کاش اے کاش

تحریر : روبینہ قریشی
انتخاب : اخت نصیرالدین
میں ہارٹ سرجن احمد مجیب ہوں-ملک عبدالمجیب کا بیٹا ۔تیس سال تک کینیڈا میں رہائش پذیر رہا ہوں ۔ میں ایک عرصے تک خدمات انجام دینے کے کے بعد آج کل تھل کے علاقے میں شہر سے دور اپنے آبائی گاؤں میں قبرستان کے قریب واقع اپنے گھر میں رہائش پذیر ہوں۔میرے والد ملک عبدالمجیب ایک کم پڑھے لکھے لیکن کاروباری اونچ نیچ سے بہرہ ور کامیاب تاجر تھے۔دادی جب ابا کا رشتہ کرنے لگیں تو ان کی پہلی ترجیح پڑھی لکھی لڑکی

مزید پڑھیے۔۔

عید کے رنگ،اپنوں کے سنگ

لو بھئی یہ بھی خوب کہی! ساری دنیا اسی گرمی میں عید منا رہی ہے بس ایک ہم بیٹھے رہیں ،موسم اچھا ہونے کے انتظار میں!! یہ کیا بات ہوئی بھلا! ہماری اماں دنیا سے انوکھی ہیں! انھیں بیٹیوں سے زیادہ بہوویں پیاری ہیں۔ بھلا بتاؤ.. لوگ راہ دیکھتے کہ بہن بیٹیاں گھر آئیں تو عید کی رونقیں اور خوشیاں دوبالا ہوں... لیکن ایک یہ ہماری اماں ہیں.... خدا جانے کہاں سے آرڈر پر بنوا کر لائے تھے ابا مرحوم!! ایسی اماں ہم نے تو نہ دیکھی نہ سنی۔
ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

سلیقہ شعار بیٹیاں

آج کل تو دنیا کے ہر کام کے لیے مشینیں دستیاب ہیں جتنا خرچہ آپ نے بری زیور ولیمے پر کرنا ہے مت کریں سادگی سے دو کپڑوں میں بہو لے آئیں۔شربت کے ایک گلاس پر گھر میں ہی ولیمہ کر لیں۔اور ان سب پیسوں سے گھر کے کام کے لیے آٹو میٹک مشینز خرید لیں اللہ اللہ خیر سلا۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا
حمیراعلیم

مزید پڑھیے۔۔

بہو بھی انسان ہے

حمیراعلیم
ملاحظہ : ساس بہو کے اختلافات اکثر گھروں کا معاملہ ہے اور اس بابت مختلف خیالات اور نظریات پائے جاتے ہیں ، اگر آپ بھی اس بابت کچھ لکھنا چاہیں تو سلیقے و قرینے سے دلیل کے ساتھ اپنا نظریہ لکھ سکتے ہیں ۔ تحریر بھیجنے کے لیے میل آئی ڈی نوٹ کر لیجیے : عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

مزید پڑھیے۔۔

سرما کی یادیں

کبھی رات میں بارش کی آواز سے آنکھ کھل جاتی تو عجیب سا ہی سحر طاری ہوتا... وہ جاڑوں کی بارش اور گہرا سناٹا... بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کا کڑکنا، کچی چھت پر ٹپ ٹپ کرتی بارش کی بوندیں اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو... دیوٹ پہ رکھے دیے کی ڈولتی ہوئی لَو.... کھڑکی پہ پڑا سفید رنگ کا پردہ، چھت کی بوسیدہ کڑیوں میں بنے چڑیوں کے گھونسلے، چڑیوں کے بچوں کی "چوں چوں" اور چڑے کا پُھر پُھر کر کے ادھر ادھر اڑنا... سب کچھ کتنا سحر انگیز تھا ۔

