انتخاب : محی الدین
پاکستان کے اِک مشہور مذہبی گھرانے کی بیٹی آمنہ حبیب (فرضی نام) لاہور کی اک مشہور اور مہنگی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے آئی، لائق تھی پڑھنے کا شوق تھا تو بہت کوششوں اور منتوں سے اُس کے باپ نے اُسے یونیورسٹی میں
داخلہ دلوایا تھا آمنہ اپنے خاندان میں وہ پہلی لڑکی تھی جو یونیورسٹی پہنچی تھی اپنی اماں کی تربیت اور باپ کی نیک نامی کا خیال اور اُس کے ساتھ اپنی عزت و تکریم کا احساس بھی تھا اس لیے آمنہ یونیورسٹی میں بھی عبایہ پہنتی، یونیورسٹی کے آزاد ماحول کے باوجود وہ لڑکوں کے میل جول سے دُور رہتی تھی” سر امتیاز کے سبجیکٹ کا پیپر تھا تو آمنہ سوچنے لگی شاید پیپر میں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے اس لیے سر بُلا رہے دروازے پر دستک دےکر اُس نے اجازت مانگی
سر میں اندر آ جاؤں؟ آ جاؤ
وہ اندر داخل ہُوئی تو سر امتیاز لیپ ٹاپ پر کُچھ دیکھ رہے تھے
سر آپ نے مُجھے بُلایا
ہاں آپ کی توجہ کدھر ہوتی ہے؟
آپ کو کچھ پتا ہے ٹیسٹ کیسے دیتے ہیں؟
سر کِیا ہُوا؟ وہ گھبرائی
اس طرح ٹیسٹ لینا چاہتا ہُوں میں ایسی پرفارمنس کےساتھ
سر نے لیپ ٹاپ کی اسکرین اُس کی طرف موڑتے ہُوئے کہا
آمنہ نے یُوں ہی ا سکرین دیکھی تو لرز گئی
لیپ ٹاپ پر فحش ویڈیو آن تھی جس میں مرد و عورت آپس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ دروازہ کھول کر باہر بھاگی اور پھر کلاس رُوم میں جا کر رونے لگ گئی
سارا دن ساری رات یہ سب کُچھ اُس کی نظروں میں ذہن میں گُھومتا رہا اور وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہی
اگلے دن لیکچر کےبعد کلاس رُوم میں ہی بیٹھی تھی جب اُسے سر امتیاز کا میسج ملا
کیا سوچا ہے آمنہ؟
ٹیسٹ کب دو گی آپ؟؟
میسج سِین کر تے ہی وہ پسینے سے شرابور
کانپتے ہاتھوں سے اُس نے میسج ڈیلیٹ کیا اور پھر باقی لیکچر چھوڑ کر ہاسٹل چلی آئی کیا کروں؟ کس کو بتاؤں؟
امّی کو بتاتی ہوں
موبائل نکالا ماں کو کال کر دی
پھر سوچا امی کیا کریں گی؟ ابو کو بتائیں گی تو پڑھائی ختم اور گھر بُلا لیں گے وہ یہ سب سوچ کر پھر ماں سے بات نہ کر سکی
اُس کی روم میٹ جب ہاسٹل آئی تو انہوں نے بھی پوچھا
کیا ہُوا تُم یونیورسٹی سےبھی جلدی آ گئیں
کُچھ نہیں بس طبیعت نہیں ٹھیک
ٹیسٹ کا رزلٹ آیا تو آمنہ اپنے یونیورسٹی کیرئیر میں پہلی بار ٹیسٹ میں فیل تھی
جب تک آپ اچھی طرح یہ ٹیسٹ نہیں دیں گی سبجیکٹ پاس نہیں ہوگا
یہ دوسرا میسج تھا سرامتیاز کا
پھر وُہی ہُوا فائنل پیپرز میں سرامتیاز کے سبجیکٹ میں آمنہ فیل تھی اور بہت بُری طرح فیل ہوئی تھی اُس نے ہمت کرکے اپنی ایک کلاس فیلو کو سب بتایا اور کہا کہ اگر ممکن ہے تو میرا پیپر چیک کروا دو مُجھے یقین ہے میں پاس ہوں لیکن سرامتیاز کی بات نہ ماننے کی وجہ سے فیل قرار دیا گیا ہے خدیجہ نے سرامتیاز سے بات کی
