کافی سوچ بچار کے بعد اور گھریلو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، فہمیدہ بیگم نے نام نہاد عزت کو ایک جانب رکھ کر، لوگوں کے گھروں میں جا کر کھانا پکانے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دو چار جاننے والیوں کو کہہ دیا کہ اگر آپ کو یا آپ کے جاننے والوں میں سے کسی کو کھانا پکانے والی عورت کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا ۔۔۔۔۔۔۔
شمائلہ شکیل
(پہلی قسط)

"تم آج پھر بغیر ناشتا کیے کالج گئی تھیں۔ حالت دیکھی ہے اپنی ۔۔۔۔۔۔۔۔" فہمیدہ بیگم نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ ے۔ "امی !آپ کو پتا ہے نا مجھے پراٹھا بنانا نہیں آتا۔" صائمہ نے بھی گویا ماں کو ہی قصور وار ٹھہرایا۔ ہڈیوں کا ڈھانچا بنی، چالیس سالہ، خوبصورت نین نقش کی حامل، صاف ستھری رنگت والی فہمیدہ بیگم بائیس سال کی عمر میں بیاہ کر نثار صاحب کی زندگی میں داخل ہوئیں۔ ہر لڑکی کی طرح ان کی آنکھوں نے بھی مستقبل کے حسین خواب سجا رکھے تھے۔ فہمیدہ بیگم ایک پڑھی لکھی، سلجھی ہوئی اور سمجھدار خاتون واقع ہوئیں۔
نثار صاحب لمبے قد اور واجبی شکل و صورت کے مالک تھے۔ روزگار کے نام پر ایک چھوٹی سی کنفیکشنری کی دکان چلاتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ دکان ختم کرکے، چھوٹا موٹا رنگ کا کام کرنے لگے، جو کبھی مل جاتا اور کبھی کئی کئی دن تک فراغت ہی ہوتی۔ گزر اوقات میں شروع سے ہی تنگی کا سامنا تھا۔ گھر کرائے کا تھا، جو آج تک ہے۔
امی!!! ۔۔۔ امی!!! ۔۔۔۔۔۔بھابھی! امی کہاں ہیں؟" زین ماں کو پکارتا ہوا لاؤنج میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ سامنے نورین کو دیکھ کر اسی سے پوچھنے لگا۔
"امی اپنے کمرے میں ہیں۔" نورین صوفوں کے کشن ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔ "آگیا میرا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔" زکیہ بیگم باتوں کی آوازیں سن کر لاؤنج میں ہی چلی آئیں۔ "امی! آپ کے لیے خوشخبری ہے۔ حج پر جانے والوں کی فہرست میں آپ کا اور بابا کا نام آگیا ہے۔ "یا اللہ! تیرا شکر ہے۔ تو نے یہ دن دیکھنا نصیب فرمایا۔" زکیہ بیگم گلوگیر لہجے میں اپنے رب سے مخاطب ہوئیں۔ یہ منظر ہے۔ نجیب صاحب کے گھر کا، جو دو مہینے پہلے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی عمارہ کی شادی کے فریضے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا کبیر ہے۔ تین سال پہلے اس کی شادی نورین سے ہوئی، اب وہ ایک پیاری سی دوسالہ بچی کے ماں باپ ہیں۔ دوسرے نمبر پر ستائیس سالہ زین ہے۔ انتہائی ذمہ دار اور فرماں بردار۔ یہ تینوں بچے نجیب صاحب اور زکیہ بیگم کی کل کائنات ہیں۔
"امی ! فیس دے دیں۔ میم نے لاسٹ وارننگ دی ہے کہ" دس دن کے اندر گزشتہ تین ماہ کی فیس جمع کروا دیں، ورنہ ایڈمیشن کینسل کردیا جائے گا۔" علی نے اسکول جانے سے پہلے ماں کو اطلاع دی۔ "ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔۔کرتی ہوں کچھ، لیکن اتنے پیسے آئیں گے کہاں سے؟" فہمیدہ بیگم نے گہرا سانس لیا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں، ساتھ ہی جلدی جلدی ناشتا بھی بنا رہی تھیں۔ " آپی پر اٹھا لادیں۔۔۔" علی نے صائمہ سے کہا۔ جو لیٹ ہو جانے کی وجہ سے جلدی جلدی ناشتا ختم کرنے کے چکر میں تھی۔
