تربیت

(قسط4)

 وہ ایک بہت خوبصورت نازک سا کانچ کا بنا ہوا تاج محل تھا جس میں دھیمے میوزک میں ایک گڑیا گڈے کا کپل جو آہستہ آہستہ کپل ڈانس کرتا ہوا پورے تاج محل میں گول گول گھوم رہا تھا اسکے ساتھ ایک کارڈ بھی تھا جس پر لکھے گئے الفاظ کو پڑھ کر میرا دل کسی اور لے پر ہی دھڑکنے لگا

 نشا وقار

اپنا ہی تھا قصور کے ساحل میں گھر گئے

ایک موج تھی جسے کنارہ سمجھ لیا

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے (چوتھی قسط)

’’دماغ خراب ہے تیرا یہ بہت بری جگہ ہے۔ ہم مجبور ہیں تُو تو مرد ہے تجھے معلوم ہے تجھے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت دی ہے۔ ہمارے زخموں کو نہ چھیڑ۔ اپنے چچا کو نہ ستا دیکھ تو میری بات مان لے‘‘

اُم حیات ہنگورا

چوتھی قسط

’’ہاں یہ تو ہے بھائی، اس فانی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا۔ ابّا جی کے انتقال کے بعد بھی امی جی کو یہ احساس نہیں کہ جس طرح وہ یہ سب چھوڑ کر چلے گئے ہم سب کو اسی طرح چلے جانا ہے‘‘ منصور مایوسی سے بولا۔

مزید پڑھیے۔۔

حُسنِ صورت یا حُسنِ سیرت

اور سنائیں خالہ! کون سے سیارے کی لڑکیوں کے رشتے کروا رہی ہیں آج کل؟ زینب نے مسکراتے ہوئے گلاس بڑھایا ...  اس کے اس چٹکلے پہ دونوں خواتین کے چہرے پر ہنسی آ گئی

عظمی ظفر

رشتے والی خالہ کو دیکھ کر یونیورسٹی سے واپس گھر آنے والی زینب کا منہ بن گیا.. ایک تو پوائنٹ کا رش کافی تھا دماغ گرم کرنے کے لیے. اور اب یہ شروع ہو جائیں گی کہ آج کل کیسی لڑکیاں پسند کرتے ہیں لڑکے والے.. نہ چاہتے ہوئے بھی خوش مزاج سی زینب نے سرد مہری سے انھیں سلام کیا اور کمرے کی جانب بڑھ گئی....

مزید پڑھیے۔۔

کفِ افسوس

اے بنت حوا! ہے کوئی؟ جو اپنے سر اور سینے کو اپنی خوشی سے رضائے الٰہی جان کر اجر و ثواب کی نیت و شوق سے ڈھانپ لے۔ قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم پر عمل کروانے کے لیے آپ کو زبردستی اس راہ پر لے آئیں؟ کہ پھر یہ مجبوری بن جائے اور کف افسوس ملنا پڑے

مہوش کرن

 بہت سالوں پہلے ایک دن پتا چلا کہ بنتِ حوّا کو وہ جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے، جس کا صرف نام سن کر بھی کسی عورت کی جان نکل جاتی ہے۔۔ رپورٹس میں صاف صاف لکھا تھا اور تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن (تیسری قسط)

یاد رکھو کہ باحیا اور باکردار لڑکیاں کبھی ہمارے جیسوں کے ہاتھوں نہ خوار ہوتی ہیں اور نہ خراب۔ اچھی لڑکیاں نہ ہی انجانے لڑکوں سے دوستیاں کرتی ہیں اور نہ ہی رابطے استوار کرتی ہیں۔ ان کے سامنے ہم چاہے جتنا مرضی سر پیٹ لیں وہ تو بات کرنے کی روادار تک نہیں ہوتیں

تنزیلہ احمد

  شگفتہ کے لیے شہر اور ہاسٹل میں آنا بھی خوش گوار تجربہ ثابت نہیں ہوا تھا۔ وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئی تھی۔ نوکری کے لیے دھکے کھاتے اور رنگ برنگے لوگوں کا سامنا کرتے چند دنوں میں ہی وہ زندگی کے اک نئے روپ سے آشنا ہوئی۔ زندگی آسان تو کبھی نہ رہی تھی مگر اتنی مشکل ہو جائے گی یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

