نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں
اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا
میں باہر جاؤں کس کے لیے

عظمی ظفر کراچی

سرور اداس بلبل کی شکل لیے چارپائی پر لیٹا غزل کے شعر گنگناتے ہوئے سوچ میں گم تھا کہ اچانک فردوس خالہ نے بنا دروازہ کھٹکھٹائے انٹری ماری۔
وے سرور،،، کوئی شرم حیا ہے تجھ میں کہ نہیں؟ خالہ نے توپوں کا رخ اس کی طرف کردیا کیونکہ فرید تو پکی نوکری لگ جانے کی وجہ سے شہر کا ہو کر رہ گیا تھا۔
سرور اس اچانک افتاد سے چونک کر سیدھا ہو کر بیٹھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا:
اللہ !!!! فردوس خالہ آپ نے تو میری جان ہی نکال دینی تھی۔
شاباش ہے پتر! خالہ کو سوکھے منہ پوچھنے بھی نہیں آتے۔
ماں تیری بیٹی کے پاس جاکر بیٹھ گئی، فردوس بھی دور چلا گیا. تیری ماں ہوتی ہے تو چند گھڑی دل کی باتیں کرکے ٹیییم تو گزر جاتا تھا ۔
اب کیا دیواروں سے بولوں؟ فردوس خالہ روہانسی ہوگئی بیسٹ فرینڈ کو یاد کرکے۔
سرور تو ان کی چند گھڑی باتوں کے جھوٹ پر ہی حیرت میں ڈوبا ہوا تھا. پورے پنڈ کے بارے میں امی سے گفت وشنید کرنے کے بعد بھی خالہ کو بس کرانا مشکل ہوتا تھا اور ایک فردوس خالہ ہی تو تھیں جن کے آگے امی بھی ہار مان لیتی تھیں۔ (اور وہ کہہ رہی ہیں کہ چند گھڑی،،،)
سرور کے دل کی دھڑکنیں جب موٹر وے پر فل اسپیڈ سے دوڑتے ہوئے واپس آئیں تو اس نے سکون کا سانس لیا ۔ امی کو تو میں بھی بہت یاد کر رہا ہوں خالہ! فردوس نے بھی شہر جاکر پلٹ کر پوچھا نہیں. جب فون کرو تو کہتا ہے۔ مصروف ہوں آرڈر تیار کرنا ہے ۔
*آرڈرنہ ہوگیا، کالا باغ ہوگیا، جو بن کر نہیں دیتا.* سرور نے بھی اپنے بیسٹ فرینڈ کو یاد کرکے ٹھنڈی آہ بھری۔
میں تیرے پاس اس لیے آئی تھی سرور کہ میری منجی ڈھیلی ہوگئی ہے. پتر اس کی رسیاں کس دے آکر، سچ میں جھولا بن گئی ہے. فردوس خالہ نے اپنا دکھڑا اور آنے کا مقصد بیان کیا. ورنہ جب سے امی گئی تھیں ایک جھانکی بھی نا ماری تھیں انھوں نے ۔ پہلے ایک دفعہ ان کی منجی کو کس کس کر سرور کے ہاتھ میں گٹے پڑھ گئے تھے. ان کی پھر یہ فرمائش سن کر سرور کو تو جیسے دن میں تارے نظر آگئے ۔
ایک بات بولوں خالہ! اب آپ اس منجی کو تندور میں ڈال کر روٹیاں بنا لینا. آئے دن اس کی رسیاں ڈھیلی ہو جاتی ہیں. سرور نے انھیں مطلبی سیاستدان کی طرح مخلصانہ مشورہ دیا ۔
ائے ہائے پتر! میں کیوں آگ لگاؤں؟ میرے جہیز کی چارپائی ہے ۔
فردوس خالہ کو یہ مشورہ ایک آنکھ نہ بھایا ۔
*بھئی یہ میرے جہیز میں آئی تھی اور اب،،،*
