میں بھی پاگل ہوں ۔ عورتوں سے بڑی غلطیاں کروانے کی کوشِش کر رہا ہوں ۔ یہ تو خُود مجبُور ہوتی ہیں ۔ اور رہے مرد ، وہ ان کی وجہ سے ہی کچھ زیادہ برا نہیں کر سکتے ۔ اب تو بس کوئی ایسا لڑکا پھانسنا ہے جو اُتاؤلا ہو ۔ کِسی عورت سے مشورہ کیے بغیر ہی میری بات فورا مان لے ۔ “ اُس نے سوچا اور اپنے مخصوص بیت الخلاء میں آ گیا ۔ وہ کافی تھک گیا تھا لہٰذہ لیٹتے ہی خراٹے مارنے لگا تھا۔۔۔
ساجدہ بتول
اِس کے کرتُوت بھی تو دیکھو ۔ گھر میں ہی چوری کی ہے اور بیاہ کر آتے ہی محلّے کے ایک لڑکے کے ساتھ چکّر بھی چلا لیا ۔ “ ساس نے ایک اور جھوٹ لگایا کیونکہ اب مردود اس پہ حاوی ہو چکا تھا ۔ ”مشکل سے تو یہ رشتہ ہوا تھا ۔ اب یہ مصیبت!“ آنے والی عورت نے دل میں سوچا ، مردود سب سن رہا تھا ۔ ”ہاہ اب یہ معاملہ رفع دفع کر دے گی ۔“ مردود پریشان ہو گیا ۔
اِدھر وہ عورت اب بے ہوش لڑکی پہ جھک کر اسے چوم رہی تھی ۔ ”آنکھیں کھول میری بچی “ مردود فورًا پہلی کو چھوڑ کر اُس کے دماغ میں داخل ہوا ۔“ بھئی سیدھا سیدھا مار پیٹ کا کیس ہے ۔ عدالت میں جانا چاہیے ۔“
”ناں بابا! “ عورت نے دل میں جواب دیا ۔ ”ابھی میری تین اور بھی ہیں ۔ بات پھیل گئی تو اُن کا کوئی رشتہ ہی نہیں آئے گا ۔ میں تو یہ جھگڑا ختم کروا کے ہی جاؤں گی ۔ “
مردود مُنہ بسورتا ہوا واپس نکلا ۔ اچانک اسے خیال آیا کہ جو کُچھ کر سکتا ہے اس لڑکی کا شوہر ہی کر سکتا ہے ۔ وہ فورًا اُس لڑکے کے دماغ میں گھس گیا ۔ ”تم اِس لڑکی کو طلاق دے دو ۔“
”توبہ “ وہ فورًا بولا ”پہلے ہی اِس کی ماں جلّاد بنی کھڑی ہے ۔ “
”تمہاری ماں بھی تو جلّاد بنی کھڑی ہے ۔“
”اندر سے وہ بھی کانپ رہی ہے ۔ میں اسے جانتا ہوں ۔ طلاق کے بعد جو جھگڑے کھڑے ہوں گے اُن کو سہنا اس کے لیے آسان نہیں ہے ۔ اس لیے طلاق دلوانے پہ کبھی راضی نہیں ہو گی ۔“ لڑکے نے جواب دیا ۔ ”تو ابّا کو ساتھ ملاؤ نا!“ مردُود یہ سنہری موقع کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ طلاق جیسا گھٹیا ترین کام کروا کے ہی جانا چاہتا تھا ۔ مُشکل سے ہی تو مناسب جگہ ملی تھی ۔
”ابا اپنی بہن سے ڈرتے ہیں ۔ یہ ان کی بہن کی ہی تو بیٹی ہے ۔ “ اِس سوال و جواب میں مردُود کو پتا ہی نہ چلا کہ ساس سُسر اُس عورت سے معافی بھی مانگ چکے تھے ۔ لڑکی ہوش میں آ گئی تھی ۔
”آیندہ اِس کو مت ستانا ورنہ یاد رکھو ہر جگہ تمہاری بیٹی کو بدنام کر دوں گی ۔“ لڑکی کی ماں بولی ۔ ”اور ہاں! جس لڑکے سے چکّر کا کہہ رہے ہو ، ذرا اس کو سامنے تو لاؤ!“
”وہ ۔۔۔۔ وہ دراصل ۔۔۔۔ “
ساس کی زبان لڑکھڑاگئی ۔ اُسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی ۔ خوف کے مارے اُس کا چہرہ سفید ہو گیا ۔ ٭٭٭٭
