حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کتنا کام کرتی تھیں! اور اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ, ایک ذمے دار انسان بنواپنے فرائض کو پورا کرو اور وقت کو ضایع نہ کرو۔ آپ ﷺ کی زندگی کو دیکھ لو، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی زندگیوں کو دیکھ لو، سب کے سب ذمے دار انسان تھے، کبھی بھی اپنے وقت کو ضایع نہیں کرتے تھے
(چوتھی قسط )
عائشہ شیخ
لاریب : یار دیکھو یہ دنیا ہے، یہاں پہ لوگوں کے قدم سے قدم ملا کے چلنا ہی صحیح رہتا ہے۔ اس طرح پردہ کا آجکل رواج کہاں ہے؟
حدیقہ : ہم اس کو شریعت کا حکم سمجھ کے کر رہے ہیں نا کہ رواج! اور دنیا کے غلط قدم سے قدم ملانا ضروری نہیں ہوتا، بس شریعت کے نقش قدم پہ چلنا ضروری ہوتا ہے۔
ہبا : یہ ہر کوئی آخر اس طرح پردہ کے بارے میں کیوں کہتا پھرتا ہے ہمیں؟ ایک تو خود کرتے ہیں نہیں، اوپر سے سوال پہ سوال!
حدیقہ : ہبا خیر ہے اس کو بات کرنے دو۔ ہاں لاریب کہو،نکالو بھڑاس اپنی لاریب : یار ویسے برا مت منانا یہ دقیانوسی خیالات ہیں۔ ہبا : اور تمہارے فرعونی!
حدیقہ : ہبا ڈیئر پلیز چپ کر جاؤ اس کو بات کرنے دو، کہو لاریب! لاریب : یار اس طرح عبایا اور پردہ میں انسان کی کوئی عزت نہیں ہوتی، وہ presentable نہیں رہ سکتا اور personality اس کی ڈاؤن ہو جاتی ہے۔ حدیقہ : ہم پہلے جوس لے لیں؟ ہبا تو پہلے ہی کہہ رہی تھی لیکن اس وقت ہم اوپر prayer room میں تھے تو سوچا تھا کہ جاتے ہوئے لے لیں گے،اب لے لیں ہبا ؟ اور لاریب تم نے وہ prayer room دیکھا ہے؟ بہت اچھا ہے وہ ہبا : ہاں ،لے لیتے ہیں جوس۔
لاریب : مجھے ایک عرصہ گذر چکا ہے میں نے کوئی نماز نہیں پڑھی، تو یہاں کا prayer room دیکھنا تو دور کی بات ہے۔
حدیقہ : ہمممم(جیسے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن دبا گئی!) اچھا تم کون سا جوس پیو گی ؟ لاریب : جو بھی اپنے لیے لو بس وہی۔
حدیقہ : ٹھیک ہے۔ اب جاؤں لینے؟ نکلوں کٹہرے سے باہر اجازت ہے؟ لاریب : ہاہاہاہا ۔۔۔ ہاں ضرور۔ اجازت ہے۔
حدیقہ : بڑی کرم نوازیاں جی آپ کی
حدیقہ نے تین جوس لیے،ایک جوس اس نے بغیر اوپر کے cover کے لیا۔ ایک جوس اس نے ہبا کو دیا اور ایک خود رکھا اور جو بغیر cover کے تھا وہ اس نے لاریب کو دیا
لاریب : یار تم دونوں نے اپنا cover کے ساتھ لیا ہے اور میرا cover کے بغیر! کیوں؟ حدیقہ : cover کے ساتھ یہ presentable نہیں لگتا۔ لاریب : ارے چھوڑو presentation کو،اگر دھول مٹی گئی ہو تو؟ ایسی presentation کا کیا فائدہ جس سے صحت خراب ہوتی ہو؟
حدیقہ : پھر ایسی presentation کا کیا فائدہ جس سے ایمان خراب ہوتا ہو؟ لاریب مزید کچھ نہ بول سکی، اس کے بعد سے وہ خاموش تھی ،ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو حدیقہ : تم جوس تبدیل کرنا چاہو تو کر لو۔
لاریب : نہیں نہیں بس صحیح ہے۔
ہبا : امی نے دس منٹ کا کہا تھا، آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے آ ہی نہیں رہیں کب سے برتن ہی لیے جا رہی ہیں اتنے سارے برتن کیا کریں گی ؟
حدیقہ : تمہارے سر پہ ماریں گی
ہبا : تم تو چپ ہی رہو!
