینا اور سونا ہی نہیں بلکہ ہنسنا مسکرانا بھی بہت اہم ہے۔ نہ جانے لوگ ہنسنے اور مسکرانے میں کنجوسی کیوں دکھاتے ہیں؟۔ اگر دیکھا جائے تو اس معاملے میں خواتین مردوں سے آگے ہی ہیں۔ خواتین خوش رہنا پسند کرتی ہیں اور خوشی کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، شاید یہی خواتین کے حسن کا بھی گہرا راز ہے۔

مزید پڑھیے۔۔

شلجم اور ہم

اچھا امی!! میں کچے شلجم چہرے پر ہی رگڑ لوں گی ناں ویسے ہی تازگی آجائے گی.. کھانے کی کیا ضرورت؟ وہ کھانا کھاتے کھاتے جانے بھولپن سے بولی تھی یا شرارت سے

 ام محمد سلمان

 "امی یہ کیا بھئی... آپ نے پھر شلجم گوشت پکا لیا؟ ابھی پچھلے ہفتے تو کھائے تھے شلجم۔" ہماری دختر نیک اختر نے مدرسے سے آتے ہی سلام کرنے کے بعد ناگوار سا منہ بنا کے کہا...

"ہاں بھئی پکا لیے... صبح آپ کے بابا جان کہہ کر گئے تھے کہ شلجم گوشت پکانا ہے"  ہم نے جلدی جلدی آخری روٹی بیلتے ہوئے کہا۔

مزید پڑھیے۔۔

ملاقات اور مسکراہٹ

انتخاب : ام التراب

ریل کے سفر کے دوران میری  جب بھی سامنے بیٹھی خاتون سے نظر ملتی تو میں.مسکرا دیتا  جب یہ چوتھی بار ہوا تو خاتون بھی مسکرائیں اور کہا، "جب بھی آپ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ سے ملاقات ضرور کرنی چاہیئے".

مزید پڑھیے۔۔

مسکرائیے

محمد موسی کراچی

بیگم: آج کل میرا دل کچھ زیادہ ہی دھک دھک کرتا ہے مولوی صاحب سے کوئی وظیفہ ہی پتا کروادیں

شوہر : آج ہی عصر کی نماز کے بعد  میرے سامنے ایک صاحب نے اسی مقصد کے لیے وظیفہ پوچھا تو مولوی صاحب نے بتلایا :

 اللھم اعط زوجی زوجۃ اخری۔

مزید پڑھیے۔۔

ریڈ پمپس

ائے بیٹا،، ہم نے تو جوتے ہی دیکھے ساری زندگی بہت بہت سنا تو جوگرز ہوگئے اب تو لانگ بوٹس الگ ہیں تو کٹ شوز الگ کوئی اسنیکرز ہیں تو کوئی کروکس لو بھلا پلاسٹک کی بند چپلیں نام بدلنے سے فیشن والی ہوگئیں ایڑی والی جوتی ہی اچھی تھی اب تو ہائی ہیل ہے تو کوئی پینسل ہیل، فلیٹ ہے کوئی تو پمپیاں جو اب پمپس بن گئیں،،

عظمیٰ ظفر

  شیشے کی دکان کے اندر جوتوں کی قطاریں تھیں، ہم نے باہر شیشے کی دیوار پر منہ قریب کرکے مزید دیکھا تو کھڑی ناک شیشے کی سطح سے چپک گئی، چیں،،،،، کی آواز کے ساتھ ناک کھنچتی ہوئی نیچے آئی تو خیال آیا کہ لوگ دیکھ رہے ہوں گے کیا کہیں گے؟

مزید پڑھیے۔۔

ننھی منی جان

بیگم صاحبہ چلا رہی تھیں :”پکڑو پکڑو! ارے یہی تو ہے وہ نامراد جو میرے فالسئی رنگ کے جوڑے کا ستیا ناس مار گئی ۔

ام محمد سلمان

"یا اللّٰہ! کتنی زور سے چلاتی ہیں یہ آج کل کی لڑکیاں! دل دہلا کے رکھ دیا میرا ۔۔۔۔ دیکھو تو سہی کیسے دھڑ دھڑ کیے جا رہا ہے، قابو میں ہی نہیں آ رہا۔ "وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہری گہری سانس لینے لگی۔

