ابو دونوں کے سامنے اس بات کا اظہار کرنے کے بعد سخت پریشان تھے۔ انہیں لگا بیٹے کو بچائیں گے تو بیٹی کا گھر ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر بیٹی کا گھر بچانے کے لیے رشتہ کر دیں گے تو بیٹے کے ساتھ زیادتی اور زبردستی ہو جائے گی۔ وہ شدید اضطراب کا شکار تھے اور اپنا دل پکڑ کر بیٹھے، ان کی حالت واقعی غیر ہو رہی تھی
مہوش کرن
~~~~~~ آٹھویں قسط
اجالا کی آنکھ امی کی آواز سے کھلی، شاید کسی سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ وہ صبح فون پر ندیم کو فجر کی نماز اور آفس کے لیے اٹھا کر دوبارہ سو گئی تھی۔ چند لمحے ان کے بارے میں سوچ کر مسکراتی ہوئی بستر سے اٹھ گئی۔ فریش ہو کر آئی تو دیکھا گرما گرم مزے دارناشتا ہاٹ پاٹ میں رکھا ہوا تھا۔ امی اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔ اجالا اپنے ہاتھ کی ا سپیشل چائے بنا لائی، آرام سے مزے لے کر کھایا پیا۔ فارغ ہوئی تو امی سے کھانے کا پوچھنے لگی۔ ”جو کہو وہ بنا لیتے ہیں۔ البتہ شام کی چائے کے لیے کوئی چیز بنا لو۔“ زینت بیگم نے کہا۔ ”کیوں کوئی آرہا ہے یا ویسے ہی کہہ رہی ہیں؟“
”ہاں وہ رشتے والی خاتون آئیں گی، کہہ رہی تھیں کسی اہم رشتے کا بتانا ہے۔“ ”انہیں نے تو دو جگہ ہمیں لے کر بھی جانا ہے نا، تو یہ کیا کوئی نیا رشتہ ہے؟“ اجالا نے پوچھا۔ ”نہیں، میری جاننے والی نہیں بلکہ جس جگہ ندیم نے شعیب کا پروفائل دیا ہے وہ خاتون آئیں گی۔“ امی نے جواب دیا۔ ”کیا، مگر کیوں؟ ایسا کون سا اہم رشتہ ہے جو بتانے وہ گھر پر آرہی ہیں، آپ نے پوچھا تو ہوتا، ابھی تو وہ آپ لوگوں کو ٹھیک طرح جانتی بھی نہیں۔“
”ہاں پوچھا تھا، انہوں نے کہا ایسی باتیں فون پر نہیں آمنے سامنے بیٹھ کر ہوتی ہیں۔“ امی نے بتایا۔ دونوں کو ہی عجیب سا احساس ہوا لیکن دونوں اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔
شام وہ خاتون آئیں تو معمول کی سلام دعا کے بعد زینت بیگم سے رشتوں کے حوالے سے روایتی باتیں کرنے لگیں۔ اجالا نے پہلے سے چائے تیار رکھی تھی فوراً ہی لے آئی تاکہ وہ بھی گفتگو کے وقت موجود رہے۔ اجالا کو چائے کے ساتھ آتا دیکھ کر انہوں پانی مانگ لیا اور اسے پھر اٹھ کر جانا پڑا۔ تب وہ زینت بیگم سے بڑی رازداری سے گویا ہوئیں۔ ”آپ اپنے بیٹے کا رشتہ شہنیلا سے کیوں نہیں کر دیتیں؟“
”اس لیے کہ ہم لوگ ادلے بدلے کی شادی نہیں کرنا چاہتے۔ ایسی شادیوں میں بہت مسائل ہوتے دیکھے ہیں تو احتیاط بہتر ہے۔“
”مسئلے مسائل تو کسی دوسری صورت میں بھی ہو سکتے ہیں، آپ احتیاط ہی کرتی رہ جائیں گی۔“ ”کیا مطلب، آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟“