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

وہ جو ہم میں، تم میں قرار تھا

یہ خاندان تقریبات کا دیوانہ تھا۔ چھوٹی بڑی تقریبات اکثر منعقد ہوتی رہتیں ۔ مگر میں کبھی بے حجاب ہو کر کسی محفل میں شریک نہیں ہوئی۔ ہمیشہ بڑی چادر یا بُرقع پہن کر بیٹھتی اور کسی کو مجھ پر اعتراض کرنے کہ ہمت نہ ہوتی کیوں کہ میری مہربان ساس کا تعاون جو ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا تھا۔ دیور اور نند کی شادی میں، میں نے اماں سے کہا کہ مہندی مایوں کی تقریبات نہ کریں، ہندوانہ رسمیں ہیں اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے۔ مگر وہ کہنے لگیں اب ان سب کو میں کیسے روکوں؟ بس تم شرکت نہ کرنا

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

اولاد اور والدین کے درمیان دوری کیوں؟

لاریب عبد الحمید میر پور خاص

والدین ہی وہ ہستی ہیں، جو اپنے بچوں کی تمام تر ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ ان کی ہر طرح کی مدد کرتے ہوئے انہیں پالتے پوستے ہیں ، تعلیم دلواتے ہیں اور پھر انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اپنا سکھ ، چین ،آرام ، سکون غرض اپنی ہر راحت کو اپنے بچوں پر قربان کر دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے برعکس بچوں کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ اتنا اچھا نہیں ہوتا ۔

مزید پڑھیے۔۔

مامتا : ایک جادوئی طاقت

اسے ایک منٹ رکنے کا کہ کر کمرے میں گئیں اور جب لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا۔ " یہ آیان کو دینا۔ تمہارے ابو سب بچوں کےلئے لائے تھے-"

ندا نے دیکھا پیکٹ میں دو کتابیں تھیں جن کا ٹائیٹل تھا "Bedtime stories from the Quran". " "امی آپ کے پاس تو سچ میں جادوئی طاقت ہے"وہ ان سے لپٹ گئی۔ اور واپسی کے لئے تیز تیز قدم بڑھانے لگی۔آج اسے آیان کا قرض چکانا تھا ۔ اس کی ماما اسے پوری کی پوری واپس کرنی تھی تمام تر جادوئی طاقتوں کے ساتھ۔

ام مہد اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

نازش نے سب کا دل جیت لیا

ان کی تلخی بھی بہت تلخ تھی اور سچ ہے اگر یہی برداشت کی بنیاد پر رکھے جائیں تو انکی مٹھاس بھی بہت شیریں ہے ۔۔۔۔ نازش کچن میں کام کررہی تھی، جب اچانک اسے کسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئی، پلٹ کر دیکھا تو ان کے میاں صاحب مسکراتے ہوئے آرہے تھے ۔

امۃ اللہ ند ا اختر

مزید پڑھیے۔۔

ہائے میری الماری

میں اپنی ساس اماں سے بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ مجھے اپنی الماری میں دوسروں کی شراکت گوارا نہیں!! (یہ خیال آتا کہیں ایسا نہ ہو میری بات سے ان کا دل دکھے) بس آہستہ آہستہ اپنے دل کو ہی سمجھا لیا... چلو کوئی بات نہیں جب دلہے میاں اپنی مرضی کے نہیں ملے تو باقی کسی چیز کی حیثیت ہی کیا ہے!! صبر کر لو... جب اتنی بڑی بات پہ صبر کر لیا تو ایک لکڑی کی الماری کی اوقات ہی کیا ہے!!
زہرہ جبیں

مزید پڑھیے۔۔

جگنو

-"ا نعم کے اندر اطمینان سا اتر گیا " جی بالکل اور اب آپ تھوڑی دیر سو جائیں"- وہ کمبل اوڑھانے لگی تو احمر ا یک دم اٹھ بیٹھا " اپنے بیٹے کو سرپرائز لنچ نہیں کھلائیں گی؟" اس کے شرارت بھرے لہجے پہ دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑے۔ ایک اطمینان بھری ہنسی۔
ام مہد پنڈی گھیپ اٹک

