تعلیم یافتہ ، باصلاحیت خوش شکل خاتون کی سچی کہانی
حمیراعلیم

" اب اور برداشت نہیں ہوتا فبہا! یوں لگتا ہے جیسے روح تھک کر چور ہو گئی ہے۔کبھی کبھی سوچتی ہوں جو لوگ حالات سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں ،شاید ان کے اعصاب بھی میری طرح جواب دے جاتے ہوں گے ورنہ کون چاہتا ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کر دے۔" ہالہ کا لہجہ مایوسی سے لبریز تھا۔فبہا اس کی بہت اچھی دوست تھی اور جب کبھی وہ کسی مسئلے کا شکار ہوتی تھی ،بلا جھجھک اس سے بات کر لیتی تھی۔اگرچہ فبہا بھی اس کے کسی مسئلے کا حل نکالنے کے قابل نہ تھی لیکن بنا جج کیے تحمل سے اس کی بات سن کر اسے تسلی دے دیتی تھی جو ہالہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ہالہ پڑھی لکھی خوش شکل اور سلیقہ مند خاتون تھی۔شادی سے پہلے گورنمنٹ جاب کر رہی تھی ،جو شوہر نے زبردستی چھڑوا دی تھی ۔اس نے بھی گھر بسانے کو جاب پر ترجیح دی مگر بعد میں اس فیصلے پر بہت پچھتائی تھی۔

ہالہ کا شوہر گوہر بظاہر اچھی پوسٹ پر تھا مگر ایک عام مرد والی ساری خصوصیات اس میں موجود تھیں نرگسیت پسند، ڈرگز اور الکحل کا عادی ،گرل فرینڈز کے ساتھ خوش مگر گھر میں اس کی بدمزاجی عروج پر ہوتی تھی۔بیوی بچوں پر خرچہ اسے دنیا کا مشکل ترین کام۔لگتا تھا جب کہ دوسری عورتوں اور اپنے مشاغل پر کھلے ہاتھ سے خرچ کرتا تھا۔ہالہ کا میکا خوش حال تھا ،لہذا اس کی اور اس کے بچوں کی ساری ذمے داری انہوں نے اٹھا رکھی تھی۔یہ شادی بھی جھوٹ کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ گوہر نے پہلے تین شادیاں کی تھیں، جو اس کی حرکتوں کی وجہ سے چند ماہ چلنے کے بعد ناکام ہو چکی تھیں۔ہالہ کے گھر والوں نے جس شخص کے ذریعے گوہر کے بارے میں تحقیقات کروائیں، اس نے بھی صرف ملاقات کو کافی جانا ورنہ شاید گوہر کا کردار کھل کر سامنے آ جاتا۔یا شاید یہ ہالہ کی قسمت تھی کہ اسے اس بندھن میں باندھ گئی۔گوہر ہالہ کے والدین سے تو ملا مگر وہ اس کے گھر نہ گئے کیوں کہ کراچی اور لاہور میں خاصا فاصلہ تھا اور گوہر کے گھر میں کوئی تھا بھی نہیں۔یا انہوں نے اس بندے کی بات پر ہی اعتبار کر لیا جو گوہر سے ان کے بی ہاف پر ملا تھا۔اور شادی کے بعد بھی ہالہ کے گھرنہ آیا کیونکہ گوہر نے حالات ہی ایسے پیدا کر دیے تھے کہ کوئی اس کے گھر آنا پسند ہی نہ کرتا تھا۔

شادی کے بعد جب ساری حقیقت سامنے آئی تو ہالہ امید سے تھی۔بیٹے کی پیدائش کے بعد اس نے سوچا کہ شاید کچھ عرصے بعد حالات سدھر جائیں۔مگر سدھرنے کی بجائے بگاڑ بڑھتا ہی گیا۔اس کا بیٹا پیدا ہوا تو گوہر نے کمرہ الگ کر لیا:" یہ ساری رات سوتا ہے اور میری نیند ڈسٹرب ہوتی ہے۔" حالانکہ وہ رات بھر شراب کے نشے میں دھت خراٹے لیتا رہتا تھا۔جازم چھ ماہ کا تھا جب اس پر گوہر کا ایک اور گوہر آشکار ہوا۔

