کل شہر کے سب سے بڑے گندے نالے میں چیف نے سب شیاطین کی دعوت کی تھی۔ دعوت میں چوہے اور مینڈک کھانے کو پیش کیے گئے تھے ۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی ۔مینڈک زیر زمین تھے ۔ چیف کے چیلوں نے بہت سے مینڈک مارے اور گندے نالے کے وسط میں جمع کر دیے ۔شیاطین کی دوسری ٹیم چوہے پکڑ کر لے آئی
ساجدہ بتول
(پہلی قسط)
وہ بالکل مایوس ہو چکا تھا ۔ غصے کے مارے اس کا جی چاہ رہا تھا خود کشی کر لے ۔ اگرچہ اسے اور اس کی قوم کو خود کشی سے پیار تھا مگر وہ چاہت کے باوجود اس ملک میں خود کشی کو فروغ نہ دے پایا تھا ۔اس کا داؤ مسلمانوں کے دماغ پہ ان کی سوچ کی حد تک ہی چل پاتا تھا ۔ اور مسلمان خود کشی کے نام پہ تو توبہ کرتے ہی تھے ۔ حرام کھانے کے نام پہ بھی کان پکڑتے تھے ۔ اور وہ جانتا تھا ۔ جب تک اس قوم کو بچھو نہ کھلائے گئے یہ قوم خود کشی کی طرف راغب ہونے کی نہیں ۔ کیونکہ خود کشی کا رجحان بچھو میں ہی پایا جاتا ہے ۔ لہٰذہ وہ اور اس کے کروڑوں ساتھی آج کل اسی منصوبے پہ محنت کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو اسلامی احکام سے متنفر کر دیاجائے ۔ اس مقصد کے لیے کفار کو ساری پلاننگ سمجھا دی گئی تھی اور اب وہ کچھ ایسے مسلمانوں سے ہی یہ کام لے رہے تھے جو اپنا ایمان بیچنے پہ راضی تھے ۔
یہ سارا کام کامیابی سے ہوتے ہوتے نجانے اس شہر ”کرماں والا“ کے چیف کو کیا سوجھی کہ اس نے ایک مقابلے کا اعلان کر دیا ”جو چیلا زمانہ جاہلیت جیسا کوئی کام کروا لے گا اس کی پروموشن کر دی جائے گی اور اسے نقد انعام سے بھی نوازا جائے گا ۔“
”اف ۔۔۔۔۔ اب ایک نیا ٹارگٹ!“ اس نے سوچا ۔ ”لیکن نقد انعام بھی تو ہے ۔ اور پروموشن بھی! واہ وا!! چلو میں بھی کوشش کرتا ہوں ۔ “ وہ سوچوں کے سیلاب سے نکل آیا ۔ یہ ارادہ اس نے کل کیا تھا۔ اور پھر کل وہ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی ناکام رہا تھا ۔ اس وقت بھی وہ ایک میدان سے گزر رہا تھا۔ ہجوم والی جگہوں پہ چلتے ہوئےاسے تکلیف ہوتی تھی ۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو ویران جگہیں پسند تھیں مگر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے انہیں ہجوم والی جگہوں پہ جانا ہی پڑتا تھا ۔ مردود چلتے چلتے اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پہ مکے مار رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ چیف اور باس کو گالیاں بھی دے رہا تھا ۔ کل والے مناظر سوچتے ہوئے اس کا سر آگ کا بن گیا ۔ ”ہونہہ! غلیظ چھپکلیاں ۔ سارا کام عورتیں خراب کرتی ہیں ۔“ کل شہر کے سب سے بڑے گندے نالے میں چیف نے سب شیاطین کی دعوت کی تھی۔ دعوت میں چوہے اور مینڈک کھانے کو پیش کیے گئے تھے ۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی ۔مینڈک زیر زمین تھے ۔ چیف کے چیلوں نے بہت سے مینڈک مارے اور گندے نالے کے وسط میں جمع کر دیے ۔شیاطین کی دوسری ٹیم چوہے پکڑ کر لے آئی ۔ چوہوں اور مینڈکوں کے لالچ میں بہت سے شیاطین چلے آئےتھے اور کھانے کے بعد چیف نے اعلان کر دیا ۔ ٭٭٭٭