مزید پڑھیے۔۔

بچے ہمارے عہد کے

یاد ماضی کی وجہ یہ بنی کہ اس سال اسکول کی چھٹیوں میں بہن کے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے بلکہ درحقیقت اس کو تھوڑا آرام دینے کے لیے یہ طے پایا کہ ہفتے میں ایک دو دن بچے خالہ جی یعنی کہ مابدولت کے پاس تشریف لایا کریں گے اور یقین جانیے ان چند تشریف آوریوں نے ہی عاجزہ کے چودہ طبق روشن کرکے یہ سوچنے پہ مجبور کردیا۔۔۔۔
جویریہ شعیب ،یوکے-انگلینڈ

مزید پڑھیے۔۔

لاج

اب ان دونوں پر ایک شادی شدہ نند کی ان چاہی ذمہ داری بھی آن پڑی تھی۔دو وقت کے کھانے کے عوض وہ بھابھیوں کے کئی کام نمٹا دیتی کبھی بچوں کے کپڑے سی دیتی تو کبھی ابا نے جو اس کے خرچے کےپیسے ہاتھ پر رکھے تھے اس سے بچوں کو بسکٹ ٹافی منگاکر کھلادیتی۔جو بھائی پہلے اس کے لاڈ اٹھایا کرتے تھے اب بڑے ہی روکھے پھیکے انداز میں حال احوال پوچھتے۔۔

بنت مسعود احمد
(آخری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

لاج

اس کی ساس کے بڑے بھائی بہت امیر کبیر تھے ان کے گھر کے حالات ان سے پوشیدہ نہ تھے بھانجے کے لیے کئی دفعہ نوکری کی کوشش کرچکے تھے پڑھا لکھا تو تھا نہیں مگر پھر بھی وہ کہیں نہ کہیں اچھی تنخواہ کے ساتھ سیٹ کرواچکے تھے مگر اپنی ازلی لاپروا طبعیت کے باعث وہ کم ہی کہیں ٹک پاتا تھا
بنت مسعود احمد کراچی

مزید پڑھیے۔۔

ڈوبتےمنظر

اس ڈوبتے منظر نے ابا منزہ مسکراتی ہوئی ابا کے ساتھ چارپائی پر آبیٹھی اور ابا کو تصویر دکھانے لگی۔۔۔ڈوبتے سورج کی سرخی افق پر پھیلی تھی۔۔درخت شاکر کھڑے تھے باادب۔۔۔سڑک کے بیچوں بیچ گزرتی نہر کا پانی خاموشی سے رواں تھا۔نہر کے چھوٹے سے پل سے گزرتا ایک تنہا،مسافر اپنے دھیان میں مگن اپنی منزل کی طرف گامزن تھا
اجالا سحر

مزید پڑھیے۔۔

اے ماں ہر دن تیرے نام !!!

ساری رات وہ اپنے لعل کی چارپائی سے لگی بیٹھی رہی۔ اپنی بے بسی اور لاچاری کا احساس بے چین کیے دے رہا تھا۔ بچے کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا تھا۔ فجر کے وقت اس دکھیاری کی آنکھ لگ گئی۔ چند لمحوں بعد چونک کر آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔۔۔ تو کیا دیکھتی ہے
شمائلہ شکیل حیدرآباد

مزید پڑھیے۔۔

دور کے سہانے ڈھول

آج وہ 22 سال کا نوجوان  ہے اس کی میڈ  نے سبحان کو اچھائی اور برائی کا فرق اپنے انداز میں سکھایا ، اس کے دوستوں نے اور ماحول نے اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب بنا کر دکھایا ،قاری صاحب نے مذہب کو قرآن پڑھانے اور نماز تک محدود رکھا۔ میں جو اس کومحبت سے صحیح راہ سجھا سکتی تھی۔ اپنی اہم ذمہ داری کو چھوڑ کر اپنے کیریئر سنوارنے کے چکر میں اپنی آخرت کا گھر برباد کر بیٹھی۔ آج وہ اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔!