" کوئی کام خود بھی کر لیا کرو۔۔۔۔۔"صائمہ نے تنک کرجواب دیا۔ "صائمہ! کیوں ہر وقت انگارے چباتی رہتی ہو"فہمیدہ بیگم جو علی کے لیے پراٹھا لیے چلی آ رہی تھیں، صائمہ کی بات سن کر بولیں۔
"کنزیٰ! جلدی آ جاؤ ورنہ میں اور علی تمہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے، پھر اکیلی کالج جانا۔"صائمہ نے فلیٹ کی سیڑھی پر رک کر بہن کو آواز لگائی۔ علی پہلے ہی نیچے جا کر دونوں کا انتظار کر رہا تھا ۔ "ہاں چلو۔۔۔۔۔"کنزہ نے گھر سے نکلتے ہوئے کہا۔ نثار صاحب تو بچوں سے پہلے ہی کام کے لیے نکل چکے تھے۔ اور جاتے ہوئے حسب معمول دو سو روپے ٹی وی کے اوپر رکھ کر گئے تھے۔ انہی پیسوں میں فہمیدہ بیگم کو گھر کا خرچ چلانا ہوتا تھا۔ کچھ مہینے پہلے تک تو فہمیدہ بیگم گھر گھر جاکر انڈر گارمنٹس اور کپڑے فروخت کرکے گزربسرکرنے میں شوہر کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھیں۔ یہ کام انہوں نے کئی سال تک کیا۔ لیکن شوہر کی کم آمدن اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے کپڑوں کے بزنس سے آنے والے تمام پیسے گھر میں خرچ ہوتے رہے۔ اور کپڑے کا جو تھوڑا بہت کام تھا، وہ بھی ختم ہوگیا، کیوں کہ نیا کپڑا خریدنے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ آج تو فہمیدہ بیگم کو علی کی فیس کا بندوبست بھی کرنا تھا۔ فہمیدہ بیگم اور نثار صاحب کے تین بچے ہیں۔ بڑی بیٹی "صائمہ" جو گوری رنگت، بڑی بڑی آنکھوں، تیکھی ناک اور باریک ہونٹوں والی، درمیانے قد کی دبلی پتلی، نازک سی لڑکی ہے۔ بڑی ہونے کی وجہ سے گھر کے حالات سے زیادہ متاثر بھی وہی ہوئی ہے۔ اکثر اپنے حالات سے شاکی نظر آتی ہے۔ دوسری بیٹی "کنزیٰ" صائمہ سے ایک سال چھوٹی ہے۔ اس کا قد لمبا اور جسم بھرا بھرا سا ہے۔ سانولی مگر پرکشش رنگت کی مالک ہے۔ یہ صائمہ کے مقابلے میں خوش مزاج اور ہنس مکھ ہے۔
کنزیٰ سے چار سال چھوٹا "علی" ہے۔ جو آٹھویں کلاس کا ایک لائق اسٹوڈنٹ ہے۔ اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار، ماں کا سب سے زیادہ خیال بھی یہی رکھتا ہے۔ اور گھر کے کاموں میں ان کا ہاتھ بھی بٹا دیتا ہے۔ آج کل فیس کے لیے پریشان ہے۔ صائمہ اور کنزیٰ کالج سے آنے کے بعد شام کے وقت گھر میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔ اور کافی حد تک اپنا خرچہ خود اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
گھر میں ہر طرف گہما گہمی نظر آرہی ہے۔ نورین کچن میں مصروف ہے۔ عمارہ بھی کل رات سے میکے آئی ہوئی ہے، وہ نجیب صاحب اور ذکیہ بیگم کی پیکنگ کرنے کے ساتھ ساتھ بھتیجی "کائنات" کو بھی سنبھال رہی ہے۔ زین اور کبیر بھی آج گھر پر ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
"ہائے! ہماری چھوٹی سی بھتیجی سے "ظالم پھوپھو" کام کروا رہی ہیں۔" زین رقیہ بیگم کے کمرے میں داخل ہو کر سامان بکھیرتی کائنات کو گود میں اٹھا تے ہوئے عمارہ کو چھیڑنے لگا۔ زین کی بات سن کر عمارہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ اور بولی "میں جو سامان پیک کرتی ہوں مہارانی صاحبہ اسے بکھیرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔"
