عائشہ شیخ
چھٹی قسط
ہبا : اس کی آواز میں اتنا درد کیوں ہے؟
حدیقہ : جو لوگ دوسروں کے درد کو سمجھتے ہیں وہ شاید ایسے ہی ہوتے ہیں۔

شفق نے اپنی تقریر آگے بڑھاتے ہوئے کہا :
"اگر خواتین اپنے اُس مقام کو پہچان لیں نا جو اللہ رب العزت نے انہیں دیا ہے،تو میں یقین سے کہتی ہوں وہ شکر کے سجدے میں سیدھا جا کے گریں۔ کوئی بھی اللہ سے بڑھ کر قدردان نہیں ہو سکتا آپ کا، یہ آپ اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ جو آج کم علم یا معصوم ذہن والی خواتین کو محض چند دنیاوی فوائد اور لالچ دے کر جو اُن سے اُن کا اصل مَقام چھینا جا رہا ہے، بڑے خسارے کا سودا ہے یہ!

کیا ہوا اگر دنیا کی رونقیں کچھ کم دیکھ لیں آپ نے،کیا ہوا اگر دو پیسے کم آئےآپ کے پاس ،کیا ہوا اگر آپ سُپر ماڈل نا دِکھیں, کیا ہوا اگر آپ کو یہ سننا پڑا کہ: تمہیں تو دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں ،تم تو آج کے دور سے واقف ہی نہیں ہو، تمہیں تو پتا ہی نہیں کہ دنیا میں جِیا کیسے جاتا ہے!

کوئی بات نہیں اگر آپ ایسا سن لیں تو، جس کی جیسی عقل ہوگی وہ وہی بولے گا کیا ہو گیا اگر کچھ کم enjoy کیالائف کو آپ نے۔

اول تو ایسا نہیں ہوگا ان شاء اللہ !!اللہ آپ کو نعم البدل میں بہت کچھ زبردست دے دیتا ہے ہاں واقعی وہ رب اپنے بندوں کی محنتوں کو کبھی ضایع نہیں کرتا

بالفرض کوئی چیز چھوڑنی بھی پڑی آپ کو تو, جنت میں تو سب بدلا مل جانا ہے نا!! پھر فکر کیسی؟ افسوس کیوں؟ لیکن اگر یہاں دنیا میں، ہم نے اللہ کو چھوڑ کے، شیطان کو دوست بنایا تو معاملہ بڑا سخت ہے۔ قرآن مجید میں قیامت کے منظر کو پڑھ کے دیکھ لو۔۔۔۔۔ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ میں آگے کیا بیان کروں! گناہوں کے باوجود جو ڈھیل ملی ہوئی ہے, اس پہ اتراؤ نہیں، متکبر نہ بنو۔ اللہ کے پاس واپس لوٹ آؤ،وہ تمہیں کبھی بھی سابقہ گناہوں پہ طعنہ نہیں دے گا، اس اللہ کے ہوجاؤ وہ تمہارا ہو جاۓ گا اللہ کو دوست سمجھو، اپنا سمجھو اس کو، وہ مالک اور خالق ہے نا ہمارا کیا اللہ کو نہیں پتا کہ میرے بندے کتنے کمزور ہیں۔ وہ کبھی ہمیں تکلیف نہیں دینا چاہتا، یہ تو ہمارے ہی اعمال ہوتے ہیں، ہم اپنی جانوں پہ خود ہی ظلم کر بیٹھتے ہیں گناہ کر کر کے۔ خدارا وقت گیا نہیں ،ابھی مہلت ہے رب کے پاس واپس لوٹو، ابھی اور اسی وقت!

