- التفاصيل
-
پڑھنے والوں کی تعداد : 364
سمیہ عثمان
وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ اس دن صبح ہی سے سورج آگ برسا رہا تھا ۔گرمی اپنا ریکارڈ توڑ چکی تھی۔ گرم گرم ہوائیں چل رہی تھیں ۔لوکے تھپیڑے جب جسم کو لگتے، تو یوں محسوس ہوتا گویا پورا بدن آگ میں جھلس رہا ہو۔ زمین ایسے تپ رہی تھی جیسے اس پر انگارے رکھ دیے گئے ہوں۔ لوگ سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئے کہ اس غضب کی گرمی اور لو کے تھپیڑوں سے بچ سکیں۔ سڑکیں ویران سنسان، کہ جیسے یہاں کوئی بستا ہی نہ ہو۔ انسان تو انسان بے زبان جانور بھی اس گرمی سے لاچار تھے۔ یہ ایک عذاب ہی تو تھا، جس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔"بے شک گرمی کی شدت جہنم کی لو میں سے ہے۔"
مزید پڑھیے۔۔