سن رہا ہوں اور جو کچھ تم نے پہلے کہا وہ بھی سن لیا اور سمجھ بھی چکا ہوں۔ حیرت تو مجھے اس بات پر ہے کہ تمھارے غیرت مند بھائی نے لگتا ہے ابھی تک تمھارا دماغ ٹھکانے نہیں لگایا نہ تمھاری لگامیں کھینچی ہیں، جو تم جو مری جا رہی تھی مجھ سے بات کرنے کے لیے۔۔۔" اس کے کانوں میں پڑنے والی آواز تو شناسا تھی مگر ۔۔۔۔۔۔۔
تنزیلہ احمد

قسط نمبر 11
"آپا! ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں اور وہ کوئی آوارہ لڑکا نہیں، بھائی کا دوست حسن ہے۔" حسینہ نے مزید گل افشانی کی تو آپا بس دم بخود اسے دیکھتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ حسینہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے مگر وہ تو کمال ڈھٹائی سے اپنے عشق کی داستان سنا رہی تھی۔ آپا نے اس پر ہاتھ اٹھانے سے خود کو بمشکل روکا۔
"اماں ٹھیک کہتی ہیں، تمھارے دیدوں کی حیا تو مر چکی ہے۔ تمھیں تو اپنے کرتوتوں پر پشیمانی ہی نہیں۔" آپا تاسف سے کہتی باہر چل دیں۔ حسینہ تو بالکل ہاتھوں سے نکلتی جا رہی تھی۔ مگر وہ کیا کر سکتی تھی؟
"یہ سب اماں کو نہیں بتاؤں گی ورنہ وہ اور پریشان ہو جائیں گی۔ کیا عظیم سے بات کرنی چاہیے؟" وہ دل ہی دل میں لائحہ عمل تیار کر رہی تھی۔ آپا نے دیکھا کہ عظیم بھی بہت چپ چپ، کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ اس سے بات کرنے کے لیے وہ اوپر اس کے ٹھکانے کی طرف چل دیں۔ شاید عام حالات میں وہ اس سے اس طرح کی بات کرنے کی جرآت نہ کرتی مگر اب حالات یکسر مختلف تھے۔ وہ گھر کی بڑی بیٹی تھی اور شادی کے بعد تو اس کی حیثیت اور معتبر ہو گئی، اماں اس پر اور بھروسا کرنے لگیں کہ اور کوئی تھا بھی تو نہیں۔ آپا نے دھیرے سے دروازے پر دستک دی۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا عظیم نہ جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔ آپا کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر وہ چونکا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لہرائی۔
"آپا آپ اوپر؟"
"کیوں خیریت؟ تم سے ملنے یا بات کرنے کے لیے میں اوپر نہیں آ سکتی؟ الٹا اس سے سوال پوچھا گیا۔ وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔
"اور بتاؤ سب ٹھیک ہے، پڑھائی میں اب دھیان لگتا ہے یا نہیں؟" انھوں نے بات شروع کی۔ "آپ بتائیں سسرال میں دل لگ گیا ہے یا نہیں؟" یہاں تو سوال کے بدلے سوال آ رہا تھا- وہ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیے۔ دونوں ہی سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ بات کیسے شروع کی جائے یا شاید بات کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔
"اچھا، وہ مجھے تم سے حسینہ کے متعلق بات کرنی ہے۔" بالآخر گہری سانس بھرتے ہوئے آپا نے ہمت کی۔ وہ چونکا نہیں تھا۔
"ہاں آپا مجھے بھی اس بارے بات کرنی ہے آپ سے پہلے۔۔۔ آپ بتائیں کیا کہنا چاہتی ہیں؟" اس کے انداز پرآپا ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گئی تھی۔ ٭٭٭٭
"آج کل تم کافی مطمئن نظر آنے لگی ہو، لگتا ہے کوئی فیصلہ لے چکی ہو۔" صائمہ نے اس روز اس کے پاس بیٹھتے ہوئے سرگوشی نما اندازمیں کہا۔ رات کے کھانے کے بعد وہ ٹی وہ لاونج میں بیٹھی ڈاراما دیکھ رہی تھیں۔ شگفتہ نے سادگی سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر نظریں ٹی وی سکرین پر جما دیں۔ صائمہ زیر لب مسکرا دی۔ شگفتہ اس کی بات کا مطلب بخوبی سمجھ گئی تھی۔
