تیسرا حصہ
وہ آپ کے جہیز کا ٹی سیٹ ہے نا... وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ کل میری سہیلیاں آئی تھیں تو چائے کے لیے میں نے وہ نکال لیا۔ بعد میں دھو کر رکھتے ہوئے ایک کپ ٹوٹ گیا۔ آپ ناراض تو نہیں ہیں مجھ سے؟ اس نے حد درجہ مسکین شکل بنا کر پوچھا
زہرہ جبیں بھائی اس بارے میں مجھ سے پوچھنے لگے تو میں نے ساری صورت حال ان کے سامنے رکھ دی اور رو پڑی۔ ”مجھے سمجھ نہیں آتا بھائی میں کیا کروں؟ یہ لوگ کیوں مجھے اتنا تنگ کرتے ہیں؟ میں تو ہر ایک کے کام آتی ہوں، سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ،اپنی زبان کو قابو میں رکھتی ہوں کہ کوئی سخت بات نہ کہوں کسی کو۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ پیٹھ پیچھے میرے اور میرے گھر والوں کے خلاف محاذ کھولے رکھتے ہیں۔ ساس کی اتنی خدمت کرتی ہوں... وقت پہ کھانا تیار کرتی ہوں، چائے ناشتا سب کچھ وقت پر تیار کر دیتی ہوں۔ سب کے کپڑے دھوتی ہوں ،پوری ذمے داری سے گھر سنبھالتی ہوں پھر بھی مجھ سے شکایتیں... اور میں کیا کروں آخر؟ “ میری چیزیں اٹھا اٹھا کر لے جاتے ہیں واپس بھی نہیں لاتے میں پریشان ہوتی ہوں۔“
”دیکھو جہاں تک چیزوں کا تعلق ہے تو وہ کوئی تم پر زبردستی نہیں کر سکتا بہن! اصول یہی ہے تمہاری مرضی ہو تو دو ورنہ مت دو۔ منع کر دیا کرو۔ جہیز کا سامان ہم نے تمہاری سہولت کے لیے دیا تھا، ان کے پورے خاندان کا ٹھیکا نہیں اٹھایا تم نے۔“
”اچھا یہ بتاؤ... عظیم بھائی کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ؟“ بھائی نے مجھ سے سوال پوچھا. اور میں بس دکھ سے ان کی صورت ہی دیکھتی رہ گئی.. کیا بتاؤں اور کیا نہ بتاؤں...... عجیب کشمکش تھی۔ میں انھیں کیا بتاتی کہ ان کا رویہ میرے ساتھ کیسا ہے.... ساری باتیں بتانے کی بھی نہیں ہوتیں اور چھپانے میں بھی ہزار درد سہنے پڑتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی انسان کی خواہش ہوتی ہے ہم اکیلے ہی سارے درد کیوں سہتے رہیں کوئی تو ہمارے حال سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے، میں سارے مسائل بیان نہیں کر سکتی ان کے سامنے، مگر کچھ تو بتا ہی سکتی ہوں ۔ سو میں بھی انھیں کچھ باتیں بتانے لگی۔ ”میرے شوہر کا رویہ بعض اوقات میری خود سمجھ میں نہیں آتا بھائی! جب ہم تنہائی میں ہوتے ہیں تو وہ اچھے ہوتے ہیں میرے ساتھ! اچھی گفتگو کرتے ہیں لیکن جب اپنے گھر والوں کے درمیان بیٹھے ہوتے ہیں تو میری ذات کو طنز و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ میری شخصیت میں عیب تراشی کرتے ہیں میرے جہیز کے سامان میں کیڑے نکالتے ہیں۔ سب کے سامنے اپنی اماں اور بھابھی سے کہتے ہیں کیوں پسند کیا تھا اسے آپ نے میرے لیے؟ اس میں ہے ہی کیا؟؟“
ابھی اتنا ہی سنا تھا کہ بھائی ایک دم تڑپ اٹھے... ”کیوں ایسا کہتا ہے وہ؟ آخر کمی کیا ہے ہماری بہن میں؟ اور وہ خود کیا ہے جو وہ ایسی باتیں کرتا ہے؟ کیا کوئی بہت بڑی چیز ہے وہ!! اس کے مقابلے تو ہماری بہن کئی گنا بہتر ہے۔ سچ تو یہ ہے عظیم بھائی تمہارے لائق تھے ہی نہیں! بہت غلطی ہوئی ہم سے جو ہم نے تمہارا رشتہ یہاں کر دیا۔ لیکن تم بتاؤ تمہارے منہ میں زبان نہیں؟ کیا تم انھیں جواب نہیں دے سکتیں؟ “
