دیکھو میری بات مانو اگر تم یہاں سے چھٹکارا چاہتی ہو تو جگجیت کی بات مان لو۔ تم ویسے بھی تو اس کے قبضے میں ہو۔ اگر وہ شادی بھی کر لے گا تم سے تو کیا فرق پڑتا ہے. جو اب کرتا ہے وہی بعد میں بھی کرے گا مگر تم کم از کم اس ظلم و جبر کی چکی میں پسنے سے بچ جاؤ گی. کچھ تو تمہاری تکلیفیں کم ہوں گی اور جب تم بھائی سے ویاہ کر لو گی۔۔۔۔۔
ام محمد سلمان
تیسری قسط

میں اس کچی کوٹھڑی کی دیواروں پر جمی دھول مٹی پر ہاتھ مارتی، تیمم کرتی اور نماز کی نیت باندھ لیتی۔ مجھے قرآن کا ایک بڑا حصہ با ترجمہ زبانی یاد تھا۔ میں اس حال میں بھی لمبی لمبی رکعتیں پڑھتی.. قرآن کی آیتیں میرے دل کو ڈھارس دیتیں. میرا قلب روشن ہو جاتا.. مجھے لگتا اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں سمیٹ لیا ہے۔ چار پانچ مہینے بعد ایک دن انھوں نے مجھے اس کوٹھڑی سے باہر نکالا اور میرے سامنے ایک تجویز رکھی کہ میں بھی سکھنی بن کر جگجیت سنگھ سے شادی کر لوں اور باقی اغوا شدہ مسلم لڑکیوں کی طرح عزت کی زندگی گزاروں۔
میں ان کی یہ تجویز سن کر ہذیانی انداز میں چیخنے لگی... میں لعنت بھیجتی ہوں ایسی عزت پر۔ تھو آخ تھو.. میں نفرت سے زمین پر تھوکتی رہی... میرا بس نہیں چل رہا تھا میں ان سب کے ٹوٹے ٹوٹے کر دوں۔ جگجیت سنگھ کا بڑا بھائی چنگھاڑتے ہوئے بولا...
"او کٹنی! تو میرے بھائی کے دل کو بھا گئی ہے اسی لیے شادی کرناچاہ رہا ہے تجھ سے.. ورنہ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ تجھے مار کر یہیں دفنا دیں."
"ہاں تو مارو نا مجھے ! کیوں نہیں مارتے۔ مجھے ایک ہی بار جان سے کیوں نہیں مار دیتے..!! یہ دیکھو میں تمہارے ہاتھ جوڑتی ہوں، منت کرتی ہوں تم مجھے جان سے مار دو...."جانتی ہو فردوس !اس دن میں ایک ایک کے سامنے ہاتھ جوڑتی رہی، منت کرتی رہی۔ جگجیت سنگھ کی بے بے، اس کی بھابھی، اس کا بھائی، اس کی بہن.. ایک ایک کے آگے ہاتھ جوڑے مگر میری کسی نے نہ سنی۔ وہ سب مجھ پہ ہنستے رہے، میں گھر کے صحن میں ان کے قدموں میں پڑی ایک ایک کی منت کر رہی تھی۔ اس دن مجھے ایسا لگ رہا تھا میرے اللہ نے بھی مجھے چھوڑ دیا وہ شاید مجھ سے ناراض ہے۔ وہ اب کبھی میری نہیں سنے گا۔ میں دنیا و آخرت کے عذاب بھگتنے کے لیے اکیلی رہ گئی ہوں۔ میں اس دن ایسا تڑپ تڑپ کے روئی تھی فردوس! کہ مجھے ایسا لگتا تھا میری کھال، بال اور ہڈیوں تک سے آنسو نکل رہے ہیں۔"
