یہ لڑکی آج سے بِیس دن قبل میری بہُو بن کر اس گھر میں آئی ۔ میرے بیٹے نے اِس کو ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا ہوا تھا ۔ مُجھ سے برداشت نہ ہوتا ۔ آخِر آج جب یہ کچن میں کام کر رہی تھی ، میں نے اِس کے کمرے میں جا کر چُپکے سے اپنے سونے کے زیورات اس کے پرس میں ڈال دیے ۔ اور پھر کچھ دیر ”زیور نہیں مل رہے“ کی گردان کرتی رہی ۔ جیسے ہی میرا بیٹا گھر میں داخل ہوا ، میں نے اُسے بھی یہی بات بتائی اور پھر فورًا اس کے کمرے میں جا کر اس کے سامنے ہی اِس لڑکی کا پرس کھولا۔۔۔

ساجدہ بتول
(دوسری قسط)

”ہُررررررا“ ایک دم آٹھ سالہ لڑکے نے نعرہ لگایا ۔ ”میرا ہوم ورک مکمل ہو گیا ۔ اب چاچو جلدی سے ہمیں چیز دلانے لے چلیں ۔ “
”بھائی وہ تو کل لے کے دینی ہے ۔ “ نوجوان مسکرایا ۔ ”جی نہیں ۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ آج کا وعدہ تھا ۔ “ لڑکے کے ساتھ وہ دونوں بچیاں بھی بول اٹھیں اور پھر وہ تینوں ہی اس کے قریب آ کر اچھلنے کودنے لگے ۔
مردُود کو ہجوم سے وحشت ہو رہی تھی، مگر اس نے طے کر لیا تھا کہ یہاں سے زمانہِ جاہلیّت جیسا کوئی کام کروا کے ہی رخصت ہو گا ۔ ۔۔ مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کچھ کرے تو کیسے کرے ؟؟ ادھر واکر والا بچہ رونے لگا ۔ اُسی وقت بیرونی دروازہ کھلا اور ایک عمر رسیدہ شخص اندر داخل ہوا ۔ نوجوان اس کی طرف متوجّہ ہو گیا ۔ بچے کے رونے پہ ایک جوان عورت کچن سے نکل آئی ۔ اسے دیکھتے ہی مردود کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ ”چار بچے ، ایک اماں ، ایک ابا ، ۔ اور یہ لڑکا شاید اس کا دیور ہے ۔ شوہر بھی یقینًا ساتھ ہی رہتا ہو گا ۔۔۔ یعنی یہ عورت کافی پابند قسم کی ہے ۔ سارا دن گھر والوں کی خدمتیں کرتی رہتی ہو گی ۔ ضرور چِڑچڑی ہو چکی ہو گی ۔ بس اسی پہ قسمت آزماتا ہُوں ۔ “ وہ خوش ہوتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔ جوان عورت بچے کو واکر سے نکال کر اس کا ڈائپر تبدیل کروانے کے لیے غسل خانے میں گھس گئی۔ ٭٭٭
”بھائی کچھ جلا نہ دینا ۔“ ادھیڑ عمر عورت نے رعب سے کہا ۔ ”چولہا بند ہے اماں! “ لڑکی نے غسلخانے سے ہی جواب دیا ۔ ”خاک بند ہے ۔ کل بھی دال جلا دی تھی ۔“ ساس نے غصے سے کہا ۔ ”اماں میرے چپس بنا دیں ۔ “ اچانک آٹھ سالہ بچے کو جیسے یاد آیا ۔ ”میں بھی کھاٶں گی ۔ “
”میں بھی ۔ “
دونوں بچیاں بھی شور مچانے لگیں ۔ ”توبہ ہے تم لوگوں سے ۔ فرمائشیں ہی ختم نہیں ہوتی تمہاری ۔ ابھی مجھے تم لوگوں کے یونیفارم بھی دھونا ہیں ۔ “ لڑکی نے ساس کا غصّہ بچوں پہ نکالا ۔
”یہ تو واقعی چڑچڑی ہے ۔ “ مردود خوشی کے مارے ناچنے لگا ۔ اب اسے منزل قریب دکھائی دے رہی تھی ۔ گندے نالے کی تہ والی گندگی کا سوچ کر ہی اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا ۔ ”بس ابھی یہاں فساد کھڑا ہونے ہی والا ہے ۔ “ اس نے سوچا اور پھر فساد کے لیے الفاظ کے تانے بانے بننے لگا ۔ ٭٭٭٭
