سسرال یا جنجال

چوتھا اور آخری حصہ

زہرہ جبیں

چھوٹے بڑے دکھ اور آزمائشیں زندگی میں آتی ہی رہتی ہیں۔ میری زندگی بھی ایسی ہی چل رہی تھی۔ کبھی کبھی حالات و واقعات پر بار بار غصہ آتا، جی چاہتا ہر چیز کو الٹ پلٹ کر رکھ دوں لیکن غصہ دبانا پڑتا تھا گھر بچانے کے لیے جذبات کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ یوں

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں

ابو دونوں کے سامنے اس بات کا اظہار کرنے کے بعد سخت پریشان تھے۔ انہیں لگا بیٹے کو بچائیں گے تو بیٹی کا گھر ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر بیٹی کا گھر بچانے کے لیے رشتہ کر دیں گے تو بیٹے کے ساتھ زیادتی اور زبردستی ہو جائے گی۔ وہ شدید اضطراب کا شکار تھے اور اپنا دل پکڑ کر بیٹھے، ان کی حالت واقعی غیر ہو رہی تھی
مہوش کرن
~~~~~~ آٹھویں قسط

مزید پڑھیے۔۔

سسرال یا جنجال

تیسرا حصہ
وہ آپ کے جہیز کا ٹی سیٹ ہے نا... وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ کل میری سہیلیاں آئی تھیں تو چائے کے لیے میں نے وہ نکال لیا۔ بعد میں دھو کر رکھتے ہوئے ایک کپ ٹوٹ گیا۔ آپ ناراض تو نہیں ہیں مجھ سے؟ اس نے حد درجہ مسکین شکل بنا کر پوچھا

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں!

ارے ظاہر ہے، اک ذرا ویک اینڈ پر ہی سکون کے لمحات میسر آتے ہیں۔ اور ہر کام میں تمھارا عادی ہوں تمھارے بغیر بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ تمھاری غیر موجودگی میں ایک چابی یا فائل تک تو ملتی نہیں ہے، اِدھر سے اُدھر ڈھونڈتا رہتا ہوں اور پھر آخر کار فون کر کے پوچھنا پڑتا ہے۔“ ندیم نے بے چارگی سے کہا۔۔۔۔۔ مہوش کرن

ساتویں قسط

مزید پڑھیے۔۔

مسیحا یا درندے

انتخاب : محی الدین
‏پاکستان کے اِک مشہور مذہبی گھرانے کی بیٹی آمنہ حبیب (فرضی نام) لاہور کی اک مشہور اور مہنگی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے آئی، لائق تھی پڑھنے کا شوق تھا تو بہت کوششوں اور منتوں سے اُس کے باپ نے اُسے یونیورسٹی میں

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں

اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ ندیم جو ویسے رویے اور معمولات میں اس کے ساتھ ٹھیک رہتے تھے اک دم اپنی امی یا بہنوں کی کسی بات پر انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ جبکہ ندیم کی اجالا کے ابو سے کافی ذہنی ہم آہنگی تھی اور بھائیوں سے اچھی خاصی دوستی تھی۔ لیکن جانے کیوں کبھی کبھار وہ اجالا کے ساتھ اتنے سخت ہو جاتے تھے. بالکل ہی کوئی بدلے ہوئے انسان لگتے

چھٹی قسط
مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔

اندھیرے سے اجالے تک

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کتنا کام کرتی تھیں! اور اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ, ایک ذمے دار انسان بنواپنے فرائض کو پورا کرو اور وقت کو ضایع نہ کرو۔ آپ ﷺ کی زندگی کو دیکھ لو، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی زندگیوں کو دیکھ لو، سب کے سب ذمے دار انسان تھے، کبھی بھی اپنے وقت کو ضایع نہیں کرتے تھے

(چوتھی قسط )
