مگر اگلے ہی لمحے زنانہ پسٹل اس نازک حسینہ کے ہاتھوں میں تھا۔ ٹریگر پر مخروطی انگلی ایک اشارے کی منتظر تھی۔ سرد شام کے اس پہر ڈاکٹر کے کشادہ ماتھے پر پسینے کے چند قطرے نمودار ہوئے۔ زبیدہ حسانی جیسی الہڑ ضدی دوشیزہ سے کچھ بھی بعید نہیں تھا۔

 بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

دن بھر کی حکمرانی کے بعد آفتاب کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی ، مارے برہمی کے اس کے رخسار ایسے دہک رہے تھے گویا کسی گوری دوشیزہ سے اس کی من پسند چیز چھین لی ہو، ماہتاب اپنے رخ انور سے نوبیاہتا عروس کی طرح شرماتے ہوئے گھونگھٹ اٹھا رہا تھا ، فضا میں رات کی رانی کی مسحور کن تیز بو گُلِ یاسمین سے بغل گیر ہو کر عجیب پرکیف خوشبو پیدا کر رہی تھی۔ دور کہیں موسمِ سرما کے پرندے مسرت کے گیت الاپ رہے تھے۔

ڈاکٹر شیام اپنے کلینک میں مریضوں سے فراغت کے بعد آنکھیں موندے سستا رہے تھے۔ آتش دان میں سلگتی لکڑیوں کے چٹخنے کی آواز کے ردھم میں کھوئے ڈاکٹر کی آنکھ کھٹ کی آواز سے کھل گئی۔ زبیدہ آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

زبیدہ حسانی صاحب کی اکلوتی بیٹی تھی، بوٹا سا قد، کھلتی ہوئی سہنری رنگت، لانبے سیاہ گیسو، نرگسی آنکھیں، حسن کی اس دیوی پر ڈاکٹر شیام بھی فدا تھے۔ چونکہ وہ اس کے فیملی ڈاکٹر بھی تھے پر اسے ایسے بے وقت اپنے یہاں دیکھ کر گھبرا سے گئے۔

”زبیدہ! خیریت ہے۔۔۔۔۔؟”

”ڈاکٹر! بہت جلدی ہے، میں سخت پریشانی میں مبتلا ہوں۔”

ڈاکٹر کے منہ سے بےساختہ ”اوہ!“ نکلا، اس گھبراہٹ میں تجسس بھی شامل ہوگیا، اس نے دوبارہ پوچھا:

”لڑکی! خالی دہلائے جا رہی ہو، آخر کچھ بتاؤ بھی تو کیا ہوا؟“

”مجھے فوری طور پر مارفیا اور چند خواب آور گولیوں کا سفوف تیار کردو۔“ تحکمانہ انداز میں کہہ کر وہ بےچینی سے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں مسلنے لگی۔

”لیکن مگر کیوں۔۔۔۔۔۔“

”لیکن ویکن، اگر مگر کچھ نہیں، فوراً۔ بڑا احسان ہوگا۔“

زبیدہ نے سخت لہجے میں بات کاٹی اور پھر ایک دم ہاتھ جوڑ دیے۔ وہ اب منت سماجت پر اتر آئی تھی۔

گومگو کی کیفیت کا شکار ڈاکٹر حالات کی نزاکت سے بالکل ناآشنا تھا۔ اس نے قدرے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے زبیدہ سے استفسار کیا مگر اگلے ہی لمحے زنانہ پسٹل اس نازک حسینہ کے ہاتھوں میں تھا۔ ٹریگر پر مخروطی انگلی ایک اشارے کی منتظر تھی۔ سرد شام کے اس پہر ڈاکٹر کے کشادہ ماتھے پر پسینے کے چند قطرے نمودار ہوئے۔ زبیدہ حسانی جیسی الہڑ ضدی دوشیزہ سے کچھ بھی بعید نہیں تھا۔ ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے ڈاکٹر نے دوا تیار کی۔ زبیدہ نے ڈاکٹر سے دوا جھپٹا مار کر اپنے قبضے میں لی کہ کہیں مبادا ڈاکٹر کا ارادہ بدل نہ جائے اور بادِصبا کے خوشگوار جھونکے کی مانند ڈاکٹر کے اعصاب پر بجلیاں گراتی کمرے سے نکل گئی، ڈاکٹر کھڑا دیکھتا ہی رہ گیا۔

”للہ! ابا جی مجھے ہرمز سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیجیے۔ میں رستم سے ۔۔۔۔۔۔“ اس سے آگے وہ کچھ کہہ نہ سکی۔

”لیکن وہ تو مسلمان ہیں۔“ حسانی صاحب نے اپنی لاڈلی بیٹی کو مشفقانہ نظر سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”نہیں اباجی وہ اُن سے زیادہ تعلیم یافتہ، سمارٹ اور بہادر بھی ہیں۔“  زبیدہ بڑے وثوق سے بولی۔

”ہوں! ہرمز سے بھی زیادہ۔“

”یقیناً!“

”کیا وہ دسمبر کی سخت سردی میں ہماری کوٹھی کے دو چکر بنیان اور نیکر پہن کر لگا سکتے ہیں؟“

”جی کیوں نہیں“

”ٹھیک ہے تو پھر آج رات دونوں کو مدعو کر لیتے ہیں۔ میں آدھی رات کو دونوں کو چکر لگانے کا حکم دوں گا۔ جو پہلے لگا لے گا ، اس سے تمہیں شادی کرنی پڑے گی، بولو منظور ہے؟“

