’’ارے وہ بھی تو عورتیں ہوا کرتی تھیں جو گھر والوں کی خدمتیں کرتیں اور اتنے اتنے قرآن رمضان میں مکمل کرتیں!‘‘ طنز کرتے وہ بھول جاتا تھا کہ اس دور میں کچن کچے اور غذائیں سادہ اور طبع قوی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ یہ بھول جاتا تھا کہ اس دور کے مرد یہ نہیں کہتے تھے کہ ’’مرد کے دل کا راستہ تو معدہ سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔۔ان کو تو آج کے پکوانوں کی الف ب کی بھی خبر نہ تھی
عائشہ محبوب
دوسری اور آخری قسط
جمیلہ خاتون نے معاذ کو فون کیا۔۔۔۔ تو ’’ہاں پتہ چل گیا ۔۔۔ آپ کی بیٹی کو کچھ شرم نہ آئی، آج مہمانوں نے آنا تھا! ارے آنٹی ۔۔۔
مہمان اور رمضان میں رحمتیں ہی رحمتیں ۔۔۔ ارے خدمت تو وہ ہے جس سے اللہ خود مل جاتا ۔۔۔۔ مگر یہ ایک مہینہ ہی تو ہوتا ہے جس میں کچن کا کام ’’کچھ‘‘ بڑھ جاتا ہے۔‘‘ معاذ کی چلتی زبان مگر جمیلہ خاتون تو آئینہ دیکھ رہی تھیں سو بس یہی کہہ پائیں۔ ’’اُم ہانی بے ہوش ہوگئی ہے۔‘‘ اور فون آہستگی سے رکھ دیا۔
انداز اتنا تھکا ہوا تھا کہ رفعت نے بے ساختہ سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔۔۔۔ اور ایمبولینس ہسپتال کے دروازے پر رکی ۔۔۔ اُم ہانی ہوش میں آچکی تھی ۔۔ بی پی خطرناک حد تک بڑھا ہوا تھا ۔۔۔ مگر وہ اب پھر چپ ہوچکی تھی ہونٹ سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کر رکھے تھے بس رفعت کو اپنے پاس بٹھایا ہوا تھا اور اس کا ہاتھ جکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ ڈاکٹر نرس کے کمرے سے جاتے ہی معاذ کی انٹری ہوئی تھی ۔۔۔ ’’کیا ہوا اُم ہانی ۔۔۔۔ اچانک ۔۔۔۔ صبح تک تو تم ٹھیک تھیں!‘‘ معاذ نے اس کی حالت سے نظریں چراتے بھی کہنا فرض سمجھا ۔۔۔ عجیب المیہ ہے ہم مسلمانوں کا ۔۔۔ بس اپنی مرضی مطلب کے اعمال ہمیں چاہییں خود کے لیے بھی اور دوسرو سے بھی! ۔۔۔۔
عبادت جو پانچ حقوق میں سے ایک ہیں یہ بھی کرنا نہیں آتا! جواباً اُم ہانی نے معاذ کو دیکھا ۔۔۔
رفعت نے پہلو بدلا ۔۔۔۔ اس کا دل دھڑکا ۔۔۔ ایک خیال جو دل میں آیا مگر اس نے اللہ سے اس کا برعکس مانگا ۔۔۔۔ معاذ نے دیکھا کہ ویران ویران سے آنکھیں تھیں اس کی شریک زندگی کی ۔۔۔۔۔
’’ہاں صبح ٹھیک تھی ۔۔۔ اب ڈرامے کررہی ہوں!‘‘ وہ چیخی تھی آواز اتنی بلند تھی کہ سب ہی ہکا بکا رہ گئے اور پھر طوفان بند توڑ ہی بیٹھا!! وہ جو بلکی تو اس نے رفعت سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافی مانگنے کے ساتھ اپنے بھیا جانی، ماں باپ کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ۔۔۔۔۔ ’’آپ لوگ سرپرست تھے بڑے تھے ۔۔۔۔ رمضان کیا بس سحر افطار کے لیے آتا ہے۔۔۔۔ اور اس میں بس خدمت کی ذمہ داری گھر کی خواتین کی ہے ۔۔۔۔ میں یہاں ساس نند کو الزام دوں گی تو فقط احساس نہ کرنے کا کیونکہ ساس پیچھے سے سہ کر سب آئی ہوتی ہے ۔۔۔ امی نے کیوں احساس نہ کیا آپ نے آپ کو روایت بدلنی تھی ۔۔۔ رواج بدلنا تھا ۔۔۔ رمضان کو حقیقی معنوں میں عبادت اور خدمت کا مہینہ بنانا تھا نہ کہ پورا سال بھرے گئے بیٹوں سے، سیراب لبوں کی پوجا اور خدمات کروانی تھی! ۔۔ کیا دسترخوان کی وسعت سحر و افطار میں فرض یا سنت ہے؟؟ ۔۔۔ کیا روزے کی حقیقت یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا خوب ٹھونس کر سحری کرے اپنی من پسند ۔۔۔ پھر افطار بھی لذیذ لاجواب ہوا۔ اور رہی نند تو اس کو ماں کےگھر سے نکل کر سسرال میں وہ سب بونا پڑتا ہے ۔۔۔۔ یہ چلتا پہیہ ہمارے معاشرے کا بڑا مکروہ ہے۔۔۔۔۔‘‘