تربیت تیسری قسط

 تو جو میری دیوانی بنی پھرتی تھی نا وہ عشق نہیں ہوس تھی ، یہی وجہ ہے تجھے طلاق دینے کی تو آوارہ ہے …اور شادی صالحہ جیسی شریف لڑکیوں سے کی جاتی ہے جو مرد کی آنے والی نسلوں کی امین ہوتی ہیں تجھ جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس کے لیے ہوتی ہیں

نشا وقار کراچی

اس حالت میں تو اسے آرام اور اچھی خوراک کی ضرورت تھی اور وہ اس حال میں مئی کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں بغیر ناشتہ کیے جاب کے لئے ماری ماری پھر رہی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے (تیسری قسط)

وہ لوگ مخنث تھے مگر ابھی تو وہ عزت سے بیٹھے تھے اس کے باوجود لوگ ان کی طرف اشارہ بھی کرتے اور سیٹیاں بھی بجاتے جس کی وجہ سے ببلی بہت پریشان تھی۔ دونوں نے بڑی چادریں اچھی طرح لپیٹی ہوئی تھیں۔

اُم حیات ہنگورا

’’ماشاء اللہ بہت پیارا ہے آپ کا بیٹا‘‘ صائمہ نے اُس عورت سے کہا۔ ’’میرا‘‘ وہ عورت مسکرائی۔ ’’یہ میرا بیٹا نہیں ہے، اس کا چہرہ دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہاں میں اور کہاں یہ؟‘‘ وہ عورت بے تکلفی سے کہنے لگی تو صائمہ بغور اس عورت کو اور بچے کو دیکھنے لگی۔

مزید پڑھیے۔۔

خدا کی لاٹھی

بے حس و بے ضمیر معاشرے میں آئے دن ایسے کئی واقعات جنم لیتے ہیں اور پھر آپ اپنی موت مر بھی جاتے ہیں۔

 بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

"افف! آج بہت تھک گئی۔"

تھکی تھکی آواز میں لاڈ تھا۔

"ذرا سا کام کرنے پہ تھک گئیں محترمہ۔۔۔ کرتی ہی کیا ہو سارا دن؟؟ بس آرام ہونہہ ۔" موبائل اسکرین پر نظریں جمائے ، زہر خند لہجہ میں دھتکار کے کہا گیا۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن (دوسری قسط)

تنزیلہ احمد

 جواب طلبی کے لیے سب کی چبھتی نظریں اس پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک پل لگا تھا شگفتہ کو نارمل ہونے میں۔ اگلے ہی پل چمچ پلیٹ میں رکھ کر اس نے نگاہیں اٹھائیں اور حاضرین کو دیکھا:

مزید پڑھیے۔۔

تربیت (دوسری قسط)

  یہ تم نے اپنا حلیہ کیا بنایا ہوا ہے، انتہائی ماڈرن اور فیشن ایبل لڑکی اس وقت ماسی لگ رہی ہے سب خیر تو ہے نا!! کہیں شاہ رخ بھائی نے بے وفائی تو نہیں کردی تمھارے ساتھ، جو تم لیلی بنی گھوم رہی ہو !!