"واہ!!! جنگلی بلی! نعیم بھائی کے ساتھ رہ کر تم تو خاصی خوش اخلاق ہو گئی ہو۔" زین نے عمارہ کو چڑتے نہ دیکھ کر پھر سلگانے کی کوشش کی۔ "نکلیں کمرے سے۔۔۔۔۔۔۔ آپ نہیں سدھریں گے۔" عمارہ نے زین کو دروازے کی طرف دھکا دیتے ہوئے غصے سے کہا۔ زین اپنی کامیابی پر ہنستا ہوا کائنات کو اٹھائے کمرے سے باہر نکل گیا۔ نجیب صاحب اور ذکیہ بیگم کی آج رات کی فلائٹ ہے۔ آج انہوں نے حج کے لیے روانہ ہونا ہے۔
اتوار کا دن ہے۔ سب لوگ آج گھر پر ہی موجود ہیں۔ نثار صاحب خبریں دیکھ رہے ہیں۔ فہمیدہ بیگم کچن میں ان کے لئے ناشتا بنانے میں مصروف ہیں۔صائمہ اور کنزیٰ چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لمبی تانے سو رہی ہیں۔ "ناشتاکر لیں" فہمیدہ بیگم نے شوہر کے سامنے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا نثار صاحب بنا کچھ بولے ناشتا کرنے لگے۔
"آپ کو معلوم ہے نا تین ماہ سے علی کی اسکول کی فیس ادا نہیں کی گئی، اگر آپ کے پاس پیسے ہوں تو دے دیں۔ کل فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔ اب تو علی بھی کہہ رہا ہےکہ "اگر کل فیس جمع نہیں کروائی تو میں اسکول نہیں جاؤں گا۔"فہمیدہ بیگم نے تمام صورتحال نثار صاحب کے گوش گزار کی۔
نثار صاحب نے سکون سے ناشتا ختم کر کے برتن سائیڈ پر کیے، اور جیب سے دو سو روپے نکال کر فہمیدہ بیگم کے ہاتھ میں تھما کر بولے، کہ میرے پاس بس یہی پیسے ہیں۔
"فائنل ایگزامز میں صرف تین مہینے باقی ہیں، اگر اسکول نہیں جائے گا تو پیپر کیسے دے گا" فہمیدہ بیگم فکرمندی سے گویا ہوئیں۔
" فیس دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں، تو گورنمنٹ اسکول میں ڈال دو۔ میں نے نہیں کہا تھا، کہ اتنے مہنگے اسکول میں پڑھاؤ۔ یہ تمہارا شوق تھا۔ اب مجھ سے کوئی امید مت رکھنا۔" نثار صاحب نے غصے سے چلاتے ہوئے صاف ہری جھنڈی دکھائی اور گھر سے باہر نکل گئے۔
فہمیدہ بیگم نے شروع سے ہی بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ اچھے اسکول میں تعلیم ہی ان کی پہلی ترجیح رہی۔ وہ چاہتی تھیں، کہ ان کے بچے اعلی تعلیم حاصل کرکے اچھی زندگی گزاریں۔ اس خواہش کی تکمیل کے کٹھن سفر میں بدقسمتی سے وہ تنہا محو سفر تھیں۔ اور خود کما کر بچوں کے تمام تعلیمی اخراجات پورے کرتی رہیں۔ اولاد میں سے بھی صرف بیٹے کو ہی ماں کی ان قربانیوں کی قدر تھی۔
گیارہ بجے کے قریب صائمہ اور کنزیٰ نیند سے جاگیں۔ "امی آج دوپہر کے کھانے میں آپ کیا بنائیں گی؟" صائمہ نے بالوں کو کیچر لگاتے ہوئے ماں سے پوچھا۔
"کم ازکم اتوار کو تو تم لوگ کھانا پکا لیا کرو، کب تک ماں پکا پکا کر کھلا تی رہے گی، تم لوگ بھی تو کھانا بنانا سیکھو ۔۔۔۔اگلے گھر بھی جانا ہے۔ وہاں کوئی بستر پر بٹھا کر نہیں کھلائے گا ۔"فہمیدہ بیگم نے بیٹیوں کو لتاڑا "نہاری یا بریانی بنانا سیکھوں گی میں تو۔۔۔۔۔۔ جب سامان ہی نہیں لا کردینا تو میں کیا بناؤں؟" صائمہ نے ہر بار کا دیا ہوا جواب دہرایا۔
"دو سو روپے دے کر گئے ہیں تمہارے "ابا حضور"اس میں بریانی، نہاری نہیں بن سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔کچن میں بینگن لا کر رکھے ہیں میں نے ابھی ، وہ بنا لو یا پھر دال چاول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"یہ دال سبزی مجھ سے نہیں بنتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آپ خود ہی بنالیں۔" صائمہ نے واضح الفاظ میں ماں کو جواب دیا۔ اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔
"ا می! فیس کا کچھ بندوبست ہوا ؟" علی نے امید اور نا امیدی لیے سوال کیا۔ " بیٹا ایک، دو جاننے والیوں سے ادھار کا کہا تھا، لیکن وہاں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ تمہارے بابا کے پاس بھی پیسے نہیں ہیں۔ کچھ پرانی کسٹمرز کی طرف دس ہزار تک کی رقم رہتی ہے، ان کے ہاں گئی تھی، انہوں نے بھی کہہ دیا کہ ابھی تو نہیں ہیں، جب ہوں گے تو دے دیں گی۔"
"صائمہ آپی اور کنزیٰ آپی سے پوچھا؟ شاید ان کے پاس ہوں!!!" علی نے اک آس سے کہا۔ " یہ بھی کر کے دیکھ لیتی ہوں۔" یہ کہہ کر فہمیدہ بیگم کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ "کنزیٰ تمہارے اور صائمہ کے پاس کچھ سیونگ ہے تو دے دو بیٹا، علی کی فیس جمع کروانی ہے۔"فہمیدہ بیگم نے بیٹی کے پاس کھڑے ہوکر کہا۔
"نہیں امی!! پیسے تو نہیں ہیں۔" کنزیٰ نے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔ " امی! آپ کو یاد نہیں ابھی کچھ دن پہلے ہی تو میں نے اور کنزیٰ نے شاپنگ کی ہے۔ جو پیسے تھے وہ اس میں خرچ ہوگئے۔" چارپائی پر نیم دراز صائمہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
اور اگلے دن سے علی نے یہ کہہ کر اسکول جانے سے منع کردیا کہ "جب تک آپ لوگ میری تمام فیس کلیئر نہیں کر دیتے میں اسکول نہیں جاؤں گا۔"
پھر کافی سوچ بچار کے بعد اور گھریلو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، فہمیدہ بیگم نے نام نہاد عزت کو ایک جانب رکھ کر، لوگوں کے گھروں میں جا کر کھانا پکانے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دو چار جاننے والیوں کو کہہ دیا کہ اگر آپ کو یا آپ کے جاننے والوں میں سے کسی کو کھانا پکانے والی عورت کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا ۔۔۔۔۔۔۔چند دنوں میں ہی ان کو دو گھروں میں دوپہر کا کھانا پکانے کا کام مل گیا۔
ذکیہ بیگم اور نجیب صاحب حج کا مبارک فریضہ ادا کرکے آج صبح چار بجے کی فلائٹ سے کراچی ایئرپورٹ پر پہنچے۔ ان کو لینے کے لیے زین اور کبیر دونوں بھائی گئے تھے۔ نورین اور عمارہ گھر پر ہی ان کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ صبح نو بجے تک زین اور کبیر بھی والدین کو لے کر گھر پہنچ گئے۔ نورین اور عمارہ نے گھر میں داخل ہوتے والدین پر گلاب کی پتیاں برسا کر ان کا استقبال کیا۔ "السلام علیکم! امی!، ابو! آپ دونوں کو حج مبارک ہو" نورین اور عمارہ نے باری باری نجیب صاحب اور ذکیہ بیگم سے ملتے ہوئے کہا۔
"ارے!! ماشاءاللہ بھئی!! خوب تیاری کی ہے ہمارے بچوں نے ہمارے استقبال کی۔" نجیب صاحب نے لاؤنج کے فرش پر گلاب کی پتیوں سے بنے خوبصورت "دل" اور دیوار پر "حج مبارک" کے جگ مگ کرتے الفاظ دیکھ کر کہا۔ "امی آپ لوگ تازہ دم ہو جائیں، اتنے میں ہم ناشتا لگاتے ہیں۔" عمارہ نے ماں سے لپٹتے ہوئے کہا۔ "ہاں! بیٹا! ہم لوگ بہت تھک چکے ہیں۔ ناشتا کر کے آرام کریں گے، پھر شام کوملنے والے بھی آنا شروع ہو جائیں گے۔" نجیب صاحب نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ (جاری ہے)