جب بچی کے باپ نے مجھے ان جنگلیوں سے چھڑوایا اور اسی ناؤ کی جانب لے گیا جس میں اس کی اپنی بیٹی سوار تھی اور اس نے اب مجھے بھی اس کشتی میں سوار کرکے ناؤ کو سمندر کے حوالے کردیا۔ میری آنکھیں اس ناؤ کے اندر رکھی اشیاء کو دیکھ کر حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ناؤ صرف پھولوں سے ہی نہیں پھلوں اور کھانے کی دیگر اشیاء سے بھی لدی ہوئی تھی اور وہ بچی ماں سے جدا ہونے پہ بجائے رونے کے قلقاریاں ماررہی تھی۔ ناؤ اب سمندر میں ہچکولے کھا رہی تھی
ڈاکٹرماریہ اشفاق قریشی
(پہلی قسط)
کیا منظر واقعی اتنا حسین تھا یا پھر خوبصورتی میری نظروں میں سمائی ہوئی تھی؟ مجھے فیصلہ کرنے میں دِقت پیش آئی۔ سمندر کے کنارے پہ چلتی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا خنکی میں بدلتی جارہی تھی۔ آسمان پر گہری لالی مجھے اپنے گالوں کے ساتھ میچ ہوتی محسوس ہوئی۔ دن پوری طرح ڈھل چکا تو رات اپنی ازلی خوبصورتی لیے دبے پاؤں چھانے لگی۔ ٹھنڈک حد سے زیادہ بڑھی تو اس نے بڑی مہارت سے لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ جلالی اور میرے عین سامنے بیٹھ کر چٹختی لکڑیوں کو دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آگ کے شعلوں کی چمک دکھائی دیتی تھی۔ وہ کون تھا؟ ہم کہاں تھے؟ میں اس کے ساتھ کیوں تھی؟ یہ سوال لیے میں لبوں کو وا کرنے سے ڈررہی تھی کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے۔ آگ کی روشنی سے اس کا چہرہ تمتمانے لگا تھا اور وہ خاموش بیٹھا میرے صبر کا امتحان لے رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی وہ اٹھا اور میرے قریب سے ہو کر چلتا ہوا دور جنگلات میں غائب ہوگیا۔ آگ ٹھنڈی ہوگئی، میں کانپتی اس اجنبی انسان کو جاتا دیکھتی رہی لیکن کچھ کہہ نہ سکی۔ وہ چلا گیا اور میں وہیں پہ بیٹھے بیٹھے اس کے آنے کی امید کی ڈوری میں گرہ لگانے لگی۔ تبھی میرے کان میں کسی نے ہولے سے سرگوشی کی۔ ایسی سرگوشی جیسے ہوا نے سانس خارج کیا ہو یا پھر بارش کی بوند کسی چٹان پہ گری ہو۔ آگ پر کوئی لکڑی چٹخی ہو یا سمندر کی لہر کنارے آکر واپس چلی گئی ہو۔ کوئی راز کہا گیا تھا لیکن سننے والے کانوں نے سن کر ایسی حیرت کا مظاہرہ کیا کہ جیسے آواز کسی ان دیکھی وادیوں میں رہتی پریوں کی پائل کی چھنکنے سے آرہی ہو۔ میں مبہوت سی بیٹھی ادھر اُدھر دیکھتی اس آواز کا منبع ڈھونڈنے لگی، جس نے مجھ ایسی لاش نما لڑکی کو بھی چونکا دیا تھا۔ میری آنکھیں ایک دم سے کھلی تھیں اور کھلتے ہی جیسے اپنے آس پاس کی اجنبیت کو واقفیت میں بدلنے کی کوشش کرنے لگیں۔ جب میں ماحول کو سمجھی تو ایک بات دماغ میں ڈر کو اٹھاگئی کہ میں اکیلی ہوں، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے کسی چیز سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اٹھنے کے لیے جب میں نے اس چیز کا سہارا لیا تو میرے ہاتھ میں درد سا اٹھا۔ میں اٹھ کر گھومی تھی اور اپنے سامنے پڑے اس ناریل کے درخت کے تنے کو دیکھ کر پُرسکون کہ کوئی اور چیز نہیں تھی۔ اب اس پرانے کٹے ہوئے ناریل کے درخت کے تنے کے پاس سے اٹھتے ہی میں نے جیسے ہی ایک قدم بڑھایا مجھے اپنے آس پاس ایک سفید دودھیا روشنی نظر آئی اور میں جیسے کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں کسی نورانی روشنی کے زیر اثر وہیں ساکت کھڑی ہوگئی۔ میں اس دوران بنا ڈرے اس روشنی سے نظریں بچا کر وہیں کھڑی رہی لیکن ایک لمحے کے اندر ہی دودھیا روشنی کی دھند چھٹتی گئی اور جیسے میرے سامنے ایک فلم سی چلنے لگی۔
