چوتھا اور آخری حصہ
زہرہ جبیں
چھوٹے بڑے دکھ اور آزمائشیں زندگی میں آتی ہی رہتی ہیں۔ میری زندگی بھی ایسی ہی چل رہی تھی۔ کبھی کبھی حالات و واقعات پر بار بار غصہ آتا، جی چاہتا ہر چیز کو الٹ پلٹ کر رکھ دوں لیکن غصہ دبانا پڑتا تھا گھر بچانے کے لیے جذبات کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ یوں
ہی وقت گزرتا رہا میرے میاں کو نہ بدلنا تھا وہ نہیں بدلے ۔ بیوی پر شک کرنا، طعنے دینا، حکم چلانا، پیر کی جوتی سمجھنا، گالیاں دینا اس کے ماں باپ اور رشتے داروں کو برا بھلا کہنا، گھر آنے سے منع کر دینا، بیوی کو اس کے رشتے داروں سے نہ ملنے دینا... بس یہی ان کا وتیرہ تھا۔ میری زندگی حقیقتاً ایک قیدی جیسی ہو گئی تھی۔ میں کبھی اپنے میکے بھی گئی ہوئی ہوتی اور وہاں سے کسی قریبی رشتے دار کے گھر جانا ہوتا تو شوہر سے اجازت لیناپڑتی تھی۔ اگر ان سے رابطہ نہ ہو پاتا تو میں ان کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جا سکتی تھی۔ اور اجازت بھی ان کے مزاج پر موقوف ہوتی جو اکثر بگڑا ہوا ہوتا ۔ یوں لگتا تھا حکمرانی کرنے کے لیے انھیں کسی سلطنت کی ضرورت تھی جو بیوی کی شکل میں انھیں مل گئی۔
شادی کے کچھ دن بعد ہی ان کے مزاج کا بہت حد تک اندازہ ہو گیا تھا۔ مجھے بار بار احساس ہوتا یہ فیصلہ غلط ہو گیا ہے، ہم دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ بعض اوقات ان کے رویے مجھے بے انتہا دکھ دیتے۔ خاص طور پر بار بار شک کرنا، خواہ مخواہ معاملات کی کھود کرید کرنا۔ ایک ہی بات بار بار پوچھ کے مجھے زچ کر دینا... یا مجھ سے کوئی ایسی فرمائش کرنا جسے میں پوری نہ کر سکوں... ایسا ہی ایک دن تھا جب میں اپنے شوہر کی کسی بات پر حد درجہ دکھی تھی. اپنے پورشن میں اکیلی تھی، ظہر کی نماز پڑھتے ہوئے بہت تڑپ تڑپ کر روئی۔ اکیلی... تنہا... ایک ایسے مسافر کی طرح جو منزل پر پہنچے تو پتا چلے یہ تو کوئی اور ہی جہاں ہے... میری منزل تو کچھ اور تھی۔
یا پھر اس شخص کی طرح جو اپنی سب سے قیمتی متاع کسی جوئے میں ہار بیٹھے... اور ہارنے کے بعد اسے احساس ہو یہ کیا ہو گیا...؟ کیوں ہو گیا...؟ اور اسے اپنا آپ کسی گہری کھائی میں گرتا محسوس ہو... چاروں طرف گھپ اندھیرا نظر آئے... کوئی امید کی کرن نہ ہو اور دل کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح چرمرا کر رہ جائے۔ گوٹے کناری سے سجا دوپٹا نئی دلہن کے آنسوؤں سے بھیگتا رہا.... اس کی فریادیں آسمان کا سینہ چیرتی رہیں... اور رب العالمین کو اپنی اس بندی پر ترس نہ آئے، رحم نہ آئے، پیار نہ آئے... یہ کیسے ہو سکتا ہے!! جب زخم دیے جاتے ہیں تو مرہم بھی اتارے جاتے ہیں۔ زخمی دلوں کو وہ اپنے قرب کا مرہم لگاتا ہے، ایسا قرب کہ ساری دنیا کے غم ہیچ لگتے ہیں اس کے سامنے! ہاں مگر شرط یہ ہے کوئی سچے دل سے اسے پکارے... اسے مالک کل سمجھے... اسی پر توکل کرے...!!