نشا وقار

"کھنک کیسی لگی میری بیٹی تمہیں ؟یہ بہت ذہین ہے. نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ کھیل کود میں بھی ہمیشہ اول ہی آتی ہے”…فاطمہ کی آواز پر میں ایک بار پھر اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر آگئی۔ بیٹی کے لیے فاطمہ کے لہجے میں بے تحاشا محبت بول رہی تھی، یوں ہی ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور علی مجھے لینے کے لیے آگئے- فاطمہ اور زینب مجھے دروازے تک چھوڑنے کے لیے آئیں تو لاؤنج سے باہر نکلتے وقت میری نظر بائیں جانب پڑی، جہاں لکڑی کا بہت خوبصورت فریم دیوار پر آویزاں تھا جو دیکھنے میں بالکل کسی درخت  جیسا تھا اور اس کی ہر شاخ پر فیملی ممبرز کی تصاویر لگی ہوئی تھیں انہیں تصاویر میں ایک تصویر ایسی تھی، جس نے لمحہ بھر کے لئے مجھے دم بخود کردیا اس تصویر میں ایک طرف فاطمہ کھڑی تھی اور ایک طرف زینب سے ملتا جلتا تقریباً چالیس  پینتالیس سال کا ایک مرد کھڑا تھا جبکہ زینب ان دونوں کے درمیان کھڑی شرارتی نظروں سے فاطمہ کی طرف دیکھ رہی تھی یہ ایک مکمل فیملی پکچر تھی جس نے مجھے منٹ کے ہزارویں حصے میں یہ سمجھادیا تھا کہ فاطمہ شاہ رخ کے ذکر کو نظر انداز کیوں کر رہی تھی ……

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے (دوسری قسط)

اس بچے کی کہانی جس کے باپ نے اپنے بھائی مل کر اسے ہجڑوں کے حوالے کر دیا تھا اور گھر والوں کو بتایا کہ بچہ چوری ہو گیا ہے ۔

اُم حیات ہنگورا

’’ہاں تو پھر‘‘ اب آپا گلو اطمینان سے بولی۔

’’تو کیا کہہ کر اسے لے آئی۔ یہ ہیجڑا نہیں ہے‘‘ ببلی حیرت سے بولی۔

مزید پڑھیے۔۔

بہتان

نوکرانی بتول  نے مالکن زمیندارنی کے منہ میں دوا کی بجائے جلتا ہوا کوئلہ کیوں ڈال دیا ؟ بتول کے ماں باپ کے ساتھ زمین دار اور اس کی بیگم نے کیا کیا تھا؟

عظمیٰ ظفر

"بتول!  او بتول!  نی او بتولاں!!!

کتھے مر گئی اج ؟ "

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

تنزیلہ احمد

 ہمیشہ کی طرح اس کے قدم بس اسٹاپ کی طرف تیز تیز اٹھ رہے تھے۔ دور سے ہی کافی رش نظر آ رہا تھا۔

"صبح کے وقت تو یوں لگتا ہے، جیسے سارا شہر ہی سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ ہر کسی کو کہیں نہ کہیں پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کے روٹ کی وین مس ہو جائے تو بعد میں کتنی کوفت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ صرف وہ ہی جان سکتا ہے جو اس ناخوشگوار تجربے سے دوچار ہوا ہو۔" وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی، جب سامنے سے اسے اپنی مطلوبہ وین آتی نظر آئی۔ اسٹاپ سے اتر کر وہ سڑک پر تھوڑا آگے بڑھ آئی کہ رش بہت تھا اور اسے ہر حال میں دھکم پیل کر کے وین میں سوار ہونا تھا۔ ایک ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں سیلز گرل کی نوکری اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔ بیس منٹ کی مسافت کے بعد وین نے اسے مطلوبہ اسٹاپ پر اتار دیا۔ وہاں سے دو سڑکیں پار کر کے تقریبا پانچ سات منٹ کی مسافت کے بعد وہ اس بڑے سے مشہور ڈیپارٹمنٹ اسٹور تک پہنچ گئی تھی۔ حاضری لگانے کے بعد اس نے سپروائزر کو سلام کیا جو اس کے سر پر آن کھڑا ہوا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

تربیت

پہلی قسط                      نشا وقار

ایکسکیوزمی آر یو کھنک… " …امتیاز سپر مارکیٹ میں مہینے بھر کی گروسری کی شاپنگ کرکے میں بل  ادا کرنے کاؤنٹر تک پہنچنے کے لیے قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی کچھ اجنبی کچھ شناسا آواز پر میں نے چونک کر دیکھا …“…یس آئی ایم… "… میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے سامنے کھڑی کالا عبایا اور کالے ہی اسکارف کا نقاب لگائے خاتون سے پوچھا جو ہاتھوں میں کالے دستانے اور پاؤں میں کالے موزے پہنی ہوئی تھیں- دیکھنے سے صاف لگ رہا تھا کہ خاتون شرعی پردہ کرتی ہیں… “…میں شبی فاطمہ سر شاہ خالد کے کوچنگ سینٹر میں بی- کام کی کلاسز میں ہم ساتھ ہوتے تھے شریف آباد والے کیمپس میں یاد آیا کچھ… ؟

