بالآخر اس کی شادی ہو گئی ۔ اسے شادی کے چند دن بعد ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور نہ ہی اس نے یہ بات چھپانے کا تکلف کیا۔ چچا نے اسے اپنے پاس بلایا اور بولے

 منیبہ ادریس

"ارے ماشاءاللہ! میری بیٹی اس بار بھی امتحان میں اول آئی ہے۔میری دعا ہے کہ تم زندگی کے ہر امتحان میں اول آؤ۔ آمین۔" ابو جان ملیحہ کے ٹاپ کرنے پر نہایت خوش تھے ۔ اس نے ایم ایس سی کے امتحان میں اپنی یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا۔ گھر میں سب ہی اس کی کامیابی پر خوش تھے اور اسے تحائف دے رہے تھے ۔

ملیحہ تمہارے چچا انور تمہارا ہاتھ مانگ رہے ہیں، اپنے بیٹے نصیر کے لیے ، تم کیا چاہتی ہو بیٹی؟ " وہ اپنے کمرے کی صفائی کر رہی تھی جب امی نے آکر اس سے بات کرنے کا کہا اور بات ہونے پر یہ معاملہ سامنے آیا۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گئی ۔ اس کے چچا خانیوال رہتے تھے اور خود وہ لوگ میانوالی رہتے تھے ۔ دراصل اس کے ابو اور چچا پاکستان اور بھارت کی علیحدگی کے بعد میانوالی آئے تھے۔ مگر چچا نوکری ملنے کی وجہ سے خانیوال جا کر رہنے لگے تھے۔ انہوں نے وہیں شادی کی تھی جس میں بس اس کے ابو نے شرکت کی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔مگر اس نے کہا: " جیسے آپ کو اور ابو جی کو مناسب لگے"۔ اور یہی تو سادگی ہے ہماری مشرقی بیٹیوں کی کہ وہ یہ کر بات ختم کر دیتی ہیں کہ جیسے ان کے والدین راضی ۔

ملیحہ انتہائی ذہین ، باادب اور باشعور لڑکی تھی۔ اس کا رویہ ہر کسی کے ساتھ بہت اچھا ہوتا ۔ کوئی بھی ملتا، اس کی شخصیت کے زیرِ اثر آ جاتا ۔ وہ دو بھائیوں کی لاڈلی بہن تھی۔ دونوں بھائی اس سے بڑے تھے مگر ابھی تک دونوں نے شادی نہیں کی تھی کہ پہلے ملیحہ کی شادی ہو جائے تو وہ شادی کریں گے ۔ ایسے میں چچا کے بیٹے کا رشتہ سب کو مناسب لگا تھا۔ مگر اس کی امی کو کچھ خدشات تھے کہ نہ وہ لڑکا کبھی ان کے گھر آیا تھا، نہ اسے کبھی دیکھا تھا اور سونے پہ سہاگا کے مترادف وہ کبھی خاندان کی کسی تقریب میں بھی شرکت نہیں کرتا تھا۔ اس کے برعکس ملیحہ بہت ملنسار تھی۔

 

"آپ میری مانیں تو ایک بار نصیر کی چھان بین کروا لیں، مجھے بہت واہمے ستا رہے ہیں"

وہ کچن سے پانی پی کر جا رہی تھی جب امی ابو کے کمرے سے یہ آوازیں سنیں ۔ جواب میں ابو غصہ ہونے لگے کہ وہ میرے بھائی کا بیٹا ہے، اب میں اس کی چھان بین کرواؤں گا۔ انہوں نے ڈانٹ کر امی کو چپ کروا دیا ۔ وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔ خدشات تو اسے بھی بہت تھے مگر وہ یہ سوچ کر چپ ہو گئی کہ چچا کا بیٹا ہے ، وہ چچا کی فیملی کے ساتھ رہے گی تو زیادہ مسائل نہیں بنیں گے ۔ اس طرح اس کی منگنی نصیر کے ساتھ کر دی گئی ۔ ملیحہ نے پہلی بار نصیر کو  منگنی کی تقریب میں دیکھا ۔ وہ ساری تقریب میں خاموش اور الگ تھلگ سا بیٹھا رہا۔ سب نے یہ سوچ لیا کہ شاید پہلی بار ملنے کی وجہ سے وہ سب سے ذرا ہچکچاہٹ سے بات کر رہا ہے ۔

 

