ہم تقریباً پچیس تیس جوان لڑکیاں تھیں۔ وہ ہمیں آپس میں بانٹنے لگے۔ ایک ہٹا کٹا سکھ میرے پاس آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگا۔ میں نے اس کے چہرے پر تھوک دیا.. لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا وہ مکروہ قہقہے لگاتا ہوا مجھے اپنی حویلی میں لے گیا... اور... اور.... میرا دامن عصمت تار تار کر دیا۔ میری کوئی پیش نہ چلی۔
ام محمد سلمان کراچی
دوسری قسط
ہندوؤں، سکھوں اور عیسائی برادری سے بالکل برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ مسلمان ایک علیحدہ وطن میں جا کر سکون سے رہیں۔ خاص طور پر ہندوؤں اور سکھوں نے تو ظلم کی ہر حد پار کر دی تھی۔
جیسے ہی پاکستان بننے کا اعلان ہوا وہ ہر روز بے دردی سے مسلمانوں کو قتل کرتے، ان کے دیہات اور گھروں کو نذرآتش کرتے۔ اور یہ خوف ناک کام بڑے معین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیا گیا۔ 70 لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے پڑتے پاکستان پہنچے۔ وہ بالکل بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور ان کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اڑی ہوئیں تھیں۔ یہ وہ دکھوں کے مارے لوگ تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل ، لاشوں کی قطع و برید اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ راستے میں ہر قدم پر موت ان کی گھات میں تھی۔ ان میں سے ہزاروں لوگ بھوک اور بیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے یا سکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بہت سے پاکستان کی سرحد پرپہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے۔ پیدل قافلوں کے علاوہ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ٹرینوں پر بھی جابجا حملے ہوتے رہے۔ اکثر ٹرینوں کے سارے کے سارے مسافر فنا کے گھاٹ اتار دیے گئے، نوجوان لڑکیاں اغوا کرلی گئیں اور ان کی زندگیاں موت سے بدتر ہو گئیں۔ لا تعداد مسلم عورتوں کو سکھ اٹھا کر لے گئے ۔
ایک مہاجر ٹرین فیروز پور کی طرف سے قصور آرہی تھی۔ گنڈا سنگھ والا اسٹیشن پہنچ کر رکی ۔ گاڑی رکی تو دیکھا کہ سب بوگیاں خون سے لت پت ہیں اور ڈبوں میں لاشوں کے انبار لگے ہیں۔ یہ منظر اس زمانے کا معمول تھا۔ آگے ایک اور قسم کا منظر آرہا تھا ۔ سب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے جب وہ آخری بوگی کے قریب پہنچے تو وہاں بچوں کے رونے پیٹنے اور کراہنے کی درد ناک آوازوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ جھانک کر دیکھا تو ایک روح فرسا منظر ان کے سامنے تھا۔ اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں ۔ ان بچوں کو ذبح نہیں کیاگیا تھا بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لاشوں کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیل دیاگیا ۔ کیا اس سے زیادہ بہیمیت اور درندگی کی مثال کہیں تاریخ میں مل سکے گی!! مجھے بتاؤ میرے بچو! مستقبل کے معمارو!!
کیا اس لیے دی گئی تھیں یہ قربانیاں کہ پاکستان کو ناچ گانے کا اڈا بنا دیا جائے...؟؟ (عائشہ اور یوسف بے اختیار سسکیوں سے رونے لگے)
مجھے بتاؤ کیا ہم نے قیام پاکستان کے مقصد کو حاصل کر لیا؟ کیا ان قربانیوں کا قرض چکا دیا جو ہمارے آبا و اجداد ہمارے کندھوں پر ڈال گئے! کیا یہ ان شہیدوں کے خون سے غداری نہیں ہے؟ اور کیا اس وطن عزیز کے حصول کے لیے اپنی گردنیں کٹانے والے باپ بھائی اور اپنی عصمتوں کی قربانی دینے والی مائیں بہنیں، بیٹیاں اور نیزے کی انیوں پر تلواروں، کرپانوں اور پرچھیوں میں پروئے جانے والے معصوم بچے ہمیں معاف کر دیں گے...؟
نہیں ! وہ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے!
تمہیں پتا ہے فردوس! برسوں سے گھر سے باہر نکلنا میں نے اسی لیے چھوڑ دیا کیوں کہ ان بے پردہ عورتوں کو دیکھ کر میرے جی میں آگ لگتی ہے۔
اس کے بعد نانی اماں نور الاسلام بہت دیر تک تڑپ تڑپ کر روتی رہیں ۔ عائشہ اور یوسف سے ان کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی سو وہ اٹھ کر چلے گئے۔
فردوس اکیلی ہی اپنی اماں جی کو سنبھالنے میں لگی تھیں وہ نڈھال سی ہو کر تکیے پر سر رکھے لیٹی تھیں۔ نظریں چھت پر گڑی تھیں.... صدمے اور نقاہت کی وجہ سے آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ فردوس!! انھوں نے سرگوشی میں اپنی بیٹی کو پکارا....
