اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ ندیم جو ویسے رویے اور معمولات میں اس کے ساتھ ٹھیک رہتے تھے اک دم اپنی امی یا بہنوں کی کسی بات پر انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ جبکہ ندیم کی اجالا کے ابو سے کافی ذہنی ہم آہنگی تھی اور بھائیوں سے اچھی خاصی دوستی تھی۔ لیکن جانے کیوں کبھی کبھار وہ اجالا کے ساتھ اتنے سخت ہو جاتے تھے. بالکل ہی کوئی بدلے ہوئے انسان لگتے
چھٹی قسط
مہوش کرن
اس دن صبح ہی اجالا کی امی کا فون آیا تھا یہ بتانے کے لیے کہ شام میں وہ شعیب کی نوکری کی مٹھائی لے کر آئیں گی۔ اجالا بہت خوش تھی کہ بھائی کی اتنی اچھی نوکری لگی ہے اور وہ لوگ سمدھیانے کو عزت دینے کے لیے خاص طور پر اہتمام سے آ رہے ہیں۔ جب اس نے جاکر ساس کو بتایا تو انہوں نے روکھے پھیکے انداز میں سن لیا اور کسی خوشی کا اظہار نہ کیا۔ اب اجالا کیا کرتی کیونکہ ساس کی اجازت کے بغیر نہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کچھ پکا سکتی تھی اور نہ ہی بازار سے کھانے پینے کا سامان منگوا سکتی تھی۔ ندیم کو آفس میں فون کرکے بتایا تو انہوں نے کہہ دیا کہ امی سے پوچھ کر دانش یا کاشف سے کچھ منگوا لو۔ جب ان کے بگڑے موڈ کا بتایا اور کہا کہ آپ آفس سے واپسی پر کچھ لیتے آئیے گا تو انہوں نے اپنی امی کا موڈ سن کر صاف منع کر دیا۔
اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ ندیم جو ویسے رویے اور معمولات میں اس کے ساتھ ٹھیک رہتے تھے اک دم اپنی امی یا بہنوں کی کسی بات پر انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ جبکہ ندیم کی اجالا کے ابو سے کافی ذہنی ہم آہنگی تھی اور بھائیوں سے اچھی خاصی دوستی تھی۔ لیکن جانے کیوں کبھی کبھار وہ اجالا کے ساتھ اتنے سخت ہو جاتے تھے. بالکل ہی کوئی بدلے ہوئے انسان لگتے خاص کر ماں، بیٹیوں اور ندیم کی بند کمرے کی میٹنگ کے بعد تو مزاج شدید برہم اور تیوری کے بل آسمان پر پہنچ جاتے تھے۔ اپنے حالات دیکھتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ اس گھر کے مرد سمجھدار اور مصلحت پسند ہیں لیکن اسی گھر کی عورتوں نے ان کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں بالکل ہی کاٹھ کا الو بنا رکھا ہے، اپنے دماغ سے سوچنے نہیں دیتیں اور نہ ہی اپنے اختیار سے فیصلے کرنے دیتی ہیں۔
بہرحال اس وقت اجالا بہت خوش تھی لہذا اپنے سارے خیالات کو جھٹک کر اس نے فیصلہ کیا کہ جو مٹھائی امی لوگ لائیں گے وہی انہیں کھلا دے گی۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ امی یقیناً کئی چیزیں لائیں گی تو میز بھر ہی جائے گی اور یہ بھی معلوم تھا کہ دو تین لوگوں سے زیادہ کوئی نہیں آئے گا۔ بس اسی خوشی سے سرشار کہ کوئی اتنے عرصے بعد اس کے میکے سے آئے گا وہ سارے دکھ بھول کر اپنی تیاری میں مصروف ہوگئی۔ ٭٭٭