یہ آنسوؤں کے گوہر بھلا رائیگاں کیسے جا سکتے تھے۔ سو میرے دل پر بھی ایک سکینت سی طاری ہو گئی۔ ایسا لگا کوئی پہاڑ سا حوصلہ میرے اندر اتر آیا ہو...! دل نے کہا... یہ تو کچھ بھی نہیں! ایک غلط فیصلہ ہو ہی گیا ہے تو کیا ہوا! کوئی بات نہیں اسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لینا چاہیے. لیکن اچھی طرح سوچ سمجھ کر بھی بعض اوقات فیصلے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ پھر واپسی کا کوئی راستا بھی نہیں بچتا تو کیا کرنا چاہیے؟ زندگی روتے سسکتے ہوئے گزار دینی چاہیے؟ نہیں بالکل نہیں! انہی غلط فیصلوں کو سدھارا جا سکتا ہے، سنوارا جا سکتا ہے، نئے سرے سے جوڑا جا سکتا ہے۔ زندگی اتنی بے مول نہیں ہے کہ اسے حالات کے دھارے پر بہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ چند غلط فیصلوں کی وجہ سے زندگی نہیں گنوائی جا سکتی۔ اپنے اوپر خوشیاں حرام نہیں کی جا سکتیں۔ ایک نئے حوصلے اور عزم کے ساتھ دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نام زندگی ہے۔ راستے میں بار بار رکاوٹیں آتی ہیں، پتھر آتے ہیں، ٹھوکریں لگتی ہیں، گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں پھر چل پڑتے ہیں۔ پھر کسی منزل پر پہنچتے ہیں اور دو گھڑی سانس بھی نہیں لے پاتے کہ پھر کوئی راستے کا پتھر منہ کے بل گراتا ہے۔ زخم لگتے ہیں... گھاؤ بھرتے ہیں... پھر ایک نیا سفر شروع ہو جاتا ہے... اسی کانٹوں بھرے راستے پر پیروں کے چھالے دل سے خون بن کے رستے ہیں اور زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ کہیں لق دق صحرا تو کہیں کھلتے گلستان۔ کہیں پھول ہیں کہیں کانٹے ہیں۔ یہی زندگی ہے. ہاں بس جدوجہد ختم نہیں ہونی چاہیے۔ سو میں بھی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی. کچھ میرے مزاج میں بھی چیلنج قبول کرنے والی صفت تھی۔ چھوڑ دینا، پیچھے ہٹ جانا مجھے گوارا نہیں تھا۔ اور سچ بات تو یہ ہے کہ جب ایک کو چھوڑ کر بھی دوسری شادی کرنی ہی ہے تو پہلے کے ساتھ ہی نباہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے۔ زندگی اکیلے تو نہیں گزاری جا سکتی.
اسی لیے میں بھی اپنی مرضی سے اس راس تے پر چل رہی تھی۔ بعض اوقات امی مجھ سے ناراض بھی ہو جاتیں انھیں بہت برا لگتا تھا جب میرے شوہر ان کے سامنے مجھے تذلیل و ہتک کا نشانہ بناتے۔ میں نہ ماں کو سمجھا سکتی تھی نہ شوہر کو ۔ لیکن مجھے اتنایقین ضرور تھا ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ!!
میری شادی کے ایک سال بعد میری چھوٹی بہن کی شادی ہوئی، میں اس کے ولیمے میں بھی شرکت نہ کر سکی کیوں کہ شوہر نے بڑے سخت لفظوں میں کہہ دیا تھا خبردار جو وہاں گئیں۔ کئی بار تو میکے جانے پر بھی پابندیاں عائد کر دیتے۔ جب ان کی مرضی ہوتی، ملانے لے کر جاتے ورنہ میں لاکھ سر پٹکتی رہ جاتی.. ان کا انکار، اقرار میں نہ بدلتا۔ شادی کو پانچ چھ سال گزر گئے... اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے دو ننھے منے پھول بھی گود میں کھلا دیے، ایک پھولوں سی حسین متین شہزادی اور ایک فرماں بردار بیٹا۔ مگر شوہر کے رویے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ ہاں بچوں کی دفعہ میں علاج معالجے پر بھرپور توجہ دیتے۔ لیکن ان کی پرورش میں میری کوئی مدد نہ کرتے۔ دونوں بچے بڑے آپریشن سے ہوئے تھے اس لیے تکلیف بھی بہت ہوتی تھی۔