اسی لمحے میں نے اپنے آپ کوا یک عجیب ہی جہاں میں پایا۔ میں نے اپنے سامنے لمبے تڑنگے عجیب شکلوں اور حلیوں والے آدمیوں کو مختلف قسم کے اوزار ہاتھ میں تھامے کھڑے دیکھا اور جب میں نے محسوس کیا کہ میں اس منظر کا حصہ ہوں میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ میں انہیں مردوں کے جھنڈ کے پاس اس طرح پُرسکون کھڑی تھی جیسے ان کے علاقے کی باسی ہوں۔ میں ایک دم گھبرا گئی لیکن کوئی بھی میری طرف متوجہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے مجھے وہاں آتے دیکھا تھا سو میں نے خود کو پرسکون کیا اور ٹہلنا شروع کردیا تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ ہجوم کیسا ہے۔ میں تھک گئی تھی سو موقع پاکر میں نے ایک انگڑائی لی اور تھوڑا سا سائیڈ ہو کر سامنے رکھی تپائی پہ لیٹی ایک نومولود بچی کو دیکھا جو میری طرح ہی اس وقت ہی انگڑائی لے رہی تھی، میں اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس دی۔ لیکن ان پُرہیبت مردوں میں ایک جس کی ڈاڑھی اس کی گردن کے گرد بل کھائے ہوئی تھی مجھے بہت بری طرح گھُرکا، میں سہم گئی۔ اس مرد کی گرجدار آواز سے بچی کے ساتھ گہری نیند میں سوئی ہوئی عورت بھی ڈر کے جاگ گئی غالباً وہ اس بچی کی ماں تھی جو بچی کی پیدائش کے درد کی وجہ سے غنودگی میں تھی۔ عورت کے چہرے پہ خوف واضح تھا کیونکہ وہ کئی آدمیوں کو بچی کی طرف درانتیاں اٹھائے آگے بڑھتے دیکھ چکی تھی۔ اس نے بچی کو اپنے سینے سے لگالیا اور دور سمندری درخت کے تنے سے ٹیک لگا کے بیٹھے مرد کی طرف ملتجی اور پُرشکوہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ مرد جیسے اشارے کا تابعدار تھا فوراً اپنی دھوتی جھاڑتا، دوڑتا ہوا ہجوم کی جانب آگیا اور بچی کو اس نے عورت کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ غالباً وہ اس عورت کا شوہر تھا۔ مرد بچی کو اٹھا کر سمندر کی جانب آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگا اور اپنی بچی کو سینے میں بھینچ کر کئی بوسے دینے لگا۔ اس وقت مجھے وہ کوئی ظالم نہیں بلکہ ایک مظلوم باپ لگا۔ ایک لمحے میں اس کے حق میں گواہی دے دیتی لیکن دوسرے ہی لمحے میں ہار گئی کیونکہ مجھے وہ بھی اکثر اوقات عام باپوں کی طرح ظالم باپ لگا جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتا ہے اور اسی طرح سے اس وقت بیٹی سے چھٹکارا پانے لگا ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا تھا لیکن میرے کمزور بازوؤں میں اتنی سکت بالکل نہیں تھی کہ ایک مضبوط سمندری آدمی کے ہاتھ سے کچھ لے سکوں۔ میں نے پھر بھی ہمت کرکے چند قدم بڑھائے تھے جب مجھے اپنے بازوؤں پر انتہائی چبھنے والی گرفت محسوس ہوئی۔ میں نے نظریں گھما کر دیکھا تو میرے دونوں اطراف لمبے تڑنگے آدمی کھڑے تھے جو درانتیاں میرے بازوؤں میں پیوست کرچکے تھے۔ خون کی دھاریں میرے دونوں بازوؤں سے بہ کر میری سفید ٹی شرٹ اور ٹراؤزر کو لال کر گئے، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھے درد ذرا بھی محسوس نہیں ہوا۔ میں اب بھی ان جنگلی آدمیوں کی گرفت میں تھی۔ باپ نے اپنی بچی کو ایک چھوٹی سی ناؤ جو پھولوں سے سجی تھی اور کوئی شاہی سواری یا ایک ڈولی لگ رہی تھی، میں بٹھایا اور اپنی آنکھ سے گرتے آنسو کو سمندر کا حصہ بننے دیا۔ جب کہ عورت اپنے دل کو تھامے وہیں کھڑی رہی لیکن اپنی بچی کی جدائی کے صدمے سے چیخ مار کے بے ہوش ہوگئی۔ قبیلے کے مردوں نے اپنے ہتھیار اوپر اٹھا کے جیت کے نعرے لگائے تھے۔ ان کے قبیلے کا بوجھ کم ہوا تھا یا کچھ اور تھا میں سمجھ نہیں پائی تھی۔
