عائشہ شیخ
پانچویں قسط
ہبا : تم کہو تو ویسے ہی چلیں بغیر تیاری کے
حدیقہ : چلنا تو چاہیے ۔
ہبا : بھئی تم تو چلتی پھرتی کتاب ہو! مجھے تو کرنے دو تیاری۔
حدیقہ : ہاں جی کرتے ہیں بالکل کرتے ہیں۔ کون سا ٹاپک ہے تمہارا؟
ہبا : اسلام اور سائنس، تم مجھے لکھ کے دو اسپیچ۔
حدیقہ : نہیں ہبا خود لکھو، اس سے تمہاری تیاری ہوگی۔
ہبا : ٹھیک ہے، جہاں اٹک جاؤں تو ہیلپ کرنا اوکے؟
حدیقہ : اوکے۔
دونوں نے اپنی اپنی اسپیچ محنت سے لکھ لی
ہبا : اب سنو میری اسپیچ۔
حدیقہ : ہاں سناؤ۔
ہبا:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
السلام علیکم، محترم سامعین و ناظرین و حاضرین و قارئین۔
ہبا جو بیٹھی ہوئی تھی، پریشانی میں اٹھ کے کھڑی ہوگئی
حدیقہ : ارے آرام سے آرام سے جذباتی کیوں ہو رہی ہو
ہبا : نہیں یار میرا بی-پی لو ہو جاۓ گا۔ مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے۔ اتنے سارے لوگوں میں کیسے بولوں گی میں؟ حدیقہ : اتنا زیادہ پریشان نہیں ہو،کچھ نہیں ہوگا، سب ٹھیک ہوگا ان شاء اللہ۔
ہبا : اگر میں وہاں اسٹیج پہ گر گئی تو؟
حدیقہ : کیا ہو گیا ہے،ایسا نہیں ہوگا، تم پریشان نہیں ہو۔ اگر واقعی زیادہ پریشانی ہو رہی ہے تو نہیں کرو بس۔ پھر کبھی کر لینا۔
ہبا : نہیں نہیں مجھے شوق ہے، میں کوشش کروں گی۔
حدیقہ : ویسے تم پہلے بھی اسکول میں کرتی تھی، تو پریشانی کی بات ویسے ہے نہیں۔ اچھا مصنوعی زلزلہ نہیں لانا اسٹیج پہ اللہ خیر کرے۔انداز جیسا بھی ہو حقیقی ہونا چاہیے، بہتری لانے سے منع نہیں ہے لیکن ہو بہرحال ریئل۔ ھبا : ہمممم۔ اچھا آجکل سنا گیا یا لکھا گیا دل پہ اثر کیوں نہیں کرتا؟ بولنے یا لکھنے والی کی کوتاہی ہے یا سننے اور پڑھنے والے کی؟
حدیقہ : سوال اچھا ہے تمہارا۔ کوشش کرتی ہوں کہ جواب دے سکوں۔ دیکھو جب ہم کہیں فون کال کرتے ہیں تو اگر سگنلز ڈراپ ہو رہے ہوں تو بات سمجھ نہیں آتی، آواز کٹ کٹ کہ آتی ہے, ہے نا؟ ہبا : ہاں تو؟
حدیقہ : بالکل اسی طرح جب ہم کچھ بولتے/لکھتے ہیں, یا پھر پڑھتے/سنتے ہیں تو ہمارے دل میں بات تب تک اثر نہیں کرتی جب تک خلوص نہ ہو، یعنی یہ one way communication نہیں ہے! یہاں پہ دونوں طرف سے خلوص کے سگنل آنے چاہییں اگر کسی ایک طرف سے بھی خلوص میں کمی آئی تو ممکن ہے کہ بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ بات دل پہ اثر نہیں کرے گی۔
ہبا : یعنی دونوں طرف سے خلوص ہو، تبھی بات سمجھ میں بھی آئے گی اور دل پہ اثر بھی کرے گی، ہے نا؟ حدیقہ : جی ۔
ہبا : اچھا اب دیر ہو رہی ہے مجھے گھر جانا چاہیے، ایک ہفتے کے بعد ان شاء اللہ ہمارا ایونٹ ہے،تب تک تیاری کرتے رہیں گے ٹھیک ہے۔ حدیقہ : ان شاء اللہ
٭٭٭ ایک ہفتہ گذر جانے کہ بعد، اسپیچ ہال میں کچھ طالبات کو بلایا گیا اس کے بعدہبا کا نام اسپیچ کرنے کے لیے لیا گیا ۔ ہبا : حدیقہ میں کیسے جاؤں میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں!