"پھر تو عن قریب تم گھر کا چکر بھی لگاؤ گی۔۔۔" اس نے قیاس آرائی کی۔ گہری سانس بھرتے ہوئے وہ اس کی طرف پلٹی۔ "تمھیں کیا اور کوئی کام نہیں؟ سارا دھیان مجھ پر ہی رہتا ہے تمھار۔۔۔" اانداز تیکھا تھا۔ صائمہ کچھ بول نہ سکی۔ یک دم ہی شگفتہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ "شکل دیکھو اپنی۔۔۔" اس کے طرف ذرا سا جھکتے ہوئے شگفتہ نے کہا۔ "اچھا ٹھیک ہے زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تمھارا اندازہ ٹھیک ہے کہ میں فیصلہ کر چکی ہوں۔ سوچ لیا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ جلد گھر کا چکر بھی لگاؤں گی، چاچا نے بلایا ہے ثمینہ کے سسرال والے شادی کی تاریخ طے کرنے آ رہے ہیں تو وہ چاہتے ہیں اس خوشی کے موقع میں میں بھی شریک ہوں۔ اب سکون آ گیا تمھیں؟ چلو اب چپ رہنا۔ مجھے سکون سے ڈراما دیکھنے دو جو کہ ختم ہونے والا ہے۔" کہہ کر وہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ "ویسے یہ ڈراما تمھاری زندگی کے اصل ڈرامے سے کم ہی ہے۔۔۔" صائمہ بڑبڑائی تھی ٭٭٭٭
ان کے گھر میں بھی تیاریاں جوش و خروش سے جاری تھیں۔ گھر کی تینوں عورتیں گھن چکر بنی ہوئی تھیں۔ ان کا تو بس نہیں چل رہا تھا کیا کیا الم غلم اکٹھا کر لیں۔
"اے ریحانہ! چائے بنا کر لا ذرا میرے لیے، توبہ تھکن سے برا حال ہے۔" اماں اور ثمینہ ابھی بازار سے لوٹی تھیں۔ ریحانہ جو بہت شوق سے خریداری دیکھنے میں مگن تھی اسے اماں کی فرمائش ایک آنکھ نہ بھائی۔ "میں بھی پیوں گی۔" ثمینہ نے شاہانہ انداز میں کہا۔ جب سے اس کی شادی کی تاریخ طے ہونے کی بات چلی اس نے خود کو شہزادی سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
"اچھا لاتی ہوں۔" برے برے منہ بناتی وہ کچن کی طرف چل دی۔ چائے بنا کر وہ کپ تھامے وہ اندر داخل ہوئی تو اماں اور ثمینہ چیزوں پر بڑھ چڑھ کر تبصرے کرنے میں مصروف تھیں۔ "ہونہہ ویسے کہہ رہی تھیں کہ بہت تھکی ہوئی ہیں۔" اس نے دل ہی دل سوچا۔ "اماں ثمینہ کی شادی کے لیے میں نے سارے جوڑے نئے اور اپنی پسند کے بنانے ہیں۔ زیادہ ٹوکا ٹاکہ نہ کرنا۔" "اچھا اچھا بنا لیں، تو ابھی سے شودی بن گئی ہے۔" اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ تھامتے ہوئے اماں نے بے تکے انداز سے کہا۔ "اچھا اماں شگفتہ کا کیا کرنا ہے؟" ثمینہ نے اس کا نام اس لہجے میں لیا جیسے وہ ان کی خادمہ ہو۔ اس کے انداز میں کچھ غیر معمولی تھا۔
"اس دفعہ آنے دے اسے۔ تو دیکھیں میں کیسے اس کے پر کترتی ہوں، اونچی ہواؤں میں اڑتی پھرتی ہے نا، سمجھتی کیا ہے مہارانی خود کو۔۔۔"
"اماں کیا وہ آئے گی؟" ریحانہ کے منہ سے پھسلا۔ اماں نے اسے گھور کر دیکھا۔ "آئے گی کیوں نہیں آئے گی؟ تیرے ابا نے فون کر دیا تھا اسے، کہہ رہی تھی ضرور آؤں گی۔" "سوچ لو اماں ابھی وقت ہے، میں نہیں چاہتی میرے ہونے والے سسرال کے سامنے کوئی بدمزگی ہو۔" ثمینہ نے ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے کہا۔
"اوئے ہوئے! بڑی فکر ہے تجھے ابھی سے اپنے سسرال کی؟" ریحانہ نے اسے کہنی مارتے ہوئے چھیڑا۔ اماں چائے کی چسکیاں لیتی مسکراتی رہیں دونوں بہنوں کی نوک جھوک ابھی چلنی تھی۔ چائے ختم کر کے وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ انھیں ابھی بہت سے ضروری کام کرنے تھے۔
