اسی بات کا ڈر تھا کہ تم جیسے گندے انڈے کے ساتھ رہ کر میرا بیٹا بھی کہیں بگڑ نہ جائے۔ یہ تمھارے کرموں کا پھل ہے جو تمھارے سامنے آیا۔ پہلے اپنے گھر کی خبر گیری کرو۔ اپنے اعمال درست کرو۔ اپنے بیٹے کی خبر اور سرزنش کرنے کے لیے میں ابھی موجود ہوں۔ نکلو یہاں سے

 تنزیلہ احمد

قسط 10

شگفتہ کے حق میں اپنے شوہر کی بات سن کر وہ بھڑک گئیں۔

"تم تو بس اس کے گن گاتے رہنا اور یاں یہ تو بتاؤ مہارانی سے رشتے کے بارے میں  بات کی یا نہیں؟" ماں کی بات سن کر جاوید کے کان کھڑے ہوئے۔

"ہاں میری بات ہوئی تھی۔ ہمیں اتنی جلدی نہیں مچانی چاہیے۔ سوچنے کا وقت مانگا ہے اس نے، سوچ سمجھ کر بتا دے گی۔" انھوں نے بمشکل بات مکمل کی۔

"صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ اس کے مزاج نہیں ملے۔ ڈھنگ کا جواب نہیں دیا اس نے تمھیں۔۔۔ ارے کل کی لڑکی اور اتنی سر چڑھی، توبہ توبہ ایسی اولاد تو رب کسی کو نہ دے۔ میری دھی دیکھ کتنی فرماں بردار ہے۔ ادھر رشتہ آیا، ماں باپ نے ہاں کہہ دی تو ادھر اس سر جھکا دیا۔"

"اچھا بس کر دے خوامخواہ بات نہ بڑھا۔ اپنا دھیان تو اپنی دھی کی شادی کی تیاری میں لگا۔ شگفتہ کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ اٹھ جاوید تو بھی جا کر کوئی کام کر۔۔۔" انھوں نے بات ختم کرنے والے انداز میں کہا۔ دورازے کی اوٹ میں کھڑی ثمینہ بھی لپک کر اپنے کمرے میں گھس گئی۔ آگے کیا ہونا تھا اسے اس سے سروکار نہ تھا۔ ثمینہ کے لیے تو بس یہ ہی کافی تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔

"افف کتنی تیاری کرنے والی ہے۔۔۔" مارے خوشی کے دونوں بہنوں کا براحال تھا۔

٭٭٭

"کیا تجھے پتا ہے حسن کے چکر کا؟" اس روز کالج میں الیاس نے رازدارنہ انداز میں عظیم سے پوچھا۔

"نہیں تو، کیسا چکر۔۔۔" جواب بھی اسی انداز میں دیا گیا۔

"ہمم تو ہم دونوں سے ہی اس نے چھپاپا ہے۔ باس کوئی گڑبڑ تو ضرور ہے۔ لازما کسی لڑکی کا چکر ہے، میں تو حیران ہوں کہ تجھے کیسے اس کے بدلے تیور نظر نہ آئے۔ تو تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے۔" الیاس عظیم کی کارکردگی سے کافی مایوس لگ رہا تھا۔ عظیم نے گہری نظروں سے کچھ دور کھڑے حسن کو دیکھا جو کسی لڑکے سے نہ جانے کون سی ضروری بات کر رہا تھا۔

بظاہر تو سب ٹھیک تھا مگر حسن کا رویہ کافی بدل گیا تھا۔ وہ اب ان سے اتنا گھلتا ملتا نہ تھا اور نہ ہی اس کے گھر پر اب لمبی لمبی بیٹھک ہوتی تھی۔

"حسن سے نہ پوچھنا۔ میں خود ہی پتا لگانے کی کوشش کروں گا۔ پتا چل جائے گا کہ ایسا کون سا سلسلہ ہے جس کی یاروں سے بھی پردہ داری ہے۔"عظیم نے الیاس کو سمجھایا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ عظیم کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس سلسلے کی پردہ داری حسن اتنے ماہ سے کر رہا ہے اس کا سرا تو اس کے اپنے گھر میں موجود تھا اور سرا بھی وہ جسے پکڑانے میں اس کا اپنا ہاتھ شامل تھا۔

٭٭٭

شگفتہ آج بہت خوش تھی اور اس خوشی کا وہ برملا اظہار بھی کر رہی تھی۔

"شکر ہے تم ڈیوٹی پر واپس تو آئی اور مجھے بہت خوشی ہے کہ خالہ کی طبیعت بھی سنبھل گئی ہے۔"

"شکریہ تو مجھے تمھارا ادا کرنا ہے کہ تم نے میری اس قدر مدد کی۔ یقین مانو خدا نے تمھیں ہمارے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا۔ امی بھی تمھیں بہت دعائیں دیتی ہیں۔ تمھاری بدولت ہی میرے بھائی کے دل میں ہمارے لیے مرا ہوا احساس تو جاگ گیا، پتا نہیں کتنی دیر کے لیے مگر انھیں اپنی ذمہ داری کا احساس تو ہوا۔" شگفتہ کا ہاتھ تھامے ارم نے رندھی ہوئی آواز میں بولی۔