”بس! ہو گئی بولتی بند !“ لڑکی کی ماں چمک کر بولی ۔ ”وہ دراَصل دُوسرے شہر گیا ہوا ہے “ ساس بِالآخر بات بنانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ ”واہ واہ! اچھا پردہ ہے تمہارے جھوٹ پہ ۔ “ بات ختم ہوتے ہوتے دوبارہ شروع ہو رہی تھی ۔ مردُود لڑکے کے دماغ میں سے نکل کر فورًا لڑکی کی ماں کے دماغ میں گُھس گیا ۔
”تُم کہو! تمہاری بیٹی کا بھی ایک لڑکے سے چکر ہے ۔ “ ”نہیں نہیں ۔“ وہ عورت فورًا بولی ”مُجھے اپنی بیٹی کا گھر بسانا ہے ۔ اجاڑنا نہیں ۔“
”مردُود اب تھک چکا تھا ۔ بے بس ہو کر واپس نکل آیا ۔“
”خیر! ابھی میں شام تک یہیں ہُوں ۔ تم لوگ میری بیٹی کو جُوس پلاؤاور اچھا سا کھانا کھِلاؤ ۔۔۔ اور خبردار جو اب کِسی نے اِسے ڈانٹا بھی ۔ “ مار کھانے والی لڑکی کی ماں نے کہا ۔ ”ٹھٹھ ٹھیک ہے ۔ “ یہ لڑکی کا شوہر تھا ۔ ”ساس نے اِس پر اُسے گُھور کے دیکھا مگر کُچھ کہہ نہ سکی ۔۔۔ لڑکا کان دباتا ہوا جُوس لینے کے لیے گھر سے باہر نکل گیا ۔
”اندر چلو بیٹی! “ سُسّر نے مار کھانے والی لڑکی کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اُس کی ماں اُس کا ہاتھ پکڑے اسے اس کے کمرے میں لے جانے لگی ۔
”یہ تو کچھ بھی نہ ہوا ۔ مردُود نے مایُوسی اور بے چارگی سے سوچا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اڑ کر وہاں سے باہر نکل آیا ۔ وہ اپنا پُورا زور لگا چکا تھا مگر اُس کے زور کے آگے دو عورتیں ڈٹ گئی تھیں اور فساد مچانے والی نے خُود ہار مان لی تھی ۔
مردُود کی آج کی پروگریس رپورٹ میں بس دو لاتیں ، ایک مُکّہ اور ایک جھوٹ ہی تھا ۔ ”میں بھی پاگل ہوں ۔ عورتوں سے بڑی غلطیاں کروانے کی کوشِش کر رہا ہوں ۔ یہ تو خُود مجبُور ہوتی ہیں ۔ اور رہے مرد ، وہ ان کی وجہ سے ہی کچھ زیادہ برا نہیں کر سکتے ۔ اب تو بس کوئی ایسا لڑکا پھانسنا ہے جو اُتاؤلا ہو ۔ کِسی عورت سے مشورہ کیے بغیر ہی میری بات فورا مان لے ۔ “ اُس نے سوچا اور اپنے مخصوص بیت الخلاء میں آ گیا ۔ وہ کافی تھک گیا تھا لہٰذہ لیٹتے ہی خراٹے مارنے لگا تھا ۔
اگلے دن صبح ہی اس نے کوشش شروع کر دی تھی ۔ کل والے مناظر سوچتے ہُوئےاُس کا سر آگ کا بن گیا ۔ ”ہونہہ! غلیظ چھپکلیاں ۔ سارا کام عورتیں ہی خراب کرتی ہیں ۔ “ اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور وہ اڑنے لگا ۔
اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور وہ اڑنے لگا ۔ کچھ دیر بعد وہ ایک گٹر کے اندر تھا ۔ جہاں گندگی کے اوپر ایک بوڑھا اور نہایت بھیانک شکل والا شیطان لیٹا ہوا تھا ۔ جو بے حد لاغر ہو چکا تھا ۔ وہ شیطان اتنا کمزور پڑ چکا تھا کہ اس کی کانپیں ٹانگ رہی تھیں ”کیسے ہو شکر دادا! “ مردود نے غصے سے پوچھا ”ابلیس کا لاکھ لاکھ ظلم ہے ۔ “ بوڑھے شیطان نے ٹانگتی ہوٸی کانپوں کے ساتھ کہا ۔ ”تم ابھی تک مرے نہیں!