”میں سب کے سامنے تو کچھ نہیں بولتی بھائی! لیکن تنہائی میں ان سے پوچھتی ہوں ”اچھا مجھے بتائیں کیا کمی ہے کیا خامی ہے مجھ میں تاکہ میں اسے دور کر سکوں؟ مجھے بتائیں ایک اچھی بیوی میں وہ کون سی صفات ہوتی ہیں جن پر میں پوری نہیں اترتی؟ مجھے بھی تو پتا چلے آخر؟“ لیکن وہ ہنسنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کچھ بھی نہیں! تم تو بہت اچھی ہو! میں تو بس مذاق کرتا ہوں۔ میں انھیں سمجھاتی ہوں کہ اس طرح سب کے سامنے میری تذلیل نہ کیا کریں، مجھے بہت دکھ ہوتا ہے بہت برا لگتا ہے۔ تو کہتے ہیں اچھا آئندہ نہیں کروں گا اور پھر اگلی بار پھر وہی سب کچھ کرتے ہیں۔ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلتے ہیں لب و لہجہ ہی بدل جاتا ہے۔ وہی طنز وہی طعنے اور تھوڑی دیر میں ایسے بات کرنا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور پھر ذرا سی دیر میں پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔ کبھی شعلہ کبھی شبنم. مجھے بے تحاشا غصہ آتا ہے لیکن برداشت کر جاتی ہوں!
ساس امی بھی اکثر انھیں کچھ نہیں کہتیں۔ کبھی کبھی ڈانٹ بھی دیتی ہیں لیکن وہ پھر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ شادی کے وقت جو ہمارے گھر والوں نے انھیں تحائف دیے انھیں بھی برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں سے موازنہ کرتے ہیں۔ میرے جہیز کے فرنیچر کو بھی برا کہتے ہیں کہ”اب تو ڈیکو کا زمانہ ہے سب لوگ جہیز میں ڈیکو کا فرنیچر دیتے ہیں تمہارے والد نے اٹھا کے لکڑی کا دے دیا“ میں بتاتی بھی ہوں کہ یہ میری پسند ہے مجھے یہ اچھا لگتا ہے لیکن پھر بھی الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ بس انھیں موقع چاہیے میرے ماں باپ، بہن بھائی اور رشتے داروں کو برا کہنے کا۔
کئی دفعہ میں نے انھیں آرام سے پیار سے سمجھایا رو دھو کر بھی سمجھایا... لیکن مجھے نہیں پتا وہ کس خمیر سے گندھے ہیں کہ بات سمجھ کر آئندہ نہ کرنے کا عہد کر کے بھی دوبارہ وہی سب کچھ کرتے ہیں۔ دماغ کا کوئی کل پرزہ ڈھیلا ہے شاید۔
میری ضرورتیں انھیں نظر نہیں آتیں، مجھ پر کوئی پائی پیسا خرچ کرنا حرام سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں گھر میں رہتی ہو، چھت میسر ہے، کھانے کو روٹی مل جاتی ہے پہننے کو شادی والے کپڑے موجود ہیں! تمہیں اور کیا چاہیے؟ کس لیے جیب خرچ چاہیے؟" میں کہتی ہوں مجھے گھر میں پہننے کے لیے سوتی کپڑے چاہییں تاکہ آرام سے اپنے کام کاج کر سکوں یہ شادی کے ریشمی اور گوٹے کناری والے ملبوسات کہیں آنے جانے میں تو پہنے جا سکتے ہیں لیکن گھر کے کاموں میں بہت رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ پھر گرمی بھی بہت لگتی ہے ان میں۔ کم از کم کام کاج کے دوران پہننے کے لیے تو سوتی کپڑے ہونے چاہییں۔ بری اور جہیز دونوں طرف سے عجیب عجیب کپڑے دلہن کو چڑھا دیے جاتے ہیں۔ میں نے امی سے بھی کہا تھا تین چار سوٹ لان اور کاٹن کے بنوا دیں لیکن انھوں نے بھی مجھے ڈانٹ دیا کہ دنیا سے باتیں سنواؤ گی ہمیں!! میاں کو کہتی ہوں کہ دو سوٹ لان کے بنوا دیں تو منع کر دیتے ہیں کہتے ہیں تمہارے دین نے یہ سکھایا ہے تمہیں کہ اتنے سوٹ الماری میں بھرے پڑے ہیں اور تم نئے نئے جوڑوں کا تقاضا کرو ۔ انھیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں نئے جوڑوں کا نہیں بلکہ گرمی میں پہننے کے لیے لان کے کپڑوں کا تقاضا کررہی ہوں جو جہیز اور بری کے کپڑوں میں نہیں موجود! لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں آتی نہیں ہے یا وہ خود ہی سمجھنا نہیں چاہتے۔