اتنا کہنا تھا کہ ہال میں بیٹھا ہر شخص رو رہا تھا، یہاں تک کہ گیٹ پہ کھڑے گارڈ بھی۔ شاید شفق خود بھی رو رہی تھی، شفق الفاظ سادہ تھے لیکن جو درد بھرا لہجہ تھا اس کا اس نے شاید پگھلا دیا تھا سب کو۔ ہبا : یار میرا دل پھٹ جاۓ گا ہٹو میں جاؤں باہر۔
حدیقہ : دل ہے یا ایٹم بم اللہ خیر کرے۔
ہبا : مذاق نہیں کرو، میرا دل واقعی ڈوب رہا ہے۔
حدیقہ : ڈوبنے دواس ڈوبنے میں ہی اس دل کی زندگی ہے۔ ہمیشہ بچوں کی طرح نہیں کیا کرو۔ کبھی دل کو مضبوط بھی کر لیا کرو۔ جب بھی کوئی ایسی بات آئے بس بھاگو فوراً ۔ ایسے کام تھوڑی چلے گا، جب تک دل نرم نہیں ہوگا، بات اثر کیسے کرے گی! اور جب بات اثر نہیں کرے گی تو عمل کیسے آۓ گا؟ جب عمل نہیں آۓ گا تو اللہ راضی کیسے ہوگا؟ جب اللہ راضی نہیں ہوگا تو جنت کیسے ملی گی؟؟؟؟

ہبا : تم واقعی مجھے بدلنا چاہتی ہو؟ اتنا سارا بدل تو گئی ہوں!

حدیقہ : اللہ دل بدل دے ہمارا۔ میں کچھ نہیں کرتی، یہ محض اللہ کا فضل ہے تمہارے اوپر۔ ہبا : لیکن تم اتنا کچھ مجھے بتاتی جو ہو!

حدیقہ : ہاں جو اللہ دل میں ڈالتا ہے وہ میں تمہارے سامنے رکھ دیتی ہوں۔ باقی ہر انسان اللہ کا محتاج ہے، میں، تم، سب انسان، پوری کائنات ،ہر ہر چیز اللہ پاک کے کن کی محتاج ہے، اس کی مدد و نصرت کی محتاج ہے۔ یا اللہ چلو خاموشی سے شفق کی تقریر سنتے ہیں

شفق کہہ رہی تھی:

یہ جو جھوٹی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہی تو اصل قید ہے، جہاں صرف اور صرف غیروں کی غلامی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں اصل آزادی کس میں ہے؟ آپ کو یقیناً معلوم بھی ہوگا، لیکن پھر بھی میرا دل ہے کہ میں بتاؤں, اصل آزادی اللہ کی غلامی میں ہے ، یہ غلامی قبول کرلو، سکون ملے گا✨ یہی اٹل حقیقت ہے۔

آپ کبھی مغرب کی عورت سے اس کا حال دل پوچھیں، وہ آپ کو بتاۓ گی کہ وہ در حقیقت قید میں ہے یا آزاد ہے؟ اس کے پاس خون کے رشتے نہیں، اس کو نہیں پتا میری بہن کون ہے میرا بھائی کون ہے، اس کو یہ بھی نہیں پتا کہ میرا اصل گھر ہے کون سا؟

الحمدللہ ثم الحمد للہ! اللہ نے ہمیں والدین دیے، بہن بھائی دیے اور دیگر رشتے دار دیے۔ اللہ نے ہر رشتے کو منفرد اور خوبصورت بنایا ہے، ہر رشتے کی الگ اہمیت اور مقام ہے، ہمیں ان کی قدر ہونی چاہیے۔ یہاں ہمیں ہمارے والدین بتاتے ہیں کہ: بیٹا آپ میرا فخر ہو، میری خوشی ہو، میرے جینے کی وجہ ہو مجھ سے دور مت جانا۔ یہاں بہن بھائی ایک دوسرے کے محافظ اور معاون ہوتے ہیں, یہاں جب ہم پھوپھو/خالہ کہتے یا سنتے ہیں تو ایک مزہ… ہوتا

امید اور خوف دونوں ہی نام ہیں احساسات کے اور یہ دونوں ہی انسان کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ، چلیں امید تو واقعی ضروری ہے کہ امید پہ دنیا قائم ہے، لیکن خوف کیوں؟ خوف کے احساس کو تو کوئی بھی پسند نہیں کرتا،پھر یہ کس طرح اور کیوں ضروری ہے؟ دیکھیں خوف دو قسم کا ہ، ایک وہ خوف ہے جس کو دیکھ کہ ہم اس سے دور بھاگتے ہیں، جیسے اگر ہم یہاں کوئی ایسی چیز یا جانور دیکھ لیں جس سے ہم ڈرتے ہوں، تو کیا کریں گے؟ بھاگیں گے نا! اور دوسرا وہ خوف ہے جس کو محسوس کر کے ہم اس کے قریب جاتے ہیں ،جیسے تقویٰ۔ تقویٰ کا کیا مطلب ہوتا ہے،اللہ کا ڈر ہے نا؟ تو جب اللہ کا ڈر ہمارے اندر آتا ہے تو ہم اللہ کے مزید قریب چلے جاتے ہیں کیوں کہ ہم جہنم سے دور جانا چاہتے ہیں۔

