ارے کیا ہوا؟ آج ہماری بیگم کا چہرہ سرخ، ناک پکوڑا اور آنکھیں سوجی ہوئی کیوں ہیں؟" زین آفس سے آج تھوڑا جلدی آ گیا تھا۔ وہ صائمہ کی روئی روئی صورت دیکھ کر ہلکے پھلکے انداز میں گویا ہوا۔ زین کی آواز سنتے ہی صائمہ کی آنکھیں رم جھم رم جھم برسنا شروع ہوگئیں۔
شمائلہ شکیل حیدر آباد
(آخری حصہ)
"زین ماشاء اللہ ہمارا بہت ذمہ دار بچہ ہے۔ اپنی تمام ذمے داریاں اس نے ہمیشہ پوری کی ہیں: گھر بنانے سے لے کر بہن کی شادی کرنے اور ہمیں حج کروانے تک ہر کام اس نے بہت ہی خوبصورتی سے انجام تک پہنچایا ہے۔ اب ہمیں اس کی شادی کر دینی چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟" ذکیہ بیگم نے بیٹے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے، لگے ہاتھوں اس کی شادی کا خیال پیش کرکے شوہر کی رائے بھی دی جاننی چاہی۔ "بیگم! خیال تو آپ کا نیک ہے، لیکن اس بارے میں صاحبزادے کی سوچ کا معلوم ہونا زیادہ ضروری ہے۔" "جنت کے دروازے پر کھڑا ہو کر "خادم" جنت میں داخلے کی اجازت چاہتا ہے۔" ہلکی سی دستک کے ساتھ زین کی شوخ آواز سنائی دی۔
"آؤ! برخوردار! آؤ!!! تمہیں ہی یاد کیا جا رہا تھا۔" نجیب صاحب ہنستے ہوئے بولے۔ " حکم کیجیے غلام حاضر ہے۔" زین نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا سا آگے کو جھکتے ہوئے اک ادا سے کہا۔ "ہم تمہاری شادی کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں، اگر تمہاری کوئی پسند ہے تو بتا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نجیب صاحب نے زین کے سر پر دھماکا کیا۔
نجیب صاحب کی بات سن کر زین ایک دم سنجیدہ ہو کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا، پھر بولا "چچا کے ہاں کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری رائے ہے ۔۔۔۔۔ باقی جیسے آپ لوگ مناسب سمجھیں۔۔۔۔۔" "صائمہ مجھے بھی پسند ہے۔ اور یہ میری دیرینہ خواہش بھی ہے۔ " نجیب صاحب خوش ہو کر بولے۔ "تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ نثار سے بات کرکے ان کی رائے بھی معلوم کر لیں۔ پھر ہم باقاعدہ رشتہ لے کر چلے جائیں گے۔" ذکیہ بیگم بھی شوہر اور بیٹے کی پسند پر رضامند تھیں۔
٭٭٭٭ صائمہ اور کنزیٰ سیکنڈ ائیر کے امتحانات کے بعد فارغ تھیں۔ لہذا صائمہ نے ایک اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ کنزیٰ کو پارلر کا کام سیکھنے کا شوق تھا، تو اس نے پارلر جوائن کرلیا۔ شام کی ٹیوشن البتہ اب بھی جاری تھی۔ فہمیدہ بیگم نے پیسے جمع کرکے علی کی چھ ماہ کی فیس جمع کروائی، تب کہیں اسکول والوں نے اسے امتحانی ہال میں بیٹھنے کی اجازت دی۔
"نجیب بھائی کا فون آیا تھا، کہہ رہے تھے کہ: "ہمیں زین کے لئے صائمہ کا رشتہ چاہیے، تم فہمیدہ سے مشورہ کر کے بتا دو۔ اگر تم لوگ رضامند ہو تو ہم باقاعدہ رشتہ لے کر آنا چاہتے ہیں۔" نثار صاحب نے فہمیدہ بیگم کو خوشی خوشی آگاہ کیا۔ " بڑی خوش نصیبی کی بات ہے ایسے رشتے کا آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذکیہ بھابھی تو بہت رکھ رکھاؤ والی ہیں۔۔۔۔۔۔۔" فہمیدہ بیگم حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں بولیں۔