 مہوش ریحان

مزید پڑھیے۔۔

بیٹیوں کی ماؤں کے لیے

دونوں بڑی جٹھانیاں اس کے گھر جاتے ہی اپنے میکے چلی گئیں اب میری بچی گھر کا سارا کام اکیلے کر رہی ہے بھلا بتاؤ ساس نے بھی کچھ نہ کہا اور جانے دیا۔

 دوسری اور آخری قسط

بنت مسعود احمد

نزہت نے جوائنٹ فیملی سسٹم میں بمشکل ایک سال گزارا پھر علیحدہ گھر کی مانگ کردی۔ وہ جانتی تھی کہ ارشاد صاحب الگ گھر افورڈ کرسکتے ہیں پھر وہ کیوں نہ فرمائش کرتی۔اماں بھی اس عرصے میں ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ چکی تھیں۔انہیں پہلے ہی اندازہ ہوچکا تھا کہ نزہت جلد بدیر ایسا مطالبہ کرسکتی ہے اور وہی ہوا۔۔۔انہوں نے بیٹے کو کسی بھی قسم کی ذہنی اذیت سے بچانے کو نزہت کی بات کی تائید کردی اور اماں کی رضامندی سے جلد ہی ارشاد صاحب نے اپنا الگ گھر لے لیا۔

مزید پڑھیے۔۔

باورچی خانے کی روداد

پیاز کٹی ہوئی ہے ، قیمہ دھلا ہوا رکھا ہے ، کل رات قیمہ بنانے کی پوری ترکیب دونوں کو سمجھائی تھی ، اسی طرح سے رات کے لیے قیمہ بنالو اور یہ آلو میش کرکے رکھے ہیں

 عمارہ فہیم

چھٹی (اتوار) کا دن تھا ، سب گھر میں ہی موجود تھے ، مومنہ و اریبہ کے کالج کے ساتھ آج تو دوپہر کی کلاس کی چھٹی تھی اور دونوں اپنی اس مصروف روٹین کی اب تک عادی ہوچکی تھیں اس لیے چھٹی کا دن ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا ، سب کاموں سے فارغ ہوکر بھی دن تھا کہ گزرنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔

مزید پڑھیے۔۔

خاندانی جھگڑے

کوئی بھی انسان اکیلا نہیں رہ سکتا ۔ وہ دوسرے لوگوں سے تعلقات بناتا ہے ۔ اپنا الگ گھر بناتا ہے ، اس کا نظام سنبھالتا ہے اور اپنی سربراہی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھاتا ہے۔ اس نظام کو "خاندان" کہتے ہیں ۔ عموماً خاندان کا سربراہ کوئی بزرگ یا پھر سب سے بڑا آدمی ہوتا ہے۔

منیبہ ادریس

اردو میں خاندان کے معنی کنبہ ، قبیلہ ، یعنی کسی گھر میں چند اصحاب جو مل کر رہتے ہوں کے ہیں ۔ فارسی میں خاندان کو "خانوادہ" کہا جاتا ہے ۔ اس کے معنی بھی قبیلہ یا برادری کے ہیں۔ 

مزید پڑھیے۔۔

بیٹیوں کی ماؤں کےلیے سبق

ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا ہے شادی ہوۓ ذرا تحمل سے کام لو۔۔۔شادی سے پہلے  اور شادی کے بعد کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے  شادی کے بعد کئی طرح کی ذمے داریاں ہوتی ہیں، جنہیں  نبھاکر چلنا ہی ازداوجی زندگی کو پرسکون بھی بناتا ہے اور رشتے کو مضبوط بھی کرتا ہے ۔

قسط۔1

بنت مسعود

"آپ جانتی ہیں ان لوگوں کو بہو نہیں، نوکرانی چاہیے تھی.".ارشاد صاحب جیسے ہی داماد کو رخصت کرکے کمرے میں واپس آۓ بیٹی کو ماں سے شکوہ کرتے پایا۔

مزید پڑھیے۔۔

شاباش ہم نشیں !!!