"جی اماں جی! بولیے"
"میں نے ایک سچ تم سے چھپایا مگر اب میں اس بوجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہوں میری بچی...! قربانی کی ایک طویل داستان ابھی باقی ہے جس سے تم نا آشنا ہو ۔ اور تمہارے والد مرحوم کے کہنے پر میں نے کبھی اس حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ تم وہ سچ جان لو.... "کیسا سچ ماں جی؟؟؟"
٭٭٭٭ نور الاسلام اپنے ماضی کی اس خوف ناک یاد سے پردہ اٹھانے جا رہی تھیں جسے ہمیشہ خود سے بھی چھپا کے رکھا تھا۔ فردوس خاموشی سے ان کے بولنے کا انتظار کررہی تھیں۔ اور نور الاسلام سوچ رہی تھیں کہ کہاں سے اور کیسے شروعات کی جائیں۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئیں :
"پتا ہے فردوس! بابا جان مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ انھیں مجھ سے بہت امیدیں تھیں۔ بابا جان نے پردے کی پابندی کے ساتھ مجھے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ وہ کہا کرتے تھے: "میری نور اصل میں اسلام کا نور ہے یہ کُل جہاں میں اسلام کی روشنی پھیلائے گی۔"
میں انیس برس کی ہوئی تو ایک بہت اچھی جگہ میرا رشتہ طے کر دیا اور کچھ ہی عرصے میں شادی ہو گئی۔ تمہارے بابا وجاہت علی بہت خوب صورت شخصیت اور عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ میں ان کی ہم راہی میں بہت خوش تھی۔ بابا جان کی طرح وہ بھی رات دن مسلم لیگ کے لیے کام کرتے.. میں بھی ان کے شانہ بشانہ رہتی۔
وہ رمضان کے مبارک دن تھے۔ سحری و افطاری میں ہماری دعائیں صرف پاکستان کے گرد گھوما کرتیں... ہمیں قوی امید تھی کہ کسی بھی وقت قیام پاکستان کا فیصلہ ہونے والا ہے. اور پھر آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا اعلان ہو گیا اور اس اعلان کے ہوتے ہی جہاں مسلمانوں کے چہرے خوشی و مسرت سے کھل گئے وہیں سکھ اور ہندو جیسے پاگل سے ہو گئے اور بے دریغ مسلمانوں کی بستیوں اور محلوں پر حملے شروع کر دیے۔ لدھیانہ کے جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں ہمارے ہندو پڑوسیوں سے بہت اچھے تعلقات تھے مگر جیسے ہی بلوائیوں کے حملوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں، ان لوگوں نے بھی ہم سے منہ پھیر لیا۔
ہم جو خوشی خوشی پاکستان جانے کی تیاریوں میں مشغول تھے، سب کچھ ایسے ہی چھوڑا اور رات کے وقت خاموشی سے ایک قافلے کے ساتھ شریک ہو گئے۔ سنا تھا یہ پیدل قافلہ ریل گاڑی کی نسبت محفوظ ہے۔ اس میں تقریباً تین چار سو لوگ شامل تھے۔ ہم ایک دن اور ایک رات چلتے رہے، دوسری رات کو ایک جگہ قافلے نے پڑاؤ کیا۔ پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا ہمارے پاس۔ چھوٹے بچے پیاس سے بلک رہے تھے۔ ڈر اور خوف سے ہم سب کی بری حالت تھی۔ ایسے میں قافلے کے چار پانچ جوان پانی کی تلاش میں نکلے۔ وجاہت علی بھی انہی میں شامل تھے. مجھے بڑے پیار سے تسلی دے کر کہنے لگے...