آپا کے جانے کے بعد حسینہ کی پریشانی میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ گھر میں کوئی بھی اسے سمجھ نہیں رہا تھا۔ "یہاں تو سب مجھ سے سوتیلوں والا سلوک کر رہے ہیں۔" وہ سوچ سوچ کر کڑھتی رہتی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ پتا نہیں کیا کر لے۔ کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹتے ہوئے وہ عجیب کشمکش میں مبتلا تھی۔ بھائی کے سامنے آنے سے وہ کتراتی تھی۔ اماں نے اسے نظروں میں رکھا ہوا تھا، اس کے اٹھنے بیٹھنے پر بھی نظر رکھتیں، ہر وقت اس کی رکھوالی کرتیں اور تو اور چھوٹی کو بھی انھوں نے موبائل اس کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاص ہدایات دے رکھی تھی۔ اماں آگے پبچھے ہوتیں تو چھوٹی اس کی نگرانی پر مامور رہتی۔
"تو کیا جلے پا‎ؤں کی بلی کی طرف کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے۔" اماں کھڑی سے اسے کب سے چکر کاٹتے دیکھ رہی تھی۔ بالآخر انھوں نے اسے ٹوک دیا۔ منہ میں بڑبڑاتے وہ اپنے بستر پر جا بیٹھی۔ کسی نہ کسی طرح اسے حسن سے رابطہ کرنا تھا مگر کیسے؟ موبائل تو اس کی پہنچ سے دور کر دیا گیا تھا۔ "اماں آپا کا فون آئے تو مجھ سے بات کروانا۔۔۔" حسینہ نے ہاتھ مسلتے ہوئے کہا۔ "کیوں تو نے کیا بات کرنی ہے؟"
"اماں تجھے آپا سے بات کرنے میں بھی اعتراض ہے۔" اس نے دو بدو کہا۔ اماں نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا۔ "تیرے لچھن شریف لڑکیوں جیسے ہوتے تو مجھے اعتراض نہ ہوتا۔" اماں کے کہنے پر وہ تلملا کر رہ گئی۔ "پلیز اماں! آپا سے ضروری بات کرنی ہے۔ اب کیا میں اپنی آپا سے بھی دل کی بات نہیں کر سکتی؟" اس نے منت کی۔ "اچھا جا میرے سر پر سوار نہ ہو، آئے گا فون تو کروا دوں گی بات۔۔۔" اماں نے شاید اسے ٹالنے کی کوشش کی تھی مگر اس کے دل کو سکون ہوا۔
مائیں واقعی بہت سادہ ہوتی ہیں، جو چالاکیاں انھوں نے خود کبھی نہیں کی ہوتیں انھیں لگتا ہے کہ ان کی اولاد بھی نہیں کر سکتی۔ مگر وہ اچھی اولادوں میں سے نہ تھی۔ اگلے ہی روز خوش قسمتی سے اسے موقع مل گیا تھا۔ "یہ لے تیری آپا کا فون ہے، بات کر کے جلد مجھے موبائل پکڑا دینا۔ تیرے ہاتھ میں یہ مجھے نظر نہ آئے۔" اماں نے موبائل اسے تھماتے ہوئے تنبیہ کی۔
"اچھا اماں!" اس نے انتہائی سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔ "اماں مجھے ضروری بات کرنی ہے۔" انھیں اپنے سر پر کھڑا دیکھ کر اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ اماں سر جھٹکتی سلائی مشین کے پاس جا بیٹھی۔ چھوٹی برآمدے میں بیٹھی ہوم ورک کرنے میں مصروف تھی۔ سلام دعا کے بعد وہ سیدھے مدعے پر آ گئی۔
"آپا تم اماں کو سمجھاؤ وہ میرے ساتھ مزید ہتک آمیز سلوک نہ کریں۔ میں سوتیلی اولاد تو نہیں۔ ٹھیک ہے مجھ سے غلطی ہو گئی مگر وہ تو اٹھتے بیٹھتے مجھے ذلیل کرتی اور کوسنے دیتی رہتی ہیں۔" حسینہ نے گیلی آواز میں گلا کیا۔ ڈرامے بازیاں تو وہ تب ہی سیکھ گئی تھی جب اس نے سر عام گھر والوں کی آنکھ میں دھول جھونکنا شروع کی۔ "حسینہ سمجھنے کی ضرورت اماں کو نہیں تمھیں ہے۔" اسے آپا کی بے لچک آواز سنائی دی۔ "آپا میں اب کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی، ان شاء اللہ میرا بھروسا تو کریں پلیز آپا۔۔۔" بھیگی آواز میں اس کی منت سماجت آپا کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ "اچھا ٹھیک ہے، میں اماں سے بات کروں گی تم بھی خود کو بدلنے کی کوشش کرو۔ میری بات کرواؤ اماں سے۔" آپا نے سادگی سے کہا۔
"نہیں آپا آج نہیں بل کہ ابھی نہیں، اماں خفا ہوں گی کہ میں نے تم سے شکایت کی ہے۔ خود سے کسی دن اماں سے بات کرنا تاکہ انھیں محسوس نہ ہو۔" اس کی آواز میں لجاجت تھی۔ آپا مان گئی تھی۔