حدیقہ : تم خواہ مخواہ میں ڈر رہی ہو۔ بسم اللہ کرو جاؤ۔
ہبا : اوکے، دعا کرنا۔
ہبا اسٹیج پہ جانے اور مائیک کو ہاتھ میں لینے کے بعد گویا ہوئی ٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم معزز سامعین!
پورے ہال کے لوگوں سے جواب آیا: وعلیکم السلام
جیسا کہ آج کی میری اسپیچ کا عنوان "اسلام اور سائنس" ہے، میرا خیال ہے کہ یہ کوئی نیا عنوان نہیں ہے اس پہ سالوں سے لوگ بولتے اور لکھتے آۓ ہیں، لیکن ہر دفعہ ہی ایک نیا زاویہ اور ایک نیا انداز ہوتا ہے،یقینًا علم بہت وسیع ہے جتنی بھی گہرائی میں ہم اترتے ہیں تو بس اترتے ہی چلے جاتے ہیں ،تو آج اس عنوان کو سلیکٹ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ ایسی غلط فہمیاں, کچھ ایسے غلط نظریے ہیں ،خاص طور پہ آج کی نوجوان نسل کے اندر ، وہ شاید یہ سمجھتی ہے کہ, سائنس نعوذ باللہ شریعت یعنی اسلام سے بڑھ کر ہے، آج ٹیکنالوجی کا دور ہے robotics اور artificial intelligence کے اندر جو ترقی ہو رہی ہے اور جو مستقبل قریب میں ہونے والی ہے، بس وہی سب کچھ ہے! اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ، جس سائنس کو وہ خود ایجاد کر رہے ہیں آگے جا کہ اسی کو کم و بیش خدائی کادرجہ دے دیتے ہیں(اللہ ہمارے ایمان کی حفاظت فرماۓ,آمین) یعنی دیکھیں نا انسان کو یہ عقل اور یہ دماغ کس نے دیا ہے؟ اللہ نے! تو اسی عقل کو استعمال کرتے ہوئے وہ سائنسی ایجادات کر رہے ہیں, یعنی یہ ایجادات عقل کی تابع ہوئی! ایسا ہی ہے؟ اور عقل وحی کی تابع ہے, صحیح؟ تو معلوم ہوا کہ سائنس شریعت کے تابع ہے نا کہ شریعت سائنس کے!!!! اسی طرح قانون بھی شریعت کے تابع ہے ناکہ شریعت قانون کے!
معزز سامعین اب آ جاتے ہیں ان معجزات پہ جہاں عقل بھی حیران ہے اور سائنس بھی پریشان ہے!!!! حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا، اس آگ نے جلایا کیوں نہیں؟ حالانکہ آگ کا کام تو جلانا ہے! عقل ہوئی نا حیران! اور سائنس تو پریشان ہے ہی۔ اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا،اللہ اکبر! کیسے ممکن ہو گیا؟ عقل پھر حیران ہے اور سائنس پھر پریشان ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا آسمان پہ اٹھایا جانا، اللہ اکبر! کون سا جہاز تھا ایسا جو اتنی تیزی سے اوپر تک لے گیا؟ عقل پھر حیران ہے اور سائنس پھر پریشان ہے۔ آپ ﷺ کا معراج کے موقع پہ آسمانوں کی سیر کرنا، سبحان للہ✨ لیکن عقل پھر حیران ہے اور سائنس پھر پریشان ہے، آخر ایسی کون سی سواری آپ ﷺ کے پاس تھی؟ آخر وہ راستہ وہ نقشہ کون سا تھا؟ جو آج تک کوئی وہاں تک نہ جا سکا اور نہ ہی کبھی جا پائے گا اور نہ کوئی آپ ﷺ سے پہلے وہاں تک گیا تھا۔ یہ آپ ﷺ کی شان اور آپ ﷺ کا معجزہ ہے، یہاں سائنس پریشان ہے اور حیران بھی ،لیکن ایمان نہ تو پریشان ہے اور نہ ہی حیران الحمد اللہ ثم الحمد اللہ !