"تم صائمہ سے پوچھ لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم کسی دن نجیب بھائی اور ذکیہ بھابی کو بلا لیں گے۔" "جی! میں بات کرتی ہوں صائمہ سے۔" یہ کہہ کر فہمیدہ بیگم اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ "صائمہ! تمہارے لئے زین کا رشتہ آیا ہے۔ تم کیا کہتی ہو اس بارے میں؟" فہمیدہ بیگم نے صائمہ سے پوچھا جو آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔
"امی! تایا لوگ اتنے امیر ہیں، تائی کی پسند بھی بڑی اونچی ہے۔ آپ کے خیال میں ہمارے گھر کی حالت ایسی ہے کہ مہمان یہاں آسکیں؟" صائمہ نے اپنے خدشات ماں کے سامنے رکھے۔ بات اس کی بھی کچھ غلط نہ تھی۔ لاؤنج میں رکھا صوفہ سیٹ انتہائی خراب حالت میں تھا، جب کہ میز نہ جانے کب سے ٹوٹ کر کباڑ میں پہنچ چکی تھی۔ دو کمرے تھے جن میں سے ایک میں، دو چارپائیاں، ایک کمپیوٹر ٹیبل اور کرسی رکھی ہوئی تھی۔ اور دوسرے کمرے میں ایک بڑی سی ٹن کی پیٹی، ایک سلائی مشین اور ایک دو بیگ اور چند بستر رکھے تھے۔ "بیٹا! یہی تو اچھی بات ہے، کہ وہ تایا ہیں، پہلے ہی سب جانتے ہیں، اگر کوئی غیر لوگ ہوتے تو پھر ضرور ہمارے لئے پریشانی کی بات ہوتی۔ "فہمیدہ بیگم رسان سے بولیں۔
اس طرح صائمہ اور زین کا رشتہ طے ہو گیا۔
٭٭٭ فہمیدہ بیگم کی روٹین بہت مشکل ہوچکی تھی۔ وہ پہلے صبح سویرے گھر والوں کا ناشتا بنا کر اور انہیں ناشتا کروا کر روانہ کرتیں، اس کے بعد گھر کی صفائی وغیرہ سے فارغ ہو کر دوپہر کے لیے روٹی بنا کر رکھتیں تھیں، پھر جن دو گھروں کا کھانا پکانے کا کام لیا تھا، وہاں کے لئے نکل جاتیں۔ وہاں سے ان کی واپسی ساڑھے تین، چار بجے تک ہی ہوتی تھی۔ آج صبح سے ہی ان کو اپنی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، لہذا گھر پہنچتے پہنچتے انہیں کافی بخار ہو چکا تھا۔ "صائمہ! مجھے ایک پیناڈول کی گولی منگوا دو اوردونوں بہنیں مل کر شام کا کھانا بھی بنا لینا۔" فہمیدہ بیگم نے صائمہ سے کہا، جب وہ انھیں شام کی چائے دینے آئی۔
صائمہ نے ان کی بات سنی لیکن بغیر کوئی جواب دیئے، انہیں قدموں واپس لوٹ گئی۔ اور وہ چائے پی کر ایسی بے سدھ ہو کر پڑیں کہ آنکھ تیز چلانے کی آواز سے ہی کھلی۔ کچھ دیر تک تو وہ ناسمجھی کی کیفیت میں لیٹی رہیں۔ اور جب ذرا صورتحال واضح ہوئی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔
"کب سے کھانا مانگ رہا ہوں۔ اور تم ہو کہ سوئےہی جا رہی ہو۔" نثار صاحب فہمیدہ بیگم کو اٹھتے دیکھ کر غصے سے بولے۔
"میں تھکی ہوئی تھی، اور طبیعت بھی ذرا ٹھیک نہیں تھی ، اس لیے لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے کھانا بھی نہیں بنا سکی۔" فہمیدہ بیگم دھیمی آواز میں بولیں۔
"تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں کام سے واپس آتے ہی، مغرب کے فوراً بعد کھانا کھاتا ہوں۔" نثار صاحب فہمیدہ بیگم کی بات سن کر اور تپ گئے۔
"آپ صائمہ یا کنزہ سے کہہ دیتے وہ آپ کو روٹی بنا دیتیں۔ شام کو میں نے صائمہ سے کہا بھی تھا کہ دونوں بہنیں مل کر کھا نا بنا لیں، لیکن مجال ہے کہ وہ کوئی بات سن لیں۔