اس کے بعد ہبا کی امی اور حدیقہ کی امی آ گئیں، وہ واپس جا رہی تھیں، حدیقہ نے لاریب سے پوچھا، تم کس کے ساتھ آئی ہو؟ ابھی ہم جا رہے ہیں گھر،تمہیں بھی ڈراپ کرتے ہوئے جائیں گے آ جاؤ۔ لاریب : نہیں نہیں بہت شکریہ میں خود ہی manage کر لوں گی۔ حدیقہ کی امی اور ہبا کی امی : بیٹا ہمارے ساتھ ہی چل لو، راستے میں ہی آئے گا تمہارا گھر، کوئی مشکل نہیں ہوگی، آجاؤ۔
لاریب : ok thank you everyone. جاتے ہوئے انہوں نے لاریب کو اس کے گھر پہ ڈراپ کر دیا۔ ٭٭٭
حدیقہ : وہ دیکھو ہبا!
ہبا : تم بات نہیں کرو مجھ سے، چپ رہو۔(غصے میں)
حدیقہ : آرام سے بھئی ڈرا دیا تم نے۔ کیا ہو گیا ہے؟
ہبا : مکمل خاموشی
لیکن غصہ صاف ظاہر تھا۔
حدیقہ : بتاؤ،کیا ہوا ؟
ہبا : تم لاریب کی بلاوجہ سائیڈ کیوں لے رہی تھی؟ اور مجھے چپ کروا دیا!
حدیقہ : تو اور کیا کرتی ؟
ہبا : مطلب وہ اعتراضات کرتی چلی جائے اور ہمیں بھی ساتھ میں بے عزت کرے اور ہم اس کا منہ دیکھتے رہیں! حدیقہ : نہیں! جس طرح کی صورتحال ہوگی اسی طرح کیا جاۓ گا۔
ہبا : مطلب ہمارا بے عزت ہونا ضروری ہے؟
حدیقہ : نہیں! ہر شخص اپنا ظرف اور عقل دکھا جاتا ہے۔ عزت دینے والا تو وہ رب ہے✨ تم دل پہ کیوں لے رہی ہو! ہبا : وہ اتنے rude انداز میں سب کچھ کہہ رہی تھی اور تم اس کو کچھ کہہ بھی نہیں رہی تھی کیوں؟ حدیقہ : کیوں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ اس کا ذہن الجھا ہوا ہے۔
ہبا : لیکن وہ اعتراض کر رہی تھی!
حدیقہ : ہاں لیکن اس کی بنیاد اس کی ذہنی الجھن تھی، اگر بنیاد نفرت ہوتی تو جواب کا انداز کچھ اور ہوتا۔ ہبا : تم اگر مجھے چپ نہ کرواتی تو میں اس کو ٹھیک ٹھاک سناتی۔
حدیقہ : گذری ہوئی بات کو اچھے الفاظ میں ہی یاد کرو۔
ہبا : مطلب ہمیں کوئی ایک سناۓ، ہم اسے کہیں کوئی بات نہیں اور بھی سناؤ، ایسے کریں؟ حدیقہ : نہیں ایسا نہیں ہے، جیسا سوال ہوگا ویسا ہی جواب ہوگا۔ البتہ درگذر کرنا سب سے بہتر ہے، لیکن کچھ صورتوں میں صرف دوٹوک جواب ہی دیا جاۓ گا۔
ہبا : بہرحال تمہیں لاریب پہ غصہ کیوں نہیں آیا؟
حدیقہ : ابھی میں تمہیں نہیں سمجھا سکتی، ان شاء اللہ بہت جلد تم خود کسی کو دین کی دعوت دے رہی ہوگی ،اللہ ضرور تمہیں یہ نصیب کرے گا،پھر میں تم سے پوچھوں گی کہ غصہ کیوں نہیں آتا؟ کیوں آخر سن لینے کے بعد بھی خاموش رہا جاتا ہے!
