قائد اعظم وہ آئرن مین تھے جنہوں نے پہلے سب مسلمانوں کو منظم کیا ۔ان کو ایک جگہ جمع کیا ۔پھر قائد نے حکومتی اداروں اور بہت سے ہندو رہنماؤں سے بات کی مگر ان سب نے آپ کی مخالفت کی ۔وہ آپ کو اپنے مقصد سے ہٹانا چاہتے ہیں وہ آپ کے دشمن بن گئے آپ کو دھمکیاں دینے لگے ۔مگر قائد اپنے مقصد پہ ڈٹے رہے ۔

نازیہ نوازش، اسلام آباد

13 اگست کی شام تھی اور حبس زدہ گرمی کا موسم عروج پہ تھا۔ سعد گرمیوں کی چھٹیاں لاہور میں اپنے نانا کے گھر گزارنے کے بعد آج اسلام آباد میں واقع اپنے گھر جارہا تھا۔ ۔اس کے ابو اس کو اور اس کی امی کو لینے آ چکے تھے ۔سعد کے نانا ابو بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کو اسلام آباد میں کچھ کام تھا ۔ "اگست کا آغاز ہوتے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا اختتام ہو جاتا ہے ۔ گرمی ختم ہوتی نہیں، چھٹیاں ختم ہو جاتی ہیں۔" سارا نے اے- سی تیز کرتے ہوئے سوچا اور پیچھے بیٹھے سعد کو دیکھا جو کھڑکی سے پار، باہر کے مناظر میں جیسے کھویا ہوا تھا ۔وہ مسکرا دی۔

"کیا دیکھ رہے ہو سعد؟ " اس نےبوچھا
ماما اتنی ساری گاڑیوں اور بائیکس پر سبز اور سفید پرچم لگے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر جھنڈیاں بھی لگی ہیں اور عمارتیں بھی سجی ہوئی ہیں ۔ کل 14 اگست ہے نا!" سعد پرجوش ہو کر بولا۔
جی ہاں کل 14 اگست ہے ۔یوم آزادی۔ اس دن پاکستان بنا تھا ۔"
جی ماما پر ایک بات سمجھ نہیں آئی- کیا پاکستان بھی گھروں کی طرح مٹی'، سیمنٹ اور ریت سے بنا تھا ؟سعد کے معصوم سوال پر سارہ ہنس پڑی ۔
"نہیں بیٹا! برصغیر کے کچھ علاقوں میں مسلمان، ہندوؤں سے زیادہ تھے۔ ان کو ملا کر ایک لکیر سی کھینچ دی گئی کہ یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں۔ پاکستان کےنقشے میں آپ یہ علاقے دیکھ سکتے ہیں " سارہ نے سادہ سے الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی۔
اچھا اور آپ نے بتایا تھا کہ یہ آزادی کا دن ہے تو کیا ہم پہلے غلام تھے؟ ایک اور سوال پوچھا گیا۔ " اس سوال کا جواب نانا جان سے پوچھیے۔ انہوں نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔"
نانا جان جو خاموشی سے یہ سب سن رہے تھے ایک دم مسکرانے لگے، ان کی آنکھوں میں جیسے دیے سے جلنے لگے ۔ "ہاں سعد بیٹا! چلو آج تمہیں ایک کہانی سناتے ہیں، آزادی کی کہانی ۔"نانا جان نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا ۔ سعد بہت خوش ہوا اور ساتھ بیٹھے نانا جان کی گود میں سر رکھ دیا ۔ نانا جان نے کہنا شروع کیا۔
"میں اس وقت کافی چھوٹا تھا شاید تم جتنا ۔اس وقت برصغیر میں برطانوی راج تھا ۔ہمارے علاقے میں ہندو اور سکھ بھی رہتے تھے مگر مسلمانوں کے ساتھ ان کا سلوک اچھا نہ تھا ۔وہ اپنے بچوں کو ہمارے ساتھ کھیلنے سے منع کرتے ۔مسلمان بچوں کو اسکول میں داخلہ نہ دیتے اور اگر دے دیتے تو انہیں ہندو مذہب کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کرتے ۔ایسا کرنے سے مسلمان تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ گئے ۔ہندو پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر فائز ہو گئے اور مسلمان نہ چاہتے ہوئے بھی غلاموں کی سی زندگی گزارنے لگے ۔نانا جان کچھ دیر خاموش ہوئےجیسے وہ سب اب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں ۔گاڑی میں اب مکمل خاموشی تھی۔ سب نانا جان کے بولنے کے منتظر تھے۔ "پھر کیا ہوا نانا جان ؟ سعد نے بے تابی سے پوچھا ۔