پریشان تو وہ ہوں جن کو قرآن پہ نعوذ باللہ یقین نہیں، ہم ایمان والے آنکھیں بند کر کے یقین کرسکتے ہیں، ہاں جہاں عقل بھی تصدیق کر لیتی ہے وہاں مزید پختگی آ سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ عقل ہر ہر بات کی تصدیق کرے کیوں کہ عقل محدود ہے اور اللہ کی قدرت لا محدود, وہ رب تو ہر چیز پہ قادر ہے، اْس کے لیے کچھ مشکل نہیں،وہ بس کن فرما دے تو کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں جا سکتی اور ایک حقیقت کی بات ہے کہ سائنس بھی اللہ کی قدرت کی تصدیق ہی کرتی ہے، شرط یہ کہ عقل اور فطرت سلامت ہو! ایسے بہت سارے سائنسدان گذرے ہیں جو اپنی تحقیقات کرتے کرتے ایمان لے آئے! یہ حقیقت ہے واقعی حقیقت ہے! اور اگر انسان سائنس کا مثبت استعمال کرے تو وہ یقینًا اللہ کی قدرت کو پہچان سکتا ہے! یہ دن اور رات کی تبدیلی، یہ وقت پہ سورج اور چاند کا آنا، کبھی بارش کبھی طوفان کبھی بجلی کبھی موسموں کا بدلنا یہ سب کون کر رہا ہے؟؟؟ میرا رب آپ کا رب ہم سب کا رب وہ کامل قدرت والا یہ سب کر رہا ہے، کیوں کہ وہ ہر ہر چیز پہ قادر ہے۔ یہ تو ہم غلطی کر جاتے ہیں اور اس کی قدرت کو نہیں پہچان پاتے ورنہ وہ تو قادر ہے، قادر تھا اور قادر رہے گا اللہ اکبر✨
ایک اور پوائنٹ قابل غور ہے کہ, سائنس کا ذمہ انسان نے لیا ہے اور قرآن کا ذمہ یقینًا اللہ نے تو ایک چیز کا ذمہ اللہ نے لیا اور دوسری کا انسان نے، تو زیادہ پاورفل اور قابل اعتماد چیز کون سی ہے؟ یقینًا قرآن اور جہاں کہیں محدود علم اور کم عقلی کی بنیاد پہ اگر کہیں بالفرض اسلام اور سائنس کی بات ٹکراۓ گی تو یقینًا اسلام یعنی اللہ کی بات کو لیا جاۓ گا, سائنس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ آپ دیکھیں سائنس روزانہ تجربے کرتی ہے کچھ کامیاب جاتے ہیں اور کچھ ناکام ،بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ، کئی سالوں پرانی سائنس کی theory غلط ثابت ہو جاتی ہے، یعنی سائنس کی theory بدل سکتی ہے لیکن اسلام کی ہرگز ہرگز ہرگز نہیں بدل سکتی، کیوں کہ اس کا ذمہ اللہ نے لیا ہے نا! تو جو اسلام سے ٹکرانے کی کوشش کرے گا وہ یقینًا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جاۓ گا(اللہ ہماری اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائیں, آمین) اگر اب بھی خدا نخواستہ کسی کے ذہن میں یہ ہے کہ سائنس شاید اسلام اور شریعت سے بڑھ کر کوئی چیز ہے تو آج مثال ہم سب کے سامنے ہے، زیادہ دور نہیں جائیں coronavirus کی ہی صورتحال کو دیکھ لیں ،ساری سائنس فیل ہوتی جا رہی ہے،کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ کب کرنا ہے؟ بس اگر امید ہے تو بس اس ایک کریم و رحیم رب سے ہے وہ بس خیر و عافیت کا معاملہ فرما دے آمین🤲
آپ سورة الرحمٰن کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں حیرانی کے سمندر میں غوطے لگا لگا کہ انسان واپس آتا ہے اور پھر دل سے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہا جاتا ہے
انسان کا جو جسم ہے وہ قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ انسانی جسم کے اگر cell کا ہی آپ مطالعہ کرلیں یا microscope میں اگر آپ اس کو دیکھ لیں تو جو اس کے اندر کی زندگی ہے یا اس کے جو functions ہیں وہ دیکھ کے ہی انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اللہ کتنی بڑی قدرت والا ہے،بحان اللہ✨ سیل جو اتنا چھوٹا کہ microscope کے بغیر نظر بھی نہیں آتا اس اندر اتنے سارے کام!!!!!!!!! وہ رب یقینًا عظیم قدرت والا ہے✨