" سنیں ! امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ،وہ مجھ سے اور جازم سے ملنا چاہتی ہیں، بھائی نے ٹکٹ بھیجے ہیں آپ پلیز کسی ٹریولنگ ایجنسی سے پرنٹ نکلوا دیں گے۔" اس نے گوہر سے کہا تو گوہر ہتھے سے ہی اکھڑ گیا۔" کوئی ضرورت نہیں ہے جانے کی ۔"وہ چلایا:" جب دیکھو ماں کے گھر جانے کو تیار بیٹھی ہوتی ہو۔نہیں ہیں میرے پاس اتنے پیسے۔" اس نے کہا تو ہالہ خاموش نہ رہ سکی:" آپ سے پیسے کس نے مانگے ہیں۔شادی کے بعد سارا خرچہ تو میرے والدین اور بھائیوں کی ذمے داری رہا ہے حتی کہ جازم کی بھی ہر چیز وہاں سے ہی آتی ہے۔بس کھانا کھانے اور اس گھر میں رہنے کے گناہ گار ہیں ہم دونوں ماں بیٹا۔" یہ سن کر تو گوہر آگ بگولا ہو گیا۔" اچھا ایسا ہے تو لو اپنا بیٹا اور دفعہ ہو جاو اپنے میکے میں۔ میں تمہیں طلاق بھجوا دوں گا۔" ہالہ بھی تپی بیٹھی تھی اس نے سوچا بجائے یہاں بیٹھ کر جھگڑنے کے خود ہی جا کر ٹکٹ لے آتی ہے:" ویسے بھی ہر کام میری ہی ذمے داری ہے، گروسری ہو یا بچے کو ہاسپٹل لے جانا توٹکٹ کے لیے میں اس شخص کے منہ کیوں لگی۔خود ہی لے آتی ہوں۔"اس نے بیگ اٹھایا چادر اوڑھی اور گیٹ کی طرف بڑھی تو گوہر نے جازم اس سے چھین لیا:" تم جا سکتی ہو مگر میرا بچہ نہیں لے جا سکتی۔" ہالہ نے سوچا چلو اچھا ہی ہے بچہ گھر رہے میں جا کر ٹکٹ لے آتی ہوں۔مگر جیسے ہی اس نے قدم بڑھایا آواز آئی:" اگر تم ٹکٹ لاو تو میری طرف سے ایک طلاق ہے۔" " کیا یہ شخص پاگل ہو گیا ہے؟ یا میرے کان بج رہے ہیں اتنی سی بات پر کون طلاق دیتا ہے۔" ہالہ نے سوچا مگر پھر باہر نکل گئی اسے اس وقت ذہنی سکون کی ضرورت تھی۔وہ پیدل ہی چل دی۔کئی ٹریولنگ ایجنسیز کے سامنے سے گزری مگر نجانے دماغ میں کیا کچھ تھا جو اسے نہ تو کچھ سنائی دے رہا تھا نہ دکھائی۔" کیا میری اوقات صرف اتنی سی ہے کہ یہ شخص چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھے دھمکیاں دے مجھ پر ہاتھ اٹھائے۔میں اس سے مانگتی ہی کیا ہوں؟کبھی ایک روپیہ تک تو مانگا نہیں الٹا خرچ ہی کرتی ہوں۔اس کی بے وفائی، نشے ، جھوٹ،مار پیٹ ہر بری عادت برداشت کرتی ہوں۔پھر بھی یہ مجھے کسی قابل نہیں گردانتا۔تو کیا فائدہ ہے اس کے ساتھ رہنے کا؟؟؟ "اس نے خود سے سوال کیا۔" اس کے ساتھ تو تم اس دن سے ہی نہیں رہ رہی جس دن اس نے تم پر پہلی بار ہاتھ اٹھایا تھا، جس دن تمہیں معلوم ہوا تھا کہ اس کی تمہارے ساتھ چوتھی شادی ہے، جس دن اتفاق سے صفائی کرتے ہوئے اس کی شراب کی بوتلیں اور ڈرگز تمہارے سامنے آ گئے تھے۔اب تو تم صرف جازم کے ساتھ رہ رہی ہو۔جازم! میرا بچہ بھوکا ہو گا رو رہا ہو گا ۔" جیسے ہی یہ خیال اسے آیا اس نے قریب کھڑکی ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور گھرکا پتا بتا کر سیٹ پر گر گئی۔گھر پہنچی تو جازم اکیلا بیڈ پر پڑا رو رہا تھا۔اس نے جلدی سے اسے فیڈ کروایا اور سلا دیا۔" کیسا سنگدل انسان ہے یہ اپنے بچے کو بھی سنبھال نہیں سکا۔اور دھمکی یہ ہے کہ بچہ نہیں لے جا سکتی۔" سوچتے سوچتے وہ خود بھی سو گئی۔

