’’میں مریم کا شوہر یوسف ہوں۔ آپ سے ملنے کی خاطر حاضر ہوا ہوں۔ سنا ہے آپ نے ہماری شریک حیات کا بہت خیال رکھا ہے اور اب آپ پر یہ نوبت آئی ہے کہ آپ کا خیال رکھا جائے تو ہم کیوں یہ موقع گنوائیں۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مادام؟ ‘‘ یوسف کا لہجہ شیرینی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کا حلیہ بادشاہوں کے جیسا تھا اور وہ مجھے پہلی ہی نظر میں پسند آیا تھا۔
تیسری قسط
ڈاکٹرماریہ اشفاق قریشی

کنارے پہ بیٹھ کر میں اپنی قسمت کو کوس رہی تھی اور ساتھ میں اس میکس کو بھی۔جبھی مجھے دور سے ایک سمندری جہاز نظر آیا، میں حیران تھی یہ جہاز یہاں کیوں آرہا ہے؟ ایسے جہاز تو صرف فلموں میں آتے ہیں، کیا یہ اصلی ہے یا باقی سارے میرے ساتھ گزرے قصوں کا کوئی حصہ؟ لیکن میں خوش تھی کوئی ادھر آیا تو تھا۔ میں نے اپنی کمر کے گرد لپیٹا سلور کلر کا بیلٹ کھول کر لہرایا اور وہی دہرایا ،جو سمندری جنگلات میں بھٹکے لوگ مدد مل جانے کے لیے کرتے ہیں۔ میری بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی میں کسی کی نظر میں نہ آسکی۔ شاید میں بہت دور تھی اس لیے۔ اکیلے مر کھپ جانے کا سوچ کر میں نے ایک جھرجھری لی اور دیوانہ وار سمندر میں بھاگتی گئی۔ جہاز اب اپنی سمت بدل رہا تھا یعنی واپس جارہا تھا۔ یہ بات سوچ کر کہ اگر یہ جہاز واپس چلا گیا تو میں ساری زندگی یہیں رہ جاؤں گی میں پاگلوں کی طرح ظالم سمندر کی گہرائی اور سفاک لہروں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگتی جارہی تھی۔ میرے پاؤں میں کچھ اٹکا تھا جس سے ٹکرا کر میں لڑکھڑائی تھی۔ پانی گہرا ہونے کی وجہ سے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور گر گئی اور گہرے پانی میں ڈوبتی چلی گئی۔ وہ آخری لہر جو مجھے اپنے اوپر سے گزرتے دکھائی دی تھی وہی میری قاتل ی۔ میری آنکھیں بند ہوتی گئیں۔ سورج کی تیز دھار روشنی اندھیرے میں بدلتی گئی اور میں ایک زندہ انسان سے لاش میں تبدیل ہوگئی۔ ٭٭٭٭
میرے چہرے پر پانی کے چھینٹے پڑے تھے اور مجھے میرے پیٹ پہ زور محسوس ہوا۔ مجھے لگا میرے منہ سے پانی کسی پھوارے کی طرح نکلا تھا۔ مجھے کھانسی آگئی کچھ ہی لمحوں بعد مجھے خود پہ جھکی ایک عورت نظر آئی وہ مجھے دیکھ کر چلائی تھی۔
’’یہ لڑکی زندہ ہے!!!‘‘
اس لڑکی کا جوش دیدنی تھا۔ اس نے مجھے سہارا دیا اور پنی گود میں لٹایا میں اس کے چہرے کو پہچاننے کی کوشش کررہی تھی لیکن یاد نہ آیا کہ وہ کون تھی۔ شکر تھا کہ میں زندہ تھی، لیکن اب کہاں تھی؟ کس کے ساتھ تھی؟ وہ سب دیکھ کر ایک بار پھر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔ میں کسی پرانے زمانے کے تاجروں کے جہاز کے عرشے پہ لیٹی تھی اور وہ جہاز کسی انجان دیس کا تھا۔ مجھے اس سے سروکار نہیں تھا کہ میں کہاں تھی مجھے بس یہ بات جاننی تھی کہ یہاں آنے سے پہلے میں اپنے گھر سے کیوں نکلی تھی۔ اس خوبصورت سی میری خیرخواہ نے میرے گال سے میرا آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں پر اٹھالیا۔
’’گھبراؤ نہیں میں مریم ہوں تمہاری ساتھی، تمہاری دوست!!‘‘ اس کا لہجہ ویسا ہی شفیق اور میٹھا تھا۔ وہ اب کافی بڑی اور خوبصورت ہوگئی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے ڈھارس سی محسوس ہوئی لیکن پھر اپنے نیوجرسی والے گھر کو یاد کرکے میرا دل بھر آیا۔
مریم نے مجھے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ میں بالکل ٹھیک تھی۔ کھڑے ہوتے ہی مجھے مریم کے زرق برق لباس اور جڑاؤ والے زیورات نظر آئے۔ کبھی ایک وقت تھا جب میں اس طرح کے زیورات اور ملبوسات زیب تن کرنا چاہتی تھی اور اسی کی طرح نظر آنا چاہتی تھی لیکن اب ۔۔۔۔۔۔