"اچھا آپا، اماں فون مانگ رہی ہیں لمبی بات ہو گئی تو انھیں اور غصہ آئے گا۔" ڈرامے کا کلائیمکس کرتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا۔ ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ کن انکھیوں سے اس نے اماں کو دیکھا اور فٹا فٹ ایک نمبر ملانے لگی۔ "وہ تو تڑپ رہا ہو گا میری آواز سننے کے لیے۔" حسینہ سوچتی رہی۔ بیل جا رہی تھی کافی انتظار کے بعد فون اٹھا لیا گیا تھا۔ مارے شوق کے اس کی آواز لرز گئی۔
"سنیں کیسے ہیں آپ؟ گھر والوں کو پتا چل گیا ہے۔ مجھے پتا ہے آپ بہت پریشان ہوں گے کہ اتنے دنوں سے رابطہ نہیں ہوا۔ میں نے بس یہ بتانے کے لیے فون کیا، آپ پلیز مجھے کال بیک کریں۔" حسینہ سانس روکے بولتی چلے گئی۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔۔۔ ٭٭٭
کچھ دیر بعد موبائل اسکرین روشن ہوئی۔ اس نے فورا فون اٹھا لیا۔ تب ہی اماں کی نظر اس پر پڑی۔ "اے حسینہ جلدی کر کون سی باتیں ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں؟" "بس اماں آئی دو منٹ۔۔۔" اس نے بعجلت کہا۔
"ہیلو آپ سن رہے ہیں، میری آواز آ رہی ہے۔" وہ بے تابانہ انداز میں بولی۔ "سن رہا ہوں اور جو کچھ تم نے پہلے کہا وہ بھی سن لیا اور سمجھ بھی چکا ہوں۔ حیرت تو مجھے اس بات پر ہے کہ تمھارے غیرت مند بھائی نے لگتا ہے ابھی تک تمھارا دماغ ٹھکانے نہیں لگایا نہ تمھاری لگامیں کھینچی ہیں، جو تم جو مری جا رہی تھی مجھ سے بات کرنے کے لیے۔۔۔" اس کے کانوں میں پڑنے والی آواز تو شناسا تھی مگر لہجہ اجنبی اور سرد تھا۔ "کیا مطلب؟" اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
"اس دن تو عظیم بڑا غیرت مند بن کر آیا تھا میرا منہ توڑنے، جیسے اس کے خاندان اور بہن جیسا شریف کوئی اور ہو ہی نا۔۔۔" حسینہ کو اپنے اوسان خطا ہوتے محسوس ہوئے۔ "آپ تو مخلص ہیں نا میرے ساتھ، محبت کرتے ہیں نا۔۔۔ آپ نے یہ ہی کہا تھا۔" جواب میں حسن کا استہزایہ قہقہہ گونجا۔ "تمھارے جیسی بہت مل جاتی ہیں ہم لڑکوں کا دل بہلانے کو۔۔۔" "اس کا مطلب۔۔۔" وہ ہکلائی۔
"اس کا مطلب کہ آئندہ مجھ سے رابطہ کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرنا۔ دل بھر گیا ہے تم جیسی ہلکی لڑکی سے۔" حسن نے کہا اور کال کاٹ دی۔ حسینہ کو اپنا سر بری طرح چکراتا ہوا محسوس ہوا۔ اتنی تذلیل تو اس نے تب بھی محسوس نہ کی جب بھائی نے اسے پکڑا تھا۔ تب بھی نہیں جب اسے ماں سے مار پڑی۔ حسن نے اسے حقیقتا عرش سے لا کر فرش پر پٹخ دیا تھا اس عرش سے جس تک پہنچانے والا بھی وہ ہی تھا۔ اس کے الفاظ نہیں کوڑے تھے جو اس کی روح تک زخمی کر گئے تھے۔ بے دم ہو کر وہ بستر پر ڈھے گئی۔
اپنی طرف سے تو عظیم نے اپنے سارے معاملات درست کر لیے تھے مگر وہ پھر بھی بے سکون رہا۔ بہت ساری باتیں تھیں جو اسے اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے جا رہی تھیں۔ اس روز جب آپا نے اس سے بات کی تو اس نے حسن کے متعلق سب کچھ سچ سچ بتا دیا تھا۔ اس کی نیت، اس کی سوچ، اس کی باتیں، کچھ بھی تو نہیں چھپایا تھا۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی گھریلو اور سیدھی سادی سی بہن اس لوفر کے ہاتھوں کیسے الو بن گئی۔ اسے حسینہ پر اب غصہ نہیں تھا بلکہ پشیمانی تھی کیونکہ ذمہ دار تو وہ بھی تھا۔ اماں نے انھیں بچپن میں نیکی کا درس دیا تھا، شرافت کا عملی مظاہرہ اپنی زنگیوں سے سکھایا تھا۔ یہ بھی بتایا تھا کہ کبھی کسی کو دھوکا نہ دینا کیونکہ دھوکا گھر نہیں بھولتا اک روز گھوم پھر کر وہیں آتا ہے جہاں سے آغاز ہوا تھا ۔شاید اسی کا نام مکافات عمل ہے، کر بھلا ہو بھلا۔۔۔