ساس اور نند کا کچھ سہارا تھا کہ بچوں کو سنبھالنے میں میری مدد کرتی تھیں۔ بیٹے کی عمر تقریباً ایک سال تھی جب چھوٹی سے بڑی والی نند نازیہ کی بھی شادی ہو گئی۔ اس کے ایک سال بعد افشین اور دیور کی بھی شادی ہو گئی اور شمسہ بھابھی کے نچلے پورشن میں دیورانی آ گئیں۔ اس کے ڈیڑھ دو سال بعد ساس امی کا بھی انتقال ہو گیا۔ بچے اب سمجھ دار ہو گئے تھے۔ نہانے کے لیے شمسہ بھابھی کے غسل خانے میں جاتے تو ان کے بچے انھیں طعنے دیتے کہ اپنا باتھ روم بناؤ۔ ایسے میں کبھی دیورانی اپنے باتھ روم کی پیشکش کر دیتیں۔ بڑی لگاوٹ سے کہتی.. بھابھی! آپ ادھر آ جایا کریں، میرے باتھ روم میں نہا لیا کریں۔ (کیا زندگی تھی زہرہ جبیں کی بھی... نہانے کے لیے ماری ماری پھرتی رہی) بچے آئے دن اپنے ابو سے شکایت کرتے اور تب کہیں جا کر انھوں نے گھر کا آدھا حصہ توڑ پھوڑ کر دوبارہ سے بنوایا۔ (بیوی کے دکھ کا تو کبھی احساس نہ ہوا چلو اپنے بچوں کی تو پروا کی۔) اب غسل خانہ بھی بن گیا اور باورچی خانہ بھی۔ میں اپنے باورچی خانے میں کھانا بناتی تو خوشی سے نہال ہو جاتی۔ ایک ایک بات پر الحمد للہ کہتی، دل سے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی۔ گھر ترتیب سے بنا تو کافی کشادہ ہو گیا مگر اب مالی حالات کافی خراب ہو چکے تھے۔ میاں کی معمولی سرکاری نوکری تھی، زیادہ آمدن دکان سے ہوا کرتی تھی جو اب سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دی تھی۔
گھر بنانے کے لیے جو قرض لیا وہ بھی اتارنا تھا۔ شوہر کی یہ عادت اچھی تھی کہ کسی سے قرض لیتے تو وعدے پر ادائیگی کی فکر بھی کرتے ۔ قلیل سی تنخواہ کا تیسرا حصہ قرض اتارنے میں چلا جاتا۔ ضرورتیں اب بھی ناتمام سی رہ جاتیں۔ بھائی بہت ساتھ دیتے تھے میرا، میں ان سے کچھ نہ بھی کہتی تو بھی وہ میرے لیے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے تھے۔ میرے، بچوں اور شوہر کے عید کے کپڑے تو گویا انھوں نے اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ اس کے علاوہ بھی میرا بہت خیال کرتے۔ بیمار ہوتی تو علاج معالجے کا سارا خرچ اٹھا لیتے۔ مجھے کبھی پریشان نہ ہونے دیتے۔ ہم بہن بھائیوں میں ایک دوسرے کے لیے حد درجے محبت اور اخلاص تھا۔
پھر شکر ہے کہ شام کے وقت میاں صاحب نے کہیں اور کام کرنا شروع کر دیا اور حالات نسبتاً بہتر ہونے لگے۔ گھر کا خرچ خوش اسلوبی سے چلنے لگا مگر رویہ ان کا اب بھی ویسا ہی تھا کبھی جی میں آتا تو کسی چیز کے لیے پیسے دے دیتے ورنہ ٹرخا دیتے۔
انہی دنوں میری چپل بھی ٹوٹ گئی پوری تو نہیں ٹوٹی تھی مگر سیدھے پاؤں کی جوتی کا تلا بیچ میں کئی جگہ سے چٹخ گیا تھا۔ کسی کام سے باہر جانا ہوتا تو بڑی مشکل پیش آتی۔ میاں سے کئی بار کہا جوتے خریدنے کے لیے پیسے چاہییں لیکن وہی الٹی سیدھی باتیں سننے کو ملتیں کہ گزارا کرو (اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو وہ کیسے گزارا کر رہے ہیں۔) اس دن شمسہ بھابھی کے ساتھ بازار جانا تھا، میاں سے کہا مجھے بھی تین چار سو روپے دے دیں اپنی چپل خرید لوں گی مگر حسب عادت انکار کر دیا۔ سو بغیر پیسوں کے ہی ان کے ساتھ چلی گئی۔ ایک جگہ راستے میں گٹر کا پانی اور کیچڑ تھی. کوئی اور راستا نہیں تھا اس لیے وہیں سے گزرنا پڑا... مگر ٹوٹے تلے سے کیچڑ اور گٹر کا پانی اندر چلا گیا اور سارا پاؤں گیلا اور نجاست سے آلودہ ہو گیا، بہت گھن آئی سارے راستے کراہت ہوتی رہی۔ شمسہ بھابھی کا کام ختم ہوا تو ہم گھر واپس آ گئے۔ لیکن میرا دل بہت دکھی تھا اس دن حد سے زیادہ دکھی۔ گھر پہنچتے ہی پہلے اچھی طرح صابن سے پاؤں دھوئے۔ عصر کا وقت تھا، وضو کیا اور دکھی دل سے نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بے اختیار ہچکیوں سے رونے لگی۔ ایک وہی تو ہے جس سے سارے دکھ سکھ کہے جا سکتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کون سی بات کہنے والی ہے اور کون سی نہیں اس دن میں بہت روئی رب کے سامنے... میرے اللّٰہ مجھے کیوں ایک ایک چیز کے لیے ترسنا پڑتا ہے...؟ اور آج تو حد ہی ہو گئی۔ تو نے دیکھا نا کس طرح گٹر کا گندا پانی میرے جوتوں میں چلا گیا، میرے پاؤں پر جانے کس کس کی گندگی اور نجاست لگ گئی۔ مجھے کتنی گھن آ رہی تھی اللّٰہ میاں! مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا. تجھ سے تو کچھ بھی نہیں چھپا ہوا نا پیارے اللہ!! تو نے تو سب کچھ دیکھا ہے۔ تجھ سے زیادہ کون اپنے بندوں کے چھپے اور ظاہری حال سے واقف ہے۔ بس میری بھی سن لے میرے پروردگار! مجھے نئی چپل چاہییں۔ میرے پیارے اللّٰہ میاں! میری یہ ضرورت پوری کر دے. بلکہ میری آئندہ آنے والی ہر ضرورت پوری کر دے. میں اپنی ہر حاجت کا سوال تجھ سے کرتی ہوں۔ میرے اللّٰہ! مجھے کسی بے رحم کے حوالے مت کر! جسے میری ضروریات تک کا احساس نہیں ہوتا۔“ اس دن میں بہت تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔ میں شادی کے ان بارہ تیرہ سالوں کے درمیان اپنی بہت سی ضرورتوں کے لیے ترسی تھی مگر ایسا دکھ شاید مجھے کبھی نہیں ہوا تھا جو آج ہوا۔ میری پاک صاف رہنے والی طبیعت اور فطرت پر یہ بہت بڑا بوجھ اور صدمہ تھا ۔ مگر اس دن کی دعا اور فریاد کا ثمر میں آج تک اپنی زندگی میں دیکھتی ہوں... ضرورتیں آتی ہیں مگر پوری بھی ہو جاتی ہیں۔ اور بہت احسن طریقے سے پوری ہوتی ہیں! اللّٰہ سے مانگو تو وہ ضرور اپنے بندوں کو مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اپنے خزانہ غیب سے ان کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔
شادی کو کتنے سال گزر گئے زمانہ بدل گیا مگر ہماری استری کا فسانہ جوں کا توں رہا۔ اس بے چاری کے نصیب میں شاید زہرہ جبیں سے زیادہ شمسہ بھابھی کا نام لکھا تھا۔ تنگ آ کر ایک دن میاں سے کہا ”یہ استری ہم انہی کو دے دیتے ہیں، آپ مجھے نئی استری لا دیں۔“ انھوں نے میری یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی، ظاہر ہے پیسے خرچ کرنے پڑتے۔ اب تو میرے اپنے بچے بھی بڑے اور سمجھ دار ہو گئے تھے۔ لیکن وہ اس صورت حال سے کافی پریشان ہوتے، اسکول جانے کے لیے ہر دوسرے دن بچوں کے یونیفارم استری کرنے پڑتے اور وہ تائی اماں کے گھر کے چکر لگاتے رہتے کہ استری دے دیں۔ نانی اماں کے گھر جا رہے ہیں، کسی تقریب میں جا رہے ہیں، اسکول جا رہے ہیں... استری تائی اماں کے گھر سے ہی لانی پڑتی۔ (کوئی دن ہی ہوتا کہ استری مجھے اپنے پورشن میں رکھی ہوئی مل جاتی ۔) بیٹی بڑی اور سمجھ دار تھی ان باتوں کو اتنا زیادہ محسوس نہیں کرتی تھی لیکن بیٹا جو اب پانچ چھ سال کا ہو رہا تھا ہر چیز کو نوٹ کرتا تھا۔ کبھی کہتا... ”تائی اماں ہر وقت کچھ نہ کچھ منگواتی رہتی ہیں ہمارے گھر سے... کبھی چائے کی پتی، کبھی چینی، کبھی گھی، کبھی ماچس، کبھی نمک مرچ، کبھی زیرہ، کبھی پیاز ٹماٹر ... ہم نے کیا دکان کھول رکھی ہے امی؟“
مجھے اس کے انداز پر ہنسی بھی آ جاتی اگرچہ میں کبھی کبھی خود بھی پریشان ہو جاتی تھی ان چیزوں سے... مگر پھر سمجھا دیتی..”کوئی بات نہیں بیٹے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے. شکر ہے ہمیں اللّٰہ تعالیٰ نے دینے والا بنایا ہے۔ اور اس دینے سے ہمارے رزق میں برکت ہوگی ان شاء اللہ **
چائے تیار ہوتی تو میں اس سے کہتی ”عثمان جاؤ تائی اماں کے گھر سے اپنے کپ لے آؤ “ تو وہ کہتا یہ تائی اماں کپ منگواتی ہیں تو واپس کیوں نہیں بھجواتیں؟“
بیٹا انھیں یاد نہیں رہتا نا... جاؤ تم جا کر لے آؤ۔ ان کے کپ ٹوٹ جاتے ہیں تو وہ ہم سے ہی لے لے کر گزارا کرتی رہتیں! چاہے ہم کتنے ہی تنگ ہوتے رہیں۔ پھر آخرکار ہم ہی اپنے نئے کپ خرید لاتے۔
سالن پکاتی تو سب سے پہلے ان کے لیے بھجواتی، (وہ بھی کبھی بھجوا دیا کرتی تھیں) مگر میری پلیٹیں انہی کے گھر جمع ہوتی رہتیں۔ کبھی خود جا کر لے کر آتی کبھی بچوں سے منگواتی۔ عثمان اس پر بھی بہت چڑ جاتا، جب آپ ان کی پلیٹیں بھجوا دیتی ہیں تو وہ ہماری پلیٹیں کیوں اپنے گھر جمع کرتی رہتی ہیں امی؟ آپ بھی ان کی پلیٹیں نہیں بھجوایا کریں“ میں اسے سمجھا دیا کرتی اور کہتی بیٹے دوسروں کی جن باتوں اور حرکتوں سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے نا تو وہ کام ہمیں خود بھی نہیں کرنے چاہییں۔ ورنہ اچھائی اور برائی کا فرق باقی نہیں رہتا، سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ اور جب کوئی اپنی بری عادت نہیں چھوڑتا تو ہم اپنی اچھی عادت کیوں چھوڑیں؟ بھلائی کو تو ہمیشہ غالب رہنا چاہیے۔!!“ بات اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر اتنا ضرور سمجھ لیتا تھا کہ امی کیا چاہتی ہیں۔ شمسہ بھابھی کے بچے فریج سے پانی کی بوتلیں اکثر لے جاتے، پھر واپس بھی نہیں لاتے تھے. ایک بچہ ایک بوتل اٹھا کر لے جاتا، پانی پی کر واپس نہیں لاتا بلکہ اپنے باورچی خانے میں ہی رکھ دیتا، وہ بوتل وہاں رکھے رکھے گرم ہو جاتی پھر کسی اور کو پیاس لگتی تو وہ دوبارہ فریج سے دوسری ٹھنڈی بوتل نکال کر لے جاتا مگر پرانی بوتل واپس فریج میں لا کر رکھنے کی زحمت کوئی نہ کرتا۔ مجھے بوتلیں بھر کر فریج میں رکھنی ہوتیں... تو بھی ان سے منگوانی پڑتیں۔ وہ خالی بوتل تک واپس نہیں کرتے تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ شدید گرمی میں کہیں باہر سے آؤ پانی پینے کے لیے فریج کھولو اور ایک بھی ٹھنڈی بوتل فریج میں موجود نہ ہوتی۔ شدید غصہ آتا مگر ٹھنڈے پانی کی جگہ غصے کا گھونٹ پینا پڑ جاتا ۔ میں کہہ کہہ کر تھک گئی مگر سننے والا کون تھا یہاں....!!