عائشہ شیخ

مزید پڑھیے۔۔

اندھیرے سے اجالے تک

جس طرح ایئرپورٹ پہ زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے checking میں مشکل آتی ہے وہاں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ آخرت کی checking کیسی ہوگی! گناہوں کا بوجھ کم ہوگا تو ان شاءاللہ آسانی کے ساتھ قیامت میں اس مرحلے سے گذر جائیں گے ایئرپورٹ کے لیے سامان کا بوجھ کم رکھو اور آخرت کے لیے گناہوں کا بوجھ کم رکھو، تا کہ دونوں جگہوں پہ آرام سے نکل جائیں لمبی لائن میں کھڑا نہ رہنا پڑے

(تیسری قسط )
عائشہ شیخ

مزید پڑھیے۔۔

ایسی بے حسی اف توبہ

شوہر کی جان پر بنی ہو تو بیوی اس طرح کیسے کہہ سکتی ہے۔ میں نے تھوڑی دیر بعد خود فون کیا، ان سے نام لے کر پوچھا کہ کیا آپ ان کی بیگم ہیں۔ کہنے لگیں جی ہاں میں ان کی بیوی بات کر رہی ہوں۔ میں نے مریض کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ساتھ آپ نے چھ سات سال کے بچے کو بھجوایا ہوا ہے۔ آپ خود تشریف لے آئیں یا گھر میں سے کسی اور کو بھجوا دیں۔ کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحبہ میں تو گھر میں اکیلی ہوں۔ میں گھر کو چھوڑ کر نہیں آ سکتی۔

تحریر:ڈاکٹر فرخ فاطمہ اشرف
انتخاب : محی الدین

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں

اور پھر کیا ہوگا وہی ڈاکٹر کی معمول کی باتیں۔ یہ نیا ٹیسٹ کروا کر دیکھتے ہیں، تھوڑا سا مسئلہ ہے وہ اس ٹریٹمنٹ سے ٹھیک ہو جائے گا، یہ ٹیسٹ دوبارہ کراؤ، یہ دوا شروع کر کے دیکھو، شوہر سے کہو ٹیسٹ کروائیں میں لکھ دیتی ہوں، طاقت کی چیزیں کھاؤ، پریشان مت ہوا کرو، خوش رہا کرو،اللہ نے چاہا تو اولاد ضرور ہوگی۔

پانچویں قسط
مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں

اس نے کمرے سے باہر جھانکا تو سامنے ساس کے کمرے میں کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا اور سب لوگ آہستہ آہستہ باتیں کرتے بھی محسوس ہوئے۔ اک دم ایسا لگا کہ جیسے ندیم زمین پر سیدھے لیٹے ہوئے ہیں۔ اجالا شش و پنج میں مبتلا ہو کر اس کمرے میں گئی تو دیکھا ساس، دیور اور شہنیلا سب موجود ہیں۔ ایک کونے میں مہرین بھی چپ چاپ کھڑی ہے اور ندیم زمین پر بے ہوش پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر اجالا کے منہ سے چیخ نکل گئی

چوتھی قسط

مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔

اندھیرے سے اجالے تک

جب وہ ہمارے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں! !!!!!! جب کوئی نہیں سنتا تو وہ سن لیتا ہے فریاد ہماری! جب کوئی نہیں پہچانتا ہمیں وہ رب پہچان لیتا ہے،جب سب منہ موڑ لیتے ہیں وہ تب بھی ساتھ دیتا ہے،جب لوگ بے عزت کرتے ہیں تو وہ پھر عزتیں بھی کرواتا ہے, گمان سے آگے بیان سے باہر

(دوسری قسط )
عائشہ شیخ

مزید پڑھیے۔۔

اندھیرے سے اجالے تک

بالآخر حدیقہ کی امی نے دعا کروائی ، جو کہ نہایت ہی خلوص اور عاجزی کے ساتھ مانگ رہی تھیں, سننے والیوں کی آنکھیں نم ہو گئیں، ایک عجیب اطمینان والی کیفیت سب پہ طاری تھی، جس کو دیکھ کہ کسی کا بھی ایمان تازہ ہو سکتا ہے
عائشہ شیخ
(پہلی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں !

چند سال بعد ندیم نے بڑی دھوم دھام سے شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے بنگلے کی تیاری کا کام شروع کروایا۔ وہ ہر چیز کے لیے اُجالا کو ساتھ لے جاتے، ہر معاملے میں اس کی پسند ناپسند کو مدِ نظر رکھتے۔جس چیز پر ہاتھ رکھتی اور پسند کرتی وہ بہت آرام سے خرید لیتے، ہر کوئی تعریف کرتا اور رشک سے دیکھتا کہ واہ کیا بات ہے، کہیں اس انداز میں بھی گھر بنتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کی پسند ناپسند سے ہٹ کر تو بات ہی نہیں ہورہی۔ پورے بنگلے کا پینٹ، ٹائلز، خاص کر باورچی خانے کا اسٹائل سب کچھ اجالا نے طے کیا تھا۔
مہوش کرن اسلام آباد
تیسری قسط

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں! (دوسری قسط)

اُجالا کو اس کے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ اس بات کو اب کئی مہینے ہوچکے تھے اور وہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھی۔ جبکہ اس کی نند و بھاوج یعنی اس کے بھائی شعیب کی بیوی اپنے میکے جا چکی تھی۔ وجوہ جو بھی تھیں یقیناً شعیب اور شہنیلا کے درمیان مسائل ہی تھے لیکن اُجالا اور ندیم کی زندگی اور رشتے کو بھی نتائج بھگتنے پڑ رہے تھے۔

مہوش کرن اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

کافی ۔میں اور وہ

مجھے کافی پینی ہے،" میں نے دبنگ اپنی پسندیدہ کافی بار کا نام لیتے اسے حکم جاری کیا۔۔ "چلو" حسب عادت وہ بائیک کی چابی پکڑے تیار تھا۔۔

"ہونہہ اتنا بڑا کیفے بار اور یہ اس پٹیچر۔۔" میرے مکمل اماؤس بننے سے قبل وہ میرے کان کے پاس جھکا۔۔ "چلو کیا یاد کروگی، وہ کافی پلواتے ہیں۔۔" اور میں تجسس ہی میں پورے راستے خیالی پلاؤ بناتی بائیک کے ساتھ خود بھی اڑتی رہی کہ اچانک بائیک رکی۔۔۔۔۔

عائشہ محبوب

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں !

مہوش کرن

پہلی قسط
کہاں وہ عشق و محبت، کہاں وہ ہجر و وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
کبھی پلکوں پہ آنسو ہیں، کبھی لب پہ شکایت ہے
مگر اے زندگی پھر بھی، مجھے تجھ سے محبت ہے

مزید پڑھیے۔۔

چھپکلی اور چیونٹی

بس جی اب کیا تھا۔۔۔ وہ بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے بلکہ بستر پہ لمبے لیٹ گئے۔ اور زندگی سے مایوس ہو کر بولے:

”چل نیک بخت! اب مرنے کے لیے تیار ہو جا۔ نہ جانے کتنا زہر ہم دونوں کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ بس اب تو کسی بھی لمحے موت کا فرشتہ آنے والا ہے۔ سنا ہے چھپکلی کی کھال بہت زہریلی ہوتی ہے منٹوں میں آدمی کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ بس لیٹ جا اور کلمہ پڑھتی رہ۔۔۔۔

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

تین کا ہندسہ

دیوار پر لکھنا منع ہے۔” پھر لکھا بھی اتنے رسوخ اور وثوق سے ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام دیوار کے اشتہار کے نیچے دئیے گئے ایڈریس اور فون نمبر ضرور نوٹ کرتی ہے۔ کچھ مرد حضرات دائیں بائیں دیکھ کر چپکے سے نوٹ کرتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حوائج ضروریہ کی اشد ضرورت کے پیش نظر یا ضبط برداشت سے بےچین ہو کر اسی دیوار تلے شروع ہو گئے۔

ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

آزادی