"نور! تم پریشان مت ہونا، ہم بس ابھی آتے ہیں پانی لے کر، شاید قریب میں کوئی کنواں مل جائے ۔"
"آپ نہ جائیں وجاہت مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے" میں نے ان کی منت کرنے والے انداز میں کہا۔ لیکن وہ بس ابھی آنے کا کہہ کر میرا کندھا تھپتھپا کر چلے گئے۔
"پھر... پھر کیا ہوا اماں جی؟" فردوس کا دل کسی انہونی کے خوف سے زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ نور الاسلام کے چہرے پر اذیت و درد کی پرچھائیاں صاف نظر آ رہی تھیں... بولیں: انھیں گئے ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ قافلے میں ہولناک چیخیں گونجنے لگیں۔ سکھ بلوائیوں نے ہم ہر حملہ کر دیا تھا۔ قافلے میں بری طرح چیخ و پکار مچ گئی۔ ہمارے جوان ان سے بڑی بہادری سے لڑ رہے تھے مگر ان کے جتھے اور ہتھیاروں کے سامنے کب تک مقابلہ کرتے... ایک ایک کر کے سب شہید ہوتے گئے۔ ہمارے چھوٹے معصوم بچے ہماری آنکھوں کے سامنے نیزوں پر پروئے گئے۔ ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ ہماری بوڑھی عورتوں تک کو نہیں چھوڑا ان کی بے حرمتی کر کے ان کے ٹکڑے کر ڈالے۔ قافلے کی عورتوں کے نقاب کھینچ کھینچ کر اتارے اور جوان عورتوں اور لڑکیوں کو ایک طرف کرتے گئے... اور جانوروں کی طرح ہانکتے اور گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم بری طرح چلا رہے تھے. مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے مگر وہاں تڑپتی، ادھ مری لاشوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس وقت ہماری شدت سے تمنا تھی کہ ہمیں بھی گاجر مولی کی طرح کاٹ کر یہیں پھینک جائیں مگر وہ ظالم ہمیں بیڑیوں میں جکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ دو تین نے بھاگنے کی کوشش کی تو وہیں ان کے پاؤں کاٹ کر رسیوں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹتے رہے اور پھر کچھ دور جا کر ان کی گردنیں کاٹ کر دور پھینک دیا۔
ان کا تڑپنا دیکھا نہیں جاتا تھا فردوس!! تمہیں کیا بتاؤں وہ کیسی قیامت کی گھڑی تھی۔ وہ دلدوز چیخیں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں۔ وہ عورت کی عزت و حرمت ہی تھی جس کی حفاظت کے لیے ہر عورت مر جانا چاہتی تھی مگر موت ہم سے روٹھ چکی تھی۔ ہم سکھوں کے بے رحم، بے درد ہاتھوں میں تھے۔
مگر میں نے اس وقت بھی حوصلہ قائم رکھا۔ میرے دل میں امید کا جگنو روشن تھا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ تو بس ایک ہولناک آزمائش ہے۔ اللہ ہمیں جلد اس آزمائش سے نکالے گا۔ ہم اللہ کو پکارتے... یا اللہ ہمیں بچا لے.. یا اللہ مدد.
تو سکھ ہم پر ہنستے... کہتے: "نہیں آئے گا تمہارا اللہ تمہیں بچانے۔ اس نے تو یہ پریاں ہماری عیاشی کے لیے چھوڑ دی ہیں۔ آئے ہائے مُسلوں کی گوری چٹی کڑیاں...!!" وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتے ۔
ان کے کریہ جملوں سے گھن آتی تھی، اندر سے نفرت کے لاوے پھوٹتے تھے۔ مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے، ہماری بے بسی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ ہم تقریباً پچیس تیس جوان لڑکیاں تھیں۔ وہ ہمیں آپس میں بانٹنے لگے۔ ایک ہٹا کٹا سکھ میرے پاس آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگا۔ میں نے اس کے چہرے پر تھوک دیا.. لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا وہ مکروہ قہقہے لگاتا ہوا مجھے اپنی حویلی میں لے گیا... اور... اور.... میرا دامن عصمت تار تار کر دیا۔ میری کوئی پیش نہ چلی۔ میرے آنسوؤں، آہوں اور فریادوں نے اس ظالم پر کوئی اثر نہ کیا۔
کئی مہینوں تک مجھے حویلی کے ایک کمرے میں بند رکھا، وہ جب چاہتا مجھ سے کھلونے کی طرح کھیل کر چلا جاتا۔ میں نے کئی بار بھاگنے کی کوشش کی مگر ہر بار پکڑی جاتی اور بری طرح زدو کوب کی جاتی۔ میرا جسم زخموں سے لہولہان ہو گیا مگر اس سے زیادہ زخم میری روح پر لگے تھے۔ میں اس کوٹھڑی میں اکیلی تنِ تنہا اپنے رب کو پکارتی... اس سے فریادیں کرتی... اسے اپنے زخم دکھاتی... مگر یوں لگتا، آج کوئی میرا نہیں۔ نا امیدی میرے دل کو جکڑنے لگتی مگر کچھ دیر بعد پھر ایک امید کا دیا روشن ہونے لگتا... نہیں نہیں مایوسی کفر ہے یہ آزمائش ذرا طویل ہے مگر فتح حق کی ہی ہو گی ان شاء اللہ۔ کوئی امید پھر سے میرے دل کو تسلی دینے لگتی۔
اس سکھ کا نام جگجیت سنگھ تھا۔ اس کی بے بے (ماں) کبھی کبھی کوٹھڑی میں کھانا پانی رکھنے کے لیے آتی تھی. میں اس کی منت کرتی کہ مجھے نہانے دو، پاک ہونے دو مگر وہ نفرت سے ٹھڈے مار کر چلی جاتی۔ (جاری ہے)