شام کو واقعی صرف امی، خرم اور صائم آئے، ابو اور شعیب نہیں آئے تھے۔ مٹھائی، پھل، پیزا اس کے علاوہ بہت سی چیزیں لائے، اجالا نے وہی سب میز پر سجا دیا۔ لیکن امی اور بھائیوں نے کھانے سے انکار کر دیا کہ یہ چیزیں تو اجالا اور اس کے گھر والوں کے لیے لائے ہیں خود کیسے کھا لیں۔ اجالا کی ساس بالکل آخر میں چند منٹوں کے لیے ڈرائنگ روم میں آئی تھیں۔ نہ ہی کوئی بات، نہ ہی مبارکباد البتہ اپنا وہی شاہانہ انداز اور غرور سے سجا چہرہ لے کر کمرے میں آئیں، اور کھانے کی چیزوں کو بغیر ہاتھ لگائے اندر چلی گئیں۔ امی اور بھائی بھی تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ اجالا تو ہمیشہ ہی ان کا تلخ رویہ نظر انداز کر دیا کرتی تھی اور آج تو ویسے بھی خوش تھی. بس اسی خوشی میں ان کے رویے کو ایک بار پھر نظر انداز کر کے ان کے کمرے میں چلی آئی۔
”امی، آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں، آپ کے لیے پیزا لاؤں؟“، اجالا نے اپنی ساس سے پوچھا۔ ”کوئی ضرورت نہیں۔“ انہوں نے ناگواری سے جواب دیا تھا۔
”ایسا کرتی ہوں مٹھائی لے آتی ہوں، امی خاص طور پر آپ کی پسند کی لائی ہیں۔“ اجالا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”کس خوشی میں مٹھائی کھاؤں؟
تمھاری امی، تمھارے بھائی کی نوکری کی خوشی میں مٹھائی لائی تھیں، ان سب باتوں سے میرا کیا لینا دینا؟ میں کیوں کھاؤں؟ تم جا کر ٹھونستی رہو وہ چیزیں، منہ میں رکھنا تو دور کی بات ہے میں تو ہاتھ بھی نہ لگاؤں۔“ وہ غصے سے بولیں۔ ”آخر کیا بات ہوگئی جو آپ ایسے کہہ رہی ہیں؟“ اجالا نے حیرت سے پوچھا۔
”ارے وہ لوگ سمجھتے کیا ہیں خود کو، ہم پر کوئی احسان کیا ہے۔ ہم کیا ان کی لائے ہوئے سامان کے بھوکے ہیں۔؟“ ”نہیں، نہیں وہ تو خوشی میں یہ سب لائے تھے۔“
”ہاں ان کی خوشی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، وہ اپنے لیے آئے تھے، اپنے بیٹے کی نوکری کا دکھاوا کرنے۔ بہت اترا رہی تھی تمھاری ماں جیسے پتا نہیں کیا ہو گیا ہو۔ ارے اسی دنیا میں نوکری لگی ہے کوئی دوسری دنیا تبادلہ نہیں ہو گیا۔“ وہ غصے میں جانے کیا الٹا سیدھا بول رہی تھیں۔
”اللہ نہ کرے، آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ امی نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ معمولی سی نوکری ہے کوئی کیوں اترائے گا بلکہ امی کی تو ایسی عادت ہی نہیں۔ کسی بڑی چیز پر بھی میں نے آج تک ان کا ایسا رویہ نہیں دیکھا۔“ اجالا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس بات کی وضاحت کرے، جب کچھ ہوا ہی نہیں۔
”ہاں ہاں، ساری خوبیاں تو تمھاری ماں کے اندر ہیں اور ساری خرابیاں میرے اندر۔“ ”آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں، کیوں ایسی باتیں کر رہی ہیں۔؟“
”دیکھو اجالا! صاف سی بات ہے وہ ہم سے ملنے ویسے تو کبھی نہیں آتے لیکن اب آنے کا مقصد؟ ظاہر ہے دکھاوا، اترانا، ہمیں نیچا دکھانا۔“
”جی ؟؟؟ ملنے تو کوئی اس لیے نہیں آتا کہ آپ کو پسند نہیں۔“ اجالا نے ڈرتے ڈرتے دھیمی آواز میں کہا۔ ”ہاں تو کیوں پسند ہوگا، تاکہ تم لوگ آپس میں ہمارے خلاف باتیں کر سکو۔ ہمارے گھر بار دولت کو نظر لگا سکو۔“ ”امی یہ سب کچھ میرا بھی ہے۔ میں کیوں ایسا کروں گی؟“ اجالا اپنے آنسو ضبط کر کے بولی۔ ”بس بہت ہوگیا، اُس وقت سے زبان چلا رہی ہو۔ تمھاری ماں نے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی۔“ وہ غصے سے چلا رہی تھیں۔