زندگی ایسے ہی چلتی رہی۔جازم کے چھ سال بعد ایک انمار بھی اس دنیا میں آ گیا حالانکہ ہالہ ایسا بالکل نہیں چاہتی تھی۔ گوہر جیسے انسان کے ساتھ رہ کر پاگل ہونے اور تکلیف سہنے کے لیے جازم اور وہ ہی کافی تھے۔مگر انمار کی قسمت میں بھی تکالیف سہنا لکھا تھا۔

گوہر کی عادات بدلیں نہ ہی فطرت معمولی سی بات اسے پسند نہ آتی تو ہالہ کو سننے کو ملتا:" نکلو میرے گھر سے بچے بھی لے جاو۔تم یہ کام کرو تو میری طرف سے طلاق ہے۔" اور اگر ہالہ کسی کام سے بھی باہر نکلتی تو گوہر بچوں کو لے کر کھڑا ہو جاتا :" تم نکلو یہاں سے میرے بچے تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے۔" ہالہ بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ جاتی۔بچے وہ بیڑیاں تھے جنہوں نے اسے چاہنے کے باوجود گوہر کی قید سے آزاد نہ ہونے دیا۔

گوہر کے والدین تو وفات پا چکے تھے بہن بھائیوں سے وہ ملتا نہ تھا۔جب بھی کوئی اس کے گھر آتا وہ کمرے میں بند رہتا ہالہ ہی انہیں ٹریٹ کرتی تھی مگر سسرالی رشتے دار کبھی بھی اسے سپورٹ نہ کرتے بلکہ اپنے بھائی کو ہی درست سمجھتے تھے ۔یا شاید گوہر کسی کی سنتا ہی نہ تھا اپنے آپ کو ہی عقل کل اور ہمیشہ درست سمجھتا تھا۔اور ہالہ کے گھر والوں کو عہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر ہر وقت دھمکیاں دیتا رہتا تھا :" میں ہالہ کو طلاق دے دوں گا بچہ چھین لوں گا۔" جس کی وجہ سے ہالہ کے گھر آنا تو دور سب نے گوہر کا نمبر بھی بلاک کر رکھا تھا۔ہاں ہالہ اور بچوں سے ملنے کے لئے انہیں ہر سال ٹکٹ بھیج کر بلوا لیتے تھے۔

گوہر اپنی ہر غلطی کے لیے دوسروں کو الزام دینے کا عادی تھا:" میں جو شراب پیتا ہوں اور دوسری عورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں سب تمہاری وجہ سے ہے مجھے گھر میں سکون ملے تو کیوں یہ کام کروں؟" ہالہ حیرت سے اسے دیکھتی:" میری وجہ سے؟؟؟ مگر آپ تو شادی سے پہلے سے ان سب عادات بد کے شکار ہیں۔" " ہاں تو تم سے پہلے بھی کبھی مجھے کوئی عورت ایسی نہیں ملی جو مجھ سے مخلص ہوتی، پیار کرتی مجھے سکون دیتی۔" ہالہ کو اس کی یہ بات سن کر گوہر کی بھانجی کے شوہر کی بات یاد آ جاتی جو اس نے گوہر کی ایسی ہی شکایات سن کر کہی تھی:" ایک عورت خراب ہو سکتی ہے دوسری بھی مگر انہیں ساری خراب عورتیں ہی ملتی ہیں حیرت ہے۔" ملنے جلنے والوں سے اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ گوہر کی سابقہ بیویاں بہت اچھی تھیں۔ہالہ سوچتی:" شاید ایسے ہی کپلز کے لیے اللہ تعالٰی نے کہا ہے کہ نیک مرد نیک عورتوں سے اور بدکردار مرد بد کردار عورتوں سے شادی کریں۔کیونکہ ایک جیسے لوگ گزارہ کر لیتے ہیں۔کوئی بھی شریف عورت گوہر جیسے مرد کے ساتھ کیسے رہتی۔" کبھی کبھی اسے خود پر اور اپنے بچوں پر بہت ترس آتا ۔گوہر اسے الزام دینا بند کرتا تو بچوں کے سر سوار ہو جاتا اور معصوم بچوں کو طعنے دیتا:" تم نہ ہوتے تو میرا خرچہ نہ ہوتا۔میری زندگی عذاب بنا دی ہے تم لوگوں نے جی چاہتا ہے گولی مار دوں تمہیں۔" بچے بھی سہم جاتے۔ ہالہ نماز اور دعا میں پناہ لیتی ۔