”اب آپ سے کیا چھپانا، دراصل اجالا کی ساس نے صرف شہنیلا کے لیے نہیں بلکہ ندیم کے لیے بھی رشتہ ڈھونڈنے کا کہا ہے۔ تب ہی تو میں خاص طور پر آپ کو اس ادلے بدلے کا مشورہ دینے آئی ہوں۔ آخر کو ندیم بھی تو شہنیلا کے لیے قربانی دے رہے ہیں کہ اچھی جگہ بہن کا رشتہ ہو جائے بھلے سے بدلے میں ان کو کیسی بھی لڑکی سے دوسری شادی کرنی پڑے۔ کیا کریں آج کل زیادہ عمر کی لڑکیوں کے اچھے رشتے اسی طرح ملتے ہیں۔
دیکھیں کھوٹ آپ کی طرف ہے، آپ کی ہی بچی بے اولاد ہے۔ مانا بے اولادی اللہ کے فیصلے ہیں لیکن یہ فیصلہ تو آپ خود کر سکتی ہیں نا۔ میری مانیں تو یہ کام کر لیں اس طرح اجالا کے قدم جم جائیں گے۔“
زینت بیگم ہونق شکل بنائے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ بس اتنا ہی جواب دیا کہ، ”نہیں یہ کام تو ہم ہرگز نہیں کریں گے۔“
”ٹھیک ہے، آپ کی مرضی۔ ان لوگوں کو تو کوئی نہ کوئی ادلے بدلے کا اچھا رشتہ مل ہی جائے گا۔ پریشانی تو آپ کو ہوگی۔“
اسی وقت اجالا ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ ”میں تو بس بچی کو دکھ نہیں دینا چاہتی۔“ وہ جلدی سے بولیں اور جانے کے لیے اٹھ گئیں۔ ان کے جانے کے بعد اجالا نے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھیں، کون سا رشتہ بتا رہی تھیں، کس دکھ کی بات کر رہی تھیں۔ اچانک ہی کیوں چلی گئیں۔ لیکن زینت بیگم نے ٹال مٹول کر کے جواب نہیں دیا۔ البتہ اجالا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی تھی۔
٭٭٭٭ پورا دن ندیم کی فون کال کا انتظار کرتے کرتے اجالا نے شام میں انہیں خود فون کر لیا۔ ”کیا بات ہے، آپ کا موڈ کیوں خراب ہے؟“
اجالا نے پوچھا۔
”میں شہنیلا کے رشتے کی وجہ سے پریشان ہوں۔“ ندیم نے کہا۔ ”پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہوگا۔ جو آنٹی نے ادلے بدلے کا رشتہ بتایا تھا وہاں کاشف اور شہنیلا کے لیے بات چلائیں۔“ ”نہیں ،،، کاشف ابھی نوجوان ہے اس کی اپنی ترجیحات ہیں۔ اور پھر کاشف ہی کیوں، میں کیوں نہیں؟“ ندیم نے کہا۔ ”آپ ،،، کیا مطلب ؟؟؟“ اجالا نے خوفزدہ ہوکر پوچھا۔
”وہی مطلب جو تم اچھی طرح سمجھ رہی ہو۔ شہنیلا کے اچھے رشتے کے لیے میں بدلے میں شادی کروں گا۔“ ندیم نے صاف گوئی سے آگاہ کیا۔
”مگر یہ تو مجھ پر ظلم ہوگا۔“
”ہاں تو ہوگا، مگر یہ ظلم تم نے خود اپنے اوپر کیا ہوگا۔“
”میں نے کیوں، بھلا کیسے؟“ اجالا نے تعجب سے کہا۔
”ظاہر ہے رشتے سے منع کر کے۔“ ندیم نے بتایا۔
”میں سمجھ نہیں پا رہی آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ اجالا واقعی بے خبر تھی۔ ”ٹھیک ہے نہ سمجھو۔ میرے پاس سمجھانے کا ٹائم نہیں۔“ ندیم نے رکھائی سے کہا۔ ”چلیں چھوڑیں۔“ اجالا کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس نے چاہا کوئی بری بات سننے سے اچھا ہے کہ بات ہی ختم کر دوں۔
”آپ ملائشیا کی ٹکٹیں کب کی کروائیں گے۔؟“
”اب کوئی ٹکٹ نہیں ہو رہیں۔ کوئی کہیں نہیں جا رہا۔“