“ مردود نے اپنی ازلی خباثت کا مظاہرہ کیا ۔ ”میں کیوں مروں!“ بوڑھا شیطان بولا ۔ ”میں نے تو اب تک لاکھوں فساد پڑوائے۔ کروڑوں مسلمانوں کو جہنم میں بھیجا ۔ مرو تم جو دو چار مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا تجربہ بھی نہیں رکھتے ۔“ ”او بد بخت میں یہی تو سیکھنے آیا ہوں ۔“ مردود چلایا ”شر تو ہے ؟؟“ بوڑھا شیطان حیران ہوا جوابًا مردود نے ساری داستان کہہ سنائی ۔ ”ہوں ہاہ “ بوڑھے نے ایک کریہ ہنکارا بھرا ۔ ”یہ بہت آسان ہے ۔ ”کوئی گھٹیا ترین کام یوں ہو سکتا ہے “ کہتے کہتے اس نے تالی بجائی ۔ جیسا کہ انسان چٹکی بجاتے ہیں ۔ کیونکہ کافر اور فاسق جنات کے سارے طور طریقے بے ڈھنگے ہوتے ہیں ۔ ”پھر مجھ سے کیوں نہ ہوا ؟“ ”تم سے غلطی یہ ہوئی کہ تم نے گھٹیا ترین کام کے لیے عورت کو چنا ۔ “ ”ہائیں تو پھر کیا کرتا! عورت ہی تو ہمارا جال ہے ۔“ ”بالکل جال ہے ۔ “ بوڑھے نے کہنا شروع کیا ” مگر تب جب بات عشق مجازی کی ہو ۔ جبکہ یہاں تمہارے پاس آپشن تھا کہ کوئی سا بھی گناہ کروا سکتے ہو ۔ ۔۔۔ تم جھگڑا پڑوانا چاہتے تھے اور عورت ایسے کسی کام میں تعاون نہیں کرتی ۔ اور پاکستانی عورت تو بالکل بھی نہیں ۔ کیونکہ پاکستانی عورت حالات کی ڈسی ہوئی ہے ۔ ایک طرف اسے مشرقی بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف مغربی ۔ وہ ان دو متضاد راستوں کے بیچ لٹک رہی ہے ۔ ایک طرف اس پر گھر بار کی مکمل ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں ۔ اسے خاندانی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے اور یوں اس پر مشرقی نظام کا دباؤ ہے ۔ مگر دوسری طرف اسے گھر سے باہر نکل کر کما کے لانے کا بھی پابند کیاجا رہا ہے ۔ دو مخالف راستوں کے کام وہ تن تنہا اپنے ناتواں کندھوں پہ اٹھائے ہوئےہے لہذہ وہ پہلے ہی پریشان ہے اور مزید پریشان ہونا گوارا نہیں کر سکتی ۔ “ ”مگر میں تو یہی سوچ رہا تھا کہ کسی ایسی عورت کو استعمال کروں جو گھر بار کی ذمہ داریوں میں جکڑی ہوئی اور مکمل دباؤ میں ہو تا کہ ہیجانی ہو کر میری بات مان لے ۔“
”آہ “ بوڑھے شیطان نے ٹھنڈی سانس لی ۔ ”اس کمبخت کی فطرت میں خدا نے صبر اتنا رکھ دیا ہے کہ یہ بڑے سے بڑے مسئلے کو بھی ٹھنڈے پیٹوں ہضم کر جاتی ہے ۔۔۔ خال خال عورتیں ہوتی ہیں جو مسائل کی وجہ سے نفسیاتی مریضہ بنتی ہیں ۔۔ورنہ اکثر خواتین تو سخت ترین حالات کے بعد مزید سدھر جاتی ہیں ۔ کل تمہارا واسطہ جن خواتین سے پڑا ، وہ سب کی سب چالاک تھیں ۔ جن کو حالات نے ہر طرح کے مسائل سے نمٹنے کا گر سکھا دیا تھا ۔ ایسی خواتین کی نظر میں زیادہ اہمیت اس کی ہوتی ہے جو ان کا سہارا ہو ۔ ۔۔ اس کا ساتھ بچانے کے لیے وہ کچھ بھی برداشت کر جاتی ہیں ۔ یہ خصوصیت صرف ایک مشرقی عورت کو حاصل ہے کہ بے جا دباؤ کے بعد وہ اندر اور باہر کے سارے کاموں میں طاق ہونے کے ساتھ ساتھ اب خانہ جنگیوں سے نمٹنے میں بھی ماہر ہو چکی ہے کیونکہ اس کو بیوی اور بہو کے روپ میں ستایا ہی اتنا زیادہ گیا ہے کہ اب وہ خود کو ایسا بنا چکی ہے کہ توڑی بھی نہ جائی اور نچوڑی بھی نہ جائے ۔ سخت نہ نرم ۔ “ ” مگر خاندانی نظام سے تو ہم نفرت کرتے ہیں کیونکہ اس میں عورت کے لیے تحفظ ہے اور ہم کئی دہائیوں سے مشترکہ خاندانی نظام کو توڑنے میں مصروف ہیں ۔ “ مردود نے کہا ”ہاں ایسا ہی ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام میں پاکستانی عورت کے لیے مثبت چیز یہی ہے کہ اس میں اس کے لیے حفاظت ہے ۔۔ مگر یہیں سے اس کے لیے بے پردگی کا راستہ بھی تو کھلتا ہے نا!“ بوڑھے نے آخری الفاظ پہ ایک آنکھ دبائی ۔ ”اوہو! ہائیں!!“ مردُود چونکا ”اس لیے ہم اس کو تب تک مکمل ختم نہیں ہونے دیں گے “ بوڑھے شیطان نے مزید کہنا شروع کیا ”جب تک اس معاشرے کی عورت مکمل طور پہ بے پردہ نہیں ہو جاتی ۔ ہم ا سکرین کی ساری اقسام کے ساتھ ساتھ اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، جم اور کلب کے ذریعے اس پہ کام کر رہے ہیں ۔ ادھر اس عورت کا جسم عریاں ہو گا ، ادھر تب تک اس کا خاندانی نظام مکمل ٹوٹ جائے گا ۔ ابھی تو ہم خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ کو خود ہی سلو پوائزن دے رہے ہیں ، اس طرح کہ عورت کو گھر سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ اس کے بڈھوں کے حواس پہ بھی سوار رہتے ہیں ۔ جو ہمارے کہنے پہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ بھلے گھر کے اندر زناکے اڈے کھل جائیں ، ان کی ساری اولادیں ان کی نظروں کے سامنے رہنی چاہییں ۔ “ ”اوہ۔۔۔۔ اف!“ تو یہ ہمارے ہی شیاطین کر رہے ہیں!!“ مردود پہ حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ ”ہاں! اور کیا!!“ بوڑھا شیطان بولا ”مگر ہم اس کو توڑیں گے ضرور ۔۔۔۔ کیونکہ مشترکہ خاندانی نظام عورت کے لیے فاٸدہ مند بھی بہت ہے ۔ کہ اس میں اس کے لیے تحفظ بھی ہے اور ذمہ داریاں اٹھانے بالخصوص بچے پالنے میں تعاون بھی ۔۔۔ مگر یہ نظام اس کے لیے غیر مفید اس طرح ہو گیا ہے کہ اس میں انصاف نہیں ہوتا ۔ صرف طاقتور ، با اختیار اور صاحب حیثیت کی ہی اس میں سنی جاتی ہے ۔ نتیجتًا عورت اس میں کسی نہ کسی روپ میں ضرور مار کھا رہی ہے ۔ کبھی ساس کے روپ میں ، کبھی بہُو کے روپ میں ۔ کبھی بیٹی ہونے کے جرم میں ۔ ۔ بالخصوص مشترکہ خاندانی نظام میں عورت بہو کے روپ میں زیادہ مار کھا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اوہ!!!“ بوڑھا شیطان بولتے بولتے یکدم چونک گیا ۔ ”کیا ہوا ؟“ مردود حیران ہو گیا۔ (جاری ہے)