ناؤ اب آنے والی لہر کے انتظار میں تھی۔ لہر ابھی کنارے کے قریب نہیں پہنچی تھی جب بچی کے باپ نے مجھے ان جنگلیوں سے چھڑوایا اور اسی ناؤ کی جانب لے گیا جس میں اس کی اپنی بیٹی سوار تھی اور اس نے اب مجھے بھی اس کشتی میں سوار کرکے ناؤ کو سمندر کے حوالے کردیا۔ میری آنکھیں اس ناؤ کے اندر رکھی اشیاء کو دیکھ کر حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ناؤ صرف پھولوں سے ہی نہیں پھلوں اور کھانے کی دیگر اشیاء سے بھی لدی ہوئی تھی اور وہ بچی ماں سے جدا ہونے پہ بجائے رونے کے قلقاریاں ماررہی تھی۔ ناؤ اب سمندر میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ پانی کے چھینٹے ہم دونوں کو بھگو رہے تھے اور ہم ایک نئے سفر کو روانہ ہوئے تھے۔ بنا یہ جانے کہ منزل کیا ہے؟ ہم خود ہی مسافر بھی تھے اور کھویا (کشتی والا) بھی۔ اتنے خوبصورت ماحول کے دوران اچانک ایک سمندری طوفان سا اٹھا اور ہم اونچی گھومتی لہروں میں گھرگئے۔ اس گرداب میں پھنسی ہماری کشتی بھی اس گرداب کے ساتھ ہی چکر میں گھوم رہی تھی۔ میں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلیں۔ گرداب تھما تو میں نے اچانک ایک جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھولیں اور خود کو اسی پرانے ناریل کے تنے سے اتنے ہی قدم دور پایا جتنے قدم دور میں چلی تھی۔
میری حیرت اس وقت دیدنی تھی جب میں نے ایک لمحے کے بعد بس آنکھ جھپکنے کی دیر میں خود کو اسی ناؤ میں پایا جو سمندر کے بیچوں بیچ ایسے چل رہی تھی جیسے کوئی موٹر بوٹ، وہ بھی بنا کسی چپو یا کسی کھویا کے۔ مجھے وہ جہان بہت طلمسی محسوس ہوا تھا لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا؟ میں اب اس کشتی میں اس چھوٹی بچی کی رکھوالی کے لیے بٹھائی گئی تھی اور مجھے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کام ذمہ داری سے کرنا تھا۔
سنا ہے کہ سمندری سفر کے دوران اگر سب سے زیادہ کوئی چیز پریشان کرتی ہے تو وہ یا تو بھوک پیاس ہوتی ہے یا طوفان میں گھر جانے کا خطرہ۔ طوفان سے ہم نکل آئے تھے باقی رہی بھوک اور پیاس تو وہ تو پچھلے کوئی دو دنوں سے مجھے محسوس نہیں ہوئی اور ناں ہی اس بچی کی حالت سے لگ رہا تھا کہ وہ بھوکی پیاسی ہے۔ میرے پاس صبر کرنے اور جو کچھ ہورہا ہے اس کے نتیجے کا انتظار کرنجے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ میرے ساتھ سب کچھ کسی فینٹسی کہانی یا فلم کی طرح ہورہا تھا اور میں اس فلم کا حصہ بنے اپنا کردار بخوبی نبھا رہی تھی بنا یہ جانے کہ اس کہانی کا انجام کیا ہوگا۔
خیرناؤ تو چلتی رہی لیکن وقت اور موسم لمحوں کی رفتار سے بدل رہے تھے۔ مجھے سب وہ چیزیں نئی نہیں لگ رہی تھیں کیونکہ اب میں ان سب چیزوں کا لازم جزو بن گئی تھی اور وہ میرے سامنے کی حقیقت بن چکی تھیں اور پھر ایک زوردار لہر آئی جو ہماری ناؤ کے اوپر سے رستہ بنا کر خود تو چلی گئی لیکن میرے سامنے کے منظر کو ایک نئے منظر میں تبدیل کر گئی۔ میرے سامنے سوئی ہوئی نومولود بچی اب کوئی بارہ پندرہ سال لڑکی کا روپ دھارے بیٹھی تھی۔ لڑکی کا حلیہ اس ہی قبیلے کی عورتوں کے جیسا تھا جیسا میں پہلے دیکھ کے آئی تھی۔ ایک لمبا سا خوبصورت ہرے رنگ کا فیراک جس پر کاڑھے گئے پھول بوٹے قدرتی پھول معلوم ہوتے تھے۔ وہ سر پر پھولوں کا گول تاج پہنے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔ (جاری ہے)