ہر رشتے کی اپنی جگہ ہے جیسے کہ باپ کی اپنی جگہ ہے لیکن وہ ماں کی جگہ نہیں لے سکتا، اسی طرح ماں کا اپنا مقام ہے مگر وہ باپ والا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ ہر بچے کی زندگی کو سنوارنے  میں ماں باپ کے ساتھ ساتھ دادی ، دادا ،پھو پھو چاچا اور نانی ،نانا ،ماموں، خالہ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے

روبینہ قریشی

کبھی کبھی مجھے اپنے بچوں کے لیے دکھ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس دورِ پر آشوب میں آنکھ کھولی ۔

مزید پڑھیے۔۔

زندگی نہیں ہے آساں

آۓ تو وہ  صوبے دار کے حکم پر ان کی جائیداد نیلام کرنے تھےمگر ماں بیٹی کی غیرت مندی اور بے سروسانی نے ان کو سوچنے پر مجبور کر دیا.درددل رکھنے والے شیخ فتح محمد نے مجیدہ بیگم کو پورے عزت واحترام سے اپنے گھر میں بسالیا۔

 جویریہ شعیب- انگلینڈ

صوبے دار عبدالرسول سے کیے گۓ معاہدے کے مطابق چھ مہینوں کے اندراگر لگان ادا نہ کیا گیا تو آبائی جائیداد نیلام کر دی جاۓگی".مجیدہ بیگم نے ماں کی پریشانی میں ڈوبی آواز سنی،مگر اصل آزمائش تو اس وقت شروع ہوئی جب معاہدے کے چار ماہ کے اندر ہی میر اکبرعلی خان دنیا

مزید پڑھیے۔۔

رشتے اور برتن

 دیورانی جٹھانی ، نند بھاوج، ساس بہو یہ وہ رشتے ہوتے ہیں جن میں  ان بن ہو ہی جاتی ہے، ایک کی بات دوسرے کو بری بھی لگ سکتی ہے ، اور جس طرح ایک ریگ و شیلف میں چند برتن ہوں تو ان کے آپس میں ٹکرانے سے آواز پیدا ہوتی ہے ،  بوقت ضرورت تھوڑا سا فاصلہ بہتری پیدا کردیتا ہے لیکن اس کا حل ہر برتن کو الگ الگ خانے و شیلف میں رکھنا نہیں ہوتا

 عمارہ فہیم

مومنہ و اریبہ کالج سے آئیں تو گھر میں کافی سناٹا تھا ، سناٹا تو ہمیشہ ہی رہتا تھا ، لیکن دونوں مائیں انہیں واپسی پر گھر کے صحن میں ہی ملتی تھیں، کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ صحن بالکل خالی ہوتا ، صحن ہی نہیں کچن کی حدود بھی خالی ہوتیں یا دونوں ماؤں میں سے کوئی ایک وہاں موجود ہوتیں اور دوسری اپنے کمرے میں ،

مزید پڑھیے۔۔

الیکٹرانک بچپن

بچپن کتنا سنہرا ہوتا ہے نا۔ کوئی فکر نہ اندیشہ۔ دوستوں میں لڑائی ہوجاتی اور دوسرے ہی لمحے سب مل کے کھیلنے لگ جاتے، پہل دوج، چھپن چھپائی، لڈو، کیرم، اونچ نیچ کا پہاڑ، پکڑم پکڑائی، آنکھ مچولی، کبڈی، فٹ بال، کرکٹ، گوگو اور کتنے کھیل کھیلتے لیکن دل نہ بھرتا۔

