(پہلا باب زخرف)
موت تو سب کو آنی ہے لیکن جو مر کر بھی پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں خیر البریہ بن کر زندہ رہے میں ایسی موت چاہتی ہوں۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے اس دنیا سے چند لمحوں کے لئے روپوش ہوجاؤں پھر دیکھوں کیا کوئی ہے ایسا جو مجھے یاد کرے، میرا ذکر خیر کرے، مجھے سوچے، مجھے میرے پیچھے بھی محسوس کرے۔ لیکن پھر خود ہی مجھے لگتا ہے نہیں ایسا نہیں ہے
مسفرہ سحر کراچی
چھٹی قسط
"نہیں پڑھی یعنی آپ کتابیں نہیں پڑھتے؟ پڑھا کریں کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں ایک اچھی کتاب ہمیشہ زندگی میں کم از کم ایک مثبت پہلو ضرور لاتی ہے یا کم از کم ایک منفی عادت ضرور ختم کرتی ہے۔ دا میجک نام سے لگتا ہے کوئی جادوئی اسباق یا جادوئی کہانیوں کی کتاب ہے۔
ہاں بلکل اس میں سب سے بڑے جادو سب سے بڑے میجک کا ذکر ہے ایسا میجک جس سے چیزیں ایک سے دو، دو سے تین اور تین سے چار ہوتی جاتی ہیں جانتے ہیں رہونڈا نے یہ پوری کتاب ایک میجک پر لکھی ہے "دا میجک شکر گزاری"۔ رہونڈا نے دنیا کے ایک بڑے میجک کا ذکر کیا ہے جو شکر گزاری ہے وہ اپنی کتاب کا آغاز اسی آیت سے کرتی ہیں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے پڑھی کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔ رہونڈا مسلم عورت نہیں لیکن کتاب کے آغاز میں میجک کا سب سے بڑا ثبوت اللّٰہ کی آیت کو بنایا ہے۔ وہ لکھتی ہیں اے انسان تمہیں ہر ایک چیز پر شکر ادا کرنا چاہیے شیشہ دیکھو غور کرو اپنی آنکھوں پر کہ تم دیکھ سکتے ہو اگر تم دیکھنے کے قابل نہ ہوتے تو؟ لہذا شکر ادا کرو اپنی آنکھوں پر شکر ادا کرو اپنی سماعت کے درست ہونے پر شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں گویائی دی ہے شکر ادا کرو کہ تم چل سکتے ہو۔ شکر ادا کرو کہ تمہارے ہاتھ کام کر سکتے ہیں تمہیں کسی بھی چیز کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ وہ لکھتی ہیں اے انسان تمہیں تو اپنی ہر آتی جاتی سانس پر اس کا شکر ادا کرنا چاہئے جو بنا کسی طلب کے تمہیں سانس دے رہا ہے۔ دا میجک کی رائٹر نے اس فارمولے کو مزید سے مزید پانے کا سب سے بڑا میجک بتایا ہے ۔
اور دیکھیں تو ذرا دلیل کس کا قول رکھا خزانوں کے مالک کا قول۔ کسی انسان کی بات نہیں۔ اس کی بات ہے جو تمام مخلوقات کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال فرمائے ، پھر بھی اس کے خزانوں میں رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہ آئے۔ یقین رکھیں اس کے وعدے پر کہ وہ دے گا۔ شرط بس ایک ہے۔
جو رہونڈا بائرن نے بتائی ہے۔ "دا میجک شکر گزاری۔"
کتابیں تو لاکھوں بھری پڑی ہیں اس جہان میں لیکن بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا لکھا ایک ایک لفظ آپ کی زندگی پر بہت اچھے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔
میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک کتاب "لا تحزن " یہ کتاب اردو ، انگلش اور عربی تینوں زبانوں میں موجود ہے۔
لا تحزن۔
ڈونٹ بی سیڈ۔
غم نہ کرو۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر عائض القرنی ہیں جنھوں نے بہت خوبصورتی سے اس کتاب کو لکھا ہے۔ یوں سمجھیے موتیوں کی مالا ہے جسے انہوں نے ایک لڑی میں پرویا ہے۔
