اکیلے پن کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کا خوف بھی رہ رہ کر میرے اندر ڈر کو بڑھا رہا تھا جس کی وجہ سے میں کسی بھی خطرے کو سوچ کے اندر تک کانپ جاتی تھی۔ پھر کیڑے مکوڑے اور دوسرے حشرات الارض کا خوف تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن سمندر سے آتی ٹھنڈی ہوا پورے جسم میں ایسے سکون انڈیل دیتی تھی جیسے کوئی ٹرانکولائیزر ایک دم سکون دے دیتا ہے

ڈاکٹرماریہ اشفاق قریشی

(دوسری قسط)

ہم دونوں ایک دوسرے کو کچھ وقت دیکھتے رہے اور کشتی اپنے سفر پہ روانہ تھی۔ آخر کار لڑکی نے مجھ سے میرا نام پوچھا تو میں اس کی مدھر اور میٹھی آواز کے سحر میں اس طرح مسحور ہوئی کہ اس نے دوبارہ تھوڑا اونچی آواز میں وہی سوال دہرایا اور اب اس کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ وہ اس ہی زبان میں بول رہی تھی جو میں بولتی تھی۔ مجھے اب یاد آیا تھا کہ سمندر کے پاس عجیب لوگ کوئی بھی لفظ بنا بولے اپنے احساسات کا اظہار کررہے تھے لیکن یہ لڑکی میرے ساتھ گفتگو کررہی تھی۔
’’میرا نام میری ہے۔۔۔۔۔‘‘ میں نے انتہائی دھیمے لہجے میں ڈرتے ہوئے بتایا۔ ’’اور میرا نام مریم ہے، تمہارے زمانے اور میرے زمانے میں یہ نام ایک ہی ہے بس وقت کے بدلتے الفاظ کی ہیرپھیر ہوہی جاتی ہے۔۔۔۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے وضاحت دی جس میں مجھے کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی۔ ’’تمہیں پتا ہے ہم کہاں جارہے ہیں؟ یقیناً نہیں پتا ہوگا تو بتاتی چلوں کہ ہم اس وقت کنارے کی طرف جارہے ہیں اور اس سامنے والے جنگل میں ٹھہریں گے۔۔۔۔‘‘ اس نے تفصیلات اس جوش کے ساتھ میرے گوش گزار کیں کہ میرے ڈیلے باہر کو نکل آئے۔
’’جنگل میں کیوں؟‘‘ اور تمہیں کیسے پتا کہ جنگل میں ٹھہریں گے۔۔۔۔؟‘‘ میں ایک دم اچھلی تھی۔ ’’کیونکہ وہاں ہمارا گھر ہے! وہیں سے تو ہم آئے ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ وطن نکالی بھٹکنے کے لیے تو نہیں قبول کی نا ہم نے۔۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں عجیب بے نیازی تھی۔
’’اور کیا وہ لوگ تمہیں اس گاؤں میں رہنے دیں گے؟‘‘ میں نے اس کے لہجے کی شفقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’میری سرزمین، میرا گھر مجھ سے کوئی چھینے گا تومیرے جسم کا ایک ایک خلیہ اس سے بدلہ لے گا اور اگر تمہیں میری طاقت پر شک ہے تو بے شک تم یہیں سے واپس جاسکتی ہو۔‘‘ وہ مغرورانہ انداز میں بولی تو میں شرمندہ سی سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
’’اچھا وہ سامنے دیکھو کنارہ نظر آرہا ہے ناں بس تیاری کرو ہمیں ادھر ہی اترنا ہے۔‘‘ اس نے میری شرمندگی زائل کرنے کے لیے بہت ہی پیار سے بات کی۔
میں خاموش رہی تو وہ آگے بڑھی اور میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اوپر اٹھایا اور بولنے لگی۔ ’’دیکھو چندا! ایک عورت تین حالات میں اپنا گھر چھوڑتی ہے۔ اوّل تب جب وہ اپنوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے، دوسرا تب جب اس کی شادی ہوجائے اور تیسرا تب جب اسے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اب جب باقی دو صورتوں میں عورت اگر اپنا گھر چھوڑتی ہے تو ضروری ہے کہ اسے دوسرا گھر دیا جائے اور تمہیں پتا ہے کہ یہ گھر میں نے چھوڑا نہیں تھا اس لیے مجھے اس گھر میں واپس جانا ہے اور اپنا وہ حق لینا ہے جو اس وقت میں نہ لے سکی۔‘‘ کہتے ہوئے اس کی آنکھ سے ایک آنکھ موتی کی مانند نیچے گرا تھا۔