”سنو او بد بخت شیطانو! تم سب کے سب مر جاؤ“
یہ اس کا مخاطب کرنے کا انداز تھا ۔
”تم بھی مرو ۔ کمینے! بد ذات! “
عادت کے مطابق سب شیاطین اسے بد دعائیں دینے لگے تھے ۔“
”سنو او خبیثو! تم سب کو ایک کام دیا جا رہا ہے ۔ تم سب زمانہ جاہلیت جیسا کوئی کام کرنے کی کوشش کرو ۔ جس کا کام سب سے گھٹیا ہوا ، اس کو ترقی دلا دی جائے گی ۔ گندے نالے کے وسط والی بڑی کرسی اس کو دے دی جائے گی ۔“ اس کے بعد وہ سب ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئےرخصت ہو گئےتھے ۔ وہاں سے نکلتے ہی مردود ایک محلے میں چلا آیا تھا ۔ وہ اس وقت ایک سیاہ ہیولے کی شکل میں تھا ۔ اڑتے ہوئے وہ کھلی کھڑکی سے اندر داخل ہُوا ۔ یہ باورچی خانہ تھا ۔ جس میں ایک عورت ڈرم میں سے آٹا نکال رہی تھی ۔
”آج آٹا مت گوندھو ۔“ اس نے اس کے کان میں سر گوشی کی ۔
”واہ واہ “ وہ طنزیہ مسکرائی ” آٹا نہ گوندھوں اور شوہر کی ڈانٹ کھاؤں! جاؤ بھاگ جاؤ “ وہ مایوس ہو کر وہاں سے نکل آیا کیونکہ وہ کسی کی سوچ کے مطابق ہی اس سے کوئی کام کروا سکتا تھا ۔ ساتھ والے گھر کی دیوار کے اوپر سے اڑ کر وہ اس دوسرے گھر میں داخل ہو گیا ۔ سامنے ہی دو لڑکیاں کپڑے دھو رہی تھیں ۔ ایک واشنگ مشین میں سے کپڑے نکال رہی تھی ۔ دوسری کھنگال رہی تھی ۔ وہ ایک کے کان کے قریب ہوا ”چھوڑو ان کپڑوں کو ۔ جا کے ٹی وی دیکھو “
”اور پھر اماں سے مار کھاؤں؟ جو پہلے ہی سسرال کا نام لے لے کے ڈراتی رہتی ہیں ۔“ مردود ذرا سا کھسیانہ ہوا لیکن پھر حوصلہ کر کے دوسری کے پاس گیا ۔ ”دنیا چاند پہ پہنچ گئی مگر تم ابھی تک گھر کے کاموں میں الجھی ہو ۔ چھوڑو ان کپڑوں کو ۔ منہ ہاتھ دھو کے اچھے سے کپڑے پہنو ۔ کسی پارلر میں جا کر بالوں کی کٹنگ کرواؤ اور خوب گھومو پھرو ۔ انجوائے کرو ۔ “
”میرا اماں کے جوتے کھانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ “ اس نے بھی اسے ٹھینگا دکھا دیا تھا ۔ وہ وہاں سے نکل آیا تھا ۔ جلد ہی وہ ایک اور گھر میں تھا ۔ یہاں کا منظر اسے اپنے حق میں محسوس ہو رہا تھا ۔ سامنے ہی ٹی وی چل رہا تھا ۔ ایک شخص کوئی ڈراما دیکھ رہا تھا ۔ کچن سے پریشر ککر کی سیٹی کی آواز سنائی دے رہی ۔تھی اچانک شوں کی آواز سنائی دی ۔ یعنی سیٹی اتار دی گئی تھی ۔ اسی وقت ایک عورت کچن سے باہر نکلی ۔ ”چلو نا! تم بھی چل کر ڈراما دیکھو ۔ “
اس عورت کی آہ نکلی ۔”مدت ہوئی ڈرامے دیکھے ہوئے ۔ اب تو گھر کی ذمے داریاں ہی بے تحاشا ہیں ۔ جب تک حذیفہ اور مناہل نہیں تھے تو ایک آدھ ڈرامادیکھ لیتی تھی مگر یہ دونوں جڑواں ہی چلے آئے ۔ اب بس انہی کی ڈرامے دیکھتی ہوں ۔ “
مردود کی آہ نکلی