اب گھر آ گیا ہے, چلو اترو۔
ہبا : ہاں ہاں اترتی ہوں ،کہہ تو ایسے رہی ہو جیسے جہاز سے اترنا ہو
حدیقہ : تم ہیلی کاپٹر سے اترو لیکن اترو تو شکر ہے تم ہنسی تو، آئندہ اس طرح کی بدگمانیاں نہیں کیا کرو، یہی بدگمانیاں آگے جا کہ نفرتوں میں بدل جاتی ہیں ،ٹھیک ہیں 🤝
ہبا : مرتے کیا نہ کرتے ٹھیک ہے ٹھیک ہےاور کل ان شاء اللہ میں تمہارے گھر آؤں گی۔ حدیقہ : ٹھیک ہےمیں انتظار کروں گی۔
٭٭٭
ہبا حدیقہ کے گھر
السلام علیکم🤝
حدیقہ : وعلیکم السلام آگئیں
حدیقہ : اور بتاؤ کیا حال ہیں؟ اچھا یہ دیکھو میں نے تمہارے لیے کچھ کتابیں نکال کہ رکھی ہیں، یہ تم جاتے ہوئے لے جانا۔ ٹھیک ہے۔
ہبا: کون سی کتابیں؟ کس چیز کی ہیں ؟
حدیقہ: ہاں یہ قصص الانبیآء ہے اور یہ حیاة صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین۔
ہبا اچھا ان سے کیا ہوگا؟ یہ کیوں دے رہی ہو؟
حدیقہ : تمہارے بہت سارے concepts ان کو پڑھ لینے کے بعد clear ہو جائیں گے، ان شاء اللہ۔ ان کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ،اسلام محض ایک theoretical دین نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک practical دین ہے۔ ہاں عمل کرنے سے پہلے صحیح علم کا ہونا بہت ضروری ہے، ورنہ غلط چیزوں کو صحیح سمجھ کہ کیا جا رہا ہوتا ہے، اللہ حفاظت فرمائیں آمین اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دینِ اسلام کا مزاج سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ ہمارا دین کتنا خوبصورت ہےالحمد اللہ شریعت کے جو احکام ہیں وہ کتنے پرفیکٹ ہیں، ان کے اندر ہمارے لیے کتنی بھلائیاں رکھی گئی ہیں، سبحان اللہ ✨ ٭٭٭٭
ہبا: ہاں یہ تو ہے اور بتاؤ؟
حدیقہ : بیٹھو تو آرام سے اور کھاؤ گی کیا؟
ہبا: کچھ نہیں،تم بیٹھو۔
حدیقہ : ٹھیک ہے میں آتی ہوں دو منٹ میں۔
حدیقہ آئی کمرے میں،اس کے ہاتھ میں کچھ کپڑے تھے
ہبا : یہ کیا لائی ہو؟
حدیقہ : ہاں یہ کچھ کپڑے ہیں پریس کروں گی۔
ہبا : لیکن ہمیں تو ابھی باتیں کرنی ہیں۔ بہہہہہہت ساری!