میں انھیں اپنی ضرورتیں گنواتی ہوں بھائی! مگر وہ پتھر کے بن جاتے ہیں ذرا کان نہیں دھرتے اور میں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی ہوں۔ کبھی جھگڑا بھی کرتی ہوں مگر سب کچھ لا حاصل۔ زیادہ کچھ کہوں تو ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور میں گھر والوں کے سامنے تماشا نہیں بننا چاہتی بھائی! اسی لیے خاموش ہو جاتی ہوں۔“ اس دن بھائی مجھے کافی دیر تک سمجھاتے رہے۔ میرے حوصلے اور ہمت کی داد دے کر کہنے لگے.. اگر تم عظیم بھائی سے الگ ہونا چاہو تو ہم تمہارے ساتھ ہیں! بلکہ میرا مشورہ تو یہ ہے تم انھیں چھوڑ ہی دو تو اچھا ہے۔ ابھی عمر ہی کیا ہے تمہاری! وہ واقعی تمہارے لائق نہیں! اچھے نیک لوگوں سے یہ دنیا خالی نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کوئی اور بہتر سبب بنا دے گا۔“ نہیں بھائی! میں الگ نہیں ہونا چاہتی۔ مجھے امید ہے حالات ٹھیک ہو جائیں گے ان شاء اللہ! ابھی تو زندگی کی شروعات کی ہیں۔ زندگی میں دکھ زیادہ ہیں تو کیا ہوا سکھ بھی تو ہیں۔ لیکن مجھے آپ سب سے ایک گلہ ہے بھائی!.... گھر بھلے ہی چھوٹا ہو مگر ضرورت کے مطابق تو ہونا ہی چاہیے... میرے پورشن میں نہ باورچی خانہ ہے نہ غسل خانہ۔ باورچی خانے کے نام پر ایک بالکل چھوٹی سی جگہ ہے جس میں ایک سنگل چولہا رکھا ہے اور ایک نل لگا ہے بس!! کھانا بنانے میں حد درجہ پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ کپڑے بھی وہیں دھونے پڑتے ہیں۔ مجھے بتائیں باورچی خانے میں کون کپڑے دھوتا ہے بھائی؟ لیکن مجھے دھونے پڑتے ہیں کیوں کہ اور کوئی جگہ نہیں! نہانے کے لیے نچلے پورشن میں جانا پڑتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے اپنے کپڑے، شیمپو، صابن اٹھاؤ اور جیٹھانی کے باتھ روم میں جا کر نہاؤ. اوپر سے ان کے آڑے ترچھے زاویے بھی دیکھو... نہانے کے لیے وقت کا انتخاب وہ کریں گی، میں اپنی مرضی اور ضرورت کے تحت غسل بھی نہیں کر سکتی۔
پانی کی ٹینکی چھت پر بنائی جا سکتی تھی لیکن وہ میرے گھر کے صحن میں زمین سے صرف دو فٹ اونچی کر کے بنائی گئی ہے. ایک تو جگہ گھیر رکھی ہے اور دوسرا پانی کا پریشر بہت کم ہوتا ہے ہمارے نلوں میں۔ سب سے پہلے پانی میرے گھر میں ختم ہوتا ہے، باقی نیچے کی تینوں منزلوں میں آتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ہی موٹر چلانے کے لیے پہلی منزل پہ بھاگنا پڑتا ہے۔ اکثر فجر میں اٹھوں تو پانی ختم ہوتا ہے۔ پھر دوڑ لگاؤ جا کر موٹر کا بٹن کھولو، چوتھی منزل پہ اوپر چڑھو تو پتا چلتا ہے کسی نے موٹر بند کر دی ۔ بھاگ کر دوبارہ نیچے جاؤ، پوچھو کہ موٹر کیوں بند کر دی تو بڑی جیٹھانی کہتی ہیں ”اتنی صبح صبح موٹر چلا دی میرے بچوں کی نیند خراب ہوتی ہے اس کی آواز سے۔“ کیوں کہ ان کے دونوں بڑے بچے باہر لاؤنج میں سوتے ہیں اور وہیں کچھ فاصلے پر سیڑھیوں کے نیچے موٹر رکھی ہے۔ کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے بھائی!! لیکن میرے شوہر کو میری پریشانیوں کا کچھ خیال نہیں۔ کسی کو بھی میرے مسائل کا احساس نہیں اور کیوں ہوگا آخر جب میرے اپنے گھر والوں نے میری پروا نہیں کی کہ مجھے کہاں بیاہ رہے ہیں۔ کیا میں اتنا ہی بڑا بوجھ تھی اپنے ماں باپ پر کہ اسے یوں اتار پھینکا جائے۔ بیٹی کی شادی کرتے ہوئے کم از کم ان چیزوں کا تو جائزہ لے لینا چاہیے کہ گھر میں ضرورت کے مطابق سہولیات موجود ہیں بھی کہ نہیں!!