وہ بے دم ہوچکی تھی ۔۔۔سب اونچا اونچا رو رہی تھی ۔۔۔۔ اور ایک بار پھر وہ بے ہوش ہوگئی ۔۔۔۔
٭٭٭
کیسی مہمان نوازی کہاں کی افطار پارٹی۔۔۔۔ سب ہسپتال میں جمع تھے ۔۔۔ آئی سی یو کے باہر کھڑا معاذ ۔۔۔ شادی سے پہلے اور بعد کے رمضانوں کو سوچ رہا تھا ۔۔۔۔پہلے اماں، پھر اماں اور حمدہ بھابھی اور اخیر میں حمدہ بھابھی اور اپنی بیوی ۔۔۔۔ اسے اپنے طنز یاد آئے ۔۔۔ جو وہ اُم ہانی پر کرتا تھا۔
’’ارے وہ بھی تو عورتیں ہوا کرتی تھیں جو گھر والوں کی خدمتیں کرتیں اور اتنے اتنے قرآن رمضان میں مکمل کرتیں!‘‘ طنز کرتے وہ بھول جاتا تھا کہ اس دور میں کچن کچے اور غذائیں سادہ اور طبع قوی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ یہ بھول جاتا تھا کہ اس دور کے مرد یہ نہیں کہتے تھے کہ ’’مرد کے دل کا راستہ تو معدہ سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔۔ان کو تو آج کے پکوانوں کی الف ب کی بھی خبر نہ تھی ۔۔۔۔ اس دور کے مرد اپنے ہاتھوں کام کرنے کو عار نہیں شان سمجھتے تھے۔
٭٭٭٭
’’بھابھی! یہ اسعد آپ کو ہوا ۔۔۔ بس آپ اپنی بہن سے اس کی رضاعت کروالیں ۔۔۔ تو پھرکوئی مسئلہ نہ رہے گا۔۔۔۔ ‘‘ چار ماہ کا اسعد اُم ہانی نے رفعت کی گود میں ڈال دیا ۔۔۔ آج دوسرا دن تھا ہسپتال سے گھر آئے ۔۔۔جمیلہ خاتون ۔۔۔ داوود صاحب اور ہاشف بھیا تینوں جو چپ چپ رفعت اور اُم ہانی سے نظریں چراتےپھرتے تھے کھِل اُٹھے۔ معافی تلافی کی ہمت کی اور دل صاف کیے گئے۔ اصل تو یہ ہے کہ رمضان دلوں اور دماغوں پر لگے تالے کھولنے اور جالے صاف کرنے کا مہینہ ہے یہ نہیں کہ بس اپنے من کی سب مرادیں ۔۔۔۔ زبان کی لذتیں اڑاتے جائیں ۔۔۔ دوسروں کو خاص کر گھر کی خواتین کو خدمت، خدمت کو راگ الاپ کر پیسے جائیں ۔۔۔۔ اللہ نے خدمت کو رضا کے ساتھ جوڑا ہے صبر کے ساتھ نہیں ۔۔۔۔ وہ خالق ہو کربندوں پر جبر نہیں کرتا تو پھر ہم بندے ہو کر اسی کے بندوں کو کیوں اتنا مجبور کردیتے ہیں کہ وہ پھر طوفان بن جائیں یا آتش فشاں!!!
’’اُم ہانی معاذ آیا ہے۔‘‘
’’ہانی مجھے معاف کردو ۔۔۔۔ میں بھول بیٹھا کہ میں مجازی خدا ہوں ۔۔۔۔ خدا تو نہیں ۔۔۔ مجھے یہ تو یاد رہا کہ ’’مجازی خدا‘‘ ہوں خدا والی صفات تو مجھے پتہ ہی نہیں تھیں یہ تو بھول ہی بیٹھا تھا کہ خدا تو بندوں پر مہربان ہوتا ہے ۔۔۔۔ خدا تو کتنا چاہتا ہے اپنے بندوں کو ۔۔۔۔ میں ’’سجدہ کرنا شوہر‘‘ کو کہتا رہا مگر یہ بھول بیٹھا کہ خدا تو وہ ہستی کہ اس کے پیدا کردہ بندے اس کی ذات کے انکاری ہیں سجدہ دور اللہ تو ان پر بھی مہربان رہتا ہے ۔۔۔۔۔ آخرت میں بھی ذرّہ برابر ایمان پر چھوٹ رکھ دی! ۔۔۔ میں نے الگ گھر کا انتظام کرنا ہے۔ اماں ابا سے کہہ آیا ہوں ۔۔۔۔ ان کے جواب کا منتظر ہوں۔۔۔۔!‘‘
٭٭٭