مزید پڑھیے۔۔

مسکرائیے

ایک دن سید انشاء نواب آصف الدولہ صاحب کے ساتھ بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ گرمی سے گھبرا کردستار سر سے اتار کر رکھ دی تھی۔ منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب صاحب کی طبیعت میں چہل آئی، ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ایک دھول ماری۔ انشاءؔ نے جلدی سے ٹوپی پہن لی اور کہنے لگے، ’’سبحان اللہ بچپن میں بزرگوں سے سناکرتے تھے، وہ بات سچ ہے کہ ننگے سر کھانا کھاتے ہیں تو شیطان دھولیں مارتا ہے۔

 ( فہیمہ  انعام راول پنڈی )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید پڑھیے۔۔

ہم تو کچھ نہیں کھائیں گے سوائے برگر

ارسلان اللہ خان

ہم نے ہر حال میں اے یار ہیں کھائے برگر

غم بھی کیا کیا نہ اُٹھائے ہیں برائے برگر

 

ایسی محفل سے ہم اُٹھ کر ہی چلے جاتے ہیں

جس جگہ کوئی بھی ہم کو نہ کھلائے برگر

 

مزید پڑھیے۔۔

ہائے بیوی

گل ارباب

” سنو جانو ! صبحِ  سے انتظار کر رہی ہوں  کہ تم  کب اپنی میٹھی آواز سناؤ گے ؟ “

مراد نے واٹس ایپ میسج پڑھتے ہی ڈیلیٹ کر دیا

” مراد ! دیکھیں نا  منے کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے اور حکیم صاحب  والا  چورن بھی ختم ہے ۔“ اس کی بیوی شگفتہ نے   جو اسم با مسمی بالکل بھی نہ تھی ، روتا ہوا منا اس کی گود میں لٹا تے ہوئے کہا تو مراد کا منہ جو شانو کے میسج سے شیرے میں تر ہوا ہی تھا کڑوا زہر ہوگیا ۔

مزید پڑھیے۔۔

غضب کی معصومیت بلا کی سادگی

ام محمد سلمان

گائے ایک ممالیہ جانور ہے اور عام طور پر اپنی برادری کے ساتھ سبزہ زاروں میں مٹر گشت کرتی پائی جاتی ہے۔ جب وہ چارہ کھاتی ہے تو اپنی تمام تر توجہ اسی طرف رکھتی ہے۔ اسے انسانوں کی طرح ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنے کا بالکل شوق نہیں۔ 

 ویسے تو دیکھنے میں گائے انتہائی دانش مند ، بردبار اور مہذب نظر آتی ہے۔ جب کسی چراگاہ میں چلتی ہے تو انتہائی وقار اور دبدبے کے ساتھ۔۔ لیکن جیسے ہی یہ شہری آبادی میں پہنچ کر سڑک پار کرنے لگتی ہے تو بس۔۔۔ یوں جھوم جھوم کر مستانی چال چلتی ہے گویا ملکہ الزبتھ کی جانشین بننے جا رہی ہو۔ اور تب تک اسی خمار میں رہتی ہے جب تک دونوں طرف کاٹریفک جام نہ ہو جائے۔ تب ایک شان بے نیازی سے خراماں خراماں چہل قدمی کرتے ہوئے کچے میں اتر جاتی ہے۔ جہاں اس کے جیسی پانچ دس اور کھڑی ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔

ننھے میاں

تنزیلہ احمد

بچپن میں تو سبھی ننھے ہوتے ہیں۔۔۔ پر ظلم یہ ہوا کہ وہ صاحب تو بڑے ہو کر بھی ننھے رہے۔ زمانے کی ریت ہے کہ مرد بڑے ہو کر میاں بننے کا شرف حاصل کرتے ہیں مگر وہ تو پیدائشی میاں ٹھہرے۔۔۔ ہائے بے چارے ننھے میاں۔۔۔! 

ان کے خاندان میں مردوں کے نام کے آخر میں "میاں" کا دم چھلا لگانے کا رواج تھا۔ ننھے میاں کے ابا 'شوکت میاں' اپنے والدین کے ایک ہی ایک بیٹے تھے۔ شرافت، اثر و رسوخ، زمینیں جائیدادیں غرض کہ سب کچھ تھا مگر مردوں کا کال تھا۔ شاید تبھی انھیں بیٹے کی شدید ترین خواہش رہی اور اس ناتمام خواہش کی تکمیل کی سعی لاحاصل میں بیٹیوں کی سیدھی لائن ٹیڑھی میڑھی لگتی چلی گئی۔ پر بھلا ہو قسمت کی مہربانی کا کہ در در پر مانی گئی منتیں، صدقے اور چڑھاوے، ننھے کی صورت بر آئے۔

مزید پڑھیے۔۔