میرا پورشن تو شادی سے پہلے ہی تعمیر ہوا تھا... کیا تھا اگر پانی کی ٹینکی تھوڑی اونچی کر کے بنا لی جاتی تاکہ اس کے نیچے غسل خانہ بن جاتا۔ یہ دردِ سری یہ خواری تو نہ اٹھانی پڑتی مجھے۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ ابھی بھی یہ کام ہو سکتا ہے ٹینکی اوپر کر کے نیچے غسل خانہ بنا لیں لیکن وہ نہیں مانتے۔ ایسا نہیں کہ کوئی مالی مسائل کا سامنا ہے، پیسا بہت ہوتا ہے ان کے پاس لیکن بس کام نہیں کرنا کیوں کہ انھیں بھی میری تکلیفوں سے کوئی سروکار نہیں۔
مجھے بتائیں بھائی! یہ خواہ مخواہ کے دکھ ہیں یا نہیں؟ ان میں سے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن وہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔“
”اچھا میری بہن! تم فکر نہ کرو میں کسی وقت موقع دیکھ کر بات کروں گا عظیم بھائی سے۔“ امی بھی ہم دونوں بھائی بہن کی گفتگو میں شریک تھیں. اور وقتاً فوقتاً میرے میاں کی شان میں کوئی قصیدہ پڑھ دیتی تھیں۔ ان کی بھی عجیب ہی منطق تھی کہ جب ہم اپنی بہووں کے لیے ساری سہولیات مہیا کرتے ہیں تو انھیں بھی اپنی بہو کا خیال کرنا چاہیے۔“
لیکن اگر وہ نہیں کرتے ہیں تو میں یوں ہی بیچ میں پستی رہوں...! میرا کوئی نہیں! اور میں امی جان سے تو ویسے بھی اپنے دکھ سکھ کی باتیں نہیں کرتی تھی کہ انھیں غصہ آ جاتا تھا اور پھر کئی کئی دن دکھی رہتیں اور قریبی ملنے جلنے والوں میں بھی تذکرہ کر دیتی تھیں، جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی میرے گھر کی بات کہیں باہر نکلے اور لوگ بات کا بتنگڑ بنائیں یا پھر مجھے ترحم بھری نظروں سے دیکھیں۔ (مجھے نہیں پتا پھر کبھی بھائی نے یا والدین میں سے کسی نے غسل خانہ بنانے کی بات کی یا نہیں۔ کیوں کہ میرا مسئلہ تو کئی سالوں تک جوں کا توں رہا۔). میں دو دن کے لیے میکے آئی ہوئی تھی اور آج دوسرا دن تھا سو شام کو میاں صاحب لینے آ گئے، رات کے کھانے سے فارغ ہو کر گھر پہنچی تو ساس اور نندیں مجھے دیکھ کر خوش ہو گئیں۔ مجھے اندازہ تھا وہ لوگ دل سے مجھے پسند کرتی ہیں۔ شاید مجھ سے محبت بھی کرتی ہیں۔ میں بھی انھیں ہنستے مسکراتے دیکھ کر خوش ہو گئی۔
میری نند نازیہ (چھوٹی دو نندوں میں افشین سے بڑی نند کا نام نازیہ تھا، دونوں کی عمریں بالترتیب پندرہ اور سترہ سال تھیں) میرے قریب ہوئی اور کہنے لگی.. بھابھی!! مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے ناراض تو نہیں ہوں گی؟“ ”کیا ہوا سب خیریت ہے؟ میں نے مسکرا کر پوچھا ۔
وہ آپ کے جہیز کا ٹی سیٹ ہے نا... وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ کل میری سہیلیاں آئی تھیں تو چائے کے لیے میں نے وہ نکال لیا۔ بعد میں دھو کر رکھتے ہوئے ایک کپ ٹوٹ گیا۔ آپ ناراض تو نہیں ہیں مجھ سے؟ اس نے حد درجہ مسکین شکل بنا کر پوچھا ۔