زبیدہ نے فوراً بلا چوں چراں حامی بھر لی۔

حسانی صاحب کی کوٹھی رنگ برنگے برقی قمقموں سے جگمگ جگمگ کر رہی تھی۔ وسیع وعریض ہال کی منقش چھت پر لگا قیمتی فانوس اور دیواروں پر آویزاں نادر و نایاب تصویروں پر ان کی روشنی پڑ کر عجیب بہار دے رہی تھی۔ زبیدہ روپہلی ساڑھی پر فر کوٹ پہنے ہوئے قدرت کا حسین شاہکار دیکھائی دے رہی تھی، مونو گرام پر دھیمے سروں میں کلاسیکل موسیقی بج رہی تھی۔ وقت مقررہ پر ریشمی پردے میں سرسراہٹ ہوئی، زبیدہ کی شوخ و چنچل آواز گونجی گویا جلترنگ سے بج اٹھے۔

”آئیے جناب تشریف لائیے۔ ۔ ۔ ۔ “ ہرمز اور رستم بہترین لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ زبیدہ کے حسین چہرے پر قوس  قزح کے رنگ بکھر گئے، وہ دل ہی دل میں اس کی کامیابی کے لیے دعاگو تھی۔ اتنے میں حسانی صاحب اور بیگم حسانی بھی آگئیں۔ زبیدہ نے وہ سفوف میٹھے کی پلیٹ پر چھڑک کر نوکر کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ پلیٹ ہرمز کے سامنے لگا دے گا، اس کام کے عوض وہ اسے پورے پانچ ہزار روپے دے گی۔ کھانے کے بعد حسانی صاحب نے زبیدہ کو کسی بہانے دوسرے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ باہر نکلی اور پردے کے پیچھے چھپ کر دم سادھے کھڑی ہوگئی۔

حسانی صاحب نے کہنا شروع کیا:

”آپ دونوں حضرات، زبیدہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے آپ کو ایک آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں۔“

دونوں ایک ساتھ بول اٹھے۔ ”یقیناً ،یقیناً“

حسانی صاحب معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولے: ”بہت خوب۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے آپ دونوں کو ایک ایک بنیان اور نیکر دی جائے گی۔ اسے پہن کر آپ دونوں صاحبان کو ایک ساتھ میری کوٹھی کے دو چکر لگانے ہوں گے۔ ?Are you agree gentlemen

”آف کورس سر “وہ دونوں برجستہ بول اٹھے۔

”یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے، ایک کوٹھی کا چکر ہے جو سردی میں کاٹنا ہے۔“

پردے کے پیچھے چھپی زبیدہ کے دل کی کلی چٹک گئی۔ وہ مور کی طرح بےخود ہو کر رقصاں ہوگئی، کوئل کی طرح کوکتی ہوئی، ابر باراں کی مانند جھومتی لہراتی، جگہ جگہ بل کھاتی اپنی خوابگاہ کی جانب چل دی۔ تھوڑی سی دیر میں مسز حسانی بھی آگئیں پیچھے پیچھے لڑکیاں بالیاں بھی چلی آئیں۔ سبھی نے مل کر زبیدہ کو سجایا سنوارا۔ خوشبو سے معطر زرق برق لباس پہنا کر اسے بڑے کمرے میں لے جا کر بٹھا دیا۔ کمرہ تازہ پھولوں سے مہک رہا تھا ، ایک لمحے کو اس کا دل بری طرح ڈوب کر ابھرا۔ ”نہ جانے کون جیتے؟ کہیں ہرمز کمبخت نہ جیت جائے۔ ہائے اللہ جی! تو میں پھر کیا کروں گی؟ قول کے مطابق مجھے اس سے شادی کرنی ہی پڑے گی۔“

ان پریشان کن خیالات کی رو میں زبیدہ کا ننھا سا دل زور وشور سے دھک دھک کر رہا تھا۔

جوں ہی ساڑھے گیارہ بجے اس کا رواں رواں کانپ اٹھا۔  حسین چہرے پر موت کی سی زردی چھا گئی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ مقتل پر لے جائے جا رہی ہو۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے زبیدہ رستم کے لیے دعا کر رہی تھی ، اسے پورا یقین تھا کہ ڈاکٹر شیام کا خواب آور سفوف اپنا پورا رنگ ضرور دکھائے گا۔ اور اسے (ہرمز) نیند کی پری اپنی مہربان آغوش میں سمو کر نندیا پور لے اڑے گی۔ پھر وہ ہوگی ، رستم ہوگا اور ملن کی چاندنی راتیں ہوں گی، وہ حسین خواب بنتے ہوئے افق کے اس پار جانے کے سپنے دیکھ رہی تھی، اس کے تخیل کی پرواز ایک ایسی رومانی دنیا تھی جہاں بس وہ اور اس کا محبوب تھا۔

گھڑی نے بارہ بجائے۔ کمرے میں حسانی صاحب اور بیگم حسانی داخل ہوئے۔ اٹکھیلیاں کرتی لڑکیاں بالیاں یک دم خاموش ہوگئیں۔ وہ سب منتظر تھے کہ دیکھیے کون جیتتا ہے۔ اسی اثنا میں قدموں کی چاپ سنائی دی ، زبیدہ کا دل اچھل کر حلق میں اٹک گیا۔ سب نے ایک ساتھ دروازے کی طرف دیکھا۔

ہرمز اکڑتا ہوا کمرہ میں داخل ہو رہا تھا۔ حسانی صاحب چلا اٹھے” یااللہ! تیرا شکر ہے” بیگم حسانی کا بال بال خوشی سے جھومنے لگا۔ زبیدہ زخمی ہرنی کی طرح تڑپ اٹھی اور پر کٹی چڑیا کی مانند قفس میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔

اس کے کپکپاتے لبوں سے صرف ایک جملہ نکلا۔ ” ہائے کم بخت! تو نے غلطی کی اور پلیٹ کو میز پر سے اٹھا کر زمین پر دے مارا۔“