میں ان سے کہتی ”بھابھی! میں فریزر میں برف جما دیتی ہوں آپ کولر میں ٹھنڈا پانی بنا لیا کریں۔ لیکن نہیں! انھوں نے قسم اٹھا رکھی تھی زہرہ جبیں کا ضبط آزمانے کی، سو آزماتی رہیں۔ ایسی بات نہیں کہ ان کا فریج نہیں تھا، فریج موجود تھا مگر اس میں پانی کی بوتلیں بھر کر رکھنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔
اور مجھے یہ سب کچھ سہنا پڑتا تھا کیوں کہ شوہر کی طرف سے یہی آرڈر تھا۔ خود مجھے بھی کبھی کبھی احساس ہوتا کہ کوئی بات نہیں معمولی تکلیفیں ہیں تھوڑا سا برداشت کرنے پر بڑے بڑے اجر ملتے ہیں۔ اور یہ میرے شوہر کے قریبی رشتے دار ہیں ان سے بنا کر رکھنے میں شوہر کی خوش نودی ہے اور ویسے بھی اسلام ہمیں رشتے داریاں جوڑنے کا حکم دیتا یے۔ (اور اگر عورتیں برداشت کا مظاہرہ نہ کریں تو بھائی ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ عورتوں کے گلے شکووں اور طعنوں کی وجہ سے ان کے آپس کا پیار اور اپنائیت ختم ہو جاتی ہے۔) اور پھر ساتھ رہنے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے پڑوسی بھی تو ہیں، اور پڑوسیوں کا بہت حق ہوتا ہے اور پڑوسی وہ جو کہ رشتے دار بھی ہوں،، ان کا حق تو اور بڑھ جاتا ہے ۔
عثمان مجھ سے پوچھتا...”تو امی ہم بھی تو ان کے پڑوسی ہیں انھیں بھی تو ہمارا خیال کرنا چاہیے۔“ ہاں ضرور کرنا چاہیے بیٹے! لیکن یہ سوچنا ان کا کام ہے ہمارا نہیں! ہم صرف اپنے عمل کے ذمے دار ہیں اور یہ سب اللّٰہ میاں کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ ہمیشہ دوسروں کے کام آنا چاہیے ۔ جو دنیا میں کسی کی ایک ضرورت پوری کرتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کی ستر حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ بس بیٹا ہم تو آخرت کی امید پر نیکیاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ شاید اللّٰہ تعالیٰ کو ہمارا کوئی عمل پسند آ جائے اور وہ ہم پر مہربان ہو جائے، ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمیں عزت کی روزی دے اور آخرت میں ہمارے درجات بلند کرے۔“
بچے مجھ سے ایسی باتیں سیکھتے رہتے تھے سو خود بھی اپنی تائی، چچی، اور پھوپھیوں کا بہت احترام کرتے، ان کا خیال کرتے، ان کے کام کرتے، ہمیشہ ادب سے بات کرتے، کبھی ان کے ساتھ زبان چلاتے نہ ہی پلٹ کر جواب دیتے۔ ویسے شمسہ بھابھی جیسی بھی تھیں لیکن میرے بچوں پر مہربان تھیں۔ ان کا وہ معاملہ تھا کہ گڑ نہ دیں پر گڑ کی سی بات کہہ دیں۔ اتنا بھی کافی تھا ہمارے لیے۔ ***
ضروری نہیں ہے کہ ہم دعائیں مانگیں گے تو ہمارے مسائل ایک دم حل ہو جائیں گے، ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی اور ہماری زندگی گل و گلزار ہو جائے گی! نہیں... بلکہ اللّٰہ کی مدد یہ ہوتی ہے کہ ہم ان حالات سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹنا جان لیتے ہیں۔ بے صبرے نہیں ہوتے، شکوے شکایات نہیں کرتے ۔ بس مستقل مزاجی سے اپنے راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں. اللّٰہ تعالیٰ ہمیں صبر دیتے ہیں حوصلہ دیتے ہیں، مزید نیکیاں کرنے کی توفیق دیتے ہیں اور دنیا میں بھی کچھ خاص انعام ضرور دیتے ہیں۔ میرے لیے بھی میرا انعام میرے بچے تھے جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں جب کہیں کوئی کمی کرتے ہیں تو بدلے میں کچھ نہ کچھ خاص بھی ضرور عطا کرتے ہیں۔ یہ تو ہم بندے ہی نادان ہوتے ہیں جو اس کی عطاؤں کو سمجھتے نہیں۔ مجھے بھی میرے رب نے کئی طرح سے نوازا... اس نے مجھے اپنے قرب کی دولت عطا کی، نیک اور صحت مند اولاد دی، نماز اور قرآن کی محبت دی، میرے دل کو اپنے محبوب نبیﷺ کی محبت سے آباد کیا! میرے اخلاق کو سنوارا...! مجھے اور کیا چاہیے تھا بھلا!! **