”ایک ہمارا زمانہ تھا ۔ سب کام خیر خیریت سے ہو جاتے تھے ۔ مگر آج کل کی لڑکیوں سے تو کچھ سنبھلتا ہی نہیں ہے ۔“ ساس نے کہا ۔
”شاباش“ مردُود نے فورًا اس کی پیٹھ پہ تھپکی دی ۔
”بھئی ہماری مائیں بھی ساتھ ہاتھ بٹاتی تھیں ۔“ عمر رسیدہ شخص نے کہا ۔ ”آپ بھی بس دوسروں کی طرف داری کیا کریں ۔ “ ساس کا مُنہ پھول گیا ۔ مردود کو اب ساس پہ غصہ آ رہا تھا کہ وہ غصّے میں مزید کیوں کچھ نہیں کہہ رہی! اسی وقت ایک جوان شخص اندر داخل ہوا ۔ کم عُمر نوجوان اب اس کی طرف متوجّہ ہو گیا ۔ بچوں نے اب پورے صحن میں دھما چوکڑی مچا رکھی تھی ۔ لڑکی بچے کا ڈاٸپر تبدیل کروا کر اسے اٹھاٸے کچن میں داخل ہوٸی اور اس کا دودھ کا فیڈر تیار کرنے لگی ۔۔ اسے یونیفارم دھونے کی فکر کے ساتھ ساتھ اب روٹی پکانے کی فکر بھی ستانے لگی تھی ۔ ”اُف ابھی مچھلی بھی فرائی کرنا ہے ۔ “ اُس نے بوکھلاتے ہُوئے سوچا ”چار بچے ، شوہر ، وقت بے وقت آ دھمکنے والے نند اور دیور ۔ ساس اور سسر ۔۔ اِتنے لوگوں کو مَیں اکیلی پال رہی ہوں ۔ پھر بھی اگر ذرا سی کوئی اُونچ نیچ ہو جائے تو امّاں رائی کا پہاڑ بنا دیا کرتی ہیں ۔ “
”تُم جواب میں پہاڑوں کی لائن لگا دیا کرو ۔ “ مردُود نے آخر انگلی لگا ہی دی ۔ ”میرے شوہر میری گردن مروڑ دیں گے اگر میں نے ایسا کیا ۔ ابھی اچھائیاں کر کے ہی جان مصیبت میں اٹکی ہوئی ہے ۔ بُرائی کی تو پھر اللّٰہ ہی حافِظ ہے ۔“
”اُوئی “ مردوُد چیخ مار کر اس کے دماغ میں سے نکل گیا کیونکہ لڑکی نے بے ارادہ ہی سہی ، اللّٰہ کا نام جو لے دیا تھا ۔ “ اب وہ ایک طرف کھڑا حسرت سے پریشر ککر اور مسالے لگی مچھلی کو دیکھ رہا تھا ۔ اس نے تو انگلی لگا کر ہی تباہی مچنے کا خواب دیکھا تھا مگر یہاں دال گلتی نظر ہی نہ آ رہی تھی ۔۔۔ کیونکہ وہ کل جل گٸی تھی ۔ ”گھٹیا ترین کام ۔۔۔ گھٹیا ترین کام “ وہ چیف کے الفاظ کی گردان کرنے لگا ۔ ”آخر ایسا کون سا کام ہو اور کیسے سر زد ہو! یہ محتاط قسم کی لڑکیاں ایسا کوئی کام ہونے بھی دیں گی کیا!“
دھوئیں کی شکل میں سوالیہ نشان بنا، وہ بے بس ہو کر وہاں سے بھی نکل آیا ۔ بھوک کی وجہ سے اس کی اڑنے کی رفتار کم ہو گئی تھی ۔ اگرچہ وہ اپنی فطری تیز اڑان کی وجہ سے انتہائی تیز اڑتا تھا۔ اُسے کچھ معلوم نہ تھا کہ آنے والے وقت میں اس کی وجہ سے پورے ملک میں ایک نیا مسئلہ سوال بن کر کھڑا ہونے والا ہے اور لوگوں کے ذہن منتشر ہونے ہی والے ہیں ۔
کچھ دیر بعد وہ ایک اور گھر میں اُتر گیا ۔
سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی ۔ اُسے امّید کا اندھیرا نظر آ گیا تھا ۔ یہاں سب کچھ اُسے اپنے حق میں محسوس ہو رہا تھا ۔
ایک کونے میں ایک لڑکی فرش پہ سُکڑی سِمٹی بیٹھی تھی ۔ اس کے سامنے دو مرد اور تین عورتیں غصّے سے تنے کھڑے تھے ۔ اچانک مرد کی لات بلند ہوئی اور لڑکی کے پیٹ میں لگی ۔ ”تف ہے مجھ پر جو تمہیں بیاہ کر لایا ۔ تمہیں بیوی کہتے ہوئے مُجھے شرم آتی ہے ۔“ لڑکی کراہ کر پیچھے کو گر گئی ۔