"میں نے کب کسی لڑکی کے ساتھ بھلا کیا؟" سوچتے سوچتے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تو کیا یہ تھی اس نامعلوم بے چینی اور ٹینشن کی وجہ؟ آج تک جتنی لڑکیوں کے ساتھ اس نے دوستیاں گانٹھیں اس میں ان سب لڑکیوں کی رضا اور خواہش شامل تھی۔ وہ لڑکیاں بڑے آرام سے اس کی دوست بننے کو تیار ہو گئی تھیں وہ بھی وقت گزاری کے لیے۔۔۔ مگر ایک وہ تھی جسے اس نے ستایا اور پریشان کیا تھا مگر وہ اسے ذرا خاطر میں نہیں لائی تھی۔
وہ مختلف تھی اور ہاں وہ شریف لڑکی کی تعریف پر بالکل پوری اتری تھی۔ عظیم کو اپنی تمام حرکتوں پر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی جس کی وجہ سے شگفتہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس طرح کے رویوں کی مستحق نہیں تھی۔ اسے اب کیا کرنا چاہیے تھا؟ ایک گتھی تو سلجھ گئی مگر دوسری ابھی سلجھانا باقی تھی۔
اماں تو حسینہ کی دگر گوں حالت دیکھ کر بوکھلا گئیں۔ "ارے ایسی کیا بات ہوئی بہن سے جو یہ حالت ہو گئی؟" وہ سمجھ نہ پائیں۔ آسیہ سے جب انھوں نے پوچھا تو جواب ملا: "گھر آ کر بات کروں گی اماں۔"
مسلسل کئی گھنٹوں تک حسینہ بلک بلک کر روتی رہی، ساتھ ہی بخار چڑھ گیا۔ ایسا بخار جو اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ آپا بھی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ "اماں ایسی ویسی کوئی بات تو نہیں کہہ دی جو اس پر اتنا اثر ہوا۔۔۔ کچھ غلط سلط..." آپا نے اس کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھتے ہوئے اماں سے استفسار کیا۔
"لے میں نے اسے کیا کہنا تھا؟ بل کہ میں نے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ تو سمجھا کر تو گئی تھی کہ اس پر اتنی سختی نہ کروں ورنہ باغی ہو جائے گی پر یہ تو پہلے سے ہی اتنی منہ زور ہو چکی تھی۔ میں نے تو اس کے منہ لگنا چھوڑ دیا۔ چنگی بھلی تھی جب فون پر بات کر رہی تھی بعد میں ہی اسے کوئی دورہ پڑا ہے۔" اماں نے تاسف سے کہا۔ "روتے ہوئے پتا نہیں کیا کیا ہذیان بکتی رہی ہے۔ معافیاں مانگی، پیر پڑی اور پتا نہیں کیا کیا بڑبڑاتی رہی..." بڑی بیٹی کو تفصیل سناتے ہوئے وہ خود بھی آب دیدہ ہو گئیں۔ آپا کے دل کو کچھ ہوا۔ "اماں دل برا نہ کرو، خدا نے عزت رکھی ہماری سب ٹھیک ہو جائے گا۔" آپا نے تسلی دی۔ خود ان کے دل کی بھی عجیب حالت تھی۔
"پتا نہیں کچی عمر کی لڑکیاں اتنا سہل شکار کیوں ہوتی ہیں؟ لگاوٹ کا کسی نے ذرا سا چھلکا پھینکا نہیں اور ان کا پیر پھسلا نہیں۔۔۔ اپنے پرائے کی تمیز بھول جاتی ہیں جنھوں نے پالا پوسا ہوتا ہے، اپنے خون سے سینچا ہوتا ہے انھی سے بغاوت پر اتر آتی ہیں۔ اللہ بخشے میری مرحوم ماں بالکل ٹھیک کہتی تھی کہ منہ زور گھوڑی اور منہ زور لڑکی بے لگام ہو جائیں تو صرف اور صرف تباہی و بربادی کا باعث بنتی ہیں۔" اماں کی باتیں بخار میں تپتی حسینہ کے کانوں تک بھی پہنچیں۔ بند آنکھوں کے کنارے سے آنسو ڈھلک کر تکیے میں جذب ہوتے رہے۔ شرمندہ ہونے کو اس کے پاس بے شمار وجوہ تھیں۔ اس کی اس حالت کے پیچھے کیا وجہ تھی اسے وہ ہمیشہ راز رکھنے والی تھی۔ سینے میں اک قبر بن چکی تھی۔ ٹھوکر کھانے والا سنبھل بھی جائے تو یہ کبھی نہیں بھولتا کہ ٹھوکر لگی کیسے تھی۔۔۔ اسے یہ بات اپنے آپ تک رکھنا تھی مگر ادھر آپا نے موبائل دیکھ لیا تھا۔ انھیں اندازہ ہو گیا کہ وجہ کیا بنی ہو گی۔ اماں کے دیکھنے سے پہلے ہی آپا نے چپکے سے کال لاگ مٹا دیا۔ اپنی چھوٹی بہن کا کچھ تو بھرم قائم رہنے دینا تھا اور اعلی ظرفی اس میں تھی کہ کبھی اس سے اس معاملے بارے بات نہ کی جائے۔
کیا ہوا، کیسے ہوا، کریدا نہ جائے۔ جو گزر گیا وہ ماضی بن گیا تھا۔ ان کے لیے اپنے گھر والوں کا آج اور آنے والا کل اہم تھا۔ یہ ہی بہت تھا کہ حسینہ سنبھل گئی اسے سبق مل چکا تھا۔