”ایسے کیسے نہیں جارہا؟ کل تک تو آپ جانے کا شور کر رہے تھے، تیاری کی بات کر رہے تھے۔ اب اک دم کیا ہوگیا۔؟“ ”اب یہ ہوگیا کہ چونکہ تمھاری امی نے شہنیلا کے لیے شعیب کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے اس لیے مجھے کہیں ادلے بدلے کی شادی کرنی ہے تاکہ شہنیلا کی بھی شادی ہو سکے۔ اور ان سارے کاموں کے ہوتے ہوئے میرے پاس تمھارے ساتھ کہیں جانے کا فالتو وقت نہیں ہے۔ فی الحال مجھے فون کر کے تنگ مت کرنا۔“ یہ کہہ کر ندیم نے فون بند کر دیا۔
اجالا اُسی وقت بھاگتی ہوئی ابو کے کمرے کی طرف گئی،
”ابو ندیم دوسری شادی کر رہے ہیں۔“ اس نے روتے ہوئے کہا۔
”پتا نہیں وہ فون پر کیا کیا کہہ رہے تھے۔ کیسا رشتہ، کون سی بات، کچھ سمجھ نہیں آیا سوائے اس بات کے کہ وہ دوسری شادی کر رہے ہیں اور شدید غصے میں ہیں۔“
ابو خاموشی سے امی کی شکل دیکھ رہے تھے، زینت بیگم رشتے والی سے صبح ہونے والی تمام گفتگو انہیں بتا چکی تھیں۔ شعیب بھی وہیں بیٹھا تھا کہنے لگا،
”کیا ہوگیا اجالا، وہ تمھیں چھیڑ رہے ہوں گے۔ بھلا ندیم بھائی ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے نہیں ہیں۔“ ”ارے تمھیں کیا معلوم، کون کیسا ہے، بہت دفعہ گھر میں دوسری شادی کی بات ہوئی ہے لیکن وہ سنجیدہ نہیں ہوتے تھے مگر اس بار تو مجھے ڈر لگ رہا ہے وہ بالکل ہی بدلے ہوئے لگے ہیں۔“
”آخر آپ اِن دونوں کو حقیقت بتا کیوں نہیں دیتے؟“ زینت بیگم نے روہانسی ہو کر کہا۔ ابو نے جب شعیب اور اجالا کو سچ سے آگاہ کیا تو دونوں ہی ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے۔ ”نہیں نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی زبردستی ہے کیا؟ میں یہ شادی نہیں کروں گا، مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے، اجالا کے ساتھ اس کا رویہ دیکھا ہے۔“ شعیب نے چڑ کر کہا۔
”اور جو نہیں کرو گے تو کیا ان لوگوں کا رویہ بہتر ہوجائے گا۔ ارے دھمکی دے کر گئے ہیں۔“ اجالا زار و قطار رو رہی تھی۔
”شعیب، میرے بھائی، خدا کے لیے میرا گھر بچا لو۔ میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔“ ابو دونوں کے سامنے اس بات کا اظہار کرنے کے بعد سخت پریشان تھے۔ انہیں لگا بیٹے کو بچائیں گے تو بیٹی کا گھر ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر بیٹی کا گھر بچانے کے لیے رشتہ کر دیں گے تو بیٹے کے ساتھ زیادتی اور زبردستی ہو جائے گی۔ وہ شدید اضطراب کا شکار تھے اور اپنا دل پکڑ کر بیٹھے، ان کی حالت واقعی غیر ہو رہی تھی۔ دونوں اولاد انہیں اس طرح دیکھ کر اپنی پریشانی بھول کر انہیں سنبھالنے لگے۔ ابو اور اجالا کی حالت اور اس ساری ناگہانی آفت کو دیکھتے ہوئے شعیب نے یکایک فیصلہ لے لیا کہ،