مسلمانوں نے کئی سال اسی حالت میں گزارے پھر وہاں کچھ سپر ہیروز أئے۔ "سپر ہیروز!" سعد ایک دم اٹھ بیٹھا-
"ہاں سچ مچ کے سپر ہیروز ۔ان میں ایک سپر ہیرو سرسید احمد خان تھے۔ یہ میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے اپنے والدین سے سنا کہ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی تعلیم پر کام کیا ۔انہوں نے مسلم ا سکول، کالج اور یونیورسٹی بنائی تاکہ مسلمان اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔
اور علامہ اقبال کا نام تو تم نے سنا ہوگا وہ بھی ایک سپر ہیرو تھے ۔انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ ہندو اورسکھوں سے الگ ہیں اور ان کو ایک الگ ملک میں رہنا چاہئے۔ یہ بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے انہوں نے شاعری لکھنا شروع کی اور بچے بچے کے دل میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا ۔کیا تم نے اقبال کی کوئی نظم پڑھی ہے؟" انہوں نے سعد سے پوچھا۔ "جی ناناجان! لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری-"
"ارے واہ! ہمارا سعد تو اقبال سے واقف ہے۔" نانا جان خوش ہوئے ۔ اچھا أگے بتائیں نا !"سعد کو بہت انتظار تھا ۔
پھر محمد علی جوہر اور کئ اور ہیروز آئے۔ سب نے أزادی کے لئے اپنی اپنی کوشش کی ۔ پھر اللہ نے ایک أئرن مین کو بھیجا۔"
اب تو سعد اچھل ہی پڑا۔ " آئرن مین بھی تھا؟ سچ مچ کا؟" "جی جی اور اس کا نام تھا قائد اعظم محمد علی جناح ۔
قائد اعظم وہ آئرن مین تھے جنہوں نے پہلے سب مسلمانوں کو منظم کیا ۔ان کو ایک جگہ جمع کیا ۔پھر قائد نے حکومتی اداروں اور بہت سے ہندو رہنماؤں سے بات کی مگر ان سب نے آپ کی مخالفت کی ۔وہ آپ کو اپنے مقصد سے ہٹانا چاہتے ہیں وہ آپ کے دشمن بن گئے آپ کو دھمکیاں دینے لگے ۔مگر قائد اپنے مقصد پہ ڈٹے رہے ۔ "تو قائد کوڈر نہیں لگا ؟" سعد نے حیران ہو کر پوچھا۔
" نہیں وہ آئرن مین تھے نا۔ہر سچا مومن آئرن مین ہوتا ہے وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔" نانا جان نے پیار سے بتایا۔ " خیر بہت ساری مشکلات کے بعد 14 اگست 1947 اور 27 رمضان کی رات ریڈیو پاکستان سے ہماری أزادی کا اعلان کیا گیا ۔وہ خوشی ،جوش و خروش اور جذبات بیان سے باہر ہیں۔ لوگ جہاں کھڑے تھے وہیں سجدے میں گر گئے۔ فضا "اللہ اکبر" اور "باکستان زندہ باد" کے نعروں سے گونجنے لگی۔" نانا جان کی آنکھوں میں خوشی کےآنسو آگئے اور آواز رندھ گئی۔ خود پہ قابو پا کر وہ گویا ہوۓ۔
"مجھے یاد ہے کہ یہ بات ہندوؤں اور سکھوں کو پسند نہ آئی ۔انہوں نے مسلمانوں کو ڈرانا دھمکانا ، لوٹنا،۔مارنا یہاں تک کہ قتل کرنا شروع کر دیا ۔ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے۔مسلمانون پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔مگر مسلمانوں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ ان میں بس ایک جنون تھا اور وہ تھا پاکستان جانے کا جنون ،اپنے وطن پہنچنے کا جنون ۔وہ جیسے تیسے لٹےے پٹے، بھوکے پیاسے ، زخمی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ ہم بھی ان میں شامل تھے۔ ہزاروں مسلمان، ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوئے مگر پھر بھی جو ش آزادی کم نہ ہوا۔ کیونکہ آزادی سب سے قیمتی چیز تھی، جو انہوں نے بہت بڑی قیمت چکانے کے بعد حاصل کی تھی۔" گاڑی میں اب خاموشی تھی اور آنکھوں میں أنسو۔