چاچا کو اپنے آنے کی اطلاع دینے کے بعد شگفتہ نے چند جوڑے اور چیزیں چھوٹے سے سفری بیگ میں رکھیں۔ چھٹی لینے کی اسے ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی کہ وہ تو مہمانوں کی طرح بس ایک دو روز کے لیے گھر جا رہی تھی۔ اس نے کون سا وہاں جا کر ڈیرے جمانے تھے۔ وہ وہاں پیش آنے والی ہر طرح کی صورت حال کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکی تھی۔ شام ڈھلے جب وہ گھر پہنچی تو چاچا اسے دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔ ایک و ہی تو تھے جنھیں اس کی موجودگی دل سے خوش کرتی تھی۔
"آجا پتر بڑی دیر سے تیری راہ تک رہے ہیں۔" انھوں نے خوش دلی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور اس کا بیگ تھام لیا۔ اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کا سامنا جاوید سے ہوا۔ نک سک سے تیار چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ بہت تروتازہ لگ رہا تھا۔
"مگر وہ اتنا تیار کیوں تھا کیا اس کی وجہ سے؟" رسمی علیک سلیک کے بعد وہ سیدھی اندر چلی آئی۔ دونوں بہنیں سر جوڑے پتا نہیں کون سے راز و نیاز میں مصروف تھیں۔ اسے دیکھتے ہی سیدھی ہوئیں۔ "کیسی ہیں آپی؟" ریحانہ نے پہل کی جب کہ ثمینہ بڑے کروفر سے بیٹھی رہی۔ "اچھی ہوں، تم سناؤ؟" سادگی سے کہہ کر وہ پلنگ پر جا بیٹھی۔ انھیں باہر کھسکتا دیکھ کر وہ بولی: "تم دونوں بھی یہاں بیٹھ جاؤ تمھارا اپنا گھر ہے۔" شگفتہ کا انداز تو سرسری سا تھا پھر بھی ثمینہ چونک اٹھی۔ "مبارک ہو بھئی رشتہ طے ہونے کی۔۔۔" شگفتہ نے اس پر نظریں جماتے ہوئے کہا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"خیر مبارک!" ثمینہ نے اک ادا سے بال جھٹکے۔ چہرے کے تاثرات بڑے ذو معنی سے تھے۔ تب ہی چاچی اندر داخل ہوئی۔ "نہ سلام نہ دعا آتے ہی ادھر چھپ کر بیٹھ گئی ہو؟" چاچی کا مزاج پہلے سے بھی تیکھا لگ رہا تھا۔ "سلام چاچی!" ان کی باتوں کو نظر انداز کوتے ہوئے وہ سادگی سے گویا ہوئی۔ انھیں دیکھ کر بھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔ اس کے سلام کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وہ ثمینہ کے پاس بیٹھ گئیں۔
"جا ریحانہ کوئی پانی شانی لے کر آ۔۔۔" اسے بھیج کر وہ کہنے لگیں: "بڑی نصیبوں والی ہے میری دھی، ماشاءاللہ اتنے اچھے گھر میں رشتہ ہوا ہے اس کا۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔ جہاں ہم نے کہا وہیں اس نے ہاں کر دی، تمھیں پتا تو چلا ہو گا۔۔۔"
"ہاں پتا چلا تھا، بتا دیا تھا چاچا نے۔" اس نے یوں جواب دیا جیسے یہ بہت عام سی بات ہو۔ اس کا یہ انداز چاچی کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ وہ کیسے اتنے سکون سے ان کے سامنے بیٹھی تھی۔ "تم بھی جلدی کوئی فیصلہ کرو، لوگ بڑے سوال پوچھتے ہیں تو جواب تو ہمیں دینا پڑتا ہے۔ ہم کب طرف تمھاری صفائیاں دیتے رہیں گے۔" ان کا انداز سراسر جتانے والا تھا۔ شگفتہ کے تاثرات ہموار رہے، جیسے اسے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
"ہاں ٹھیک کہتی ہیں آپ، فیصلہ کرنے ہی آئی ہوں فکر نہ کریں کچھ نہ کچھ کر کے ہی جاؤں گی۔" اس کے الفاظ نے چاچی کو چونکنے پر مجبور کر دیا۔ تب ہی ریحانہ شربت کا گلاس تھامے اندر داخل ہوئی۔ اس کی بروقت آمد ان کی چپ کا دورانیہ بڑھانے کا باعث بن گئی۔