"اچھا چلو بس کرو۔ اس بارے ہم بعد میں بات کریں گے۔ میں نہیں چاہتی وہ منحسوس سپروائزر ہمیں ایک ساتھ دیکھ کر سر پر آ کھڑا ہو۔" اس نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ ارم کی ہنسی چھوٹ گئی۔ منہ پر ہاتھ رکھے ہنسی دباتی وہ اپنے سیکشن کی جانب بڑھ گئی۔ شگفتہ ایسی ہی تھی، دوستوں کی دوست۔ اپنوں سے دور ہونے کے باعث اس نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ہی اپنا مان لیا اور ہر ممکن ان کی مدد بھی کرتی۔ مگر اپنی زندگی کو وہ آگے کیسے بڑھائے یہاں آ کر وہ ریشم کے دھاگوں کی طرح الجھ گئی۔۔۔ زندگی میں واحد رشتہ جو اب تک اس کے اہم رہا وہ چاچا تھا۔ ان کی بات ماننے میں اسے کوئی مسئلہ پیش نہ آتا اگر وہ چاچی کی اصل نیت سے ناواقف رہتی۔ رشتے سودے نہیں ہوتے مگر انھیں پرکھا سودے کی کسوٹی پر ہی جاتا ہے۔ کس سے ملنے میں کتنا فائدہ ہے، کون کس کام آ سکتا ہے، کس سے دور رہنا بہتر ہے۔۔۔ بدقسمتی سے رشتوں میں یہ سب دیکھا جانے لگا ہے۔  

جب سے شگفتہ نے ہوش سنبھالا جس شے کی اسے سب سے زیادہ تلاش رہی وہ خلوص تھا۔ اور اسی کی آج کل کے رشتوں میں بہت کمی تھی۔ اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس بات کی نہ کسی کو پروا ہے نہ احساس۔

رشتے کے معاملے میں چاچا شگفتہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی چالاکیوں اور زبان کی تیزی کے سامنے بے بس تھا۔ مگر شگفتہ نہ بے بس تھی نہ لاچار۔ صرف چاچا کی وجہ سے اس نے ابھی تک صاف انکار نہیں کیا تھا اور اقرار کرنے کی ہمت وہ خود میں جمع نہ کر پائی۔ مگر اسے جلد ہی کوئی فیصلہ لینا تھا۔

٭٭٭

کالج سے سیدھا گھر واپس آ کرعظیم کھانا کھانے بیٹھ گیا۔ اماں اس سے خوش تھیں کہ پہلے کی طرح وہ سارا سارا دن باہر گزار کر نہیں آتا اور اس بدلاؤ کی واحد وجہ تھی حسن میں بدلاؤ۔ کیونکہ حسن کی بیٹھک اب انھیں میسر نہ تھی۔ الیاس نے ٹھیک کہا تھا کہ حسن کافی بدل گیا ہے اور بدل تو شاید وہ خود بھی رہا تھا۔ اپنی بے تکی آوارہ گردیوں میں اب عظیم کا دل نہیں لگتا تھا یا غالبا دوستوں کے بنا اب مزہ نہیں آتا تھا۔ لڑکی کا پیچھا کرتے ہوئے بائیک سے گرنے والے واقعہ کے بعد سے الیاس نے اس طرح کے ایڈونچر کرنے سے توبہ کر لی اور اس کا ساتھ دینے سے منع کر دیا تھا۔

عظیم کا دھیان ایک دفعہ پھر سے شگفتہ کی طرف پلٹ گیا۔ وہ کافی بجھا بجھا محسوس کرنے لگا تھا مگر کیوں؟ آرام کرنے کی غرض سے وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ موسم بدل رہا تھا۔ درختوں کے کملائے پتے سوکھ سوکھ کر ٹہنیوں سے جھڑ کر زمین بوس ہونے لگے۔ ان کی سرسراہٹ جاڑے کی نوید تھی۔ موسم بدلنے کا اتنا اثر اس نے پہلے تو اپنی طبیعت پر حاوی ہوتا محسوس نہ کیا۔۔۔ نیچے سے آوازیں آنا بھی تھم گئیں۔ شاید اماں اور چھوٹی بہنیں بھی آرام کی غرض سے کمروں میں جا چکی تھیں۔ ہر طرف خاموشی اور اپنے بستر پر دراز رنگ برنگی سوچوں میں الجھا عظیم... کچھ وقت یوں ہی گزر گیا۔ اس پر شاید غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ اک مدھم، دھیمی سی بھنبھناہٹ جیسی آواز نے اس کی غنودگی میں ارتعاش پیدا کیا۔ مگر آواز آ کہاں سے رہی تھی؟ وہ بستر پر اٹھ بیٹھا۔ چھوٹے سے کمرے میں تو وہ تھا اور چھت  کے نظر آنے والے حصے میں کوئی بھی نہ تھا۔ عظیم کے سوا تو کوئی ذی روح وہاں تھا نہیں اور اب تو آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔

"لگتا ہے میرے دماغ پر اثر ہو رہا ہے۔ خوامخواہ کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں۔" سر جھٹکتے ہوئے اس نے موبائل تھام لیا۔ دھیمی نسوانی آواز پھر اس کے کانوں سے ٹکرائیں جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ وہ چوکنا ہو گیا۔ اب کی بار یہ اس کا وہم نہ تھا۔ آہستگی سے وہ بستر سے اترا۔ دھیمے انداز میں بنا چاپ کیے قدم اٹھاتا وہ کمرے سے باہر آیا۔ ارد گرد تو اسے کوئی نظر نہ آیا، آواز بھی سنائی دینا بند ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا سر تھام لیا۔ یہ کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ؟ وہ واپس پلٹنے لگا تھا کہ آواز پھر سے آنے لگی۔ بائیں جانب کچھ فاصلے پر سیڑھیاں تھیں شاید آواز وہاں سے آ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور کچھ دیکھ کر ساکت رہ گیا۔

٭٭٭

"پھر کیا سوچا ہے تم نے؟" شگفتہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب صائمہ کے سوال نے اس کا ارتکاز توڑا۔

"کس بارے میں؟" سوال کا جواب بھی سوال تھا۔

"اسی بارے میں جو تم سوچ رہی تھی۔۔۔ چاچا سے کوئی بات ہوئی؟" صائمہ نے اس کے تاثرات بغور جانچتے ہوئے کہا۔ شگفتہ دل ہی دل میں جزبز ہوئی۔

"ہاں بات تو ہوئی تھی مگر اس بارے میں نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا ابھی تک۔۔۔" سادگی سے کہہ کر اس نے اپنا موبائل اٹھا لیا۔ یہ خود کو مصروف ظاہر کرنے کی اک کوشش تھی۔ صائمہ اس کے پاس سے اٹھ گئی۔

"ٹھیک ہے تم اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تو نہ سہی، مگر میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس بات کو آر یا پار کرو۔ جو فیصلہ لینا ہے، لو اور خود کو اس کشمکش سے آزاد کرو۔" اس کے الفاط نے شگفتہ کو چونکنے پر مجبور کیا۔ واقعی یہ تو اس کا مزاج ہی نہ تھا۔ آج تک اس نے اپنی زندگی کے جتنے فیصلے کیے مضبوط ارادے سے کیے انجام کی پروا کیے بغیر اور پھر وہ ان پر ثابت قدم بھی رہی چاہے جیسے بھی حالات ہو گئے۔

"اچھا سنو! تمھیں وہ میڈم والی بات پتا چلی؟" شگفتہ کو جیسے کچھ یاد آتے ہی اس کا ازلی انداز عود آیا۔

صائمہ ٹھٹھک گئی "میڈم وارڈن کی کون سی بات؟ کیا انھوں نے پھر کسی بے چاری کی شامت بلا لی ہے؟"

شگفتہ نے قہقہہ لگایا "ارے نہیں بھئی! اس دفعہ تو معاملہ بہت آگے کا ہے۔ سمجھ لو انھوں نے اپنی شامت بلا لی ہے۔"

"کیا مطلب؟" صائمہ سمجھ نہ سکی۔ یہ تو طے تھا کہ جو خبریں شگفتہ کے پاس ہوتیں وہ بہت کم لڑکیوں کے پاس یا کسی کے پاس نہیں ہوتی تھیں۔

"وارڈن صاحبہ شادی کر رہی ہیں۔۔۔" شگفتہ نے دھماکا کیا۔ صائمہ کے ہاتھ سے چائے کا دھلا دھلایا کپ زمین بوس ہوتے بمشکل بچا۔ منہ مگر ابھی تک کھلا تھا۔ اس کا ردعمل دیکھ کر شگفتہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔

"کیا ہے یار، منہ تو بند کر لو۔۔۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا تو صائمہ دھپ سے اس کے بستر پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔

"کک کیا کہہ رہی ہو یار، مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ مطلب یقین نہیں آ رہا۔ کب، کہاں، کیسے، تمھیں کس نے بتایا؟" صائمہ نے ایک ساتھ کئی سوال پوچھے۔

"یقین کر لو کہ یہ ہی سچ ہے۔ جس سے بھی بات پتا چلی یہ چھوڑو، میڈم بھی دلہن بنیں گی کچھ ہی عرصے میں۔۔۔ ہو سکتا ہے دو تین ماہ میں ہی۔" شگفتہ نے اک ماہر جاسوس کی طرح ایک ایک کر کے معلومات اس کے سامنے رکھیں۔ صائمہ کے تجسس میں مزید اضافہ ہوا۔ ایسا ممکن ہے، کبھی ہو سکے گا، انھوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ مگر اب یہ حقیقت میں ہونے جا رہا تھا۔

"اچھا سنو! ہاسٹل میں بس دو تین لڑکیوں کو اس بات کا پتا ہے۔ کوئی تم سے ذکر کرے تو ایسے ظاہر کرنا جیسے کچھ پتا ہی نہ ہو۔" اس نے صائمہ کو پٹی پڑھائی۔

"او ہو! مجھے پتا ہے یہ سب چھوڑو اور باقی کی تفصیل بتاؤ جلدی جلدی۔ کس بے چارے کے نصیب پھوٹ رہے ہیں میڈم کے ساتھ..." دونوں کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔

"سنا ہے بے چارہ مال دار آسامی ہے۔ ایک نوعمر بیٹا اور بیوی کچھ سال پہلے داغ مفارقت دے گئی۔ موصوف میڈم کو دیکھ کر اوکے بھی کر گئے۔" شگفتہ نے اسے آگاہ کیا۔