”ابو میں اجالا کا گھر بچانے کے لیے شہنیلا سے شادی کروں گا۔ میں تیار ہوں، آپ انہیں فون کر کے بتا دیں۔ مگر پلیز خود کو سنبھالیں، اجالا تم بھی رونا بند کرو۔ اس طرح تو آپ دونوں کو کچھ ہو جائے گا۔ ابھی میں ہوں نا، پریشان مت ہوں۔“ اتنی بڑی بات شعیب کے منہ سے سننا تھی کہ سب کو قرار آ گیا۔ زینت بیگم کو دُکھ تھا کہ یہ سب اچھا نہیں ہورہا، اجالا کو بھی دکھ تھا کہ اس کے بھائی کو قربانی دینا پڑ رہی ہے لیکن وہ سب مجبوری کی بھینٹ چڑھنے کو تیار ہوگئے تھے۔ زینت بیگم نے بس اتنا کہا کہ،
”کل وہاں باقاعدہ رشتہ لے کر چلیں گے۔“
اگلے دن وہ سب وہاں تیاری اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ گئے۔ وہاں بھی سب خوش تھے۔ پہلی بار خوب آؤ بھگت اور خاطرداری ہوئی۔ واپس آتے وقت ندیم نے بڑے مان سے کہا،
”اب جلدی واپس آ جانا، ہمیں گھومنے ملائشیا بھی تو جانا ہے۔“
اجالا کے دل میں اِک ٹیس سی اٹھی کہ کل تو آپ نے رشتہ منع کرنے پر ہر چیز سے منع کر دیا تھا، اس قدر اُکھڑے اور دھمکی آمیز انداز میں گفتگو کی تھی اور آج رشتہ ہوتے ہی سب ٹھیک ہوگیا۔ اسے اپنا آپ ہمیشہ کی طرح بہت بے وقعت لگا مگر ایک بار پھر اس نے جھوٹ اور دکھاوے کا پردہ رکھ لیا اور لالی پاپ خوشی خوشی لے لیا۔ ٭٭٭
اتنی محنت اور محبت سے کوئی عورت اپنی گھرہستی کی عمارت کھڑی کرتی ہے۔ ایک ایک اینٹ کو اپنے خون سے سینچتی ہے، گارے پتھر اور سیمنٹ کی جگہ اپنے جذبات، احساسات اور خواہشات کی قربانیوں کا لیپ لگاتی ہے۔ اس گھر میں پنپنے والے رشتوں کو اپنا مان، ارمان اور احترام دیتی ہے۔ اپنا آرام اور وقت، ہر وقت اور بے وقت بھی سب پر نچھاور کرتی ہے اور بدلے میں اسے کیا ملتا ہے؟
ستائش، آفرین، داد و تحسین ؟
نہیں ۔۔۔ بلکہ اگر صاحبِ اولاد ہوتو بے ڈھنگے پَن اور بد سلیقہ ہونے کا طعنہ ! اور اگر بے اولاد ہو تو بانچھ پن کا طعنہ !
اُجالا کے ساتھ بعد والا ہی معاملہ تھا۔
اجالا کی شادی کے نو سال بعد اسی کمی کو دھمکی کے طور پر استعمال کر کے اس کی نند کا رشتہ اس کے بھائی سے زبردستی کروایا گیا تھا۔ ایک سال تک ناز نخرے اُٹھوا کر اور چونچلے بازی کروا کر جب شادی ہوئی تو اجالا کی شادی کو پورے دس سال مکمل ہو چکے تھے۔ اُسے لگنے لگا تھا کہ اب تو سب ٹھیک ہو جائے گا، اور اس کے باقی زندگی پرسکون اور مستحکم گزرے گی مگر صرف دو ہی ماہ میں سب چوپٹ ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ،
انسان پر آئے مصائب اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ( سورۃ شوریٰ، آیت30)
بعض اوقات جذبات میں آکر بڑے بڑے فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے لیکن ان پر قائم رہنا مشکل، بعض اوقات بڑی سے بڑی قربانی دینا آسان ہوتا ہے لیکن اس کی لاج رکھنا ناممکن۔ قربانی دی جاتی ہے قرب حاصل کرنے کے لیے. یا تو اللہ کا قرب پانے کے لیے یا پھر بندوں کی قربت حاصل کرنے کے لیے لیکن یہاں دونوں ہی مقاصد مفقود تھے۔ لہٰذا زندگی کی گاڑی چلنا ناممکن ہوگیا۔
(جاری ہے )