اب وہ پانچوں اسے کوس رہے تھے ۔ اچانک اُن میں سے ایک عورت آگے بڑھی اور اُسے بالوں سے جکڑ کر سیدھی کرنے کے بعد اُس کے چہرے پہ پے در پے تھپڑ مارنے لگی ۔
”ہُوا کیا ہے ؟“ مردُود نے اُسی عورت سے پوچھا ۔
”یہ لڑکی آج سے بِیس دن قبل میری بہُو بن کر اس گھر میں آئی ۔ میرے بیٹے نے اِس کو ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا ہوا تھا ۔ مُجھ سے برداشت نہ ہوتا ۔ آخِر آج جب یہ کچن میں کام کر رہی تھی ، میں نے اِس کے کمرے میں جا کر چُپکے سے اپنے سونے کے زیورات اس کے پرس میں ڈال دیے ۔ اور پھر کچھ دیر ”زیور نہیں مل رہے“ کی گردان کرتی رہی ۔ جیسے ہی میرا بیٹا گھر میں داخل ہوا ، میں نے اُسے بھی یہی بات بتائی اور پھر فورًا اس کے کمرے میں جا کر اس کے سامنے ہی اِس لڑکی کا پرس کھولا ۔ میرے شوہر بھی یہ دیکھ رہے تھے ۔ بس پھر آنا فانا سارا گھرانہ اس کے خلاف ہو گیا ۔“ اُس عورت نے دل میں ہی جواب دیا ۔
”اب طلاق دِلواؤ گی کیا!“ مردُود کی آنکھوں میں چمک آ گئی ۔ ”نہیں نہیں ۔“ وہ عورت یکدم سہم گئی ۔ ”پہلے ہی بہت مشکل سے مِلی ہے ۔ میرا بیٹا نشئی ہے ۔ بس اِس لڑکی کو بدنام کرنا تھا جو کر لِیا ۔ اب یہ سب مُدّتوں اس کے خلاف رہیں گے ۔ “ "مگر اِس ڈرامے کو کُچھ تو آگے بڑھاٶ!“ مردُود نے اُنگلی لگائی ۔
”بڑھانا تو چاہیے مگر ڈر بھی لگتا ہے ۔ “ ”اچھا! مگر اِس کو کُچھ اور مار لگواؤ۔ “ وہ بھی مردُود تھا ۔ فسادی ساسوں کا پورا حامی ۔ اتنا سُنتے ہی عورت آگے بڑھی اور دو لاتیں لڑکی کے پیٹ میں رسید کیں ۔ پھر ایک مُکّہ تان کے اُس کی ناک پہ مارا ، جِس سے خون جاری ہو گیا اور لڑکی بے ہوش ہو کر گر گئی ۔ ”اوہو! یہ کیا ہُوا!“ سامنے کھڑے لوگوں میں موجُود ایک لڑکی نے کہا ۔ وہ عورت بھی گھبرا گئی ”پپ پانی لاؤ فورًا ۔ کہیں اِس کے ماں باپ نہ آ جائیں ۔“ ”امّاں آپ نے بھی حد کر دی ۔ اب اُس کے ماں باپ مقابلے پہ آ گٸے تو ہم کیا کریں گے!“ وہ لڑکی شاید اُس کی بیٹی تھی ۔
”ہاں ہاں اب ماں کو اِلزام دو ۔ اپنے بھائی کو کُچھ مت کہنا جِس نے اسے سر چڑھا رکھا تھا ۔ “ وہ عورت بولی ”تُم عورتیں خود فساد مچاتی ہو اور جب آگ لگ جائے تو اُس میں مردوں کو جھونک دیتی ہو ۔ “ دُوسرے مرد نے کہا جو یقینًا اِس گھر کا سربراہ تھا ۔
”ناں! اگر آپ لوگ اِنصاف کریں تو ہمیں کیا پڑی ہے کُچھ سخت کہنے کرنے کی!“ عورت نے ہاتھ نچائے ۔ مردُود نے خُوشی کے مارے دھمال ڈالنا شُروع کر دی ۔ آگ بڑھتی ہی جا ر ہی تھی ۔ اُدھر دُوسرا مرد جو یقینًا مار کھانے والی لڑکی کا شوہر تھا ، بھاگ کر گلاس میں پانی لایا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے چھینٹے بے ہوش لڑکی کے منہ پہ مارتا ، بیرونی دروازہ جو پہلے سے کھلا تھا ، ایک دھاڑ سے اُس کے دونوں پٹ وا ہُوئے اور ایک عورت اندر داخِل ہوئی ۔
اُن سب نے گھبرا کر اسے دیکھا ۔ یکدم وہ سب بوکھلا گئے تھے ۔ ”تُم نے میری بیٹی کو مارا!“ وہ عورت گرجی ۔ (جاری ہے)