اور واقعہ یہ ہے کہ آگئی کے در کھلتے تو کوئی تو فوراً لپک کر اسے قبول کرلیتے جیسے ہاشف، جمیلہ داوود صاحب، معاذ علی (معاذ کا بڑا بھائی) نمیر ۔۔ اور بعض اپنے زعم میں رہے ۔۔۔۔۔ جیسے زبیدہ خاتون اور ان کی بیٹاں! مگر آگہی کے بعد ٹھوکر ہوتی ہے ۔۔۔۔ اور اب وہ آ لگی ۔۔۔۔ زبیدہ خاتون اور ان کی بیٹیوں کو ’’معاذ اور میں اکٹھا گھر دیکھ رہے ہیں ابا!‘‘ یہ نمیر تھا ’’بلکہ دیکھ چکے آج رات سامان اٹھالیں گے۔۔۔۔‘‘ میرے بیٹے جوان ہوچکے ابا! کل کو ان کی بیویاں لانی ہیں ۔۔۔آج کے بچے ہیں ۔۔۔۔ حمدہ کے ساتھ جو ہوا اصل ذمہ دار ہیں مگر میں نہیں چاہتا کہ حمدہ اماں جیسی بنے یا کوئی اور حمدہ میرے آنگن میں آئے ۔۔۔۔ گورنمنٹ کی طرف سے ملے گھر میں میں حمدہ اور بچوں سمیت منتقل ہورہا ہوں۔‘‘
٭٭٭٭
’’ارے روکیں علی کے ابا ۔۔۔۔ معاذ اور نمیر کو تو روکیںٍ! علی کا سمجھ آتا ہے مگر ان دونوں کو!‘‘
’’بس! ۔۔۔۔۔ یہ سمجھاتا آرہا تھا کہ مت اتنا بوجھ ڈالو بیٹیاں نہ مان پر سمجھ تو لو ۔۔۔اورجانتی ہو اسلام میں کیوں مشترکہ خاندانی نظام نہیں ۔۔۔۔ ایک تو پردےکی بنا پر دوسری اور سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ
’’اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر رہنے والے اکثر ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرجاتے ہیں!‘‘ (القرآن)
یعنی میں بڑی تو چھوٹی، وہ کم کماتا ہے، یہ کماؤ پوت! اس کا سسرال تو میرا گھر ۔۔۔بیٹی کو تو جانا اگلے گھر ۔۔۔ ارے بیٹی بھی تو سسرال جائے گی ۔۔۔ اس کے جانے پر سسرال کی سمجھ آنے لگتی ہے ۔۔۔ تو اپنے گھر کو بھی گھر بناؤ ناں پہلے ہی ۔۔۔ کیوں سسرال سسرال جتاتی ہو ۔۔۔۔ نہیں حوصلہ تو بیٹوں کو الگ رہنے دو ۔۔۔۔۔ تم اور حمنہ، حفصہ میری ذمہ داریاں ہو۔۔۔ حمنہ، حصفہ دو ماہ بعد رخصت ہوجانا ہے۔ مگر تم تو ہو ناں! جانے دو بیٹوں کو ۔۔ زندگی جینے بھی دو، برتنے بھی دو!‘‘ صبیح صاحب نے اخبار اٹھا لیا ۔۔
’’ناں یہ نہ کریں معاف کردیں ۔۔۔۔ اب بس آپ رہنمائی کیجیے گا ۔۔۔۔ علی کو علیحدہ ہونے دیں ۔۔۔پر معاذ اور نمیر کو روک لیں ۔۔۔۔ اب سے گھر کا اصول آپ بنائیں۔۔۔۔ میں ان سب کی ماں بنوں گی ۔۔۔۔ رمضان ویسا ہی گزاریں جیسا اللہ کی چاہت ہے ۔۔۔۔بس روک لیں۔۔۔۔!‘‘
سحر ۔۔۔ نوید حیات ہوتی ہے ۔۔۔اُم ہانی نے کھل کر چھت پر سانس لیا۔ آج سحری کی باری مردوں کی تھی ۔۔۔۔ رمضان سحر، افطار کے مینو بالکل سادہ کرکے صحت بخش غذاؤں کو رکھ کر صبیح صاحب نے سحر و افطار کے دن مقرر کردیے تھے ۔۔۔ مینو کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے مردوں عورتوں جس کی بھی باری ہوتی انہیں انتہائی کم وقت لگتا ۔۔۔۔ عورتیں تو حقیقتاً بیس پچیس منٹ بھی بمشکل لگاتیں کیونکہ 5 تھیں، زبیدہ خاتون، اُم ہانی، فروا، حمنہ اور حفصہ !۔۔۔۔۔
جی تو ۔۔۔۔ سب کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی ۔۔۔
اگر یہ خواب ہے تو چلو تعبیر کرکے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔!
یہ کہانی معاشرے سے لی ہے ۔۔۔۔ بس اینڈ شاید آپ کو ہضم نہ ہو مگر اینڈ بھی جو ہے معاشرے ہی سے لیا گیا تو ۔۔اب آپ ۔۔۔۔ بھی ۔۔۔ اس بار رمضان کو سب کے لیے رمضان بنا کر تو دیکھیں ورنہ ۔۔۔۔
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ۔۔۔۔ ہی رہ جاتا پھر!