"مجھے کھانا تم سے چاہیے ہوتا ہے۔ اور یہ بات تمہیں معلوم بھی ہے۔ رہی بات صائمہ، کنزیٰ کی تو ان کی تربیت تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں انہیں کچھ نہیں کہوں گا، جو کہنا ہے خود کہو۔ " نثار صاحب نے سارا ملبہ فہمیدہ بیگم پر گرایا۔ نثار صاحب کی ایسی باتوں کی وجہ سے ہی صائمہ اور کنزیٰ کو شہ ملتی تھی۔ وہ اچھی طرح یہ بات جان چکی تھیں، کہ وہ گھر کا کوئی کام کریں یا نہ کریں باپ کی طرف سے ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔ پوچھ صرف ماں سے ہی ہوگی۔ نثار صاحب کے جھگڑوں اور غصے سے بچنے کے لیے فہمیدہ بیگم خود ہی سارا کام وقت پر کر لیا کرتی تھیں۔ انہوں نے صائمہ اور کنزیٰ کو کام میں لگانے اور سکھانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔ اب تو صائمہ کی منگنی بھی ہو چکی تھی ۔
٭٭٭ "یہ تم کیا کر رہے ہو؟ مشین سے کپڑے کیوں نکال نکال کر باہر پھینک رہے ہو"؟ کنزیٰ نے علی سے پوچھا "میرا کوئی بھی ٹراؤزر نہیں مل رہا۔ لگتا ہے کہ سارے دھونے والے پڑے ہیں۔ وہی دھونے کا سوچ رہا ہوں۔" علی نے کپڑوں میں سے اپنے ٹراؤزر ڈھونڈتے ہوئے جواب دیا
"مشین لگا لو آرام سے دھل جائیں گے۔" کنزیٰ نے مفت مشورہ پیش کیا۔
"یہی کرتا ہوں۔ ایک سوٹ امی کا بھی دھو لوں گا۔ وہ آج کل بہت مصروف ہوگئی ہیں۔ ان کو ٹائم نہیں ملتا کپڑے دھونے کا۔" علی نے فوراً کنزیٰ کا مشورہ قبول کرتے ہوئے کہا۔ یہ جانے بغیر کہ کنزیٰ کا مشورہ اسے کتنا مہنگا پڑنے والا ہے۔ "علی! یہ دو سوٹ میرے بھی مشین میں ڈال دینا۔" جب علی مشین لگا چکا تو کنزیٰ اپنےکپڑے اٹھائے چلی آئی۔ " نہیں بھئی! مجھ سے اتنے کپڑے نہیں دھلیں گے۔" علی نے احتجاج کیا "ارے میرے بھائی! پریشان کیوں ہوتے ہو ؟ ۔۔۔۔ میں ہوں نا۔۔۔۔۔۔ تم بس مشین میں ڈال دینا۔۔۔۔ کھنگال میں خود لوں گی۔" کنزیٰ نے تسلی دی۔
ناتجربہ کار علی سے پانی فرش پر کافی دور تک پھیل گیا۔ "کنزیٰ آپی! آپ مشین دھو کر وائیپر لگا دیں۔ مجھ سے نہیں ہورہا۔ علی نے پریشان ہو کر کنزیٰ سے مدد مانگی "میں پالر جا رہی ہوں۔۔۔ تم چھوڑ دو۔ تھوڑی دیر تک امی آکر کر لیں گی۔" کنزیٰ نے نئی راہ دکھائی اور خود کچھ دیر میں گھر سے باہر نکل گئی۔
کنزیٰ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی، کہ علی ماں کے لیے کبھی کام نہیں چھوڑے گا، تاکہ ماں گھر آکر پریشان نہ ہوں۔ اور ہوا بھی یہی، علی نے مشکل سے ہی سہی لیکن فہمیدہ بیگم کے آنے تک گھر اچھی طرح صاف کر دیا۔
٭٭٭ آج صائمہ کی شادی ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ ذکیہ بیگم نے اسے کھیر بنانے کا کہا۔ مگر صائمہ ٹھہری اناڑی ۔۔۔۔۔۔ اس نے فوراً کمرے میں جا کر ماں کو فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور کھیر کی ریسیپی پوچھی اور کچھ انٹرنیٹ سے دیکھی، تب کہیں جاکر نورین کی مدد سے کھیر تیار ہوئی۔ نورین نہایت سگھڑ اور کھانا پکانے میں ماہر تھی۔ ذکیہ بیگم خود بھی بہت نفاست پسند خاتون تھیں۔ طرح طرح کے کھانے بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ لیکن وہ فہمیدہ بیگم کے سلیقے اور ان کے ہاتھ کے ذائقے کی بھی دل سے معترف تھیں۔ صائمہ کے بارے میں بھی ان کا یہی گمان تھا، کہ یقینا فہمیدہ نے بیٹی کو بھی کھانا پکانے میں تاک کیا ہوگا، لیکن یہاں وہ غلط ثابت ہوئیں۔