اُسی لمحے لاؤنج کا دروازہ کھلا اور ندیم اندر داخل ہوئے، انہیں امی کے کمرے کے دروازے پر اجالا دکھائی دی۔ ”کیا ہوا سب خیریت ہے، اجالا کیا مہمان چلے گئے؟ باہر تک امی کی آواز آرہی ہے۔“ ندیم کی آواز کیا آئی، اجالا کی ساس کمرے کا دروازہ پورا کھول کر باہر نکل آئیں، ”دیکھو بیٹا! یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ تمھاری بیوی مجھ سے بحث کر رہی ہے۔“ ”کیا بات ہے اجالا؟“ ندیم نے غصے سے پوچھا۔
”مجھے تو خود سمجھ نہیں آرہا، پتا نہیں امی بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی ہیں۔“ اجالا نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”مگر آخر ہوا کیا ہے؟“ ندیم نے جھنجھلا کر کہا۔
”ہونا کیا تھا، میں نے سچ بول دیا کہ تمھاری امی بہت اترا رہی تھیں بس اتنا بولنا تھا کہ اس کی زبان کے آگے تو خندق ہی کھل گئی۔ اسی لیے تو مجھے ان لوگوں کا یہاں آنا پسند نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود کیا کیا بولا ہے اس نے۔ توبہ توبہ، میں تو حیران ہی رہ گئی۔“ ساس خوب غضبناک ہوکر بولیں۔
”حیران تو میں ہوں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ اتنی دیر سے امی نے میرا تماشا بنایا ہوا ہے۔ سارا گھر سن رہا ہے لیکن چپ چاپ سب اپنے کمروں میں بیٹھے ہیں۔ جانے کیوں یہ مجھے الٹا سیدھا بول رہی ہیں، بلاوجہ مجھ پر چلا رہی ہیں۔“ اجالا کو معلوم تھا کہ ندیم اپنی ماں کی جھوٹی بات پر ہی یقین کریں گے پھر بھی شوہر کو دیکھ کر اُس کا دل بھر آیا تو اس نے روتے روتے یہ کہہ دیا۔
”اچھا تو مجھے پاگل کہہ رہی ہے، سن رہے ہو تم ندیم۔“ ”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، کیا ہوگیا ہے آپ کو۔“ اجالا زور سے بولی۔ ”خاموش رہو اجالا اور ابھی امی سے معافی مانگو۔“ ندیم نے ہمیشہ کی طرح حکم سنایا۔ ”میں نے کچھ نہیں کیا جو میں معافی مانگوں۔“ روتے ہوئے یہ کہہ کر اجالا اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جانے اس کے ہٹنے کے بعد وہاں کیا باتیں ہوئیں. نہ اسے آواز آئی اور نہ ہی اسے سننے کا شوق تھا۔ جو ہو چکا تھا وہ کافی تھا لیکن شاید اس کی ساس کے لیے کافی نہیں تھا۔
”اجالا، اجالا، اٹھو ابھی کے ابھی جا کر امی سے معافی مانگو۔“ ندیم نے دروازہ دیوار پر مارتے ہوئے کمرے میں آکر کہا۔ ”نہیں، مانگوں گی۔“ اسے پتا تھا ہمیشہ کی طرح بے قصور ہوتے ہوئے اس سے زبردستی معافی منگوائی جائے گی لیکن آج اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بغاوت کر دے۔ حالانکہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پا رہی تھی۔ ”کیسے نہیں مانگو گی، اس گھر میں نہیں رہنا کیا؟ بہت اونچے دماغ ہو گئے ہیں۔“ ندیم نے وہی پرانی دھمکی استعمال کی اور اجالا نے بغاوت کا ارادہ ترک کردیا۔
چپ چاپ ندیم کے پیچھے چلتی گئی، مگر اب منظر میں سارے گھر والے دکھائی دے رہے تھے۔ حالانکہ اس نے نظر اٹھا کر کسی کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا۔
”چلو اجالا، ابھی سب کے سامنے امی سے ہاتھ جوڑ کر اور پیر پکڑ کر معافی مانگو۔“ ندیم نے حکم سنایا۔ اجالا کو لگا کوئی درد نہیں ہو رہا، اتنی بے عزتی تو ہوچکی، اب تک سب سُن ہو گیا تھا۔ لیکن اسے ندیم سے ایسے رویے کی توقع نہ تھی۔ جب ندیم ہی ایسے ہو گئے تو دانش، مہرین اور کاشف سے کیا امید لگاتی اور شہنیلا تو ویسے بھی اس سے خار کھاتی تھی۔