وہ لکھتے ہیں شکر گزاری کے بارے میں۔ پوری دنیا آپ کے پاس ہے اور آپ کو احساس ہی نہیں آپ تو زندگی کے مالک ہیں لیکن آپ کو اس کا شعور نہیں۔ آپ کے پاس آنکھیں ہیں ،زبان ہیں، دو ہونٹ ہیں، دو ہاتھ ،دو پیر، سب کچھ تو ہے آپ کے پاس پھر بھلا شکر کے لیے اور کیا چاہیے؟ کتنے انعامات ہیں جن سے آپ لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن آپ کو اس کا ادراک نہیں۔ ایک جملہ تو مجھے ان کا حفظ ہوگیا ہے وہ لکھتے ہیں ”جو نہیں ہے اس کے بارے میں سوچتے ہیں جو موجود ہے اس پر شکر ادا نہیں کرتے۔“ سورہ رحمن تو سب ہی نے پڑھی ہوگی نا۔ اب ایک بار گھر جاکر ترجمہ کے ساتھ پڑھیے گا۔ وہ جو بار بار فرماتا ہے نا "تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" جب ترجمہ پڑھیں گے نعمتیں دیکھیں گے تو خود شکر نکلے گا ان شاءاللہ۔" سر حسین نے بات مکمل کر کے عتبہ کی طرف دیکھا۔
"جی عتبہ اب بھی آپ کہیں گی کہ شکر کیوں ادا کیا جائے؟"
"سر یعنی آپ چاہتے ہیں کہ میں اس دولت پر اللّٰہ کا شکر ادا کروں تاکہ وہ مجھے یہ مزید دے نہیں سر نہیں ۔۔۔ مجھے یہ مزید تو کیا یہ دولت بھی نہیں چاہے اس دولت کا میں شکر ادا کیوں کروں جس دولت کی وجہ سے میرے پاس سوائے اس کے اور کچھ نہیں“ آواز لہجہ بات سب تلخ ہو گیا تھا بات بہت کھری تھی لیکن اس کا لہجہ اب بھی اپنی بات پر ڈٹے رہنے والا تھا کہ وہ کیوں شکر ادا کرے۔
سر حسین نے جواب دینے کے لئے کچھ کہنا ہی چاہا تھا جب وہ دوبارہ خود گویا ہوئی۔
"سوری مجھے یہاں خود کو ڈسکس نہیں کرنا۔ وہ تو بس یونہی کہہ گئی ورنہ میں سب کے سامنے اپنے پرابلم کا ذکر پسند نہیں کرتی آپ کوئی اور بات کر سکتے ہیں سر۔ لیو مائی کوئسچن۔" اب تلخی کے ساتھ خود سے بے زاری بھی نمایاں تھی۔
"اگر آپ چاہتیں تو میں آپ کو جواب دے کر ضرور ریلیکس کرسکتا تھا لیکن میں سمجھ سکتا ہوں مجھے بھی نہیں پسند خود کو موضوع گفتگو بنانا ۔" وہ چاہتے تو اس کے انکار کے باوجود اپنے دلائل کے ساتھ جواب دے کر اسے قائل کر سکتے تھے لیکن سر حسین کا اسلوب سامنے والے کو قائل کرنا نہیں بلکہ مطمئن اور پرسکون کرنا تھا اور عتبہ ابھی اطمینان نہیں چاہتی تھی۔ جب وہ خود دل سے اس مسئلہ کا حل چاہے گی تب ہی وہ اسے جواب دیں گے۔ یہ انہوں نے سوچ لیا تھا۔
" اوکے اسی کے ساتھ مجھے اجازت دیجیے اپنا خیال رکھیے گا تمام لوگ۔ مجھے یقین ہے میری اتنی کوشش کے بعد ان شاءاللہ آپ شکر ادا کرنا سیکھ گئے ہوں گے اگر ابھی نہیں سیکھے تو ہم اگلی کلاس مزید اس پر ڈسکشن کریں گے میں چاہتا ہوں مجھ سے میری ذات سے آپ لوگ کم از کم ایک چیز تو سیکھ ہی جائیں۔ کیا خیال ہے پھر شاہینو! "
"جی سر ایک کلاس اور پلیز اس ٹاپک پر۔ تھوڑی اور ڈیٹیل تاکہ ہم نہ صرف خود شکر سیکھ جائیں بلکہ سکھانے والے بھی بن جائیں اینڈ تھینکس سر تھینکس آ لوٹ" اسٹوڈنٹس کی طرف سے جواب سن کر سر حسین مسکرا دیےاور انہیں سلام کرتے باہر نکل گئے۔
ان کے جاتے ہی تمام اسٹوڈنٹس ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو چکے تھے سب ہی باتوں میں مشغول تھے سوائے اس کے وہ ابھی تک اس جگہ کو تک رہی تھی جہاں سر حسین کھڑے تھے ۔ ان کا بولنا ان کا مسکرانا گویا اس کے ذہن کے پردے پر چپک کر رہ گیا تھا اور کیوں نہ چپکتا آج سے پہلے اسے ایسی گفتگو ایسا سمجھانے والا ملا ہی کب تھا جو ملا تھا وہ اب تھا نہیں۔
٭٭٭