بالآخر اس کی شادی ہو گئی ۔ اسے شادی کے چند دن بعد ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور نہ ہی اس نے یہ بات چھپانے کا تکلف کیا۔ چچا نے اسے اپنے پاس بلایا اور بولے: " میری بیٹی! تم مجھے بہت عزیز ہو۔ نصیر میرا اکلوتا بیٹا ہے ۔ اس کی والدہ کی وفات کے بعد میں اسے زیادہ وقت نہیں دے سکا اور وہ بری صحبت میں پڑ گیا۔ اس کی عادتیں خراب ہو گئیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم کوشش کر کے اس کو بدل ڈالو "- اس نے چچا کو تو کہا کہ وہ کوشش کرے گی مگر اس کے ذہن میں بار بار یہ سوال آتا رہا کہ کیا وہ اس گھر میں اس کی عادتیں درست کرنے کے لیے آئی ہے؟ مگر نہ جانے اس کے ابھی کتنے امتحان باقی تھے؟

 

اس کی شادی کو آٹھ سال ہو چکے تھے مگر اس کی لاکھ کوششوں کے باوجود نصیر نہ سدھرا تھا، نہ اسے سدھرنے میں دلچسپی تھی۔ وہ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی والدہ تھی۔ نصیر کی اصلیت کھلنے پر بہت تماشا ہوا تھا ۔ گھر والے اس سے ناراض تھے کہ وہ کیوں خاموش رہی ؟ مگر وہ ان سب کی ناراضی پر بھی خاموش رہی اور یہ دعا کرتی رہتی کہ اللّٰہ پاک اس کے شوہر کو راہِ راست پر لے آئیں تاکہ وہ اورا س کے بچے بھی باقی لوگوں کی طرح زندگی گزاریں ۔ اب وہ تین بچوں کی ماں تھی۔ اس کے بھائی کہتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ جا کر رہے مگر وہ نہیں مانتی تھی کہ شاید بچوں کی وجہ سے ہی اس کا شوہر سدھر جائے ۔ مگر اس کا یہ خواب ،خواب ہی رہا اور ایک دن نصیر کی لاش گھر آگئی۔ وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلا رہا تھا اور اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اس حادثے میں اس کی جان چلی گئی ۔ اب وہ تھی اور اس کے بچے ۔

 

اسے سلائی کا کام بہت اچھا آتا تھا تو اس نے اسی کام کو ذریعہ معاش بنا لیا۔ وہ دن رات سلائی کرتی اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی۔ دن گزرتے گئے اور اس کی بڑی بیٹی کا کالج میں داخلہ ہو گیا۔ بیٹا اور چھوٹی بیٹی ابھی اسکول جاتے تھے۔ اس نے اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا اور اس کی شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔ مگر اس کی بیٹی بری صحبت میں پڑ چکی تھی اور بیٹا بھی گھر میں مرد نہ ہونے کی وجہ سے دن رات جہاں چاہے پھرتا۔ ماں کی بات وہ بالکل نہ سنتا اور کچھ کہنے پر ماں سے بدتمیزی کرتا۔ وہ اپنی اولاد کو دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ کیا وہ واقعی اس کی اولاد ہے؟ اب بس اس کی یہی دعا ہوتی تھی کہ :" میرے اللّٰہ! میری اولاد کو ہدایت عطا فرما"۔ مگر شاید اس معاملے میں بھی اس کے مزید امتحان باقی تھے۔

 

اس کی بڑی بیٹی کالج کیا جانے لگی، وہ دن بہ دن باغی ہونے لگی۔ اس کی بدتمیزی سے اس کا سر چکرا جاتا۔ وہ اس کی باتیں سن کر بیمار ہو جاتی۔ اس نے یہاں تک بھی اپنی بیٹی کو پوچھ لیا کہ وہ اپنی پسند کا لڑکا بتا دے، وہ رشتہ ختم کر کے اس سے شادی کر دے گی۔ مگر شاید وہ لڑکا اس قابل ہی نہیں تھا کہ اس کا تعارف کروایا جائے یا اس سے ملا جائے۔ اور پھر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ اس کی بڑی بیٹی بھاگ گئی، وہ اس کا احساس کیے بنا اس اجنبی لڑکے کے ساتھ چلی گئی۔ اور وہ اس صدمے میں پاگل ہو گئی۔

 

اس کے والد اور بھائی اس سے ملنے آئے تو پریشان ہو گئے ۔ اس کا بہت علاج کرایا گیا ۔ کوئی ڈاکٹر نہ چھوڑا گیا ، جو بھی پتہ ملتا وہاں اسے دم کرانے کے لئے لے جاتے ۔ مگر اسے ٹھیک ہونا تھا ، نہ وہ ہوئی ۔ یہاں تک کہ وہ پاگل ہو کر اپنے بیٹے کے ہاتھوں بے عزت ہوتی رہتی ۔ اور اس کا والد یہ سوچتا رہتا کہ کیا وہ اس دنیا میں امتحان دینے آئی تھی ؟ کبھی وہ قسمت کو الزام دیتا اور کبھی اپنی نااہلی کو۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