”مجھے معاف کر دیں۔“ ہاتھ جوڑ کر اس نے یہ کہہ دیا۔
”پاؤں بھی پکڑو۔“ ندیم نے دوبارہ کہا۔
دل پر پتھر رکھ کر وہ یہ بھی کر گزری ۔۔۔
ایک نظر اٹھا کر اس نے اپنی ساس کو دیکھا، ان کے مکروہ چہرے پر مکاری، آنکھوں میں غرور اور ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی کہ اسے جھرجھری آگئی۔ اس نے نظریں پھیر لیں۔
جانے یہ چالبازیاں کسی اور کو دکھائی کیوں نہیں دیتی تھیں۔
”ہاں ٹھیک ہے، میرے پیروں کی جلد سے اپنے ہاتھ دور کرو۔“ اس کی ساس نے نخوت سے کہا۔
اجالا فوراً وہاں سے پلٹ گئی اور کمرے میں چلی گئی۔ لیکن قرار اپنے کمرے میں بھی نہیں تھا اور چھپنے کی جگہ تو دنیا میں کہیں نہیں تھی۔
جب ندیم کمرے میں آئے تو نئی بات سامنے آئی،
”اجالا میری بات سنو۔“
مجھے مزید کچھ نہیں سننا، میں تھک گئی ہوں۔ کیا اتنا کافی نہیں ہے؟ بس کر دیں، میں بھی آپ کی طرح انسان ہوں۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر دل میں سوچتی رہ گئی مگر بولی کچھ نہیں۔
”امی نے کہا ہے جس رشتے والی کو تمھاری امی نے شعیب کے رشتے کے لیے کہا ہے اس کا نمبر مجھے بھی دے دو تاکہ اسے شہنیلا کے لیے بھی بولا جائے۔ اتنے دن پہلے امی نے کہا تھا، مگر تم نے ابھی تک نمبر نہیں دیا۔“ ندیم نے پوچھا۔
جب ملنا جلنا پسند نہیں، میرا خاندان، میرے میکے والے نیچ ہیں تو بھلا میرج بیورو ایک کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن دل و دماغ میں اس وقت زیادہ سوچنے، سمجھنے اور بولنے کی طاقت محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے شل ہوتے اعصاب سے نمبر ندیم کو فارورڈ کر دیا، آنسوؤں سے شل ہوتی آنکھوں کو بند کر کے لیٹ گئی ۔۔۔ اور آنسوؤں کو بہنے دیا۔ ”اور وہی تو ہے جو ہنساتا ہے اور رُلاتا ہے!“
(سورۃ النجم)
مگر کوئی اتنا باشعور ہو کر اُسے پکارے تب نا ۔۔۔ ٭٭٭
یہ سب کچھ پہلی اور آخری دفعہ نہیں ہوا تھا بلکہ ایسا تو اکثر ہو جایا کرتا تھا۔ عزت، بے عزتی، تحقیر، پروٹوکول، خاص رویہ، ناز نخرے، اہمیت، مقام، معیار کے نام پر بے تحاشا ڈرامے تھے۔
جب وہ لوگ عمرہ کرنے جا رہے تھے اور ائیر پورٹ پر اجالا کے ابو نے اس کی ساس کو دعا کرنے کے رسمی جملے کہے تو انہوں نے مکمل طور پر اس کے ابو کو نظر انداز کیا تھا۔ جب یہ بات اجالا نے اکیلے میں ندیم سے پوچھی تو انہوں نے بڑا صاف جواب دیا:
”ظاہر ہے تمھارے ابو کبھی بھی میری امی سے بات نہیں کرتے۔ اس لیے میری امی نے ان کی بات کو اگنور کر دیا اور بالکل ٹھیک کیا۔“
”لیکن ندیم، آپ تو جانتے ہیں کہ ابو کی عادت ہی نہیں عورتوں سے بات کرنے کی، وہ تو بس خاندان کی بھی چند ہی خواتین سے بات کرتے ہیں۔ ویسے بھی جب میری امی موجود ہیں تو انہیں کیا ضرورت ہے خوامخواہ بات چیت کرنے کی۔ خاص طور پر عمرہ پر آنے کی وجہ سے انہوں نے اہمیت دی۔“
”تو بس ٹھیک ہے حساب برابر، جیسے انہوں نے اپنی مرضی سے اہمیت دی، جب میری امی کی مرضی ہوگی وہ بھی اہمیت دے دیں گی۔“
”اللہ نہ کرے، بات اہمیت کی نہیں بلکہ ان کی عادت کی ہے۔ آپ لوگ عمرہ جیسی سعادت پر آئے ہیں مگر اپنے دل کا میل نہیں صاف کر پا رہے۔“ وہ افسوس کر کے رہ گئی تھی۔