آج رات کے کھانے پر عتبہ اور مصطفی صاحب ہی موجود تھے افنان کم ہی ان کے ساتھ شامل ہوتا تھا۔ مصطفیٰ صاحب مکمل طور پر کھانے میں مگن تھے عتبہ پلیٹ میں چمچ ہلاتے انہیں تکتی رہی ۔ آج صبح سے سر حسین کی کلاس لینے کے بعد اس کا بہت دل کر رہا تھا کوئی ہو جو اس سے باتیں کرے جس کو وہ صبح کلاس میں ہونے والی باتیں بتائے جیسے بچپن میں وہ رات کو بابا کے پاس لیٹ کر صبح سے لے کر رات تک کی ایک ایک بات انہیں بتاتی تھی اب بھی بتائے۔ ان کے کاندھے سے لگ جائے۔ ان کے بالوں سے کھیلے لاڈ اٹھائے بھی اور اٹھوائے بھی اور ان سب کے درمیان افی اسے پیچھے ہٹا ہٹا کر اپنی جگہ بنانے کی تگ و دو میں لگا رہے لیکن وہ اپنے بابا جان کو چھوڑ کر نہ اٹھے۔ مگر یہ سب کچھ شاید اب ایک خواب ہی بن کر رہ گیا تھا۔ نہ بابا وہ رہے تھے نہ افی وہ رہا تھا نہ وہ خود وہ رہی تھی اور اس سب کی وجہ کیونکہ اب وہ ان کے درمیان نہیں رہی تھیں۔
"آپ نے کبھی انہیں ڈھونڈا ہے بابا؟" ان کے چہرے کو تکتے یکدم ہی سوال کیا۔
"کس کو؟ کیا مطلب؟ کس کی بات کر رہی ہو؟" حیران بن رہے تھے ہوئے نہیں تھے۔
"آپ جانتے ہیں میں کس کی بات کر رہی ہوں " چمچ پلیٹ پرے کھسکا کر اب وہ تسلی سے انہیں دیکھ رہی تھی ۔
"نہیں مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہے نہ میں نے اسے ڈھونڈا کیونکہ فی الحال اسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔" صاف انکار کر کے سامنے والے کا تاثر دیکھے بغیر وہ دوبارہ کھانے میں مصروف ہو چکے تھے۔
"آپ کو ضرورت نہیں ہوگی بابا ہمیں ہے۔ مجھے ہے افنان کو ہے۔ لیکن آپ کو بھلا کیا ہماری ضروریات سے سروکار بابا جو آپ انہیں ڈھونڈتے لاتے اور آپ انہیں ڈھونڈیں گے ہی کیوں آپ نے تو خود انہیں گھر سے نکالا تھا نا۔" وہ شاید ابھی اور کچھ کہتی لیکن مصطفیٰ صاحب کی آواز نے اسے روک دیا۔
" میں نے اسے نکالا؟ دیکھو بیٹا عتبہ میں نے اسے نہیں نکالا تھا وہ خود گئی ہے۔" رسان سے کہتے اسے سمجھانا چاہا ۔
"جھوٹ بابا جھوٹ۔ بار بار آپ جھوٹ بولتے ہیں بار بار۔" وہ سسکیوں کے درمیان اپنی بات مکمل کر کے کھانا ادھورا چھوڑ کر اٹھ چکی تھی ۔
" آپ نے مجھ سے میری بہن دوست استاد ماں سب چھین لی۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔“ آخری نگاہ ان پر ڈال کر وہ وہاں رکی نہیں تھی کمرے کا رخ کر گئی تھی۔
کمرے میں آتے ہی دروازے کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر سسکیوں کو آزاد چھوڑ دیا تھا۔ آنسوؤں کا ایک سیلاب رواں ہوگیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر گھٹنوں کے درمیان منہ چھپائے روتی رہی پھر نظر بائیں طرف رکھی کمپیوٹر کی میز تک گئی تو اٹھ کر وہاں تک آ گئی۔
میز کے ساتھ ہی ایک شیلف بنا تھا جہاں چند ڈائریاں اور چند کتابیں رکھی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس نے نیلے سرورق والی ڈائری اٹھائی پہلا ورق کھولا وہاں بہت خوبصورت لکھائی میں مرحا لکھا ہوا تھا اس پر ہاتھ پھیرنے کے بعد جہاں بھی ہاتھ پڑا وہیں سے کھول دی ۔
سامنے کھلے صفحے پر مرحا کی بہترین خطاطی میں مرحا کے دل کی باتیں لکھی ہوئی تھیں۔
"موت تو سب کو آنی ہے لیکن جو مر کر بھی پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں خیر البریہ بن کر زندہ رہے میں ایسی موت چاہتی ہوں۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے اس دنیا سے چند لمحوں کے لئے روپوش ہوجاؤں پھر دیکھوں کیا کوئی ہے ایسا جو مجھے یاد کرے، میرا ذکر خیر کرے، مجھے سوچے، مجھے میرے پیچھے بھی محسوس کرے۔ لیکن پھر خود ہی مجھے لگتا ہے نہیں ایسا نہیں ہے مرحا۔ میرے پاس شاید وہ اعمال، وہ عادات و اخلاق ہیں ہی نہیں کہ کوئی مجھے یاد کرے ہاں شاید میں ایسی ہوں ہی نہیں شاید۔۔۔"
وہ یہ الفاظ پڑھ کر سسک اٹھی خود سے کہنے لگی۔ آپی! میں ہوں، دیکھیں میں آپ کو یاد کر رہی ہوں آ جائیں پلیز آپی آپ کی عتبہ آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ آجائیں پلیز آئی مسڈ یو پلیز سسکیاں پھر شروع ہوچکی تھیں۔
(جاری )