*(اور آپ کا جنازہ اس پر نکلے گا)*
سرور نے منہ پر آتے آتے محاورے کو بڑی مشکل سے روکا. ورنہ آج فردوس خالا سے پٹنے سے کون بچانے آتا۔ اور اب میرے پوتے اچھل کود کر توڑ دیں تو اور بات ہے۔ فردوس خالہ نے اپنی بات مکمل کی ۔
*کرلو گل خالہ جی! یہ تو آپ نے جاتی امرا کے تعمیراتی کاموں جیسی بات کردی. نا وہ مکمل ہوں گے نا فردوس کے سہرے کے پھول کھلیں گے ۔*
نا پتر! ایسی گل نہ منہ سے نکال. خیر سے جلدی شادی کروں گی. میں ان ماؤں جیسی نہیں جو پہلے پتر کی کمائی کھا کھا کر اسے بڈھا کر دیں، پھر بہو لائیں. مولا کریم سب کو روزی دیتا ہے، کمائی کا لالچ کوئی نئیں مینوں۔ فردوس خالا کے منہ سے ایسی مثبت باتیں سن کر سرور کو غشی کے دورے پڑنے والے تھے۔
یہ بتائیں کھانے میں کیا پکایا ہے؟ دیوار کے پار سے بڑی اچھی خوشبو آرہی ہے قورمے کی. سرور نے ندیدے پن سے پوچھا۔
توبہ توبہ تیری ناک بھی نا سرور، جگا کھوجی کا جانشین بنے گا تو. خالہ جی نے سرور کے کان کھینچے۔ چل تجھے کھلاتی ہوں پھر میری منجی کو بھی دیکھ لینا ۔
سرور کو قورمے کی خوشی میں یہ سودا مہنگا نہیں لگا. اس نے دروازے کو تالا لگایا اور بھوکے عوام کی طرح ان کے پیچھے چل پڑا۔
سرور کے جاتے ہی امی جی کی سواری بنا بتائے چنگ چی رکشے کی شکل میں آن پہنچی جو انھوں نے لاری اڈے سے ہی لی تھی ۔
*سرور پتر! سرور،،،،، وے سرور ،،،،* امی جی نے ایک ہی سانس میں آوازیں دے ڈالیں. سرور جس نے ابھی قورمے کے پیالے میں چھپی بوٹی کو بمشکل دریافت کیا تھا، امی جی کی آواز بآسانی سنی، *امی آگئیں!!* اس نے جھٹ اس قورمے نامی سالن کا ڈونگا اٹھایا اور سلام خالہ کرتے ہوئے باہر کی طرف بھاگا۔
امی جی جب تک دوسری چابی سے تالا کھول کر اندر جاچکی تھیں. چنگ چی والے نے سامان اتار کر اندر رکھا اور دانت نکالے کھڑا ہوگیا ۔
*او،، خالہ جی کرایہ تو دے دو. مینوں دو اسٹاپ کا بول کر پورے پنڈ دا چکر لگا لیا ۔ او شاباش ہے وئی شاباش۔۔۔*
شاباش ہے وئی شاباش ،،،، امی جی نے بھی اس کے انداز میں بولتے ہوئے کھلے پیسے اسے تھمائے ۔ *جنی خراب تیری چنگ چی تھی نا پتر! اس تو چنگا تے ساڈا پی آئی اے دا جہاز ہے. بند تو نا نا ہوتا رستے وچ گھڑی گھڑی،،،* امی جی نے بھی ادھار کب رکھنا تھا کسی کا، اسے پیسے دے کر چلتا کیا ۔
سلام امی جی! سرور نے فرط جذبات سے ماں سے لپٹنا چاہا مگر انھوں نے *وعلیکم السلام* پر ہی اکتفا کیا اور اس کے جذبات برساتی مینڈک کی طرح پھدک پھدک کر ہی رہ گئے ۔