"لو جی میڈم کی تو بیٹھے بٹھائے لاٹری نکل آئی۔ پلا پلایا بیٹا اور پیسے والا شوہر، سکون سے گزاریں گی باقی کی زندگی۔ لیکن پتا نہیں کیوں مجھے ابھی سے اس شریف آدمی سے ہمدردی ہونے لگی ہے۔"

صائمہ کا انداز سراسر مزاحیہ تھا۔ شگفتہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

"بات تو تمھاری ٹھیک ہے۔ یہاں لڑکیوں کی شامت آئی رہتی تھی، اب میڈم خدا جانے ان موصوف کا کیا حال کریں گی اپنی خداداد صلاحیتوں سے۔۔۔ ایسے قینچی کی طرف چلتی زبان اور اور تیر کی طرح برستے زہر میں بجھے الفاظ۔۔۔" صائمہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"اور سوچو اگر آگے سے وہ بھی اہل زبان ہوئے تو پتا نہیں میڈم کہ شادی کے بعد کتنی جنگیں چھڑا کریں گی۔" صائمہ کی کھی کھی تھم نہیں رہی تھی۔ آنے والے وقت کی ایسی تصویر کشی ہوئی کہ دونوں ہی کافی دیر تک ہنستی رہیں۔ خداخدا کر کے ہنسی کا طوفان تھما۔

"ویسے مزاح ایک طرف لیکن ہے یہ بہت خوشی کی خبر۔ میڈم کے ارمان بھی بالآخر پورے ہوں گے، پھر وہ خوش رہا کریں گی اور یوں معصوم لڑکیوں کہ جان عذاب ہونے سے بچ جائے گی۔" صائمہ نے کہا اور شگفتہ نے خوش دلی تائید میں سر ہلا دیا۔

"تیار ہو جاؤ مٹھائی کھانے کے لیے، جلد ہی ہاسٹل میں مٹھائی بٹے گی۔۔۔" کہہ کر جائزہ لینے کی خاطر وہ مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل کر ٹی وی لاؤنج کی جانب چل دی۔

"میں آتی ہو ذرا دیر تک۔۔۔" اپنی پشت پر صائمہ کی آواز سنائی دی۔ شگفتہ گنگناتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی۔

٭٭٭

سیڑھیوں پر حسینہ کو بیٹھا دیکھ کر عظیم ساکت رہ گیا۔ دھیمی دھیمی آواز حسینہ کی تھی۔ وہ کسی سے فون پر باتیں کر رہی تھی مگر اتنی رازداری سے اور چھپ کر کیوں؟ وہ فورا دیوار کی اوٹ میں ہو گیا۔  صورت حال سمجھنے کے لیے ابھی اسے وقت درکار تھا۔ گھر میں چلنے والی باتوں سے اسے یہ تو اندازہ تھا کہ حسینہ اپنی کسی سہیلی سے بات کرتی ہے۔ مگر سہیلی سے بات کرتے ہوئے اتنی احتیاط تو نہیں کرنا پڑتی اور حسینہ کا شرماتے شرماتے بات کرنے کا انداز۔۔۔ عظیم کے ذہن میں گھنٹیاں بجیں۔ کچھ تو غلط تھا۔ اسے آہستہ آواز میں حسینہ کے ہنسنے کی آواز آئی۔

"آپ بھی نا۔۔۔" کانوں میں پڑنے والا جملہ اسے چونکا گیا۔ عظیم کے خون نے جوش مارا۔ اس کی بہن فون پر جس سے بات کر رہی تھی وہ کم از کم اس کی سہیلی نہ تھی اور کوئی لڑکی تو بالکل بھی نہیں۔ دبے پا‎ؤں وہ اس کے سر پر جا پہنچا۔ کسی کو اپنے پیچھے کھڑا محسوس کر کے حسینہ گڑبڑا کر اٹھی اور فورا کال کاٹ دی۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ہر کسی کو سوتا پا کر وہ تو انتہائی محتاط ہو کر بات کرنے بیٹھی تھی۔

"تو کیا وہ پکڑی گئی تھی؟"

"کس سے بات کر رہی تھی؟" عظیم نے کرخت آواز میں پوچھا۔ حسینہ نے تھوک نگلا۔ حساب کی گھڑی سر پر آن پہنچی تھی۔

"کچھ نہیں بھائی، میری سہیلی ہے نا حنا اس سے بات کر رہی تھی۔ اس نے ہی فون کیا تھا۔" موبائل اس نے اپنے ڈوپٹے کے پلو میں چھپاتے ہوئے کہا۔

"ایسی کون سی خفیہ باتیں ہیں جو یہاں بیٹھ کر چوری چھپے ہو رہی تھیں۔" وہ بہت غصے میں تھا۔

"ایسی کوئی بات نہیں بھائی، میں نے سوچا اماں ڈسٹرب نہ ہوں اس لیے ادھر آ گئی۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔"  چہرے کی اڑی رنگت اور اٹک اٹک کر بولتی حسینہ کا ہر انداز اسے چور ثابت کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا موبائل روشن ہوا۔ تو گویا حسینہ نے موبائل کی بیل بند  کر رکی تھی۔ اس کے کالے ڈوپٹے میں چمکتی اسکرین عظیم کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔

"موبائل ادھر دو مجھے۔۔۔" عظیم کی رعب دار آواز سن کر حسینہ دبک گئی مگر موبائل اس کے حوالے نہ کیا۔

عظیم نے قدم آگے بڑھایا اور قریبا غراتے ہوئے بولا "سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟"

کپکپاتے ہاتھوں سے حسینہ نے موبائل چھپانے کی کوشش کی مگر اس نے تقریبا جھپٹ کر موبائل اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔ سکرین پر حنا کالنگ جگمگا رہا تھا۔ بنا سوچے سمجھے اس نے کال اوکے کی اور موبائل کان سے لگایا سنائی دینے والی آواز اس پر بجلی بن کر گری۔

"ہیلو حسینہ... فون کیوں بند کر دیا۔ کچھ بولو جان کیا ہوا ہے؟" پھٹی پھٹی نظروں سے اس نے چھوٹی بہن کو دیکھا۔ تو یہ تھی اس کی دوست حنا، جس سے وہ اتنے ماہ سے رابطے میں تھی اور گھر والے اس کی سہیلی کی اصلیت سے بے خبر رہے۔ عظیم کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ فورا کال منقطع کر کے بہن کو شرر بار نگاہوں سے گھورا۔ اس سے قبل کہ وہ مارے غصے کے فون پٹخ دیتا اس کے ذہن میں جھپاکا ہوا۔

"یہ نمبر تو جانا پہچانا لگ رہا ہے۔۔۔" نمبر دوبارہ دیکھتے ہی اس کا دماغ ماؤف ہوا۔ تو اس کے دوست نے اس کے گھر پر شب خون مارا تھا۔ اگلے ہی پل زور دار تھپڑ کی آواز سے خاموش فضا گونج اٹھی۔

"تجھے حیا نہ آئی، خوف نہ آیا اتنی بے باکی سے نیچ حرکتیں کرتے ہوئے۔ اپنی اور گھر والوں کی عزت کا ذرہ برابر خیال نہ آیا؟" اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بہن کو ادھیڑ کر رکھ دے۔

"عظیم رک جا۔" اس کا اٹھا ہاتھ اماں کی آواز سن کر رک گیا۔ وہ شور کی آواز سن کر باہر آئی تھیں۔

"سنبھالیں اس بے غیرت کو جو نہ جانے کب سے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ آپ تو ماں ہیں آپ کو بھی اندازہ نہ ہوا اس کے تیوروں سے کہ حنا اس کی کوئی سہیلی نہیں بل کہ یار ہے۔۔۔ کسی کو شک نہ ہو اس لیے اس فتنے نے نمبر موبائل میں لڑکی کے نام سے سیو کر رکھا تھا۔" ماں کی طرف اسے دھکیکتے ہوئے وہ بولتا چلا گیا۔ ہکا بکا کھڑی اماں کبھی فرش پر پڑی روتی بلکتی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں تو کبھی غصے سے بھرے بیٹے کو۔ بیٹے کے الفاظ وہ سن چکی تھیں مگر سمجھنے کو تیار نہ تھیں۔ دروازے کو ٹھوکر مار کر وہ آندھی طوفان کی طرح گھر سے نکل گیا۔

٭٭٭

بالآخر وہ دن آ گیا جب ہاسٹل میں مٹھائی بٹی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ لڑکیاں خوش ہیں یا حیرت زدہ۔۔۔ مختلف قسم کی چہ مگوئیاں، ہنسی مذاق، دبی دبی طنزیہ گفتگو، چٹکلے... اس وقت کھانے کے کمرے کا منظر قابل دید تھا۔ میڈم وارڈن بے انتہا خوش تھیں۔ ان کا سانولا چہرہ چمک رہا تھا۔

"مبارک ہو میڈم!" گلاب جامن منہ میں رکھتے ہوئے شگفتہ نے خوش دلی سے کہا۔ آس پاس سے مبارک باد کی اور صدائیں بھی گونجیں۔

"خیر مبارک، خیر مبارک" وہ مسکراتے ہوئے مبارک باد وصولتی رہیں۔ مسکراہٹ تو مانو ان کے چہرے سے چپک ہی گئی تھی۔ اس وقت انھیں دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ عورت لڑکیوں کو ٹارچر کرنے کے لیے کیا کیا حربے آزماتی رہی ہے۔ ان کا رویہ یکسر بدل گیا۔ سڑی ہوئی طبیعت میں خوش گواری عود آئی۔ چہرے کے کرخت پن پر خوشی غالب تھی۔ ان کا دل خوش تھا اور یہ خوشی ہر سو اڑ رہی تھی۔

"اور میڈم آپ دلہن بن کر ہاسٹل سے رخصت ہوں گی یا پھر اپنے آبائی گھر سے؟" شگفتہ نے سادگی سے پوچھا۔ جب کہ باقی لڑکیاں اس جرآت پر اس کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔ اور پھر لڑکیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب میڈم نے جلی کٹی سنانے کی بجائے شگفتگی سے جواب دیا۔

"ہاسٹل میرے گھر جیسا ہے اور یہاں کی لڑکیاں فیملی کی طرح۔۔۔ میں یہاں سے ہی رخصت ہوں گی۔"