میری کسی کو فکر ہی نہیں ہے میرے سر میں درد ہے مجھے ہاسپٹل نہیں لے کر جا رہے آج اگر میں ماڈل ہوتی تو آگے پیچھے ڈھیروں لوگ ہوتے جو میرا خیال رکھتے۔۔ میرے نوکر چاکر میرے آگے پیچھے گھومتے اور لیے اچھے اچھے کھانے بنا کر لاتے، مجھے کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا بس ان کو ماہانہ تنخواہ دینا میرا کام ہوتا

مریم رحمن کراچی

مزید پڑھیے۔۔

نوراں

شادی کی رات بوجھل دل سے کمرے میں داخل ہوا تو نوراں ٹیوب لائٹ کی طرح روشن تھی اور اس کا وجود پورے بستر پر پھیلا پڑا تھا، جوانی کا بے لگام گھوڑا جسے بدکنے میں دیر نہیں لگتی، ایک منہ زور دریا کی طرح شور مچاتا ,حدیں پھلانگتا ، سہاگ رات میں کیسے تھمتا۔۔

ارم رحمٰن ایڈووکیٹ لاہور

مزید پڑھیے۔۔

نتیجہ

جی مجھ جیسی لڑکی نے ایسے ماحول میں ایک مہینہ گزارا، اس سے زیادہ کی توقع آپ مجھ سے نہیں رکھیے گا ۔ ہم صرف آپ کو یہاں یہ بتانے آئے ہیں کہ کل ہم یہاں سے جارہے ہیں ۔ اپنی بات پوری کرکے وہ کمرے سے چلی گئی اور صفوان بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ صائمہ بیگم بھیگی آنکھوں سے اپنا خالی دامن دیکھتی رہ گئی۔

ام حمید میر پور خاص

مزید پڑھیے۔۔

گرداب

بچپن کی منگنی وہ ظلم ہوتا ہے اولاد پر جو ان کے کھیلنے، کھانے کی عمر میں ہی جذبات سے آشنا کرکے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کمزور کرکے رکھ دیتا ہے ۔ان کی توجہ اپنی شخصیت کی تعمیر سے ہٹ کے خود کو منگیتر کی پسند ناپسند کے آئینے میں ڈھالنے کی طرف ہوجاتی ہے ۔دنیاداری ،زمانہ شناسی ، سیکھنے کی بچائےسوچوں کو گھن لگ جاتا ہے

کنیز باھو

مزید پڑھیے۔۔

کشتیاں الٹتی ہیں

عبدالکریم جس نے میری جان بچائی تھی، اس نے مجھے آتے ہوئے ایک آفر دی تھی، وہ چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کے ساتھ جاؤں ، مگر میں یہاں آنا چاہتا تھا، اب یہاں حالات آپ کے سامنے ہیں، مجھ میں ذہنی طور پر ابھی کچھ کرنے کی سکت نہیں، اور قرض خواہ الگ جان کو آئے ہیں، بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے، " "تو کیا آفر ہے اس کی بیٹا؟" آسیہ بی بی نے اپنے بیٹے کو کچھ الجھ کر دیکھا۔۔
"اس کی بہن ہے ایک۔۔" "توووووو" رومی نے بات کاٹ دی اندر کی حس بیدار ہو چکی تھی، عدیل نے نظریں چرائیں۔۔ "وہ بیوہ ہے، عبدالکریم چاہتا کہ میں اس سے شادی کروں اور اس کا جو حصہ ان کے آبائی کاروبار اور جائیداد میں بنتا وہ میں سنبھالوں!!!"۔

عائشہ محبوب
آخری حصہ

مزید پڑھیے۔۔

آزمائش

عبدالشکور مکتی بانیوں کی نظروں میں تھے- ایک رات ان مکتی بانیوں کے ایک بڑے جتھے نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا- ان کی بیوی اور بچوں کو قتل کردیا- عبدالشکور کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلے- مکتی بانیوں نے ان کے سارے گھر کو لوٹ لیا اور فیکٹری پر بھی قبضہ کر لیا -
ام منیب کراچی

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

نور الاسلام مستقل دعاؤں میں مصروف تھیں۔ آنکھوں سے اشک بہ بہ کر دامن بھگو رہے تھے۔ "یا اللہ! میرے وطن کی حفاظت کرنا، اسے رہتی دنیا تک سلامت رکھنا۔ اللہ تو جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے اس مملکت کے قیام کے لیے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ گھر بار اور جائیدادیں چھوڑیں، آگ و خون کا دریا پار کیا، اپنے پیاروں کو خاک و خون میں نہلوا دیا، اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں کو گنوا دیا... آخر کیوں کیا تھا ہم نے یہ سب؟ کیا صرف زمین کا ایک ٹکڑا لینے کے لیے؟