مزید پڑھیے۔۔

کاش مجھے وقت دیا ہوتا

افشاں اقبال کراچی

وہ ٹکٹکی باندھ کر کھانے کی میز پر سلیقے سے رکھے برتنوں  کو دیکھ رہی تھی، پھر اچانک سے چِلانے لگی۔

 ”ہانیہ ہانیہ ادھر آؤ میرے پاس، میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پراٹھا کھلاتی ہوں، پھر اسکول چھوڑنے بھی جاؤں گی “

مزید پڑھیے۔۔

ٹرائس جینڈر

بنت محمود  کراچی

جاذب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

"کک ۔۔ کیا ۔۔۔ کیا کہا آپ نے ۔۔۔ ؟ میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔۔"

"ہاں جاذب میاں تمھارے اندر ایک لڑکی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، چاہو تو آپریشن کروا کر ایک مکمل لڑکی بن سکتے ہو " ۔

ڈاکٹر کمار نے اپنی بات دہرائی تو  جاذب سوچ میں پڑ گیا ۔۔ ویسے تو اس کے اندر شروع ہی سے لڑکیوں جیسی نزاکت پائی جاتی تھی۔ اور یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح سے جانتا تھا ۔ در اصل پانچ بہنوں ، کئی کزنوں اور ان  کی سہیلیوں کے ساتھ کھیل کھیل کر بڑا ہوا تھا ۔ بہنوں اور ان کی دوستوں کے مزاحیہ وار بھی کچھ کم خطر ناک نہیں تھے ۔ رفتہ رفتہ جاذب کی چال ڈھال اور بات چیت میں زنانہ انداز غالب ہوتا گیا، یہی نہیں بلکہ اس کی ایک شرارتی  کزن نے اس کے دل میں اس کے بچپن کے دوست نادر  کے لیے ایسے جذبات پیدا کردیے  جو کسی لڑکی کے کسی لڑکے کے لیے ہو سکتے ہیں ۔۔۔  دوست کے لیے  دوستانہ محبت کوئی انہونی بات نہیں تھی مگر اس کے جذبات میں زنانہ جذبات بڑھتے جا رہے تھے ، وہ شراتی کزن روزانہ ہی اس کے جذبات کو ہوا دیا کرتی ، پھر اس کزن نے ہی اسے مشورہ دیا کہ تم  ڈاکٹر کمار سے مشورہ کر لو، ڈاکٹر کمار شہر کے مشہور ہسپتال میں جنسیات کے بہت نامی گرامی ڈاکٹر مانے جاتے تھے ۔ ڈاکٹر کمار نے جاذب کی بات چیت سنی چال ڈھال کا جائزہ لیا اور تفصیلی طبی معائنے کا بعد اسے مشورہ دیا کہ تم آپریشن کروا کر لڑکی بن جاؤ جاذب کا دل  بلیوں اچھلنے لگا شاید وہ خود بھی یہی چاہتا تھا۔

 

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے

اُم حیات ہنگورا

آخر آپ مجھے بتاتے کیوں نہیں؟ میرا بچہ کہاں ہے؟ آج دوسرا دن ہے، میں نے اپنے بچے کی شکل تک نہیں دیکھی۔ کوئی مجھے بتانے کو تیار نہیں ہے۔ آخر کیا معاملہ ہے؟‘‘ صائمہ یہ کہتے کہتے رو پڑی۔ شعیب نے  صائمہ کی طرف رومال بڑھایا اور کہنے لگا۔ ’’بہت صبر سے میری بات سننا، نہ ہی رونا اور نہ ہی چیخنا۔اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہمارے گھر جو بچہ پیدا ہوا تھا نا ۔۔۔۔۔!"

اتنا کہتے ہی شعیب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہاتھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے شعیب کی آواز  بھرّا گئی۔ پھر وہ ہمت کر کے بولا :

مزید پڑھیے۔۔