جب عمرہ سے واپسی ہوئی اور اجالا کے امی ابو نے ان لوگوں کو دعوت پر بلایا تو اس کی ساس نے یہ کہہ کر دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ جب سب لوگ ملنے آئے ہوئے تھے تو اجالا کے چھوٹے بھائی نے ہمارے داماد تنویر (یعنی روشن کے شوہر) کو سلام نہیں کیا تھا۔ اب لاکھ وہ غریب یقین دلائے کہ میں نے انہیں سلام کیا تھا۔ لیکن وہ اس بات پر شدید برہم تھیں۔
اجالا نے بھی بہت سمجھایا تھا،
”آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ابھی دعوت میں تنویر بھائی کو کیوں بلاتے۔ ان کی بیٹی بڑے در سے لوٹی ہے تو وہ لوگ ہم سب کی خوشی میں خوش ہیں۔ اسی لیے تو دعوت کر رہے ہیں۔“ لیکن انہوں نے صاف کہہ دیا تھا:
”جہاں ہمارے داماد کو خاص عزت اور پروٹوکول نہیں دیا جائے گا وہاں ہم پیر بھی نہ دھریں گے، کھانا تو دور کی بات۔ تمھارے ماں باپ ہیں تم شوق سے اکیلے چلی جاؤ، اور کوئی نہیں جائے گا۔“
پھر اُن دنوں مہرین کی بہن کی شادی ہو رہی تھی، جب وہ ہر وقت روتی ہوئی اجالا کے پاس پہنچی ہوتی کہ: ”آج ساس امی نے یہ کہہ دیا، آج وہ کہہ دیا۔ دانش کے ذریعے میرے ابو کو پیغام دلوایا ہے کہ ہمارے داماد کو ہر موقع پر خاص پروٹوکول ملنا چاہیے۔ بچارے ابو، اپنے نئے داماد کی فکر کریں یا پہلے سے شادی شدہ بیٹی کی ساس کے داماد یعنی اس کے نندوئی کی۔ نہ جانے کس طرح سب کچھ ہوگا، ابو تو بہت فکرمند ہیں۔“
اور واقعی اجالا نے ہر فنکشن میں مہرین کے ابو کو تنویر بھائی کی آؤ بھگت کرتے ہلکان دیکھا۔ کبھی مہرین کے سسرال والوں کے آگے پیچھے پھرتے، کبھی نئے سمدھیانے والوں کی طرف دوڑتے۔ اجالا انہیں دیکھ دیکھ کر یہی سوچتی رہتی کہ،
”جانے میرے بھائیوں کی شادی کے وقت اِن خود غرض لوگوں کو راضی رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے۔“ اس وقت جانتی نہ تھی کہ ان کو راضی رکھنے کے لیے اپنا بھائی ہی ان کا داماد بنانا پڑے گا۔
ان سب کی نماز، روزے، عبادتیں، سعادتیں، تہوار، غرض تمام مواقع انہی دنیاوی جھمیلوں، جھوٹے دکھاووں، غرور و تکبر، خود نمائی و خودپسندی سے لبریز تھے۔ اور ان سے منسلک مجبور و کمزور رشتوں کے ڈرے سہمے رویے ان ظالموں کو اپنی ناانصافیوں اور ظلم میں نڈر کرنے کے لیے کافی تھے۔ لیکن ایسے لوگ عموماً یہ بھول جاتے ہیں کہ عزت و ذلت دینا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جب چاہے کسی کو تخت پر بٹھا دے اور جب چاہے بے دردی سے زمیں پر پٹخ دے۔
(حوالہ: سورۃ آلِ عمران: آیت 26)
وہ ابھی اس حقیقت سے لاعلم تھے لیکن ایک نہ ایک دن ان لوگوں کو خود ہی چل کر تذلیل کے اس مقام تک پہنچنا تھا۔ ٭٭٭
اجالا ہمہ وقت اس خوف میں مبتلا رہتی کہ کہیں میرا گھر نہ ٹوٹ جائے اور اسی خوف کی وجہ سے وہ ہمیشہ چپ رہتی۔ بے شک گھر ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش مقدم ہونی چاہیے کیونکہ اللہ کے نزدیک بھی صلح ہی خوب ہے۔ (حوالہ: سورۃ النساء: آیت 128)
لیکن اگر کسی کی شخصیت و کردار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوں اور پھر وہی شخص ان کترنوں کو جوڑ جوڑ کر اپنا گھر بچانے کی کوشش کر رہا ہو تو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ گھر ہرگز بھی مضبوط نہیں ہوتا بلکہ تیز ہوا کا صرف ایک جھونکا اس گھر کی عمارت کو توڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسی صورتحال میں شریعت علیحدگی یا طلاق کی اجازت دیتی ہے اور اللہ خود ایسے بندوں کو غنی کرنے اور ان کے لیے کشائش پیدا کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ (حوالہ: سورۃ النساء: )