اور یہی اللہ کا ڈر اللہ کا خوف ہمیں سیدھے راستے پہ رکھتا ہے، یہ ڈر ہمیں اِدھر اُدھر ہونے نہیں دیتا، جب اس بات کا یقین ہو جاۓ کہ اللہ ہر جگہ حاضر ناظر ہے اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے، چاہے دن ہو یا رات، چاہے اندر ہو یا باہر، چاہے روشنی ہو یا اندھیرا،چاہے دکھ ہو یا سکھ، چاہے گرمی ہو یا سردی جو بھی ہو اللہ مجھے دیکھ رہا ہے وہ میرے الفاظ کو سنتا ہے وہ میری سوچ کو جانتا ہے،وہ میری نیت سے بھی واقف ہے اور میرے اعمال سے بھی باخبر ہے، تو جب یہ سوچ آ جاۓ تو یقینًا انسان کچھ بھی غلط کرتے ہوۓ ہزار دفعہ سوچے گا۔ اور آپ کو پتا ہے شروع میں تو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے, پھر یہ شوق بن جاتا ہے کہ اللہ دیکھتا ہی رہے

تو بات ہو رہی تھی ڈر کی، جب جہنم سے خوف ہوگا تو خود بخود انسان نیکیوں کی طرف راغب ہوتا چلا جاۓ گا اور گناہوں سے دور ہوتا جاۓ گا اور یہاں پہ بھی ایک وقت آتا ہے کہ انسان کو گناہوں سے ڈر لگتا ہے اس کو خوف آتا ہے گناہوں سے اور یہی خوف اس کو جنت میں لے جانے کا سبب بنتا ہ،, اللہ پاک ہمیں بھی گناہوں سے دور ہونے کی توفیق عطا فرمائیں ،آمین۔

اللہ کا خوف ہونا لازمی ہے لیکن اگر یہ امید کے بغیر ہو تو انسان مایوس ہو جاۓ، تبھی اللہ پاک فرماتا ہے: میرے بندے میری رحمت سے مایوس کبھی مت ہونا۔ اللہ پاک کا یہ کہنا کتنی بڑی امید ہے۔ اللہ پاک کے پاس جب بھی واپس لوٹو،وہ نہیں پوچھتا کہ، اتنے گناہ کرنے کے بعد اب کیوں آۓ ہو؟ وہ طعنے نہیں دیتا کبھی بھی نہیں، ہمیشہ کہتا ہے، آؤ میرے بندے میرے پاس آؤ،میں ہی تو تمہارا رب ہوں، مجھ سے دور کیوں اور کہاں جا رہے ہو؟ یہ رحمت کا سایہ یہ دلاسا, یہ اپنائیت امید ہی تو ہے۔

اچھا ایک اور زاویے سے ان دونوں کیفیات کو دیکھیے،اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک ختم ہوجاۓ اور صرف ایک رہ جاۓ تو انسان شاید اپنی زندگی کا یا اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے، کیوں کہ اگر صرف اور صرف ڈر ہی ہو تو انسان مایوسی کی طرف چلا جاتا ہے اور اسی طرح اگر صرف اور صرف امید ہی ہو تو انسان متکبر بن جاۓ اور وہ اترانا شروع کردے, تو اللہ پاک نے قرآن مجید کے اندر دونوں کا ہی ذکر کیا ہے،جنت کی بشارتیں دیں ہیں تو جہنم کا خوف بھی دلایا ہے، جنت کی آسائشوں کو بیان کیا ہے تو جہنم کی تنگیوں کو بھی بیان کیا ہے،جنتیوں کا انعام اور اکرام بتایا ہے تو جہنمیوں کی ذلت و خواری بھی بتائی ہے، تو اللہ نے بیلنس رکھا ہوا ہے، کیوں کہ وہ رب اپنے بندوں کی فطرت سے بخوبی واقف ہے۔ کیونکہ جب بنایا ہی اسی نے ہے تو واقف تو ہوگا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