"ہممم پہلی بار ہاسٹل سے اک دلہن کی رخصتی ہو گی اور رخصتی بھی ایسی کہ مظلوم لڑکیاں شکر کے ترانے گاتی نہ تھکیں۔" شگفتہ نے دل ہی دل سوچا۔ پھر اگلے ہی پل چہرے پر مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے بولی۔

"بس پھر ٹھیک ہے آپ کی مہندی ہم بڑی دھوم دھام سے کریں گے۔ ہم سب لڑکیاں مل جل کر انتظامات کریں گے کیوں لڑکیو؟" اس نے تائید کے لیے سب کی جانب دیکھا۔

"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ہم سب میڈم کی خوشی میں شامل ہوں گی۔" تائید سنتے ہی میڈم جیسے نہال ہو گئیں۔

ہاسٹل کے تو دن ہی پھر گئے۔ امن و آشتی کی فضا میڈم کی شادی تک تو لازما برقرار رہنے والی تھی۔ نہ جانے کتنے زمانوں بعد ہاسٹل کی فضا میں لڑکیوں نے کھل کر سانس لیا تھا۔ وقت کا کام ہے بدلنا اور اس بدلتے وقت کے ساتھ چہرے اور رویے بھی بدلتے ہیں۔ شگفتہ سوچ رہی تھی کہ اکثر لوگوں کا بدلنا ان کے اور دوسروں کے وسیع تر مفاد میں ہوتا ہے۔

٭٭٭٭

عظیم کے سر پر تو جیسے خون سوار تھا۔ گھنٹی بجانے کے ساتھ ہی اس نے ہاتھوں سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ 

"کیا ہے، کون ہے بھئی، دروازہ توڑنا ہے کیا؟" نسوانی آواز گونجی اور ساتھ ہی دروازہ کھول دیا گیا۔ بگڑے تاثرات کے ساتھ وہ اس کے سامنے کھڑی تھیں۔ اسے دیکھ کر اور یوں غصے میں دیکھ کر ان کے چہرے کے زاویے مزید بگڑے۔

"حسن کو باہر بھیجیں۔" عظیم کے کان کی لوئیں تک سرخ پڑ گئیں۔

"کیوں بھیجوں، بات کیا ہے؟ ویسے وہ گھر پر نہیں۔"

"وہ گھر پر نہیں یا آپ چھوٹ بول رہی ہیں تاکہ میں اس سے نہ مل سکوں۔۔۔" عظیم کا تیکھے لہجہ حسن کی ماں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔

"جو مرضی سمجھ لو۔" انھوں نے جواب دیا۔

"انٹی آپ سمجھ نہیں رہیں۔ بھیجیں اسے، آج میں اس سے بات کیے بنا نہیں جاؤں گا۔" صاف ظاہر تھا کہ وہ ٹلنے والا نہیں۔ وہ گڑبڑا گئیں۔ جیسے ہی ہلکا سا دروازے کی اوٹ میں ہوئیں عظیم دندناتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا۔

"کیا ہو رہا ہے؟" ان کی آوازیں سن کر حسن کمرے سے باہر آیا اور عظیم پر نظر پڑتے ہی سٹپٹا گیا۔ اک تیکھی نگاہ اس کی ماں پر اچھال کر وہ دیوانہ وار حسن کی جانب بڑھا۔ نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور حسن کو گریبان سے کھینچا۔

"مجھے معلوم نہ تھا کہ میں نے دوست نہیں آستین کا سانپ پال رکھا ہے۔ دل تو چاہتا ہے تمھارا منحوس تھوبڑا توڑ دوں۔"

"یہ کیا کر رہے ہو، پیچھے ہٹو۔۔۔" عظیم کو بازو سے کھینچ کر انھوں نے اسے پرے دھکیلنے کی کوشش کی۔ وہ ساری صورت حال سمجھنے سے قاصر تھیں جب کہ حسن عظیم کو بگڑے تیوروں سے اپنے گھر میں دیکھ کر ساری بات سمجھ گیا تھا۔

"نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔" حسن نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی۔ عظیم زخمی شیر کی طرح اس پر جھپٹا۔

"تم اتنے بے غیرت ہو گے مجھے پتا نہ تھا۔ ذرا لحاظ نہ آیا تمھیں اپنی گندی نظر میرے گھر پر ڈالتے ہوئے۔۔۔" غصے میں دانستہ طور پر اس نے بات ادھوری چھوڑی۔

حسن کی ماں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا "کیا مطلب، تمھارے گھر کی عزت؟" عجیب نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے انھوں نے عظیم سے استفسار کیا۔

"تمھیں میرا ہی گھر ملا تھا گند پھیلانے کو؟" دوست کی بہن ہے یہ ہی لحاظ کر لیا ہوتا تمھاری جرآت کیسے ہوئی تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔" اپنے گال کی طرف اٹھا عظیم کا ہاتھ حسن نے درمیان میں ہی تھام لیا۔ ایک جھٹکے سے اس نے عظیم کو دور کیا وہ اب اس کی گرفت سے آزاد تھا۔

"آئی تھی مجھے شرم۔ مگر تم جیسے بے شرم اور بے غیرت کے سامنے ٹک نہ پائی۔" حسن نے سرد لہجے میں کہا تو اس کی ماں اور عظیم دونوں ہی اپنی جگہ پر جم گئے۔