باتوں باتوں میں کشتی کنارے کے نزدیک پہنچ گئی۔ مریم پہلے نیچے اتری تھی اور مجھے اتارنے کے لیے اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ میں نے بلا جھجھک اس کا ہاتھ تھاما اور کشتی سے اتر گئی۔ ساحل کا ریتیلا آنگن میرے پاؤں کے لیے بڑا دشمن ثابت ہوا تھا۔ اس کے پاؤں بنا کسی مشقت کے ریت پر چلتے جارہے تھے اور مجھے ایک ایک قدم پوری جان لگا کر بہت مشقت کے ساتھ آگے بڑھانا پڑا۔ وہ مجھ سے چھوٹی تھی لیکن اس کی ذہانت سے میں کافی مرعوب ہوئی تھی۔ میں اس کے نقش قدم پہ چل رہی تھی یقیناً وہ کوئی بڑی چیز تھی۔ ’’مریم!‘‘ میں نے اسے پکارا۔
’’باتیں نہیں کرو۔‘‘ اس نے مجھے ٹوکا اور میں پھر سے شرمندہ سی اب درختوں کی لٹکتی ڈالوں کو ہٹاتے ہوئے خاموش سی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
یہ وہ کنارہ نہیں تھا جس سے ہمیں سمندر میں اتارا گیا تھا بلکہ یہ اس گاؤں سے کافی آگے گھنا جنگل تھا جسے ہم دونوں نے جلد سے جلد پار کرلینا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے کے پیدل سفر کے بعد ہم ایک قدرے چھدرے جنگل میں آگئے تھے۔ یہ سمندری جنگل نہیں بلکہ ناریل کے درختوں کا جھنڈ تھا جس کے پار کئی جھونپڑیاں کچھ کچھ فاصلے پہ بنی تھیں۔ وقت بدلا تھا لوگ نہیں اسے اپنی جھونپڑی ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ وہ جھونپڑی کو دیکھ کر ذرا جذباتی ہوئی لیکن جلد ہی اپنے جذبات پر قابو پا کر آگے بڑھ گئی۔ اس جھونپڑی کے دروازے کی جگہ درخت کی چھالیں لٹک رہی تھیں جو کے مل کر دروازے کی کمی پوری کررہی تھیں۔ ہم دونوں جیسے ہی دروازے کی چھالیں ہٹانے کے لیے بڑھے تو اچانک وہی پرانے لوگ درانتیاں اٹھائے ہماری طرف دوڑتے ہوئے آئے تھے۔ میں ڈر سے کانپنے لگی۔ مریم نے مجھے نیچے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا میں نے اپنے بازو سر پہ لپیٹ لیے اور نیچے بیٹھ گئی۔ ڈر کے مارے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کافی دیر لڑائی اور اوزاروں کے ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں لیکن میں وہیں بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔ خوف میری رگ و پے میں سرایت کرگیا تھا۔ موت میرے سر پر کھڑی جنگ کررہی تھی اور میں اپنے دفاع میں چھپ بھی نہیں سکتی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد آوازیں آنا بند ہوئیں تو میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو صرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا۔ شاید رات ہوچکی تھی اور اب وہاں کوئی نہیں تھا نہ مریم نہ گاؤں والے نہ وہ سمندر کا کنارہ اور نہ ہی جھونپڑیاں جن کو مریم اپنا گھر کہہ رہی تھی۔ میں اپنی آنکھیں ملتی کھڑی ہوگئی۔ مجھے میری ٹانگوں میں درد سا محسوس ہوا تھا شاید دیر تک اکڑوں بیٹھے رہنے کی وجہ سے ٹانگیں اکڑ گئی تھیں۔ جب آنکھوں سے دھند چھٹی تو میں نے خود کو وہیں پایا جہاں سے میں چلی تھی۔ وہی پرانے درخت کا تنا تھا اور وہی میں تھی لیکن اب اندھیرا چھا گیا تھا۔ میں تھی تو ایک جرنلسٹ اور پھر وقت نے مجھے وائلڈ لائف فوٹوگرافر بھی بنادیا لیکن اکیلی ہونے کی وجہ سے مجھے جانا پہچانا جنگل بھی اجنبی لگ رہا تھا۔ مجھے خوف نے آ گھیرا تھا۔ ڈر کی وجہ سے مجھ پہ کپکپی طاری ہوگئی تھی۔