آہستہ آہستہ حالات ہالہ کے اعصاب کمزور کرتے گئے۔اب وہ بچوں کو بھی مارتی تھی اور گوہر سے بھی لڑتی۔عید پر اسے کہتی:" بچوں کے کپڑے جوتے لینے ہیں پیسے دے دیں۔" " کہاں سے دوں پیسے ڈاکا ماروں یا بنک لوٹوں۔نہیں ہیں میرے پاس پیسے۔" اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا۔اگرچہ ہالہ کو ہر چیز اس کے میکے سے بھیجی جاتی تھی، پیسے بھی والدین اور بھائی بھیجتے رہتے تھے مگر وہ چاہتی تھی کہ گوہر اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائے یا کم از کم اس بات کا اعتراف تو کرے کہ اس کے گھر والے گوہر کی ذمے داری پوری کر رہے ہیں۔مگر گوہر کا تو وہی حساب تھا کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔وہ خود اپنی عادات کی وجہ سے ہمیشہ لوگوں سے قرض اٹھاتا تھا اور ہالہ سے کہتا:" تم میرا پیسہ چھپا کر بنک میں جمع کر رہی ہو۔اور گھر کی چیزیں اپنے میکے بھیجتی رہتی ہو۔" ہالہ اسے یاد دلاتی:" تمہارے پیسے! یکم کو تمہاری تنخواہ آتی ہے اور دو کو ختم ہو جاتی ہے کبھی تمہاری جیب سے دس روپے کا نوٹ تک تو نکلا نہیں تو کون سے پیسے میں اپنے بنک اکاؤنٹ میں جمع کرواتی ہوں؟ اور چیزیں، "وہ اس کے اردگرد چیزوں پر استہزائیہ نگاہ دوڑاتی:" یہ جو تمہاری ماں کے جہیز کا پچاس سالہ پرانا فرنیچر اور سامان ہے یہ میں اپنے میکے بھیجوں گی جہاں دنیا بھر کا نیا سامان بھرا ہوا ہے۔ذرا غور سے دیکھو تمہارے گھر کے برتن سے لے کر ہر نئی چیز تک میرے گھر والوں کی دی ہوئی ہے۔" مگر وہ گوہر ہی کیا جسے اپنی غلطی نظر آ جائے۔

جازم کے اسکول کی ایڈمشن فی مانگنے پر تو گوہر نے ہالہ پر گولی ہی چلا دی جو اسے لگنے کی بجائے کھڑکی پر لگی۔ اور حسب معمول اس کے چند ٹریولنگ بیگ صحن میں پھینک کر اسے گھر سے نکلنے کا حکم صادر کر دیا۔زندگی یوں ہی گزر جاتی مگر گوہر کو تو شاید اللہ نے پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ اپنے اردگرد موجود ہر شخص کے لیے آزمائش بنا رہے۔آفس ، کالونی، خاندان میں ہر شخص سے اس کی لڑائی تھی۔اور ہالہ سے خدا واسطے کا بیر۔ہالہ کی دشمنی میں وہ بچوں کو تباہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔انہیں ہر وقت ماں کے خلاف بھڑکاتا۔خود ہالہ کو مارتا اور انہیں کہتا :" تمہاری ماں نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔" ہالہ کے کردار پر انگلی اٹھاتا۔بچے چھوٹے تھے، اس لیے والدین کے درمیان فٹبال بنے ہوئے تھے۔ہالہ بھی بچوں پر چیختی چلاتی اور بعد میں خود ہی پچھتاتی اور روتی۔" سب میری غلطی ہے۔باپ تو کسی کام کا ہے ہی نہیں میں بھی بچوں پر ہی غصہ اتارتی ہوں۔یا اللہ! تو میری زبان بند کر دے یا مجھے موت دے دے کہ میرے بچوں کو کچھ سکون ملے۔"