"بکواس بند کرو۔" عظیم طیش میں آ گیا۔

"تم بکواس بند کرو۔۔۔" حسن کی آواز اس سے اونچی ہوئی۔ تم نے ہی مجھے صلاح دی تھی دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کے بارے الٹا سیدھا سوچنے کی۔۔۔ یاد ہے تم نے کہا تھا کہ تمھاری کون سا کوئی بہن ہے جو تم دوسروں کی عزتوں فکر کرو۔" حسن نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔

"تم نے کبھی کسی لڑکی کی عزت کی جو میں تمھاری بہن کی کرتا؟" حسن کے الفاظ اسے چابک کی طرح لگے۔ "یاد کرو تم نے کہا تھا کہ جو لڑکیاں خود اچھی نہ ہوں، جنھیں اپنی اور گھر والوں کی عزت کی پروا نہ ہو ہم ان کی عزت کی پروا کیوں کریں۔ افسوس تمھاری شریف بہن بھی عام لڑکیوں جیسی نکلی۔ میں کیا اسے تو کوئی بھی پٹا لیتا وہ تو تیار بیٹھی تھی بھٹکنے کے لیے..."حسن کے منہ میں جو آیا وہ بکتا چلا گیا۔ عظیم کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں بولنا تو درکنار وہ تو ہلنے کے قابل بھی نہ تھا۔ یہاں وہ حسن کا منہ توڑنے آیا مگر خود ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اسے آئینہ دکھایا گیا تو اس کی گھٹیا سوچ اس پر ہی آشکار ہو گئی۔

حسن کی ماں حرکت میں آئی "اندر چلو تم سے تو میں بعد میں بات کروں گی۔" اپنے بیٹے کو کمرے میں دھکیل کر وہ عظیم کی طرف پلٹیں "اسی بات کا ڈر تھا کہ تم جیسے گندے انڈے کے ساتھ رہ کر میرا بیٹا بھی کہیں بگڑ نہ جائے۔ یہ تمھارے کرموں کا پھل ہے جو تمھارے سامنے آیا۔ پہلے اپنے گھر کی خبر گیری کرو۔ اپنے اعمال درست کرو۔ اپنے بیٹے کی خبر اور سرزنش کرنے کے لیے میں ابھی موجود ہوں۔ نکلو یہاں سے۔۔۔" انھوں نے اسے باہر کا رستہ دکھایا۔ مرے مرے قدموں سے وہ دہلیز پار کر گیا مگر اس کا طنطنہ، غیرت، اکڑ اور غصہ سب پیچھے ہی رہ گئے۔

عظیم ہار گیا، بل کہ چاروں شانے چت ہو گیا تھا۔ اور وہ بھی کسی اپنے کی خاطر۔۔۔! گھر آ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا کہ کسی کا بھی سامنا کرنے کی ہمت اس میں نہ تھی۔ اماں اس کے طیش میں گھر سے نکلنے اور یوں لٹی پٹی حالت میں واپس آنے پر بہت پریشان ہو گئیں۔ اس کے دماغ میں جیسے کوئی فلم چل رہی تھی۔ اپنا کہا ایک ایک لفظ، ہر عمل اس کے سامنے تھرتھرانے لگا۔ اس سے کہاں کہاں غلطی نہیں ہوئی تھی۔

٭٭٭٭

دن گزرتے گئے۔ عظیم کی زندگی میں آنے والا طوفان تو گزر چکا تھا مگر اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے ان مٹ نشانیاں چھوڑ گیا۔ سنبھلنے میں اسے کئی دن لگے۔ آگہی کے وہ دن اور راتیں کسی عذاب سے کم نہ تھیں۔ ہفتہ بھر تو اس نے کالج تک کی شکل نہ دیکھی۔ جتنا وہ سوچتا اتنا الجھ جاتا۔ جس دلدل میں دھنسے میں اسے کئی سال لگے اس سے نکلنے کے لیے اک جھٹکا ہی کافی تھا جو کہ عظیم کو پورے قوت سے ہلا گیا۔ مگر یہاں بھی خوش نصیب وہ ہی ثابت ہوا جو پہلے جھٹکے پر ہی سنبھل گیا۔ بات اپنے گھر، اپنی عزت تک آجائے تو سنبھل جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس نے اپنے موبائل سے سب لڑکیوں کے نمبر اڑائے۔ اگلا مرحلہ فیس بک کا تھا۔ اس کا بہت پیارا فیس بک اکاونٹ ہی دراصل ساری تباہی کی جڑ بنا تھا۔ وہیں سے اس نے دھوکا دہی کا آغاز کیا، یہیں سے اس کے قدم بہکنے شروع ہوئے۔ ایک ایک کر کے تمام لڑکیوں کے مشکوک پروفائل کو ان فرینڈ کرتا چلا گیا۔ انباکس میسج ڈیلیٹ کرتے ہوئے وہ کشمکش میں پڑ گیا کہ جو سوچ رکھا ہے وہ کرے یا نہ کرے۔ برائی کی کشش کہیں اب بھی دھیمی دھیمی سانس لے رہی تھی۔ سب کچھ چھوڑنا اتنا آسان نہ تھا مگر پھر گزرے واقعہ کو یاد کرتے ہی تصور میں لہرانے والے بہن کے چہرے نے فیصلہ کرنے میں آسانی کر دی۔  نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔ اپنا فیک فیس بک اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کرتے ہوئے اس کے دل میں کوئی افسوس اور پشیمانی نہ تھی۔ اکاؤنٹ تو بند کر چکا مگر کیا دوبارہ اس راہ پر آنے سے خود کو وہ دور رکھ سکے گا؟ اس سوال کا جواب تاحال اسے کے پاس نہ تھا۔