"صائمہ بیٹی! اب تمہاری شادی کو ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ اور میں چاہتی ہوں، کہ گھر کے تمام کام نورین اور تمہارے درمیان تقسیم کر دوں۔" زکیہ بیگم نے تو گویا صائمہ کی جان ہی نکال دی۔
"جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ " صائمہ نے مرے مرے انداز سے کہا۔
صائمہ نے کبھی اتنا کام کرنے کا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ جتنا کام اسے یہاں کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ بوکھلا کر رہ گئی تھی۔
٭٭٭ "ارے کیا ہوا؟ آج ہماری بیگم کا چہرہ سرخ، ناک پکوڑا اور آنکھیں سوجی ہوئی کیوں ہیں؟" زین آفس سے آج تھوڑا جلدی آ گیا تھا۔ وہ صائمہ کی روئی روئی صورت دیکھ کر ہلکے پھلکے انداز میں گویا ہوا۔ زین کی آواز سنتے ہی صائمہ کی آنکھیں رم جھم رم جھم برسنا شروع ہوگئیں۔
" بتاؤ تو سہی ۔۔۔۔ ہوا کیا ہے؟" زین نے گھبرا کر پوچھا "مجھے کھانا ۔۔۔۔۔۔ بنانا نہیں آتا۔" صائمہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی "اوووووہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ چلو شاباش چپ ہو جاؤ۔" زین نے صائمہ کو چپ کرواتے ہوئے کہا۔ تھوڑی ہی دیر میں صائمہ خاموش ہوگئی۔ "ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا، ہر کام کرنے سے آ جاتا ہے۔ تم کوشش کرتی رہو، کھانا پکانا بھی آجائے گا۔ بس پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔" صائمہ نے "ہاں" میں سر ہلایا "اب مسکرا کر دکھاؤ" زین نے فرمائش کی جس پر صائمہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
٭٭٭٭ صائمہ کے لیے یہ دن بہت مشکل تھے۔ ہر وقت ماں کی باتیں، اپنے جواب اور ماں کی قربانیاں یاد آتیں۔ کام کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے کام کرتے ہوئے آنسو بہتے رہتے۔ کبھی کھانا جل جاتا، کبھی کچا رہ جاتاتو کبھی نمک مرچ کم یا زیادہ ہو جاتی اور کبھی تو کھانا اتنا بدذائقہ بنتا کہ نوالہ حلق سے اتارنا مشکل ہو جاتا۔ وہ ہر وقت پریشان رہتی۔ جب تھک کر چور ہو جاتی، نیند پوری نہ ہونے کے باوجود اٹھنا پڑتا یا سردرد، زکام اور ہلکی پھلکی بیماری کو پس پشت ڈال کر اپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑتیں، تو ماں کی تکلیفوں کی یاد سینہ چیر دیتی اور ذہن میں ایک ہی جملہ گردش کرتا، کہ کاش میں اتنی خدمت اپنی ماں کی کر لیتی۔
"کنزیٰ! امی کا خیال رکھا کرو، وہ ٹھیک نہیں رہتیں۔ اور علی کو بھی تنگ مت کیا کرو، وہ ہمارا چھوٹا بھائی ہے۔" صائمہ ماں کے گھر آئی ہوئی تھی۔ اور چھوٹی بہن کو سمجھا رہی تھی۔ "امی! آپ جا کر آرام کریں کھانا میں خود ہی بنا لوں گی۔" صائمہ نے بازو پکڑ کر فہمیدہ بیگم کو کچن سے باہر نکالتے ہوئے کہا۔
"نہیں بیٹا ابھی تو تم آئی ہو اور آتے ہی کام میں لگ گئی ہو۔" " کوئی بات نہیں امی سسرال میں بھی کرتی ہوں۔ اور جب تک میں یہاں ہوں آپ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائیں گی۔" صائمہ نے ایک عزم سے کہا۔
فہمیدہ بیگم بیٹی کی اس تبدیلی اور فکر پر طمانیت سے مسکرا دیں۔ "اور ہاں!! امی! کنزیٰ کو کھانا بنانا ضرور سکھا دیں۔ ۔"صائمہ کی اس بات پر فہمیدہ بیگم کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