گوہر نے دوسری طلاق اسے پہلی طلاق کے پانچ سال بعدرمضان میں اس لیے دی کہ وہ روزہ کھلنے سے پہلے بیٹھی دعائیں پڑھ رہی تھی اور گوہر اس کے سر پر کھڑا اسے گالیاں دے کر بولنے پر اکسا رہا تھا:" بولو نا! بکواس کیوں نہیں کرتی!" ہالہ کتاب سے دعائیں پڑھنے میں مصروف رہی۔" نہیں بولتی؟؟؟ ٹھیک ہے میری طرف سے تمہیں ایک طلاق ہے!" ہالہ کو معلوم تھا یہ روز کا معمول ہے اس لیے بنا ایک لفظ کہے بیٹھی رہی۔گوہر بکتا جھکتا چلا گیا۔مگر عشاء کے بعد پھر آ گیا۔" میں صرف تمہیں ڈرانے کے لیے طلاق کا لفظ استعمال کرتا ہوں ورنہ میری نیت نہیں ہوتی۔تم مجھے غصہ نہ دلایا کرو نا۔" " اگر تمہیں یاد ہو تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا تم خود ہی مجھے گالیاں دے رہے تھے اور نہ بولنے پر تم نے مجھے طلاق دے دی۔اب کیا چاہتے ہو؟" وہ کبھی بھی نہیں سمجھ پائی تھی کہ گوہر طلاق کو ریوڑیاں سمجھ کر ہر وقت بانٹنے پر کیوں تیار رہتا تھا۔اور جب طلاق دے چکتا تھا تو پھر اسے یہ کیوں کہتا تھا کہ اس نے ہالہ کو طلاق نہیں دی۔اور سرے سے مکر ہی جاتا تھا۔ہالہ نے مختلف علماء سے رجوع کیا جن کے مطابق اگر شوہر رجوع کر رہا ہے توابھی دو طلاقیں ہوئی ہیں وہ اس کے ساتھ رہ سکتی ہے۔یاوہ اپنی بات سے انکار کر رہا ہے تو اس کے پاس خلع کا حق حاصل ہے۔ ہالہ نے بچوں کی خاطر کڑوا گھونٹ بھر لیا اور وہیں رہنے لگی۔

اب تو گوہر نے اس کی زندگی اور بھی عذاب بنا دی:" تمہارے پاس نہ تو کوئی ٹھکانا ہے نہ پیسا دھیلا۔گھر والے تمہارے تمہیں رکھنے کو تیار نہیں تبھی تو طلاق لے کر بھی یہیں بیٹھی ہو۔" اٹھتے بیٹھتے وہ اسے سناتا رہتا۔ہالہ کو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ زندہ لاش ہے جس پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔پھر یوں ہوا کہ گوہر ایک خاندان کو گھر لے آیا انہیں سرونٹ کوارٹر میں رکھ لیا۔نہ کوئی کرایہ نہ بل ،الٹا ان کے گھر کا سارا خرچہ خود کرتا۔جب دیکھو وہ لوگ اس کے کمرے میں ہوتے یا گوہر کوارٹر میں موجود ہوتا۔بالآخر اس خاندان کی وجہ سے گوہر نے ایک دن ہالہ کو تیسری طلاق بھی دے دی۔ شاید وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ خاندان اس کے زیر بار ہو کر اپنی بیٹی کا رشتہ اسے دے دیں گے۔مگر ہوا اس کے برعکس انہوں نے نہ صرف گوہر کو ذلیل کیا بلکہ اسے اس کی اوقات بھی یاد دلا دی بدلے میں گوہر نے انہیں گھر سے نکال دیا۔اور ایک بار پھر طلاق دینے سے مکر گیا۔مگر اب ہالہ کسی گناہ میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔لہذا اس نے اسے کہا:" دیکھو اب میں مزید یہ سب برداشت نہیں کر سکتی بہتر ہو گا تم مجھے طلاق لکھ کر دے دو تاکہ میں یہاں سے چلی جاوں۔" مگر گوہر نے ایسا کچھ نہ کیا۔

بچے اب بڑے ہو چکے تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ماں انہیں چھوڑ کر جائے یا وہ باپ سے دور ہوں۔جازم نے ہالہ سے کیا:" آپ یہیں رہیں گی اور کہیں نہیں جائیں گی۔"

" کس حیثیت سے؟"
ہالہ کے سوال پر وہ بولا:" ہماری ماں کی حیثیت سے۔"
" مگر یہ جائز نہیں۔یا تو تم دونوں میرے ساتھ چلو یا پھر اپنے باپ کے ساتھ رہو۔" " ہمیں دونوں کی ضرورت ہے۔آپ لوگ پہلے بھی الگ ہی رہ رہے تھے۔مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔اور اگر کرتے بھی ہیں تو لڑائی۔اب آپ ایک دوسرےکے سامنے مت آئیں اور بات نہ کریں۔ہماری خاطر ایک دوسرے کو برداشت کر لیں۔"