وہ حسن کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر کالج بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس روز کے بعد جب عظیم نے حسن کو کالج میں دیکھا تو اس کا خون کھول اٹھا۔ جو بھی ہوا اس میں برابر کا قصوروار تو حسن بھی تھا۔ اسے مکمل طور پر نظر انداز کر کے وہ کلاس میں جا بیٹھا۔ حسن بھی اس سے کنی کترا رہا تھا بل کہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ اصل معاملہ سمجھنے سے الیاس قاصر رہا۔

"کیا مسئلہ ہے تم دونوں کے ساتھ؟ اتنا تو میں سمجھ گیا ہوں کہ تم دونوں کی لڑائی ہوئی ہے مگر کیوں اور کب۔۔۔" الیاس نے موقع ملتے ہی عظیم کو کریدا۔ عظیم چپ رہا۔ اس کی خاموشی سے الیاس مزید چڑ گیا۔

"کیا مصیبت ہے، کیسے دوست ہیں ہم؟ اس سے پوچھوں تو وہ منہ سے کچھ نہیں پھوٹتا تم سے پوچھا تو تم منہ پر تالہ لگائے بیٹھے ہو۔ زبان نہیں کھولو گے تو کیسے پتا چلے گا کہ ماجرا کیا ہے؟"

"نہیں ہے وہ میرا گھٹیا انسان میرا دوست۔۔۔ اور آئندہ اس معاملے پر یا اس کمینے کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہ کرنا ورنہ میری اور تمھاری دوستی بھی ختم ہو جائے گی۔" عظیم کا زہر خند لہجہ سن کر الیاس ششدر رہ گیا۔ معاملہ اس کی سوچ سے کہیں گھمبیر تھا۔ گہری سانس بھر کر وہ اپنے دونوں دوستوں کو بس دیکھتا رہا۔ وہ بچپن سے ساتھ تھے مگر اب شاید ان کی راہیں ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکی تھیں۔ اک ایسی دراڈ پڑ چکی تھی جس کی وجہ سے الیاس آدھا ادھر اور آدھا ادھر بٹ کر رہ گیا تھا۔

٭٭٭

اماں نے یقینا حسینہ کی خوب دھلائی کی تھی۔ گھر میں حسینہ سے عظیم کا سامنا قریبا نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ وہ بھائی کا سامنا کرنے سے خود بھی کتراتی رہی۔ موبائل اماں نے مستقل طور پر اپنے قبضے میں کر لیا۔ حسینہ اب قابل بھروسا نہیں رہی تھی۔ یوں اچانک پکڑے جانا اور سب کچھ چوپٹ ہو جانا حسینہ کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ دماغ نے جی بھر کر دل کو لتاڑا۔ آنسو اگر غلطیوں اور گناہوں کو دھو سکتے تو شاید وہ پہلے جیسی صاف ستھری بن جاتی مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ وہ اماں اور بھائی کی نظروں سے گر چکی تھی۔ گلی محلے کی اس سستی محبت نے حسینہ کو اتنا اندھا کر دیا کہ وہ کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے قابل نہ رہی۔ سہانے سپنے بری طرح چکنا چور ہوئے تھے۔ اماں بہت دل برداشتہ تھیں۔ بڑی بیٹی کو اعتماد میں لینے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ اس روز حسینہ منہ سر لپیٹے کمرے میں پڑی تھی جب آپا گھر تشریف لائیں۔ وہ سیدھا کمرے میں اس کے پاس چلی آئی۔

"اماں نے مارا ہے، تمھیں بہت تکلیف ہو رہی ہے نا۔۔۔" اس کے چہرے پر نظر آتے نیل دیکھتے ہوئے آپا نے دھیرے سے کہا۔ حسینہ نظریں نہیں اٹھا پائی۔ مگر ایک آنسو گال پر لڑھکتا چلا گیا۔

"مگر یہ تکلیف تو اس تکلیف کا ذرہ بھی نہیں جو اماں اور عظیم کو تمھاری وجہ سے پہنچی۔ گھر والوں کا مان اور بھروسا توڑنا، عزت کو داؤ پر لگانے کی تکلیف پتا ہے کتنی ہوتی ہے؟" آپا نے شاید سوال کیا مگر وہ جواب نہ دے سکی۔ جس بارے حسینہ نے ایک بار بھی نہ سوچا وہ بھلا اس کا جواب کیسے دیتی۔ وہ تو اس روز سے کچھ اور ہی سوچتی آ رہی تھی۔ اس کی خاموشی کو آپا نے اس کی شرمندگی گردانا۔

"مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میری بہن کسی لوفر کے لیے اتنا گر گئی۔۔۔" انھوں نے تاسف کا اظہار کیا۔

"وہ کوئی راہ چلتا نہیں، محبت کرتی ہوں میں اس سے اور وہ مجھ سے۔۔۔" حسینہ کی خاموشی ٹوٹی اور آپا گنگ رہ گئیں۔

(جاری ہے)