حدیقہ : ہاں تو میں پریس بھی کرتی جاؤں گی اور ساتھ میں ہم باتیں بھی کریں گے
ہبا : تو کوئی اور پریس نہیں کرتا گھر میں؟ میرا مطلب ہے آنٹی؟
حدیقہ : امی کون کون سا کام کریں؟ تھک جاتی ہیں۔ ماسی بھی آتی ہے لیکن پھر بھی چھوٹے چھوٹے کام تو پورے دن میں بہت سارے ہوتے ہیں نا.
ہبا : ہممممم۔ حدیقہ : by the way تم اپنی امی کو کوئی کام کیوں نہیں کرواتیں؟ آنٹی پورا دن لگی رہتی ہیں، کچھ help کروا لیا کرو ان کی ،کیا خیال ہے؟
ہبا : امی کو ضرورت ہی نہیں ہوتی اور وہ تھکتی بھی نہیں۔
حدیقہ : کیوں وہ روبوٹ ہیں؟
ہبا: ارے نہیں مطلب یہ ہے کہ میں جاتی بھی ہوں کروانے تو نہیں کرنے دیتی۔ حدیقہ : تو تم کرواتی ہی ایسا ہوگی، یا ہو سکتا ہے وہ تمہارا خیال کر رہی ہوں، بہرحال پھر بھی تمہیں کچھ نا کچھ ہیلپ کروانی چاہیے۔
ہبا : اس دن پتہ ہے، مجھے انڈا بنانا تھا، میں بنا کہ آ گئی پھر امی کو کچن پورا سیٹ کرنے میں آدھا گھنٹہ لگا تھا حدیقہ : انڈا بنایا تھا،کیا کیا تھا
ہبا : یار مجھ سے نہیں ہوتا کام۔ cooking خیر سے مجھے آتی نہیں ہے، اور صفائی تو میں کرتی نہیں اور برتن دھونا تو سب سے مشکل کام ہے۔ اس لیے کوئی بھی کام نہیں کرتی
حدیقہ : واہ بھئی واہ, کیا بات ہے آپ کی۔ بے وقوف انسان اس میں ایسی کون سی rocket science ہے جو تم سے نہیں ہوتے! لیکن بہرحال تمہیں کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کتنا کام کرتی تھیں! اور اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ, ایک ذمے دار انسان بنواپنے فرائض کو پورا کرو اور وقت کو ضایع نہ کرو۔ آپ ﷺ کی زندگی کو دیکھ لو، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی زندگیوں کو دیکھ لو، سب کے سب ذمیدار انسان تھے، کبھی بھی اپنے وقت کو ضایع نہیں کرتے تھے، بس ہمیں بھی کچھ سبق لینا چاہیے اور ویسے بھی گھر کے کام کرنے سے انسان چست رہتا ہے، ورنہ ہر وقت سستی چھائی رہتی ہے۔ گھر کے ہر ایک فرد کے اوپر کچھ نہ کچھ ذمے دار یاں ضرور ہوتی ہیں اور ہونی بھی چاہیے تو بس ان کو پورا کر لینے میں ہی بہتری ہوتی ہے۔ ہبا : ہمممم۔ ارے یہ دیکھو email آئی ہے!
حدیقہ : کس کی؟
اتنے میں حدیقہ کی امی نے اس کو آواز دی کچن سے،
حدیقہ : میں آتی ہوں ایک منٹ ہبا۔
کچن میں جاکے جی امی؟
حدیقہ کی امی : یہ چیزیں لے جاؤ کھانے کے لیے۔
حدیقہ : جزاک اللہ امی ہبا : یہ کیا لائی ہو؟ حدیقہ : دیکھ لو خود ہی۔ ہاں کیا بتا رہی تھی تم email کا؟ ہبا : وہ جو ہم نے speech competition کا فارم فل کروایا تھا نا, وہاں سے کنفرمیشن ای میل آئی ہے۔ حدیقہ : اچھا کب ہے؟ ایک منٹ میں اپنی بھی چیک کر لوں ۔۔۔۔ ہاں میرے پاس بھی آئی ہے ای میل۔ اب ہمیں تیاری کرنا ہوگی نا!
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