سر! آمنہ کا پیپر دکھا دیں گے وہ ری چیکنگ کروانا چاہتی ہیں آپ ڈیپارٹمنٹ کلرک عباس سے پتا کریں
وہ دونوں اُدھر گئیں تو کلرک کا جواب تھا ابھی میٹنگ ہے تو آپ کل آکر پیپر دیکھ لینا اگلے دن گئیں تو کلرک عباس نے صاف کہہ دیا
سرامتیاز کے کُچھ ٹیسٹ آپ نے چھوڑے ہیں اس لیے اُنہوں نے آپ کو فیل کردیا ہے اور پیپرز بھی اُنہی کے پاس ہیں آپ اُن سے مل لیں
خدیجہ! یہ بندہ مُجھے ہراساں کر رہا اور ۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ تُم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟
لیکن دونوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود نا تو آمنہ کا سبجیکٹ کلئیر ہُوا نا ہی امتیاز سے چُھٹکارا ملا بلکہ اُلٹا یہ ہُوا کہ خدیجہ کا بھی رزلٹ روک لیا گیا
اک سیمسٹر میں آمنہ اُس سبجیکٹ میں فیل ہو چکی تھی یعنی اب اگر پیپرز چیک نہ ہوتے تو چھ ماہ اُسے مزید یونیورسٹی رہنا تھا
اور کلرک عباس کے ذریعے آمنہ کو دوبارہ میسج ملا کہ جب تک ٹیسٹ نہیں دو گی تُم پاس نہیں ہوگی۔ ۔ آخر تنگ آکر اور مجبور ہوکر خدیجہ نے یہ سب کُچھ اپنے اک کزن کوجو کہ حساس ادارے میں مُلازم تھا بتایا اور اُسے کچھ کرنے کو کہا
کامران خُود پروفیسر امتیاز سے ملنے آیا اور اُسے آگاہ کیا کہ یہ میری کزن کی دوست ہے اُستاد باپ کی جگہ ہوتا ہے آپ براہ مہربانی سبجیکٹ کلئیر کریں اور بچی کو ہراساں مت کیجیے
تُم کون ہو؟ یہ کس طرح کے گھٹیا الزام لگا رہے ہو ؟ اور اسٹوڈنٹ کے گارڈین کے علاوہ کوئی شخص ہم سے سوال نہیں کرسکتا میں ابھی ڈین سے بات کر کے اُن کے گارڈین کو بُلواتا ہوں
اچھا سر آپ غصہ نہ ہوں میں معذرت خواہ ہوں مجھے یونیورسٹی رُول کا پتا نہیں تھا چلے جاؤ یہاں سے ورنہ میں سیکیورٹی بُلا کر تُمہیں دھکے دے کر بھجواؤں گا پتا ہوتا نہیں مُونہہ اُٹھا کر آجاتے کامران اُٹھ کر آ گیا
اور پھر اُسی رات پروفیسر امتیاز اُن کا مہمان تھا
بہت اچھی میزبانی کی گئی، پروفیسر صاحب کی اچھی خاصی خاطرمدارت کےبعد اُنہیں باعزت طریقے سے اُن کی رہائش گاہ کے باہر چھوڑ دیا گیا
صُبح اُنہوں نے خُود آمنہ اور خدیجہ کو بُلاکر معافی مانگی اور اُن کے سبجیکٹ رزلٹ کلئیر کروائے۔!! نوٹ! یہ اک سچی داستان ہے جہاں اک لڑکی کی عِزت اُس کے اپنے پُختہ کردار اور ہماری بروقت مدد سے بچ گئی اور وہ اس گھناؤنے مافیا سے محفوظ رہی لیکن ہزاروں بچیاں ایسی ہیں جو ڈر خوف تربیت میں کمی یا شوق سے اس مافیا کے ہاتھوں اپنی عزت و آبرُو لُٹا چُکی ہیں خُدارا اپنی بیٹیوں کو کبھی کسی غیرمحفوظ اور نہ مناسب جگہ پر نہ بھیجا کریں۔!!
(اللہ سب کی بیٹیوں کی عزت و آبرُو کی حفاظت رکھے آمین)