مجھے اس کے انداز پر ہنسی آ گئی ۔ میں نے ازراہ مزاح کہا...”ایسا کرو ایک کپ اور توڑ دو۔“ ہائیںیییں.. آپ کو برا نہیں لگا میں نے اتنا قیمتی کپ توڑ دیا. وہ حیرانی سے پوچھنے لگی ۔ ارے بھئی جان بوجھ کر تو نہیں توڑا ہو گا نا!! اب دھو کر رکھتے ہوئے ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا، مجھ سے بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ سمجھو اس بے چارے کی عمر ہی اتنی تھی۔“ کیا برتنوں کی بھی عمر ہوتی ہے بھابھی!!؟ وہ حیران ہوئی۔ ”ہاں بھئی ہر چیز کی عمر ہوتی ہے۔ جب ٹوٹ گئی یا زیادہ خراب ہو گئی کہ ٹھیک نہیں ہو سکتی تو سمجھو اس کی عمر ختم!“ ”پھر آپ استری اور دیگر استعمال کی چیزوں کے لیے کیوں برا مناتی ہیں؟“ اس نے حیرت سے پوچھا... ”میں چیزوں کے استعمال پر ناراض نہیں ہوتی چندا! بلکہ مجھے تو خوشی ہوتی ہے کہ میری وجہ سے کسی کی کوئی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور مجھے ثواب ملتا ہے۔ بھلا مفت میں ملتا ثواب کس کو برا لگے گا!! میں تو بس یہ کہتی ہوں کہ چیزیں استعمال کے بعد واپس ان کی جگہوں پر رکھ دو۔ تاکہ جب مجھے ضرورت پڑے تو پریشانی نہ ہو، چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی مل جائے۔ اب مالک کا کم از کم اتنا حق تو ہونا چاہیے کہ اپنے ہی سامان کے لیے خوار نہ ہوتا پھرے۔ میرے کپڑے، زیور، میک اپ، برتن، کمبل، کھیس، استری یا کوئی بھی چیز کوئی استعمال کرے تو بس ضرورت پوری ہونے کے بعد مجھے از خود واپس لا دے، مجھے خود جا کر نہ مانگنی پڑے ۔ بات سمجھ میں آئی؟“ میں نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔
”جی بھابھی سمجھ میں تو آ گئی۔ اور پتا ہے جب میں اوپر اپنے پورشن میں آ رہی ہوتی ہوں تو مجھے خیال بھی آتا ہے کہ استری یا کوئی اور سامان نیچے ہے تو ساتھ لیتی جاؤں مگر ایک دو بار ایسا کرنے پر شمسہ بھابھی نے ایسے طعنے دیے کہ میں پھر یہ خیال ہی دل سے نکال دیتی ہوں ۔“
ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ شوہر صاحب بھی تشریف لے آئے جو مجھے گھر چھوڑ کر کسی کام سے چلے گئے تھے۔ اور آتے ہی پھر وہی تبصرے شروع کر دیے جو مجھے تکلیف دیتے تھے۔ تمہارا بھائی ایسا، ابو نے یہ کہہ دیا، تمہاری امی نے تو ٹھیک طرح مجھ سے بات ہی نہیں کی، کھانا دیکھو کیسا تھا.. سالن میں ذائقہ ہی نہیں تھا. تمہارے گھر والوں کو داماد کی عزت ہی کرنی نہیں آتی ۔ مجھے بیٹھک میں بٹھاتے ہیں، بھابھی اور بہنوں کو مجھ سے پردہ کرواتے ہیں۔ پھر ان تبصروں میں شدت آتی جاتی اور میرے والدین کو گالیاں دینے لگتے۔ حالانکہ میں ساتھ ہی بیٹھی ہوتی تھی اور ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا تھا۔ لیکن وہ پتا نہیں کیوں ایسے بدگمان ہوجایا کرتے تھے اور پھر میرا سکھ چین برباد کر دیتے تھے۔ میری کوئی وضاحت کوئی دلیل انھیں مطمئن کرنے کے لیے ناکافی ہوتی تھی. کئی کئی گھنٹے ان باتوں کو لے کر مجھے اذیت دیتے رہتے۔
زندگی عجیب دھوپ چھاؤں سی تھی...! (جاری ہے......)