میں نے آس پاس نظر دوڑائی جہاز کافی مہینوں کی تجارت کے بعد لوٹا تھا اور کنارے پہ بسے ایک بہت بڑے شہر کی چوکھٹ پہ لنگرانداز ہوا تھا۔ لوگ اپنے سامان اپنی رکھوالی میں نوکروں سے اٹھوائے لے جارہے تھے یہ وہ تھے جن کی تجارت نے کم نفع دیا تھا باقی کئی لوگ خوشی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے جن کا یہ سفر منافع بخش رہا تھا۔ میں نے دیکھا میرے آس پاس کئی لڑکیاں اور لڑکے ہاتھ باندھ وہاں کسی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ مجھے اتنے سارے لوگ دیکھ کرکوفت ہوئی تھی لیکن اپنی خیرخواہ کا ہاتھ میں نے اپنے کندھرے پر محسوس کیا تو میں پرسکون ہوگئی۔ میں نے محسوس کیا تھا مریم کے علاوہ کوئی مجھ سے بات نہیں کررہا تھا۔ اگر میں کسی سے بات بھی کرنا چاہتی تو کوئی بھی جواب میں کچھ کہتا نہیں اور اپناسر جھکالیتا۔ میں عجیب سے ایک طلسماتی جہان کی باسی بن گئی تھی۔ برتنوں کے ٹکرانے سے میری آنکھ کھلی تھی۔ میں نے خود کو ایک سادہ لیکن آرام دہ کمرے میں پلنگ پہ لیٹے پایا۔ کمرے میں سامنے ہی مریم کھڑی تھی۔ اس کے ساتھ ایک خوبرو نوجوان مرد کھڑا تھا میں نے اس کی جانب آنکھیں چندھیا کے دیکھا تو اس نے سر کو خم دے کر مجھے سلام کیا۔
’’میں مریم کا شوہر یوسف ہوں۔ آپ سے ملنے کی خاطر حاضر ہوا ہوں۔ سنا ہے آپ نے ہماری شریک حیات کا بہت خیال رکھا ہے اور اب آپ پر یہ نوبت آئی ہے کہ آپ کا خیال رکھا جائے تو ہم کیوں یہ موقع گنوائیں۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مادام؟ ‘‘ یوسف کا لہجہ شیرینی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کا حلیہ بادشاہوں کے جیسا تھا اور وہ مجھے پہلی ہی نظر میں پسند آیا تھا۔
’’جی شکریہ آپ کی آمد کا۔‘‘ مجھ سے اتنا ہی بولا گیا۔ وہ جانے کے لیے مڑا تھا۔
’’دوبارہ ملنے آئیے گا!‘‘ میری زبان سے پھسلا تھا۔ یوسف بس مسکرایا اور چلا گیا۔ ایک خوبصورت سی نوکرانی نے میرے ہاتھ منہ دھلوائے اور اب مریم میرے پلنگ کے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے کھانے کے لقمے بنا بنا کر میرے منہ میں ڈال رہی تھی۔ اور مجھے اس کھانے سے وہی خوشبو آرہی تھی جو میری ماں کے چیز آملیٹ سے آتی تھی۔ ماں کو یاد کرکے مجھے رونا آیا تھا اور میری بھوک مر گئی تھی۔ اب ایک بھی نوالہ میرے حلق سے نیچےاترنےکو تیار نہیں تھا سو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا اور اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا وہ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔
’’اچھا میں چلتی ہوں شام کو تیار رہنا ہم بازار جائیں گے اور تمہارے کاروبار کے لیے سامان لائیں گے۔ تمہیں مصوری کرنی آتی ہے نا؟ آج کل لوگوں کو اپنی تصویریں بنوانے کا بہت شوق ہے۔ یوسف بھی چاہتا ہے کہ وہ اپنی ایک تصویر بنوائے جو شہر کے بیچوں بیچ لگائی جائے اور شہر بھر کے لوگوں کو دکھائی جائے تاکہ لوگ جان سکیں یوسف کتنا خوبصورت ہے اور جب تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو یوسف کوئی انجان کردار نہ رہے۔۔۔۔‘‘ وہ بڑے پیار سے کہے جارہی تھی اور میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ میں کب سے مصور بن گئی۔ ’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ مجھے اس کے جملے سمجھ نہیں آئے تھے۔
’’کچھ نہیں بعد میں سمجھ آجائے گی۔‘‘ وہ شاید کوئی مبہم سا جملہ کہہ گئی جس کا مطلب سمجھتے ہوئے میرے سر میں درد شروع ہوگیا۔