آخری قسط
ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

اٹل حقیقت

بعض اوقات انسان لاعلمی میں ایسا کچھ کرجاتا ہے۔جس کا خمیازہ اسے ہر حال میں بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ مکافات عمل اٹل ہے ۔۔۔اور ایک تلخ حقیقت بھی۔۔کسی کے ساتھ کیا گیا ناروا سلوک آ پ کی زندگی میں سے سکون چھین سکتا ہے۔

ام عبد اللہ رمضان کراچی

مزید پڑھیے۔۔

نورالاسلام

آپ ابھی بھی میرے ساتھ رہنا قبول کریں گے وجاہت؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں تین سال تک سکھوں کے ساتھ رہی ہوں اور... اور.... میری زبان لڑکھڑانے لگی.. میں اب آپ کے لائق نہیں رہی وجاہت! میرا سارا وجود ناپاک ہو گیا ہے۔ گزرے وقت نے میرے سینے میں وہ زخم چھوڑے ہیں کہ اب انھیں کوئی مندمل نہیں کر سکتا۔ مجھے ان رِستے زخموں کے ساتھ اکیلے ہی جینا ہے۔ میں اب آپ کے لائق نہیں..... آپ میرا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

کشتیاں الٹتی ہیں

عائشہ محبوب
مشترکہ نظام میں سب کو برابر رقم رکھنی ہوتی تھی ساس کے ہاتھ پر، نتیجتاً، جیٹھ ، دیور اور ان کے اہل و عیال پر اثر نا ہوتا لیکن رومی اور اس کے شوہر کو تنگی ہوجاتی، اگر خرچے میں کبھی عدیل کچھ کمی کرتا تو جیٹھانی دیورانی میدان میں شوہروں کو مٹھی میں کرکے پہنچاتیں وہ بھی وہی خرچ دیتے، بچے ہوجانے کے بعد تو رومی کی زندگی میں مزید تنگی در آئی ، اوپر سے ساس نندوں اور سسر تک کا رویہ ایسا ہوتا کہ کبھی ترس کھا لیا کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا
(پہلا حصہ)

مزید پڑھیے۔۔

شیطان کا تیر

آخر ایک دن زین کہنے لگا " ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں - تم کل رات کو اسی جگہ آ جانا - ہم شادی کر لیں گے-" شیطان نے جو جال بنا تھا میشہ اس میں بری طرح پھنس چکی تھی- ساری رات میشہ سوچتی رہی آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی -

دوسری رات میشہ چپکے سے گھر سے نکلی اور مقررہ جگہ پر پہنچ گئی - زین انتظار میں کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا- دونوں اس دوست کے گھر گئےاور نکاح کرلیا۔۔۔۔۔

ام منیب کراچی

مزید پڑھیے۔۔

شرمندگی

شمیم اپنے شوہر کو چھوڑ کر دو بچوں کے ساتھ شہر آ گئی ۔ریاض کی ملاقات اس کے ایک رشتے دار کے گھر ہوئی ۔شمیم ایک چالباز عورت تھی ۔ریاض جلد ہی اس کے جھانسے میں آ گیا ۔ویسے بھی اسے اپنے بیوی بچوں کی کیا پرواتھی۔شمیم نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر ہی ریاض سے نکاح کر لیا۔
ام عبد اللہ رمضان

مزید پڑھیے۔۔

سفید پوش

میری بیوی نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور آج بھی دے رہی ہے۔ لیکن اب جیسے میں ہی اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ کبھی جو میں اس کو کپڑے اور زیور بنوا کر دیتا تھا۔ آج اس کا زیور بیچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ وہ زیور جو اس کی امی اور میری امی نے بڑے چاؤ سے اس کے لیے شادی پر بنوایا تھا۔ اب وہ ایک ایک کر کے خود ہی بیچنے کے لیے دیتی جا رہی ہے۔ بہت عرصے تک تو میں لینے سے انکار کرتا رہا لیکن اب مجبور ہو کر لے رہا ہوں

مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