فردوس تڑپ کر اپنی ماں نور الاسلام کے گلے لگ گئی.. ماں کو اپنی آغوش میں بھر لیا... دیوانہ وار انھیں چومنے لگی... "بس کر جائیں اماں جی! ایسا لگ رہا ہے یہ سب کچھ مجھ پر بیت رہا ہے، اماں جی! میرا دل پھٹ رہا ہے۔ اماں جی! میری سانسیں رکنے لگی ہیں۔ اماں جی.. اماں جی..." فردوس دیوانگی سے انھیں پکارتے ہوئے رو رہی تھی۔ عائشہ جو دروازے سے کھڑی سسک رہی تھی وہ بھی نانی ماں سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگی۔ کبھی ماں جی کو حوصلہ دیتی، کبھی نانی ماں کو سنبھالتی.. لگتا تھا کوئی قیامت صغریٰ اس گھر پر ٹوٹ پڑی ہے "آپ نے کیسے یہ سب کچھ سہا اماں جی! کس نے آپ کو اتنا حوصلہ دیا؟"
"میرا حوصلہ اور میری امید تو اس دن ٹوٹ گئی تھی فردوس! میں اندر سے مر گئی تھی، میری امید کا جگنو بجھ گیا تھا۔ میں نیم بے ہوشی کے عالم میں دوبارہ اس کوٹھڑی میں ڈال دی گئی۔ مجھے نہیں معلوم میں کب تک بے ہوش رہی... جب مجھے ہوش آیا تو جگجیت سنگھ کی چھوٹی بہن ریشمی میرا سر اپنی گود میں رکھے بیٹھی تھی۔ وہ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہی تھی۔ میرے بال سہلا رہی تھی مجھے پکار رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی۔ پانی کے چند قطرے میرے حلق میں ٹپکائے.. پھر ایک پیالہ اٹھایا اور اس میں سے کچھ کھیر جیسی نمکین چیز مجھے کھلانے لگی۔ میں کسی مجسمے کی طرح بے دم اس کے ہاتھ سے کھاتی رہی۔ پھر اس نے مجھے سہارا دے کر بٹھایا اور کہنے لگی.. تم تین دن سے بے ہوش پڑی ہو۔ اس دن تمہارا رونا تڑپنا مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ میں بھی اندر ہی اندر تمہارے حال پر دکھی تھی۔ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ ضرور تمہاری مدد کروں گی۔ آج سب گھر والے پڑوسیوں کی جنج (شادی) میں گئے ہیں۔ میں طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے رک گئی تاکہ تمہاری مدد کر سکوں."
"کیا تم میری مدد کرو گی؟ کیا واقعی!! تمہیں تمہارے وائے گرو کا واسطہ مجھے اس قید سے نجات دلا دو مجھے یہاں سے بھگا دو ریشمی... میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔"
وہ میری طرف بڑے دکھ سے دیکھنے لگی اور بولی:
"تم کیا سمجھتی ہو نور بی بی! تم یہاں سے بھاگو گی اور بھاگتے ہی پاکستان پہنچ جاؤ گی؟
نہیں! یہ تمہاری بھول ہے۔ یہاں سے بھاگو گی تو کسی اور درندے کے ہاتھ لگ جاؤ گی. ویسے بھی کل وہ ہندو چھوکرا راج پال بھائی سے کہہ رہا تھا کہ جی بھر گیا ہے تو مُسلی چڑیا مجھے دے دو." "کیا کہا تم نے؟ وہ مجھے کہہ رہا تھا؟ " میری رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی ۔ ہاں!! اور کسے کہے گا بھلا!! تم یہاں سے بھاگو گی تو تمہیں بھاگنے کون دے گا.. کوئی اور جگجیت سنگھ تمہیں اپنی حویلی میں قید کر لے گا۔ یہ علاقہ پاکستان سے بہت دور ہے نور بی بی!