ہم نے شادی کے تیئیس سال اسی آبائی گھر میں رشتے داروں کے ساتھ رہ کر گزارے۔ اب الگ رہتے ہوئے بھی تین چار برس ہو گئے ۔ میرے جہیز کی وہ استری جو ہمیشہ میرے لیے مسئلہ بنی رہی، آج بھی میرے پاس ہے۔ بڑی لمبی عمر پائی موصوفہ نے. اس پر نظر پڑتی ہے تو بہت سی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں جتنی پریشانیاں اٹھائیں اگر وہ سب نہ ہوتیں اور میری زندگی بہت اچھی گزر جاتی مگر میرے دامن میں وہ سب کچھ نہ ہوتا جو مجھے اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد ملا تو کیا وہ اچھا ہوتا؟ یا اب اچھا ہے!!
اگر دین کی سمجھ بوجھ ہو تو حالات کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ میں نے بھی ایک حدیث کو متاعِ جاں بنا کر اپنے شوہر کے رشتے داروں سے ہمیشہ صلہ رحمی کی! ہمیشہ ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کی کوشش کی۔ پیارے حبیب ﷺ بے فرمایا تھا:
”جو مومن لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر زیادہ ہے اس مومن سے جو لوگوں کے ساتھ مل کر نہیں رہتا اور نہ ان کی ایذا پر صبر کرتا ہے“ **
میں شوہر کے لیے بہت دعائیں مانگتی مگر وہ نہ سدھرے لیکن ان دعاؤں کا ثمر میں نے اپنی اولاد میں دیکھا۔ نیک اورفرماںبردار ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ اللّٰہ کے لیے اتنی قربانیاں دیں اپنا گھر بسائے رکھیں رشتوں کو جوڑے رکھیں اپنے وجود سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، دوسروں کو اپنی ذات سے ہمیشہ سکھ دینے کی کوشش کریں اور وہ رب العالمین آپ کی قربانیوں کو رائیگاں جانے دے.... یہ کیسے ہو سکتا ہے!!؟
اللّٰہ تعالیٰ تو سب سے بڑے قدر دان ہیں ۔ وہ اپنے بندوں کی قربانیوں کو کبھی رد نہیں کرتے، ان کا بیش بہا اجر عطا کرتے ہیں، کچھ دنیا میں مل جاتا ہے اور بہت سارا آخرت میں!
زہرہ جبیں کوئی کہانی نہیں، اسی معاشرے کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ آج میں اپنے اردگرد لڑکیوں کو ذرا ذرا سی باتوں پر پریشان ہوتے اور گھر توڑنے کی باتیں کرتے دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ زندگی ہمت اور حوصلے سے گزاری جاتی ہے۔ شوہر خدانخواستہ کسی بے راہ روی کا شکار ہو، نشئی ہو، جواری ہو، کماتا نہ ہو تو بے شک الگ ہونے کا سوچیں مگر سسرال اور شوہر کی دیگر پریشانیوں پر دل برداشتہ ہو کر رشتے نہ توڑیں۔ گھر بڑی قربانیوں سے بنتے ہیں اور ان قربانیوں میں زیادہ کردار عورت کا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ مثبت رکھتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ خود کو مظلوم اور بے دست و پا سمجھ کر حالات کے دھارے پر نہ چھوڑیں بلکہ ہمیشہ اپنے حالات میں بہتری لانے کے لیے کوشش کرتے رہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھتے ہوئے زندگی گزاریں... یہ زندگی تو ویسے ہی فانی ہے اور فانی زندگی کے لیے کیا مستقل خوشیاں تلاشنا......!!! اصل خوشی اور راحت کی جگہ تو جنت ہے جو صرف ایمان والوں کے لیے ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنی جنتوں کا مکین بنائے. آمین یا رب العالمین!