" میں تو پچھلے کئی سالوں سے یہی کر رہی ہوں۔تمہارے باپ کو تو میری خاموشی بھی پسند نہیں ۔وہ چاہتا ہے اسے کوئی ایسا پنچنگ بیگ ملے جس پر وہ چوبیس گھنٹے پریکٹس کرے اور بیگ چیخے چلائے۔"ہالہ کے کہنے پر جازم نے اسے کہا:" میں بابا سے بات کر لوں گا وہ آپ کے سامنے نہیں آئیں گے آپ بھی ان کے سامنے نہیں آنا۔" " آخر کب تک اور یہ کیسے ممکن ہے کہ میں طلاق کے بعد بھی اس کے گھر میں رہوں یہ حرام ہے۔تم بچے نہیں ہو اب سب سمجھتے ہو۔" مگر جازم بضد تھا:" سوچیں ذرا نانو نانا کے فوت ہونے کے بعد کتنی پریشان رہتی ہیں آپ کے صدمے سے انہیں کچھ ہو گیا تو؟؟؟"

ہالہ نے بے بسی سے اسے دیکھا:" مگر میں یہاں اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔میں کسی ہاسٹل میں چلی جاوں گی جاب کر لوں گی۔امی کی طرف نہیں جاوں گی۔تم لوگ دونوں مجھ سے ملتے رہنا۔" اس نے روتے ہوئے کہا تو جازم نے اسے بازووں میں بھر کر کہا:" ماں! آپ کسی اور جگہ بھی نامحرموں کے درمیان رہیں گی۔یہاں تو ہم دونوں آپ کے محرم ہیں نا۔پھر ہماری خاطر یہیں رہ لیں۔"

" مگر تمہارا باپ جب میں اس کے نکاح میں تھی تو مجھے برداشت نہیں کرتا تھا ذلیل کرتا تھا ہاتھ اٹھاتا تھا۔اب تو مجھے قتل ہی کر دے گا۔"

" ایسا کچھ نہیں ہو گا۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔" پھر جازم نے اپنے باپ کو منوا تو لیا۔مگر گوہر اپنی سانپ جیسی فطرت سے مجبور تھا۔بچے جیسے ہی اسکول کالج کے لیے نکلتے وہ اس کو دھمکاتا گالیاں دیتا:" تم اور تمہارا خاندان ہو ہی بے غیرت۔طلاق کے بعد بھی تم میرے سر پر سوار ہو۔نکلو یہاں سے۔" لیکن بچوں کے سامنے مکر جاتا کہ اس نے ہالہ سے کچھ کہا ہے۔شاید نشے نے اس کا ذہنی توازن بگاڑ دیا تھا۔مگر اس سب کی وجہ سے ہالہ اور بچے سفر suffer کر رہے تھے۔ہالہ ہر بار بیٹوں کو کہتی:" خدا کے لئے یا تو مجھے جانے دو یا پھر تم بھی میرے ساتھ ہی چلو۔" مگر وہ دونوں صورتوں میں راضی نہ تھے۔ہالہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی تھی۔تہجد اذکار صدقات دعائیں کچھ کام نہیں کر رہے تھے۔اس نے بھی اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا مگر جب کبھی بہت تھک جاتی تو اللہ کے آگے خوب روتی شکایتیں کرتی۔کسی کندھے کی ضرورت ہوتی تو فبہا کو کال کر لیتی۔کیونکہ اپنے خاندان میں اس نے کسی کو اپنی طلاق کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔مگر اکثر یہ سوچتی کہ میرے کس گناہ کی سزا ہے جو میں اس شخص سے چھٹکارا پا کر بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔کیا کبھی زندگی میں مجھے کوئی گھڑی سکھ کی بھی نصیب ہو گی۔کل کو میرے بیٹے بھی مجھے ہی مجرم ٹھہرائیں گے کہ میں طلاق کے بعد بھی اس شخص کے گھر میں کیوں رہی۔کیا اللہ تعالٰی مجھے اس گناہ کے لیے معاف فرمائے گا۔ایسے لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں کیوں عورتوں اور بچوں کی زندگی برباد کرتے ہیں۔