٭٭٭٭ وہ تین بار ناکام ہو چکا تھا ۔ اور انعام کا لالچ اسے نچلا بیٹھنے نہیں دے رہا تھا ۔ مگر اسے اس بات پہ بھی دکھ ہو رہا تھا کہ بار بار اس کی کوشش ضائع ہو رہی تھی ۔ وہ سوچنے لگا کہ اب کس طرح اگلا قدم اٹھایا جائے ؟ کہ اسے زیادہ محنت بھی نہ کرنی پڑے اور سامنے والا اس کی بات بھی مان لے ۔ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ آنے والے وقت میں اس کی وجہ سے پورے ملک میں کیسا ہنگامہ کھڑا ہونے والا ہے ؟
آخر وہ ہمت کر کے ایک بار پھر اڑنے لگا ۔ کچھ دیر بعد وہ ایک گھر کی منڈیر پہ بیٹھا تھا ۔ سامنے ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی تھی ۔ اس کے سامنے چٹائی بچھی تھی، جس پہ بہت سے بچے کتابیں اور کاپیاں کھولے بیٹھے تھے وہ فورًا اس لڑکی کے پاس گیا ۔ ”کیوں اپنی قیمتی عمر برباد کر رہی ہو ؟ ان بچوں کو ٹیوشن پڑھا کے بھلا کتنے پیسے مل جائیں گے!! تم ماڈلنگ شروع کر دو ۔ لاکھوں آئیں گے ۔“
”توبہ توبہ“ وہ فورًا بولی ۔ ”میرا رشتہ ختم کروانا ہے کیا ؟ میرے سسرال والوں کو یہ خرافات بالکل پسند نہیں ۔ “ مردود بے بس ہو کر پیچھے ہٹ گیا ۔ اب وہ ہاتھ مل رہا تھا ۔ مسئلہ تو یہ تھا کہ جب تک سامنے والے کا ذہن اس کے مطابق نہ ہوتا وہ اس پہ حاوی نہیں ہو سکتا تھا ۔ وہ سوچنے لگا کہ نجانے وہ کامیاب ہو بھی سکے گا یا نہیں! آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے سوچا کہ اب وہ کسی ایسی عورت کو گمراہ کرے گا جس کو مسائل نے ادھ موا کر رکھا ہو ۔ وہ ہیجانی ہو کر فورًا اس کی بات مان لے گی ۔ یعنی باغی ہو جائےگی ۔ دوسری طرف تقدیر مردود پہ طنزیہ ہنس رہی تھی کیونکہ اگلا تجربہ پہلے سے بھی زیادہ پریشان کن تھا ۔
مردود نے ہمّت باندھی اور اڑنے لگا ۔ اب اسے بھوک بھی لگ رہی ۔ ”کاش اب جہاں جاؤں ، وہاں کوئی بھی تسمیہ نہ پڑھتا ہو ۔ “ اس نے سوچا ۔
کچھ دیر بعد وہ ایک اور گھر میں تھا ۔ اس گھر میں کافی رونق محسوس ہو رہی تھی ۔ صحن میں ایک ادھیڑ عمر عورت کرسی پہ بیٹھی تھی اور سامنے چارپائی پہ ایک تئیس چوبیس سالہ نوجوان بیٹھا تھا ۔ دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ کچن سے پریشر ککر کی آواز آ رہی تھی ۔ ایک طرف ایک چھوٹا بچہ واکر چلا رہا تھا ۔ چٹائی پہ پانچ اور سات سال کی عمر کی دو بچیاں گڑیا کا گھر بنا رہی تھیں اور ان کے کھلونے بکھرے ہوئےتھے ۔ ان کے قریب ہی ایک آٹھ دس سالہ بچہ ہوم ورک کر رہا تھا ۔
”ابا جی کہاں ہیں ؟“ نوجوان نے پوچھا ۔
”مسجد گئےہیں ۔ خیر سے چھ ماہ بعد آئے ہو تو بھول ہی چکے ہو ، وہ اس وقت مسجد میں ہوتے ہیں ۔ “ عورت نے جواب دیا تو لڑکا جھینپ گیا جبکہ مردود مسجد کا نام سن کے پریشان ہو گیا تھا ۔ وہ تو پریشر ککر کی سیٹی سن کے خوش ہو گیا تھا کہ یہاں کچھ کھانے کو ملے گا ۔ مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ یہاں سے کچھ بھی کھا نہیں سکے گا ۔(جاری ہے)