"میرے لیے چائے بنا کر میرے کمرے میں لے آؤ، بڑے کام ہیں دیکھنے والے۔" اسے حکم دیتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ریحانہ نے حیرانی سے اپنی ماں کو دیکھا اور پھر شگفتہ کو جو مگن انداز میں موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔ "اس کے تیور دیکھے ہیں تو نے؟ ایسے ظاہر کر رہی ہے جیسے بڑا احسان کیا ہے ہم پر آ کر۔۔۔" چاچا ابھی آرام کرنے لیٹا ہی تھا کہ انھوں نے بولنا شروع کر دیا۔ وہ تلملا کر اٹھ بیٹھے۔ "تو کیا ہر وقت اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے، اور کون سے تیور دیکھ لیے تو نے؟ اچھی بھلی تو آئی ہے نہ اس نے کوئی ایسی بات کی نہ کچھ اور۔۔۔ کھانا بھی سب کے ساتھ کھایا خاموشی سے۔" شوہر کا ٹوکنا انھیں ناگوار گزرا۔ "تو نے اس سے پوچھا کیوں نہیں کہ کیا فیصلہ کیا اس نے؟" "پہلے جو ضروری کام ہے وہ ہو جائے تو اس سے پوچھ بھی لوں گا، میرا سر نہ کھا۔۔۔" سر جھٹک کر وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔
"ہونہہ! تم سے کچھ نہیں ہو گا، یہ کام بھی مجھے نمٹانا پڑے گا۔" وہ بڑبڑائیں۔ انھوں نے سوچ لیا تھا کہ شگفتہ کو کیسے قابو کرنا ہے۔ اب کی بار انھوں نے ایسی چال چلنی تھی کہ وہ ان کی روگردانی کرنے کے قابل ہی نہ رہتی۔ پرسکون ہو کر وہ بھی سونے کے لیے لیٹ گئیں۔
حسینہ کی بیماری کی وجہ سے عظیم بھی پریشان تھا اور اس سے ہمدردی بھی تھی مگر جو ہوا وہ اسے دل سے نہیں جھٹک پا رہا تھا۔ ایک بار پھر آپا نے بڑے ہونے کا فرض نبھایا تھا۔ جانے سے قبل وہ اس سے بات کرنے آئیں۔ "تم بہت بدل گئے ہو عظیم، اماں تو ترس گئیں اپنے پہلے والے عظیم کو دیکھنے کے لیے جو ہنستا مسکراتا تھا، جس کے دم سے رونق تھی۔ اتنے خاموش کیوں ہو گئے ہو؟" آپا نے پریشانی سے استفسار کیا۔ وہ نظریں چرا گیا۔ "کچھ خاص نہیں آپا! بس ایسے ہی۔۔۔" لہجہ اور الفاظ دونوں ہی کھوکھلے تھے۔ "جو ہوا اسے بھول جاو، ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں، معاف کر دو اسے، بہن ہے تمھاری۔۔۔ چھوٹی ہے اور نادان بھی۔۔۔" آپا نے دھیرے سے کہا۔
عظیم کے دل کو کچھ ہوا۔ بھولنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بل کہ وہ تو اس دل شکن حادثے کو ساری زندگی بھولنا نہیں چاہتا تھا۔ بھول جانے کا مطلب ہوتا پھر سے وہی آوارگی کے قصے اور دوستیاں۔۔۔ "نہیں آپا میں بھولنا نہیں چاہتا۔" اس نے ٹھوس آواز میں جواب دیا۔ آپا کو سمجھ نہ آئی کہ وہ مزید کیا کہے۔ وہ سوچتی رہی اور پھر بولی: "اس نے سبق سیکھ لیا ہے، مجھے یقین ہے اب ساری زندگی وہ اس راہ خار دار کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھے گی۔ اس کی پہلی اور آخری نادانی سمجھ کر معاف کر دو۔ بھائی بہنوں کا مان ہوتے ہیں، ان کی حفاظت کرتے ہیں تم اگر بہنوں کے سچے، غیرت مند اور عزت دار بھائی بن جاؤ گے تو یقین مانو بہنوں کی عزت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آئے گی۔" وہ چونک گیا۔ آپا اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں؟ وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا۔
"اٹھ جاؤ آپی! اور کتنا سونا ہے۔" وہ گہری نیند میں تھی جب اسے کوئی آواز سنائی دی۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور پکارنے والی کو دیکھا۔ ریحانہ ابھی تک اس کے سرہانے کھڑی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر وہ الماری کی طرف بڑھ گئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی۔ سامنے نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پوری کھل گئیں۔ "تم صبح صبح کیا بنی بیٹھی ہو؟" ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے شگفتہ نے حیرت کا اظہار کیا۔ اس کا منہ کالے رنگ کے ماسک سے ڈھکا ہوا تھا باقی کسر آنکھوں پر رکھے کھیرے کے قتلوں نے پوری کر دی تھی۔ "صبح صبح کہاں آپی، ساڑھے نو بج رہے ہیں۔" ریحانہ نے الماری میں منہ گھسائے رکھے جواب دیا۔ ثمینہ چپ چاپ بیٹھی رہی کہ بول کر اس نے ماسک تھوڑی نہ خراب کرنا تھا۔