اکیلے ہونے کی وجہ سے میرا ڈر بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اور اس ڈر کے مارے میری گھگھی بندھ گئی تھی۔ مجھے اب اپنی بے وقوفی کا احساس ہورہا تھا۔ اپنا گھر میں نے بس چند ڈالرز کی وجہ سے چھوڑا تھا اور اب اس گھر کا وہ کمرا جہاں میں اور میری ماں رات کو سوتے کم اور باتیں زیادہ کرتے تھے شدت سے یاد آرہا تھا۔ مجھے میری ماں یاد آرہی تھی اور اس کا وہ بستر یاد آرہا تھا۔ جب کبھی مجھے رات کو ڈر لگتا تھا تو پیار سے وہ مجھے اپنے ساتھ سلالیتی تھی۔ مجھے اپنے اس چھوٹے سے گھر کا لاؤنج بھی بہت یاد آرہا تھا جس سے ٹی وی کی آواز جادوئی طور پر دگنی سنائی دیتی تھی جب میں کوئی ڈاکیومینٹری بنارہی ہوتی تھی۔ زمین پر بیٹھے بیٹھے مجھے وہ صوفہ بھی یاد آرہا تھا جو اکثر میرے بہن بھائی کھیلتے وقت جگہ تھوڑی ہونے کی وجہ سےمین ڈور کے عین سامنے رکھ دیتے تھے۔ مجھے اپنے سامنے نظر آتا وہ صوفہ زہر لگتا تھا لیکن آج مجھے سمجھ آئی تھی کہ گھنٹوں دلچسپ نیوز کے پیچھے بھاگتے ہوئے جب میں تھک جاتی تھی تو وہی صوفہ میرے گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا جانے کب مجھے نیند آجاتی تھی اور میں اپنی تھکا دینے والی دنیا سے دور آرام دہ جہاں میں چلی جاتی تھی۔
تھکن، نیند اور پیاس کے ساتھ مجھے اب بھوک بھی لگ رہی تھی میرا معدہ بالکل میری پیٹھ سے چپک گیا تھا۔ مجھے اب یاد آرہا تھا وہ چیز آملیٹ جو میری ماں اپنی مالکن کے گھر سے بچا سامان لانے کے بعد میرے لیے بناتی تھی لیکن اب سب وہ چیزیں نہیں تھیں میرے پاس مجھے ایک ہی دن میں ان سب چیزوں کی قدر سمجھ آرہی تھی۔ مجھے رونا آرہا تھا لیکن میرے آنسو بھی سوکھ گئے تھے۔ اکیلے پن کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کا خوف بھی رہ رہ کر میرے اندر ڈر کو بڑھا رہا تھا جس کی وجہ سے میں کسی بھی خطرے کو سوچ کے اندر تک کانپ جاتی تھی۔ پھر کیڑے مکوڑے اور دوسرے حشرات الارض کا خوف تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن سمندر سے آتی ٹھنڈی ہوا پورے جسم میں ایسے سکون انڈیل دیتی تھی جیسے کوئی ٹرانکولائیزر ایک دم سکون دے دیتا ہے اور میں بھی اس قدرت ٹرانکولائیزر کے زیر اثر کب سوئی مجھے پتا نہ چلا۔ صبح میں میری آنکھ بھی پرندوں کی ڈراؤنی آوازوں سے کھلی تھی۔ شاید وہ کوئی ووڈ پیکر تھا جس کی ٹھک ٹھک میرے اعصاب پہ ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ میں جاگنا نہیں چاہتی تھی لیکن پرندوں کے ڈھول پیٹنے کی وجہ سے مجھے اٹھنا ہی پڑا۔ میں نے سمندر کے پانی سے منہ دھویا تبھی مجھے بڑی شدت سے پیاس محسوس ہوئی، مجھے یاد آیا میں نے کل سے پانی کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہیں انڈیلا۔ لیکن سمندر کا کھارا پانی پی کر میں بیمار ہونا نہیں چاہتی تھی سو میں منہ دھوکر واپس آگئی لیکن پھر گھر کا سوچ کر میں رونے والی ہوگئی۔ نت نئے گیجٹس ہونے کے باوجود میں اس جانے پہچانے جنگل میں ایک قدم بھی اِدھر اُدھر نہیں جاسکتی تھی۔ کیونکہ سارے گیجٹس نگوڑمارا میکس لے گیا تھا۔ امریکا کے جنگلات میرے لیے موت کا فرشتہ بن کر آئے تھے۔ مجھے میری اپنی چاہت بلکہ لالچ نے ہی پھنسوادیا تھا۔ میرا ساتھی میکس مجھے دھوکا دے کر میری ساری محنت اپنے ساتھ لے گیا اور مجھے یہاں جانوروں کا کھانا بنا کے چھوڑ گیا۔ (جاری ہے)