دیکھو میری بات مانو اگر تم یہاں سے چھٹکارا چاہتی ہو تو جگجیت کی بات مان لو۔ تم ویسے بھی تو اس کے قبضے میں ہو۔ اگر وہ شادی بھی کر لے گا تم سے تو کیا فرق پڑتا ہے. جو اب کرتا ہے وہی بعد میں بھی کرے گا مگر تم کم از کم اس ظلم و جبر کی چکی میں پسنے سے بچ جاؤ گی. کچھ تو تمہاری تکلیفیں کم ہوں گی اور جب تم بھائی سے ویاہ کر لو گی تو گھر میں آزادی سے رہ سکو گی، لوگوں سے میل جول کر سکو گی۔ پھر شاید کوئی تمہاری نجات کا سبب بن جائے۔" "نہیں ہر گز نہیں! میں کیسے شادی کر سکتی ہوں اس جگجیت سے۔ مجھے نفرت ہے اس سے۔ اور میں پہلے سے شادی شدہ ہوں. میرا شوہر زندہ ہے۔"
"لیکن تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ زندہ ہے؟ کیا پتا وہ بھی فسادات میں مارا گیا ہو..." "نہیں! نہیں!! وہ نہیں مر سکتا. وہ زندہ ہے ریشمی! میرا وجاہت زندہ ہے۔ وہ کئی بار میرے خوابوں میں آتا ہے۔ وہ مجھے تسلیاں دیتا ہے. وہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان میں میرا انتظار کررہا ہے۔
تم دیکھنا میں ایک دن ضرور پاکستان جاؤں گی، میں اپنے وجاہت سے ملوں گی میں اپنے پاک ملک میں جاؤں گی پاکیزہ لوگوں میں رہوں گی۔ میرا ایک گھر ہوگا، میرے بچے ہوں گے، ہمارا پیارا پاکستان ہوگا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں اسی آس پر تو زندہ ہوں۔ مصیبتیں اور آزمائشیں ہمیشہ نہیں رہتیں وہ ختم ہو جاتی ہیں. تم دیکھنا ایک دن میں بھی ان مصیبتوں سے نجات پا جاؤں گی۔" میں نے بڑی امید سے کہا تھا اور اس بات پہ ریشمی میرا منہ تکنے لگی اور بولی: "تم جانتی ہو نور! یہاں اور بھی کئی گھر ایسے ہیں جہاں مسلمان عورتیں سکھوں کے گھروں میں اپنی خوشی سے ان کی ووہٹیاں (بیویاں) بن گئی ہیں۔"
ایسا مت کہو ریشمی! اس مجبوری کو خوشی کا نام مت دو۔ وہ میری مجبور، کمزور بہنیں ہیں جو اس ظلم کو سہنے کی طاقت رکھتی ہیں اور نہ اس کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہیں۔
لیکن وہ دل سے مسلمان ہی ہیں. اللہ ان کی ضرور مدد کرے گا۔ دنیا و آخرت میں انھیں کہیں رسوا نہیں ہونے دے گا۔ اللہ، رب العالمین ہے۔ وہ سب کے دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ ہم مجبوروں کی ضرور سنے گا۔ تم دیکھنا ایک دن یہاں کوئی سلطان محمود غزنوی ضرور آئے گا جو امت کی بیٹیوں کو اس قیدِ نا رسائی سے چھڑا کر لے جائے گا۔ تم دیکھنا ریشمی یہاں پھر سے محمد بن قاسم آئے گا۔ پورے ہندوستان پر اسلام کا پرچم لہرائے گا۔ میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر بولے جا رہی تھی... اور ریشمی ایک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھی. اچانک میں رک گئی
"ریشمی! تمہیں تو میری باتیں بری لگ رہی ہوں گی نا... تو جاؤ کوئی کرپان اٹھا کر لاؤ اور گھونپ دو میرے سینے میں۔" مگر وہ خاموشی سے میرے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو ہاتھ میں کپڑوں کا ایک جوڑا تھا۔ پھر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے کی طرف لے گئی۔
تم جا کر نہا لو نور! اور یہ کپڑے پہن لینا۔ تمہارے کپڑے تو جگہ جگہ سے پھٹ چکے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں کوئی التجا تھی کوئی درد تھا.. میں اسے انکار نہ کر سکی اور نہا دھو کر وہ جوڑا پہن لیا۔ وہ میرے بالوں میں کنگھی کرتی رہی۔ کسی چھوٹی بچی کی طرح میرے بال سنوارتی رہی اور میں چپ چاپ بیٹھی دیکھتی رہی۔ پھر وہ میرے لیے گرم دودھ کا پیالہ لے آئی۔
"اسے پی لو! جسم میں کچھ جان پڑ جائے گی پھر میں تمہیں کوٹھڑی میں بند کر دیتی ہوں۔" نہیں ابھی نہیں ریشمی... ایک بار مجھے اس کھلے آسمان تلے سجدہ کر لینے دو اور میں نے نماز کی نیت باندھ لی۔ سجدے میں گئی تو آنسوؤں کا دھارا پھر سے بہ نکلا..
اپنی بندی پہ کرم کر دے مولیٰ. میرے گناہوں کو بخش دے. مجھے ظالموں کے حوالے نہ کر، مجھے اس قید سے رہائی دے۔ میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کر دے۔ میں کچھ نہیں جانتی مگر تو سب کچھ جانتا ہے۔" تھوڑی دیر اسی طرح رو دھو کے میرا دل کچھ پر سکون ہو گیا۔ ریشمی ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے واپس کوٹھڑی میں بند کر کے چلی گئی۔
(جاری ہے )