٭٭٭٭ شام ہوچکی تھی مریم اپنے ساتھ بازار لے آئی تھی۔ یوسف بھی ہمارے ساتھ تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مریم کے نوکر اور کنیزیں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بازار کی رونق اور ہمارے آج کل کے بازاروں سے بالکل مختلف تھی یہاں بھگدڑ اور شور بالکل بھی نہیں تھا۔ بازار میں جگہ جگہ مختلف اشیاء کے ڈھیر لگے تھے کہیں دکانوں کے باہر جاذب نظر اشیاء رکھی تھیں تو کہیں کوئی سامان کندھے پہ اٹھائے بازار میں گھوم کر بیچ رہا تھا۔ پورے بازار کو چھوڑ کر میری نظر یوسف پر ہی ٹکی تھی۔ کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے سوچا تھا۔ یوسف ہمارے ساتھ ہی تھوڑے فاصلے پر چل رہا تھا۔ میں یوسف کو دیکھ رہی تھی وہ مجھے دیکھتا اور مسکراتا جاتا۔ ہمارے درمیان چلتی مریم نے ایک بار بھی ہماری حرکت پہ ہمیں روکا یا ٹوکا نہیں تھا۔ میں حیران تھی یہ کیسی بیوی ہے؟ میں بھی اپنی حرکت سے باز نہیں آرہی تھی کیا کرتی اپنے دل سے مجبور جو تھی۔
تھوڑا آگے چلتے ہم ایک کتاب فروش کے پاس رکے تھے۔ کتب فروش نے ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک چیزیں دکھائیں۔ اس نے ہمیں اعلیٰ سے اعلیٰ کاغذ دکھائے۔ وہ دونوں میری رضامندی کے منتظر تھے۔ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے میں نے بس سر کر کو ہاں میں خم دیا، مجھے نہیں پتہ میں نے اتنا اعلیٰ کاغذ کیسے پسند کیا۔ ہم نے کچھ اور ضروری چیزیں بھی خریدیں اور گھر کی راہ لی۔ ٭٭٭
ہم رات گھر پہنچ گئے تھے۔ اس شہر میں گھروں کا نظام لوگوں کی محنت پر منحصر تھا۔ جتنا محنتی مالک اتنا اونچا گھر اس طرح مریم کا گھر بھی ایک درمیانے امیر گھر جیسا تھا لیکن ان سب گھروں میں بلکہ پورے شہر میں کوئی شاہی نظام نہیں تھا۔ یہاں لوگ اپنا کام خود کرتے تھے یا معاوضے پر نوکر رکھتے تھے جو اپنا کام پورا ہوتے ہی گھروں کو نکل جاتے یا پھر گھروں میں ان کے رہنے کے کمرے ہوتے جہاں وہ دن و رات گزارتے۔ سارا نظام آج کل کی دنیا کی طرح ہی تھا۔
میں حیران تھی میں جس نے کبھی کوئی پورٹریٹ تو کیا کوئی بچکانہ پینٹنگ بھی بنانے کی جرأت نہیں کی تھی ایک اجنبی شہر اور اجنبی دور میں کسی جانے پہچانے سے لگتے اجنبی کی تصویر بنانے والی تھی وہ بھی ویسی جیسا وہ تھا۔ مریم نے مجھے یوسف کے کمرے میں بٹھایا۔ یوسف شاید میرا ہی انتظار کررہا تھا۔ کاغذ قلم اور رنگ میرے سامنے اپنا منہ چڑا رہے تھے لیکن مجھے یوسف اور مریم کے لیے یہ سب کرنا تھا۔ سو بنا کچھ سوچے میں نے پہلی لکیر اس کی آنکھ بنانے کے لیے کھینچی۔ مجھے اس کی آنکھیں نہیں بنانی تھیں مجھے ان آنکھوں میں چھپی وہ اپنائیت چھاپنی تھی جو مجھے اس کو دیکھ کر محسوس ہوئی تھی۔
میرے ہاتھ میں قلم خودبخود چلتا گیا۔ ایک تصویر جو کسی نے پہلی بار بنائی تھی اپنے سارے رنگ لیے سراہے جانے کے لیے تیار تھی۔ مریم تصویر کو دیکھ کر دنگ تھی۔ یوسف کے ایک نوکر نے معاوضہ ادا کیا۔ یوسف نے تصویر دیکھی اور شانِ بے نیازی سے کمرے سے نکل گیا اور میرا دل وہیں ڈوب گیا۔ اس کے چہرے پہ اس وقت وہ اجنبیت تھی جو شاید کسی کو پہلی بار ملنے پر نظر آتی ہے۔ یوسف نے ابھی دروازہ پار ہی کیا تھا کہ میں نے اسے پکارا۔ ’’یوسف ! واپس آؤ، مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔‘‘
یوسف مڑا اور پھر واپس اندر آگیا اور میرے عین سامنے کھڑا ہو کر گویا ہوا۔ ’’میں تمہیں کیوں چھوڑنے لگا بھلا۔۔۔۔۔؟‘‘ اس کی آواز میں پھر سے وہی مٹھاس تھی اس کے مسکرانے کے ساتھ مریم بھی مسکرائی، میں پھر بھی مسکرا نہ سکی۔
’’مریم! مجھے سمجھ نہیں آرہا تم اتنی لاپرواہکیسے ہوسکتی ہو؟‘‘ میں نے جان کر جملہ مخفی رکھا۔ مریم نے میری طرف مسکرا کے دیکھا اور کہا۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ یوسف مریم کا ہے۔‘‘ وہ میرے کہنے کا مقصد سمجھ گئی تھی۔(جاری ہے)