"اوہ اچھا! میری آنکھ ہی نہ کھلی فجر کے لیے۔۔۔ بس چھٹی والے دن ہی تو نیند پوری ہو پاتی ہے۔" بڑبڑاتے ہوئے وہ باہر غسل خانے کی طرف چل دی۔ تازہ دم ہو کر آتے ہی اس کی نظر صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھی چاچی پر پڑی۔ "اٹھ گئی ہے تو؟ ہو گئی نیند پوری۔۔۔" چاچی کا لہجہ کل کی نسبت نرم تھا۔
"اچھا سن، ہم سب تو کب کا ناشتا کر چکے تم بھی کر لو۔ جو کھانا ہے بنا لو، توبہ مجھے تو اتنے کام ہیں کہ بس۔۔۔ او ہاں یاد آیا جاوید کا ناشتا بھی بنا دینا۔ اسے کمرے میں دے آنا وہ ذرا دیر سے جاگتا ہے۔۔۔" انھوں نے ہدایات جاری کیں اور چپل گھسیٹی اندر کی طرف چل دیں۔
"یہ کیا مصیبت ہے؟" ناشتا بناتے وہ مسلسل بڑبڑاتی رہی۔ ہاسٹل میں اتوار والے دن بننے والے خستہ اور گرما گرم آلو کے پراٹھے اسے شدت سے یاد آ رہے تھے۔ جاوید کا ناشتا ٹرے میں رکھ کر بادل نخواستہ وہ اس کے کمرے کی طرف چلی آئی۔ کافی دیر کی دستک کے بعد دروازہ کھلا۔ لگتا تھا کہ وہ ابھی بیدار ہوا ہے۔ بکھرے حلیے میں دروازے تک آنے والا جاوید جوخود کو جگانے والے کو خوب کھری کھری سنانے والا تھا اسے سامنے دیکھ کر سٹپٹا گیا۔ فورا ہاتھوں سے بال سنوارے۔ "ارے تم!"خوش گوار حیرانی کا اظہار ہوا۔
"آجا‎ؤ!" ایک طرف ہوتے ہوئے اس نے شگفتہ کے لیے کمرے میں داخل ہونے کی جگہ بنائی۔ "چاچی کے کہنے پر میں یہ ناشتا دینے آئی ہوں۔" ایک انچ بھی ہلے بنا اس نے خشک لہجے میں کہا۔ صاف ظاہر تھا کہ اس کا اندر آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ "اور ہاں! آپ کہا کرو مجھے، بڑی ہوں تم سے۔۔۔" واپس پلٹنے سے پہلے اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔ جاوید مزید کچھ نہیں بول سکا تھا۔
دونوں بہنوں کی پھرتیاں قابل دید تھیں۔ شگفتہ انھیں دیکھ دیکھ کر حیران ہوتی رہی۔ "تم لوگوں کا ابھی سے یہ حال ہے تو پتا نہیں شادی پر کیا ہو گا۔۔۔" کمرے میں بکھری چیزیں دیکھ کر اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
"کسی کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں جلتے نہیں۔۔۔" ثمینہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔ "آپی آپ کچن میں میری مدد ہی کروا دیں۔" شگفتہ کا جواب دینے کے لیے کھلا منہ ریحانہ کی التجا سن کر بنا کچھ کہے بند ہو گیا۔ سر جھٹکتے ہوئے شگفتہ اس کے ساتھ باورچی خانے میں چلی آئی۔ چاچی بھی وہاں موجود تھی۔ ثمینہ کے سسرال والے آج شادی کی تاریخ لینے آ رہے تھے اور انھیں ان کے لیے پرتکلف کھانے کا اہتمام کرنا تھا۔ ریحانہ کی دوست بھی مدد کروانے چلی آئی تھی۔ شگفتہ کو دیکھ کر اس کے چہرے کے تاثرات کھنچ سے گئے۔ "کیسی ہیں آپ؟" تولتی نگاہوں سے اس نے شگفتہ کو سر تا پا دیکھا۔
"بہت اچھی ہوں، تم سناؤ؟" شگفتہ نے سادگی سے پوچھا۔ اس نے عجیب طرح سے مسکرا کر منہ پھیر لیا۔ "خالہ مجھے بتائیں نا میں کیا مدد کروں آپ کی۔۔۔" راحیلہ نے لگاوٹ سے ان کے قریب جاتے ہوئے کہا۔ "تو ایسا کر جا کے صفائی ستھرائی میں ثمینہ کا ہاتھ بٹا دے، اکیلی ہی کھپ رہی ہے میری دھی بے چاری۔۔۔" چاچی نے مگن انداز میں جواب دیا۔ راحیلہ کا چہرہ بجھ گیا۔
چاچی نے اپنی مصروفیت میں ایک بار بھی غور سے اس کے چہرے کے تاثرات، لگاوٹ اور خاص تیاری کو دیکھنے کی پروا تک نہ کی تھی۔ شگفتہ اس کی حالت پر زیر لب مسکرا دی۔ کچھ تو ایسا تھا جسے وہ ابھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ (جاری ہے)