نہ تو میں پوچھتی ہوں سرور، تیرا دل نہیں لگتا گھر میں؟ فون کدھر ہے تیرا؟ کنی بیل ماری ہے میں نے اسٹاپ پر آکر ۔
وہ تو چارجنگ پر لگایا تھا امی جی! بھول گیا بس ابھی ابھی فردوس خالہ کے گھر گیا تھا کہ آپ آگئیں ۔ آپ منہ ہاتھ دھوئیں. میں یہ سامان اندر رکھ کر کھانا لگاتا ہوں جب تک۔ سرور مزید تفتیش سے بچنے کے لیے انھیں کمرے میں لے آیا ۔
گنے کا ایک گٹھر تھا. دو تین بورے اناج کے تھے، شاید جن کے منہ کس کر بندھے ہوئے تھے. اتنا سامان امی جی؟ کیا خزانہ ہے بورے میں جو آپ اٹھا لائیں، سال بھر کا راشن ؟
سرور نے بمشکل ایک بورے کو صحن سے کھینچ کر بڑے کمرے میں رکھا اور امی جی سے پوچھا ۔
مینوں خود نہیں پتا پتر! تیری پھپھو نے زبردستی میرے حوالے کردیا. چلتے وقت کہہ رہی تھی اپنے ہونے والے داماد کو بھیج رہی ہوں، بھابھی تم بیچ میں مت بولو۔ امی جی نے اپنے دوپٹے کو کانوں میں جھولتے سونے کے نئے جھمکوں کے پیچھے کیا۔
*مطلب ؟؟* سرور نے اچنبھے سے پوچھا ۔ مطلب یہ کہ پتر تیرا رشتہ پکا کرکے آئی ہوں زلیخا کی چھوٹی بیٹی نازو کے ساتھ ۔
*کیا !!!!! سرور کو لگا کہ سارے بورے اس کے اوپر آن گرے ہو۔* *یہ خبر انڈیا کے کشن گنگا ڈیم بنانے سے زیادہ بری لگ رہی تھی اسے.*
امی جی !!! کہہ دیں آپ مخول کر رہی ہو میرے ساتھ. سرور بورا چھوڑ چھاڑ ان کے سر پہ آ کھڑا ہوا ۔ ابھی شادی کیسے کروں گا؟ کماتا بھی نہیں ہوں.آپ نے گھر کی بلی بنا کر رکھا ہوا ہے مجھے ۔ سرور امی جی کے بدلے رویے سے حیران تھا بہت.
*وے پتر! اب میں تیرے ساتھ مخول کروں گی.*
تیری دادی کی خواہش بھی تھی میں نے سوچا ان کی یہ حسرت پوری کردوں ۔ خیر سے جوان ہوگیا ہے تو شادی بھی ایک وڈا اہم فرض ہے. پتر تیری نوکری نہیں لگی تو کیا ہوا ؟زمینوں کا پیسہ ہی کافی ہے اپنے لیے. جہاں دو کھاتے ہیں ایک بندا اور کھالے گا. اپنا رزق لے کر آئے گی۔ سوہنی کڑی ہے، تو پریشان نہ ہو. امی جی نے اطمینان کی انتہا کردی تھی یہ بات بتانے میں سرور کو ۔
*امی جی یہ وہی نازو ہی نا جس کی، جس کی،،، بچپن میں ہر وقت ناک بہتی رہتی تھی. سرور نے غصے سے کہا ۔*
او ہاں،،، وہی نازو،،، پر پتر اب بڑی ہوگئی ہے وہ۔ امی جی تخت پر بیٹھ چکی تھیں. چل کھانا لے آ شاباش۔
اچھا!! بڑی ہوگئی تو کون سا دودھ کی نہر بہتی ہوگی ناک سے،،،، سرور کو تو پتنگے لگ گئے تھے ۔
اس کا تو ابھی *کریم* چلانے کا خواب بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ امی جی نے نازو کی چنگاری چھوڑ دی ۔
قارئین! اب جب تک یہ چنگاری بجھتی نہیں، تب تک کے لیے اجازت دیں۔ *اور ہاں!!*
سرور کے لیے دعائے خیر،