لیکن دین سے دور اور فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھے معاشرے میں اتنا شعور ناپید ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی اس انداز سے نہیں سوچتا اور اگر کوئی سوچے بھی تو لوگ اس کا ساتھ دینے والے نہیں بنتے سو وہ لوگوں اور معاشرے کے ڈر سے اپنی سوچوں کو عملی جامہ نہیں پہناتا۔
چونکہ اجالا کسی بھی طرح کی علیحدگی یا طلاق نہیں چاہتی تھی اس لیے سالوں قربانیاں دیتی رہی۔ مگر بعض لوگ ایثار، محبتیں اور چاہتیں نچھاور کرنے کے قابل ہوتے ہی نہیں اس لیے سب کچھ کرنے کے بعد صرف احساسِ ضیاع باقی رہ جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ کوئی بھی رشتہ فریقین کی قربانی و ایثار مانگتا ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ایک ہاتھ سے تو انسان اپنا منہ پیٹتا رہ جاتا ہے۔ اور اجالا اپنی لاعلمی میں کم و بیش یہی کر رہی تھی۔ وہ جب کبھی گھر میں ابو کو کچھ بتاتی تو ابو یہی کہتے کہ صبر کرو، ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔ امی سے کبھی کچھ کہہ تو دیتی لیکن بہت زیادہ تفصیل سے نہیں کیونکہ وہ اجالا کی پریشانی سوچ سوچ کر بیمار ہوجاتی تھیں۔ البتہ اپنی ممانی 'جنہیں مامی کہا کرتی تھی' سے بہت دوستی تھی۔ امی کے علاوہ ان سے تفصیل سے باتیں کر لیا کرتی تھی۔ وہ ممانی ہونے کے علاوہ رشتے میں کزن بھی تھیں اور ماریہ کی بڑی بہن بھی تھی۔
عشنہ اور ماریہ سے بھی اب بہت کم بات ہوا کرتی تھی اور جب ہوتی بھی تو وہی حال احوال، موسم اور ان دونوں کے بچوں کی باتیں ہوتیں۔ البتہ ان کے ساتھ گزارا پرانا وقت سوچ کر طبیعت ہلکی پھلکی ہو جایا کرتی تھی لیکن افسوس بھی ہوتا کہ اپنی اتنی عزیز سہیلیوں کو اپنے دکھ نہیں بتائے۔ آخر اور کرتی بھی کیا، اپنے گھر بار اور سسرال کی عزت رکھنے کی خاطر چپ رہی۔ چونکہ شروع سے ہی گھر میں میکے سے کسی کا آنا جانا پسند نہیں تھا تو دونوں نے خود ہی اپنے آپ کو پابند کر دیا اور اجالا کے گھر نہیں گئیں تاکہ اسے مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بس کبھی اجالا کی امی، بھائی، یا ماموں آ جایا کرتے وہ بھی خاص خاص موقعوں پر اور عموماً ملاقات کا ایسا ہی اختتام ہوتا۔
چند سال پہلے ماموں کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا تھا۔ اس لیے اب ملاقات تو نہ ہوتی بس فون پر ہی مامی سے بات کیا کرتی تھی۔ وہ بھی بالکل روٹین کی یعنی ان سے بھی دل کی باتیں کرنا چھوڑ دیا تھا۔
اتفاق تھا کہ کچھ ماہ پہلے ماریہ کے شوہر بھی نوکری کے سلسلے میں اسی شہر گئے اور اب وہ لوگ بھی وہیں مقیم تھے۔ تو ماریہ سے کبھی کبھار ہونے والی ملاقات بھی اب نہ ہو پاتی تھی۔
البتہ آگے بڑی لمبی ملاقاتیں قسمت میں لکھی تھیں اور حالات کی وجہ سے دور ہوئے لوگوں سے اُس کا دوبارہ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ جڑنے والا تھا۔
(جاری ہے ۔۔۔)