تو آخر میں بس یہ کہہ کے میں اپنی اسپیچ کو ختم کروں گی کہ, اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ السلام علیکم
اس کے بعد ہبا اسٹیج سے نیچے اتر آئی اور ہال میں ایک سناٹا چھا گیا تھا گویا وہ بھی حیرانی کے سمندر میں ابھی تک غوطے ہی لگا رہے تھے
حدیقہ : ماشاء اللہ ماشاءاللہ میری دوست نے تو کمال کر دیا یہاں تو کانپ رہی تھی تم اور وہاں ہبا : صحیح بتاؤ اچھی تھی؟ ہاں یار وہاں جاتے ہی عجیب کیفیت طاری تھی،بس بولے جا رہی تھی میں،بہت کچھ تو ایسا تھا جو اسپیچ میں میں نے لکھا بھی نہیں تھا ،لیکن پتا نہیں کہاں سے ذہن میں آتا جا رہا تھا۔ حدیقہ : ماشاء اللہ بہت اچھی کی تھی ٭٭٭
اس کے بعد ایک اور طالبہ کو بلایا گیا, جس کا نام شفق لیا گیا تھا،ہال کے بیچ میں سے ایک لڑکی اپنی کرسی سے اٹھی اور اسٹیج کی طرف جا رہی تھی۔
محترم ججز اور معزز سامعین, السلام علیکم (ایک منٹ کا وقفہ دینے کے بعد), جیسے کہ آج میں "خواتین کی اصل آزادی" کے موضوع پہ اظہار خیال کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں، ویسے تو اس حوالے سے سب کو ہی پتاہوتا ہے کہ اصل آزادی کیا ہے اور کس میں ہے! لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں سب اور مانتے بھی نہیں۔ لیکن اللہ پاک سے امید رکھ کے میں آج پھر ایک کوشش کروں گی, آزادی کی حقیقت کو واضح کرنے کی، ہو سکتا ہے کسی کے دل میں واقعی بات اتر جاۓ اور کیا پتا وہی چیز شاید میرے لیے ذریعہ نجات بن جاۓ!
تو آ جاتے ہیں اصل موضوع کی طرف خواتین ، ہماری بہنیں، ہماری مائیں یقینًا انتہائی قابل احترام ہیں اور انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی عزت گرائیں اور اپنے آپ کو جنت کا حقدار بنانے کی بجاۓ جہنم کا حقدار بنا دیں جہنم کا لفظ استعمال کرتے ہوۓ میری آواز کانپ رہی ہے،میرے ہاتھ بھی کانپ رہے ہیں کیوں کہ اگر ہمیں جہنم کے اندھیرے،اس کی ہولناکیوں اور اس کے دردناک عذاب کا اگر پتا چل جاۓ نا! یقین کریں ہم جہنم کا نام لیتے ہوۓ گھبرائیں گے لیکن آج چونکہ علم کی کمی ہے اور یہ دور بھی قرب قیامت کا ہے اور نہ ہی ہمارے ارد گرد کا ماحول ایسا ہے جو ہمیں دینداری کی طرف راغب کرےتو ذرا مشکل تو ہے دین پہ عمل کرنا لیکن نا ممکن نہیں! اور انسان کی جب طلب سچی ہو تو پھر اللہ راستے بھی دکھاتا ہے, شرط یہ ہے خلوص اور یقین ہو۔
تو بات ہو رہی تھی آزادی کی ،آزادی یقینًا سب کو چاہیے لیکن آزادی آپ کی ہے کس میں، پہلے یہ تو جان لیں۔ یہ جو آج سڑکوں پہ نکل کے آزادی کے نعرے لگاۓ جاتے ہیں, یہ آزادی نہیں یہ تباہی ہے, ہاں واقعی تباہی ہے! میں غلط نہیں کہہ رہی ،یہی آزادی مغرب والوں نے بھی لی، آج وہاں بھیانک تصویر ہے۔ نا تو ان کا ایمان سلامت ہے اور نا ہی اخلاق! اللہ پاک سے گڑگڑا کے معافیاں مانگنی چاہییں ہمیں اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائیں، ہمیں اپنی رحمت کے ساۓ میں رکھیں ہمیشہ ہمیشہ آمین۔
(جاری ہے)