روبینہ عبد القدیر

مزید پڑھیے۔۔

ماہی

ابا میاں کو شکار کا بہت شوق تھا۔ گرمیوں میں تو یہ شوق ذرا دھیما ہوتا مگر سردیوں میں اپنے عروج پہ پہنچ جاتا۔  مچھلی کا شکار کرنے نکل پڑتے۔ پہلے پہل تو سائیکل پر جایا کرتے تھے پھر موٹر سائیکل خرید لی۔ مفلر کانوں کے گرد لپیٹا، کوٹ پہنا، مچھلی کی ڈور والا تھیلا اٹھایا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔! ابا میاں جتنا مچھلی کا شکار کرنے کے شوقین تھے اتنا ہی مچھلی کھانے کا بھی شوق رکھتے تھے

 ام محمد سلمان

 سردیاں آتی ہیں تو ڈھیر ساری یادیں بھی در آتی ہیں اور دل کے دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ان دریچوں میں جگہ جگہ یادوں کے دیپ جلتے ہیں۔ کہیں بارش برستی ہے، کہیں تیز چمکیلی دھوپ نکلتی ہے تو کہیں دھند سے اٹے راستے ہوتے ہیں۔ کہیں گرم تیل میں فرائی ہوتی مچھلی کی اشتہا انگیز خوشبو ہوتی ہے،

مزید پڑھیے۔۔

کیا کھویا، کیا پایا

آج میں سوچتی ہوں زیادہ ڈگریوں سےیا زیادہ اچھی تربیت سے میں نے کس سے کچھ کھویا میں نے کس سے کچھ پایا

روبینہ قریشی

یہ بات ہے کوئی 28 سال پہلے کی میرے ہاں  دو جڑواں بیٹے ہوئے تو میرے شوہر نے ایک بیٹا  اٹھا کر اپنی امی کی  گود میں ڈال دیا۔وجہ اس کی یہ تھی  کہ اس سے پہلے بھی میرے پاس 4 سالہ ثروت اور 2 سالہ فرحت  تھیں ۔

مزید پڑھیے۔۔

درد میں دوا پائی!

جلدی میں وہ رشتہ قبول کر لیا گیا لیکن قسمت کے کیا کہنے کہ لڑکے والوں نے جھوٹ بول کر صرف و صرف پیسوں کے لالچ میں شادی کی تھی کہ لڑکی ماسٹرز ہے تو کما کر لائے گی۔ لڑکے کی کوئی نوکری نہ تھی اور نشے کا بھی عادی تھا۔ غصے میں اور خرچ کے لیے پیسے نہ ملنے پر مار پیٹ الگ کرتا تھا۔ اسی مار پیٹ میں ایک دن نغمہ کا بچہ بھی ضائع ہوگیا اور ساتھ ہی اوپر کی آمدنی سے زیادہ پیسے نہ کما کر لانے پر اُسے گھر بدر کردیا۔

 مہوش کرن

رات کے دس بجے وہ اپنے بستر پر لیٹی سوچ رہی تھی۔ سالوں پہلے دنیا والوں کے کہے جملے آج بھی نغمہ کے کانوں میں گونج رہے تھے۔

مزید پڑھیے۔۔

یقین کی بلندی

وہ کسی تیز رفتار ٹریفک والی سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ ہر طرف بہت رش تھا، بڑی بڑی بسوں اور ٹرینوں جیسی گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ وہ پریشان تھی، سڑک عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی

  مہوش کرن

 وہ اپنے واکر کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر کچھ تھا جیسے کوئی خاص بات ہو. وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں، کچھ بتانا، کچھ سمجھانا چاہتی تھیں۔ وہ چپ چاپ ان کے قریب آنے کا انتظار کرتی رہی۔ لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے دل میں بےچینی بڑھ رہی تھی جانے وہ کیا بات کہنا چاہتی ہیں۔ اس نے چاہا کہ دوڑ کر ان کے پاس چلی جائے، واکر ہٹا کر اپنے ہاتھوں سے انہیں سہارا دے، لیکن اسے لگا اس کے ہاتھ پاؤں جم گئے ہیں۔ بےتحاشا کوشش کی لیکن وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی۔

مزید پڑھیے۔۔