نانا جان کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ راستے میں بہت سے لوگ سبز اور سفید کپڑے پہنے، آزادی کے گیت لگائے گاڑیوں میں گھومتے نظر آرہے تھے ۔جگہ جگہ نوجوان لڑکے رقص کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ گاڑی اسلام آباد میں داخل ہوئی تو بارہ بج چکے تھے۔ وہاں موسم خوشگوار تھا ۔نانا جان نے اے- سی بند کروا کے کھڑکیاں کھول لیں ۔ساتھ ہی ڈھول، باجے اور میوزک کی بلند آوازیں اطراف میں سنائی دینے لگی ۔ "اچھا مجھے اب پتا چلا کہ پاکستان بنانا کتنا مشکل تھا-" سعد ابھی تک وہیں تھا۔ اس سے پہلے کے نانا جان کچھ کہتے، قریب سے ون ویلنگ کرتے ہوئے ایک موٹرسائیکل گزری جس پر دو نوجوان سوار تھے جو بلند آواز اور بےہودہ انداز میں گانے گا رہے تھے۔نانا جان کے چہرے پر ناگواری نظر آئی مگر وہ خاموش رہے ۔
اسی اثناء میں ایک اور موٹرسائیکل پاس سے گزرا جس کو سائیلنسر سے بھی أزاد کر دیا گیا تھا اس کا بےہنگم شور بہت سے لوگوں کو پریشان کر رہا تھا ۔
" ہاں بیٹا تم نے صحیح کہا یہ واقعی بہت مشکل کام تھا مگر اللہ کے فضل اور مسلمانوں کی محنت سے ۔۔۔۔" ابھی نانا جان کی بات پوری بھی نہ ہوتی تھی کہ باجوں ، پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں۔ ایک شرارتی لڑکے نے سعد کے کان کے قریب باجا بجایا اور بھیڑ میں غائب ہوگیا۔" پٹاخوں کی بدبو کے باعث سانس لینا دشوار ہو گیا۔ نانا جان اور سعد دونوں کھانسنے لگے اور مجبورأ کھڑکیاں بند کر دی گئں۔
"سعد بیٹا اتنی جدوجہد اور محنت سے حاصل کیا گیا یہ ملک اب تمہارا گھر ہے ۔ اس کی حفاظت بھی تمہاری ذمہ داری ہے ۔کیا تم اپنے گھر کو آگ لگا سکتے ہو اس میں بہت سا دھواں بھر سکتے ہو؛"
" نہیں نہیں نانا جان! اس طرح تو میرا گھر جل جائے گا۔" سعد پریشان ہوا ۔ " یہی بات ہے سعد ! آزادی منانے کا یہ مطلب نہیں کہ مذہبی اور اخلاقی حدود سے أزاد ہو جایا جائے۔ پٹاخے اور باجے بجا کر ملک کی فضا کو آلودہ کریں، بلند آواز میں میوزک لگا کر سڑکوں پر ناچ کر ایک اسلامی ملک کا یوم آزادی نہیں منایا جاتا ۔ ابنے اندر پاکستانیت پیدا کِرنے کے بجائے محض سبز و سفید لباس پہن لینا کافی نہیں۔ شہداء کا خون ہے اس مٹی میں جنھوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے جانیں قربان کیں-" نانا جان سفر آزادی کے مسافر تھے۔ ان کے دل کی تڑپ ایک دہائی کی صورت میں لبوں سے ادا ہو رہی تھی۔
"تو نانا جان پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟" سعد کے سوال پہ دادا جان باہر کے مناظر سے نظریں ہٹا کر سعد کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس کی معصوم صورت اور جگمگاتی آنکھوں نے ان کے چہرے پہ چھائی ناگواری کو مسکراہٹ میں بدل دیا۔ "ہاں یہ اچھا سوال ہے ۔بیٹا پہلے تو ہمیں آزاد ملک میں پیدا ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔ اپنے ملک کی ترقی ،امن وامان اور سلامتی کے لئے دعا کرنی چاہیِئے ۔ تم تاریخی مقامات کی سیر کو جا سکتے ہو ۔اسکول یا گھر میں دوستوں کے ساتھ قیام پاکستان سے متعلقہ ڈاکومنٹری بھی دیکھ سکتے ہو ۔ جھنڈے اور جھنڈیاں بنا کر گھروں کو سجاو۔ پودے لگا کر ملک کو ہریالی کا تحفہ دو۔ اور ہاں آج کے دن خود سے وعدہ کرو کہ اپنے ملک کی خدمت پوری دیانت داری اور محنت سے کرو گے ۔ اور جو ذمہ داری بھی دی جائے گی اس کو مکمل توجہ سے سرانجام دو گے۔"
گھر آ چکا تھا ۔نانا جان خاموش تھے اور سعد خود سے عہد لے رہا تھا کہ اسے بھی قائد کی طرح أئرن میں بننا ہے ۔کیا آپ بھی یہی سوچ رہے ہیں؟ تو کہئے پاکستان زندہ باد